• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ الفاتحہ سے پہلے دعائے استفتاح

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے رفیق طاہر صاحب۔ آپ نے میرے دماغ میں گھومنے والے ایک سوال کو حل کر دیا ہے۔ ان شاء اللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
عمران اسلم بھائی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ جواب نہ سمجھ سکے۔ میں جواب کی پھر وضاحت کر دیتا ہوں کہ امام کے پیچھے دعائے استفتاح پڑھنا جائز نہیں ہے اور اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت مبارکہ ہے:
واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔
امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے تو سورہ فاتحہ بھی پڑھنے کے قائل نہیں ہیں تو دعائے استفتاح کے قائل کیسے ہو سکتے ہیں؟
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ اور فقہائے محدثین نے اس آیت مبارکہ سے صرف سورہ فاتحہ کا استثناء کیا ہےیعنی ان علماء کے نزدیک اس آیت مبارکہ کے عموم کا مخصص لا صلاۃ ‘والی روایت ہے۔ دعائے استفتاح کوا نہوں نےبھی استثناء میں ذکر نہیں کیا ہے۔پس امام کی تلاوت کے دوران دعائے استفتاح پڑھنا قرآن کی درج بالا آیت مبارکہ اور ائمہ کے اقوال کی روشنی میں درست نہیں ہے۔
اگر کسی بھائی کے علم میں دعائے استفتاح کی اس آیت مبارکہ سے تخصیص کی کوئی دلیل ہےتو ضرور پیش کی جائے یا کسی صاحب علم کا فتوی ہو تو بھی پیش کیا جائے تا کہ سب لوگوں کےعلم میں آ جائے۔
یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اہل حدیث علماء کا سری اور جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے اور نہ پڑھنے کے بارے اختلاف ہے جسے ہمارے ہاں عمومابیان نہیں کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم اس کی کیا حکمت ہے۔ میرے خیال میں ہرمسلک میں کچھ مسائل نمایاں ہو جاتے اور اس کے بعد جب ہم ان میں تشدد اختیار کرتے ہیں تو اپنوں کے اختلاف کا تذکرہ کرنے میں بھی ہمیں عام محسوس ہوتا ہے جو علمی نقطہ نظر سے بالکل بھی درست نہیں ہے۔ سور ہ فاتحہ کے جہری نمازوں میں نہ پڑھنے کے حق میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی میں مفصل کلام کیا ہے۔جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے :
وَسُئِلَ :
عَنْ " الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ " ؟ .
فَأَجَابَ :
الْحَمْدُ لِلَّهِ ، لِلْعُلَمَاءِ فِيهِ نِزَاعٌ وَاضْطِرَابٌ مَعَ عُمُومِ الْحَاجَةِ إلَيْهِ . وَأُصُولُ الْأَقْوَالِ ثَلَاثَةٌ : طَرَفَانِ وَوَسَطٌ . فَأَحَدُ الطَّرَفَيْنِ أَنَّهُ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ بِحَالِ . وَالثَّانِي : أَنَّهُ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ بِكُلِّ حَالٍ . وَالثَّالِثُ : وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ السَّلَفِ ؛ أَنَّهُ إذَا سَمِعَ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ أَنْصَتَ وَلَمْ يَقْرَأْ فَإِنَّ اسْتِمَاعَهُ لِقِرَاءَةِ الْإِمَامِ خَيْرٌ مِنْ قِرَاءَتِهِ وَإِذَا لَمْ يَسْمَعْ قِرَاءَتَهُ قَرَأَ لِنَفْسِهِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ خَيْرٌ مِنْ سُكُوتِهِ فَالِاسْتِمَاعُ لِقِرَاءَةِ الْإِمَامِ أَفْضَلُ مِنْ الْقِرَاءَةِ وَالْقِرَاءَةُ أَفْضَلُ مِنْ السُّكُوتِ هَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ كَمَالِكِ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَجُمْهُورِ أَصْحَابِهِمَا وَطَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَهُوَ الْقَوْلُ الْقَدِيمُ لِلشَّافِعِيِّ وَقَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ .(مجموع الفتوی : جلد 23، ص 265)
