- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
رفیق طاھر بھائی، اب تک لاتفعلو سے آپ کے کئے گئے استدلال پر درج ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں:
کیونکہ ہم تو آپ ہی کے درج ذیل قول کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ:
ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’لاتقرووا‘ کی جگہ ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ استعمال کرنا اس لیےتھا کہ کوئی شخص اس ممانعت کو قراءت کے ساتھ خاص نہ سمجھ لے۔
پس ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ کے استعمال میں ممانعت عام ہے اور اس کی تاویل ’لا تقرووا‘ سے کرنا درست نہیں ہے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لاتفعلوا“ کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال اس لیے کیے کہ قراء ت اور غیر قراءت دونوں کو شامل ہو سکیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ’لاتقرووا‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں یہ وہم باقی رہ سکتا تھا کہ اس سے مراد معہود قراء ت ہے اور اس کو ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ سے ختم کیاگیاہے۔واللہ اعلم بالصواب
’تفعلوا‘ سے اگر ’تقرؤوا‘ مراد لے بھی لی جائے تو قراء ت کا لفظ عربی زبان میں قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے آتا ہے۔اور یہ بات عربی زبان کے ادنی سے طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے۔ قرا علیک السلام اور قرا الکتاب معروف استعمالات ہیں۔
درج بالا اعتراضات کے جوابات کے طور پر آپ نے صرف ایک ہی بات دہرائی ہے:پھر احادیث میں فاتحہ کے علاوہ قرات کی ممانعت کے ساتھ یہ صراحت موجود ہے کہ کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لہٰذا یہ تو پڑھ لیا کرو۔ لیکن اس کے علاوہ قرات نہ کرو۔ اس سے کیا خودبخود ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ ہے کہ سوائے اس قرات (قرآن یا خارج از قرآن) کے کچھ نہ پڑھا جائے کہ جس کے نہ پڑھنے سے نماز ہی نہ ہوتی ہو۔؟ جبکہ آپ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دعائے استفتاح کے نہ پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے۔۔؟
اور حدیث میں مذکور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لا تفعلوا بمعنى لاتقرؤوا ہیں کیونکہ سیاق متن میں تقرءون کے الفاظ ہیں ۔
ازراہ کرم بالا اعتراضات کے بھی شافی جوابات عنایت فرما دیں ورنہ یہ تسلیم کرنے میں کہ آپ کا مؤقف غلط تھا، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی کوئی عار نہیں ہوگی کیونکہ تکبر علمی سے یقیناً آپ بھی پناہ طلب کرتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ میرے آپ کے سمیت ہر شخص کو ہر قسم کے تکبر سے بچائے کہ رائی برابر تکبر بھی جہنم تک لے جانے کو کافی ہے۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین۔جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا سوال ہی قراءت کے متعلق ہے تو لا تفعلوا سے صرف اور صرف قراءت ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ سیاق کلام اسی بات پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
کیونکہ ہم تو آپ ہی کے درج ذیل قول کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ:
جب مسئلہ کو آپ اختلافی مان رہے ہیں تو یقینا حق توکسی ایک فریق کے پاس ہو گا دو نوں کے پاس نہیں ۔ ہم اس حق کی تلاش میں ہیں ۔ فافہم !