• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ اعراف کی آیت ۱۰۷ کے متعلق سوال

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
اسحاق سلفی صاحب السلام و علیکم!

بہت شکریہ کہ آپ نے "واو تفسیری" کو واضع کیا۔ جس طرح "واو تفسیری" دو اسموں کے درمیان تفسیر کرتا ہے۔ کیا یہ تفسیر دو جملوں کے درمیان بھی پائ جاتی ہے؟ اگر میں اپنے سوال کو اور واضع کروں تو کیا "واو تفسیری دو جملوں کے درمیان بھی پائ جاتی ہے"؟ اگر ہاں تو کیا قرآن میں اس کی کوئ مثال پائ جاتی ہے؟

شکریہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم نعیم بھائی!
گو کہ واؤ کے استعمال متعدد ہیں لیکن آپ "السلام علیکم" لکھنے میں واؤ کا استعمال "ناجائز" کر رہے ہیں!.. ابتسامہ!
توجہ کیجیئے!
جزاکم اللہ خیرا
 

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام علیکم!

محترم نعیم یونس بھائ!

میری تصحیح کا شکریہ۔ آئندہ احتیاط کروں گا۔

شکریہ
 

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
ہاہاہا۔ بہت شکریہ محمد طارق بھائ ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کی بات بلکل درست ہے کہ "کوئ" کے مطلب میں ایک یا دو سے زیادہ "کوئ کے برخلاف نہیں" لیکن عربی بہت فصیح اور بلیغ زبان ہے اس ہی لئے اللہ نے اپنے آخری پیغام کے لئے اس کو چنا۔ اوپر کی آیت میں "نشانی" کا لفظ نکرہ آیا ہے اور نکرہ کوئ کے ساتھ ساتھ "ایک" کا بھی مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے ۔ اس لئے اگر بات صرف "کوئ" کو ہو تو پھر تو آپ کی بات میں وزن ہے ورنہ اگر بات "کوئ ایک" کی ہو تو پھر اس سے مراد صرف ایک ہی نشانی ہوگی ۔
مزید کہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود اسے دوسری نشانی کہا ہے:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (17) قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (18) قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى (19) فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (22) ﴿ سورة طه﴾
اور اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے (17) کہا یہ میری لاٹھی ہے ا س پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں (18) فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو (19) پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا (20) فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر ہم ابھی اسےپہلی حالت پر پھیر دیں گے (21) اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہ
دوسری نشانی
ہے (22) ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری﴾
اس آیت سے یہ تو متعین ہو جاتا ہے، کہ نشانیاں دو ہیں!
اب فرعون کے ایک کے مطالبہ پر ایک سے زائد نشانیاں اللہ نے دکھلائی ہیں!
یہ ایک کے مطالبہ کے حوالہ سے کہا تھا، کہ فرعون کا ایک کا مطالبہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ دو نشانیاں دلیل نہ ہوں گی، صرف ایک ہی دلیل ہو سکتی ہے!
اسی کے پیش نظر کہا تھا کہ ''یہاں ایک ہی سہی'' کا مفہوم ہے!
مسئلہ یہان لغت سے زیادہ بلاغت کا ہے!
کوئی ایک دلیل کا مطالبہ کرنا یہاں اس بات کا تقاضا کرتا ہے، کہ سائل یہ سمجھتا ہے کہ مدعی کے پاس کوئی دلیل نہیں! اور مدعی اس کے اس سوال پر دو یا دو سے زائد دلیل دے، تو وہ ''کوئی ایک دلیل'' کے مخالف نہیں، بلکہ زائد ہے! اس میں کوئی ایک دلیل کا مطالبہ پورا ہو جاتا ہے!
 

نعیم

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2019
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
ید بیضا کا ایک مطلب لغت میں واضع اور روشن دلیل بھی ہے ۔ اصل میں یہ ایک ہی دلیل تھی۔لیکن اس کے دو پہلو تھے۔ ایک عملی اور ایک علمی۔ اس ہی لئے اللہ نے اس کو دو نشانی قرار دیا۔ ایک تو فرعون کے سامنے لاٹھی کا سانپ کی طرح حرکت کرنا یہ ظاہری دلیل تھی کیونکہ قرآن کی رو سے لاٹھی حقیقت میں سانپ میں تبدیل نہیں ہوئ تھی بلکہ حضرت موسی عیلہ سلام کا فرعون کے سامنے یہ ظاہر کرنا کہ یہ علم صرف فرعون کے ساحروں ہی کو معلوم نہیں بلکہ یہ ساحر کس طرح عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اس کا علم حضرت موسی علیہ سلام کو بھی ہے اور یہ علم دینے والا کائنات کا خالق ہے۔ اس ہی لئے فرعون نے بھی ایک ہی دلیل مانگی اور حضرت موسی علیہ سلام نے بھی ایک ہی دلیل پیش کی۔

اس کو ایسے سمجھیں کہ اگر آج کوئ سائنس کی مدد سے ایسے کرتب دیکھا کہ خدائ کا دعوی کرے کہ کسی کو بھی اس کا علم نہ ہو جیسا کہ ایسے معاشروں میں جہاں لوگوں کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے اور عوام کو بہت جلد بےوقوف بنا کر ان کو یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ان کے پاس خدائ طاقت ہے اور وہ خود خدا ہیں۔ بلکل ایسا ہی دعوی فرعون نے کیا تھا۔ اس نے ایسے ساحر (جنہیں اجکل کے دور میں سائنس دان کہتے ہیں ) اپنے پاس رکھے ہوئے تھے جو لوگوں کو یہ یقین دلاتےتھے کہ یہ سب کچھ فرعون کی دی ہوئ غیبی طاقتوں کا نتیجہ ہے کہ ایک بے جان لاٹھی میں جان ڈال دیتے ہیں ۔ اس ہی فریب کو حضرت موسی نے دور کیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ "نظر" کا لفظ عربی میں اصلا غور و تامل کے ساتھ دیکھنے کے لئے آتا ہے۔ اس لئے جب درباریوں نے غور کیا تو انہیں احساس ہوگیا کہ اسے بھی یہ علم معلوم ہے جو ان کے ساحروں کو تھا اور اب ان کی دکان نہیں چل سکتی اور یہ سارا کا سارا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ اس لئے آخری تدبیر کے طور پر یہی فیصلہ کیا کہ بھرے میدان میں حضرت موسی علیہ سلام کو شکست دے کر سب پر یہ دھاک بیٹھا دی جائے کہ فرعون کی خدائ طاقت سب پر حاوی ہے۔

ذرا سوچیں کہ چاہے کتنا ہی توحید کی دعوت دے لیں لیکن جب تک عوام کے سامنے یہ بات کھل کر نہیں آئے گی کہ یہ حقیقت میں کچھ نہیں صرف ایک دھوکہ ہے تب تک عوام پیغمبر کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کے سامنے ایک بے جان چیز میں جان ڈلتی ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھائ دیتی تھی۔ اس لئے میرے نزدیک یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ اللہ نے یہ علم حضرت موسی کو عطا کیا اور انہوں نے ان ہی کی تدبیر سے ان کو زیر کیا۔
 
Top