اب اگر امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اجمعین کے بارے ہم یہ کہیں کہ یہ اہل الحدیث نہیں ہیں تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ بدقسمتی سے جب بھی اہل حدیث کا نام لیا جاتا ہے تو اس وقت برصغیر کے اہل حدیث ہمارے ذہن میں گھوم جاتے ہیں جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اصل اہل الحدیث یہ علماء ہیں جنہوں نے اہل الرائے کے بالمقابل ایک مستقل مکتبہ فکرکی بنیاد رکھی ہے۔ہمیں اپنی فقہی آراء بیان کرتے ہوئے اہل علم کااختلاف ضرورنقل کرنا چاہیئے اس سے مسئلہ کے بیان میں توازن پیدا ہوتا ہے ۔ سلف صالحین امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی منہج ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں اپنی رائے بیان کرنے سے پہلے علماء کاختلاف اور ان کے دلائل ضرور نقل کرتے ہیں۔یہاں اپنی رائے منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ باور کرانامقصود ہے کہ ایک اہل الحدیث ہونے کے ناطے کیا یہ ہماری بنیادی ذمہ داری نہیں ہے کہ کسی مسئلہ میں کبار علمائے اہل الحدیث کے باہمی اختلافات اور ان کے منہج استدلال سے واقف ہوں؟ایک اہل حدیث کی زبان سے یہ بات نہایت ہی عجیب لگتی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مسئلہ اہل الحدیث میں مختلف فیہ ہے یا نہیں؟
باقی آپ جس رائے کو بہتر سمجھتے ہیں، اس پر عمل کریں اور اس کے داعی بھی بنیں لیکن جہاں آپ دوسروں کو ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ، وہاں اپنے موقف پر نظر ثانی کے لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتوی بھی پڑھ لیں۔اس کے بعد جس رائے پر آپ کا دل مطئمن ہو ، اس پر عمل بھی کریں اور اس کے داعی بھی بنیں لیکن تشدد اختیار نہ کریں۔واللہ اعلم بالصواب
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
محترم ابوالحسن صاحب !
رحمک اللہ ۔۔۔۔
عزیزم دعائے استفتاح پڑھنا تو منع ہی نہیں ہے !!!! ،
ممنوع ہے تو صرف قراءت کرنا اور قراءت کرنا تلاوت قرآن پر بولا جاتا ہے ، اسی لیے جن احادیث مبارکہ میں قراءت کی ممانعت ہے ان میں سورۃ الفاتحہ کو مستثنى قرار دیا گیا ہے ۔
رہی بات آیت
واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔
کی تو وہ کفار کی سازش
لا تسمعوا لہذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون
کے جواب میں ہے ۔
اور بوقت تلاوت قرآن ، تلاوت قرآن کرنا ، اذکار کرنا ، اور مفید بات چیت کرنا ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے ۔ اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
بہتر ہے کہ آپ اس بارہ میں کچھ مزید تحریر فرمانے سے قبل یہ آڈیو ضرور سماعت فرما لیں
دين خالص || فاتحہ خلف الإمام
دين خالص || سورۃ الفاتحہ 1
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
رہی بات آیت
واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔
کی تو وہ کفار کی سازش
لا تسمعوا لہذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون
کے جواب میں ہے ۔
معروف اصولی قاعدہ ہے: العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب لہٰذا میری رائے میں اس آیت کریمہ کو صرف مشرکین مکہ کے ساتھ خاص کرنا مناسب نہیں۔
عزیزم دعائے استفتاح پڑھنا تو منع ہی نہیں ہے !!!! ،
ممنوع ہے تو صرف قراءت کرنا اور قراءت کرنا تلاوت قرآن پر بولا جاتا ہے ، اسی لیے جن احادیث مبارکہ میں قراءت کی ممانعت ہے ان میں سورۃ الفاتحہ کو مستثنى قرار دیا گیا ہے ۔
فاستمعوا له وأنصتوا سے صرف قراءت ممنوع ہونے کی کیا دلیل ہے؟ اس طرح تو گویا آپ کے نزدیک امام صاحب قراءت کر رہے ہوں تو دعائے استفتاح، سورۃ الفاتحہ ودیگر سورتیں بھی پڑھنی چاہئیں۔ امام صاحب تراویح میں پہلا پارہ پڑھ رہے ہوں، ساتھ ساتھ مقتدی حضرات بھی پہلے پارے کی تلاوت کر رہے ہوں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
۱۔معروف اصولی قاعدہ ہے: العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب لہٰذا میری رائے میں اس آیت کریمہ کو صرف مشرکین مکہ کے ساتھ خاص کرنا مناسب نہیں۔

۲۔ فاستمعوا له وأنصتوا سے صرف قراءت ممنوع ہونے کی کیا دلیل ہے؟ اس طرح تو گویا آپ کے نزدیک امام صاحب قراءت کر رہے ہوں تو دعائے استفتاح، سورۃ الفاتحہ ودیگر سورتیں بھی پڑھنی چاہئیں۔ امام صاحب تراویح میں پہلا پارہ پڑھ رہے ہوں، ساتھ ساتھ مقتدی حضرات بھی پہلے پارے کی تلاوت کر رہے ہوں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟؟؟
۱۔ اس عمومی قاعدہ سے ہم نے انکارنہیں کیا ہے ۔ہاں البتہ اتنا ضرور کہا ہے کہ
یہاں پر یہ لفظ تو عام ہیں لیکن عموم پر باقی نہیں ہیں اسکی بہت سی دلیلیں ہیں ۔ جی ہاں وہ تمام تر دلائل اسکے عموم کو خاص کردیتے ہیں جن کی بناء پر آپ قراء حضرات ایک ہی کمرے میں بیٹھ سارے بآواز بلند تلاوت فرماتے ہیں ۔ کوئی قاری صاحب قرآن کا کوئی مقام پڑھتے ہیں تو کوئی کہیں اور سے ۔ اگر یہ آیت اپنے اسی عموم پر ہو تو ایک قاری کی تلاوت قرآن کے دوران باقی سب کو خاموش رہنا چاہیے خواہ وہ تجوید وقراءت کی کلاس ہو یا حفظ وناظرہ کی !!!!!!
شاید آپ کہیں کہ چلو تلاوت قرآن کے ہو تے ہوئے تلاوت قرآن کی جاسکتی ہے مگر اسکے سوا اور کوئی کلام نہیں
لیکن بات پھر بھی نہیں بنے گی
کیونکہ جس دلیل سے آپ تلاوت کرنے والے طالبعلم کی تلاوت کے دوران اسے ٹوکتے ہیں اور اسکے غلطی کی اصلاح کرتے ہیں اور اسے تنبیہ وغیرہ کرتے ہیں اور جس دلیل سے باقی طلباء کی قراءت و تلاوت کے دوران ایک کو سبق سمجھاتے اور سکھاتے ہیں وہی دلیل تلاوت قرآن کے وقت قرآن کے سوا کلام کرنے کی بھی ہے۔
یہ دلائل کیا ہیں یہی بات بتانے کے لیے میں نے گزارش کی تھی کہ آپ مندرجہ بالا لنکز میں موجود دروس سنیں ۔
جب یہ دو بڑی بڑی باتیں آپ قراء کی جماعت بھی قرآن کی اس آیت کے عموم سے مستثنى کرتے ہیں تو اور باقی بچتا ہی کیا ہے سوائے بلا وجہ شور و غل کے !!!!!!
۲۔ دیگر سورتوں والا لفظ آپکے فہم نہاں کا اضافہ ہے یا قلم کا سہو ، واللہ اعلم ! کیونکہ میں نے بھی عرض کیا کہ تلاوت کرنا ممنوع ہے اور اسی بات کو آپ بھی اسی جملہ کے آغاز میں لکھ چکے ۔۔۔۔۔ پھر نہ جانے کیا ہوا یہ آپکو شاید علم ہو لیکن میرا اور آپکا رب بخوبی جانتا ہے کہ کیا ہوا ۔ مجھے تو یہی ظن ہے کہ سہو ہوا ۔ واللہ تعالى أعلم ورد العلم إلیہ أسلم وعلم أکمل و أتم ۔
رہی بات دعائے استفتاح پڑھنے کی تو میں اسکے بارہ میں تو بار بار عرض کررہا ہوں کہ جی ہاں دعائے استفتاح پڑھی جاسکتی ہے اسکی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں جسطرح کہ جب امام قراءت کررہا ہو تو آنے والا نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر تحریمہ کہہ سکتا ہے ، مسجد کے وضوء خانے پر بیٹھ کر وضوء کرنے والا بسم اللہ پڑھ سکتا ہے اور وضوء کے بعد کی دعاء بھی ، مسجد کے قریب موجود بیت الخلاء میں جانے والے داخل ہونے اور نکلنے کی دعاء پڑھ سکتاہے ، مسجد میں داخل ہونے والا مسجد میں داخل ہونیکی دعاء پڑھ سکتا ہے اور مسجد میں امام کی قراءت کے دوران وہ سلام بھی کہہ سکتا ہے بالکل انہی دلائل کی رو سے مقتدی امام کی قراءت کے دوران دعائے استفتاح بھی پڑھ سکتاہے اور اسے ضرور پڑھنی چاہیے ۔
ایک مرتبہ پھر میری حقیر سی خواہش اور ادنی سی گزارش ہے کہ اس موضوع پر کچھ مزید تحریر کرنے سے قبل آپ یہ دونوں دروس ضرور سماعت فرمالیں ۔ ان سے آپ کو دلائل کا علم بھی ہو جائے گا اور مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ان شاء اللہ تعالى
لنک دوبارہ پیش خدمت ہیں :
دين خالص || فاتحہ خلف الإمام
دين خالص || سورۃ الفاتحہ 1
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
رفیق بھائی!
1۔ آپ نے کہا تھا کہ
رہی بات آیت
واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔
کی تو وہ کفار کی سازش
لا تسمعوا لہٰذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون
کے جواب میں ہے۔
جس کا سادہ سا مفہوم یہ تھا کہ آپ کے نزدیک یہ آیتِ کریمہ صرف مشرکین کے ساتھ خاص ہے، میں نے قاعدہ لکھ کر وضاحت کر دی کہ اس آیت کو مشرکین کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں، آپ نے میری تائید کی لیکن ساتھ ہی آپ نے یہ سمجھا کہ شائد میرے نزدیک یہ آیت کریمہ اب عام ہے، حالانکہ میں نے تو یہ دعویٰ کیا ہی نہیں کہ اب یہ آیت کریمہ عام ہے، اس کی تخصیص نہیں ہو سکتی؟
۲۔ رہی دیگر سورتوں والی بات تو عزیز بھائی! آپ صحیح کہہ رہے ہیں، واقعی ہی یہ مجھ سے سہو ہوا ہے۔ اللہ معاف کرے۔
البتہ آپ براہ مہربانی اپنے دروس میں سے قراءت منع ہونے کی سب سے قوی دلیل مہیا کر دیں۔ جزاکم اللہ خیرا
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
رفیق بھائی!
1۔ آپ نے کہا تھا کہ
جس کا سادہ سا مفہوم یہ تھا کہ آپ کے نزدیک یہ آیتِ کریمہ صرف مشرکین کے ساتھ خاص ہے، میں نے قاعدہ لکھ کر وضاحت کر دی کہ اس آیت کو مشرکین کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں، آپ نے میری تائید کی لیکن ساتھ ہی آپ نے یہ سمجھا کہ شائد میرے نزدیک یہ آیت کریمہ اب عام ہے، حالانکہ میں نے تو یہ دعویٰ کیا ہی نہیں کہ اب یہ آیت کریمہ عام ہے، اس کی تخصیص نہیں ہو سکتی؟
۲۔ رہی دیگر سورتوں والی بات تو عزیز بھائی! آپ صحیح کہہ رہے ہیں، واقعی ہی یہ مجھ سے سہو ہوا ہے۔ اللہ معاف کرے۔
البتہ آپ براہ مہربانی اپنے دروس میں سے قراءت منع ہونے کی سب سے قوی دلیل مہیا کر دیں۔ جزاکم اللہ خیرا
۱۔ میرے اقوال کا سادہ مفہوم یہ نہیں !!
میرے اقوال کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ آیت ان مشرکوں کے جواب میں تھی جو والغوا فیہ کہتے تھے اور اب بھی اپنے عموم کی بناء پر تلاوت قرآن کے دوران لغویات سے ممانعت پر دلالت کرتی ہے ، البتہ اس دوران تلاوت کی جاسکتی ہے ، اذکار وتسبیحات کیے جاسکتے ہیں ، اور بامقصد گفتگو بھی کی جاسکتی ہے ۔
چونکہ یہاں بات نماز کے دوران کی ہے اس لیے قاری کی تلاوت کے دوران نمازی دعائے استفتاح پڑھ سکتا ہے ۔ آیات رحمت پر دعاء ، اورآیات عذاب پر پناہ مانگ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ الخ ۔
۲۔ اللہ ہم سب کے سہو معاف فرمائے َربَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ َلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
۳۔ دوران نماز جب امام جہرا قراءت کر رہا ہو تو سورۃ الفاتحہ کے علاوہ قراءت کرنیکی ممانعت پر بہت سی احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں مثلا :
امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ مِنْ صَلَاتِهِ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ "، قَالَ: قُلْنَا: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا "
اس سند کے تمام تر رواۃ ثقات ہیں اور سند متصل ہےمگر محمد بن اسحاق صاحب مغازی صدوق اور مدلس ہیں مگر انہوں نے حدثنا سے تصریح بالسماع کر رکھی ہے ۔ لہذا یہ سند حسن ہے ۔
اور حدیث میں مذکور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لا تفعلوا بمعنى لاتقرؤوا ہیں کیونکہ سیاق متن میں تقرءون کے الفاظ ہیں ۔ اور امید ہے کہ یہ واضح سی بات آپ بآسانی سمجھ سکیں گے ۔
 
Top