• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ الفاتحہ سے پہلے دعائے استفتاح

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
رفیق طاھر بھائی، اب تک لاتفعلو سے آپ کے کئے گئے استدلال پر درج ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں:

ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’لاتقرووا‘ کی جگہ ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ استعمال کرنا اس لیےتھا کہ کوئی شخص اس ممانعت کو قراءت کے ساتھ خاص نہ سمجھ لے۔
پس ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ کے استعمال میں ممانعت عام ہے اور اس کی تاویل ’لا تقرووا‘ سے کرنا درست نہیں ہے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لاتفعلوا“ کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال اس لیے کیے کہ قراء ت اور غیر قراءت دونوں کو شامل ہو سکیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ’لاتقرووا‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں یہ وہم باقی رہ سکتا تھا کہ اس سے مراد معہود قراء ت ہے اور اس کو ’لاتفعلوا‘ کے الفاظ سے ختم کیاگیاہے۔واللہ اعلم بالصواب
’تفعلوا‘ سے اگر ’تقرؤوا‘ مراد لے بھی لی جائے تو قراء ت کا لفظ عربی زبان میں قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے آتا ہے۔اور یہ بات عربی زبان کے ادنی سے طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے۔ قرا علیک السلام اور قرا الکتاب معروف استعمالات ہیں۔
پھر احادیث میں فاتحہ کے علاوہ قرات کی ممانعت کے ساتھ یہ صراحت موجود ہے کہ کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لہٰذا یہ تو پڑھ لیا کرو۔ لیکن اس کے علاوہ قرات نہ کرو۔ اس سے کیا خودبخود ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ ہے کہ سوائے اس قرات (قرآن یا خارج از قرآن) کے کچھ نہ پڑھا جائے کہ جس کے نہ پڑھنے سے نماز ہی نہ ہوتی ہو۔؟ جبکہ آپ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دعائے استفتاح کے نہ پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے۔۔؟
درج بالا اعتراضات کے جوابات کے طور پر آپ نے صرف ایک ہی بات دہرائی ہے:
اور حدیث میں مذکور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لا تفعلوا بمعنى لاتقرؤوا ہیں کیونکہ سیاق متن میں تقرءون کے الفاظ ہیں ۔
جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا سوال ہی قراءت کے متعلق ہے تو لا تفعلوا سے صرف اور صرف قراءت ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ سیاق کلام اسی بات پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
ازراہ کرم بالا اعتراضات کے بھی شافی جوابات عنایت فرما دیں ورنہ یہ تسلیم کرنے میں کہ آپ کا مؤقف غلط تھا، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی کوئی عار نہیں ہوگی کیونکہ تکبر علمی سے یقیناً آپ بھی پناہ طلب کرتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ میرے آپ کے سمیت ہر شخص کو ہر قسم کے تکبر سے بچائے کہ رائی برابر تکبر بھی جہنم تک لے جانے کو کافی ہے۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
کیونکہ ہم تو آپ ہی کے درج ذیل قول کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ:
جب مسئلہ کو آپ اختلافی مان رہے ہیں تو یقینا حق توکسی ایک فریق کے پاس ہو گا دو نوں کے پاس نہیں ۔ ہم اس حق کی تلاش میں ہیں ۔ فافہم !
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
۱،۲۔ یہ دونوں اعتراض بالکل بے بنیاد ہیں ۔
کیونکہ
معترض یہاں احتمال پیش فرما رہے ہیں ، جبکہ احتمال کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ اور جو معنى موصوف لینا چاہتے ہیں اس پر انکے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے صرف اپنے ذہن کی ایک اختراع ہے بس !۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ۔۔۔۔۔!!!!
۳۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قراءت سے مراد قرآن کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا ہے لیکن سیاق کلام اس بات کی نفی کرتا ہے ۔ کلام کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ اسکے سیاق وسباق کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ وگرنہ فلاسفہ کی طرز پر اس طرح کے احتمالات کلام کا ستیاناس کر دیتے ہیں ۔ لہذا اگر یہاں پر بھی کلام کے سیاق وسباق کو ملحوظ رکھا جائے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قراءت سے مراد قراءت قرآن ہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے قراءت کے بارہ میں ہی سوال فرمایا تھا۔
پھر اسی طرح مقتدی کا نماز کے آغاز کے لیے تکبیر تحریمہ کہنا ، قراءت سے قبل تعوذ پڑھنا وغیرہ بھی اسی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں ۔
۴۔ نماز کس چیز کے بغیر ہوتی ہے اور کس کے بغیر نہیں ، اس میں تو کوئی بحث ہی نہیں چل رہی ہے لہذا یہ اعتراض بے محل ہے ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
میری یہ پوسٹ تاحال جوابات کی منتظر ہے !!!!!

واہ کیا بات ہے اسے کہتے ہیں مناظرانہ رنگ
ازراہ کرم ذراہ وہ عموم بھی بتائیے جس سے میں دعائے استفتاح کو خاص کررہاہوں ؟؟؟؟
میں بارہا کہہ چکا کہ میں نے دعائے استفتاح کو کبھی خاص نہیں کیا ہے میں نے تو صرف اور صرف لا تفعلوا کے عموم سے قراءت فاتحہ کو خاص کیا ہے ۔!!!! اور اسکی دلیل بھی دی ہے ۔
کیونکہ میں صرف دعائے استفاح ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ پڑھنے اور کہنے کا قائل ہوں کہ جسکی وضاحت میں کر چکا ۔
گویا آپکے پاس دلائل ختم ہو چکے اور آپ کوئی ایسی دلیل نہیں پیش کرسکے جس سے فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی اور پڑھنے کی ممانعت نکلتی ہو ۔!!!
رہی بات آیت فاستمعوا لہ وانصتوا کی تو اسکے بارہ میں تو آنجناب بھی تسلیم فرما چکے ہیں کہ یہ اپنے عموم پر نہیں بلکہ اس سے بہت کچھ مستثنى ہے اور خاص ہے ۔
لہذا اگر آپکے پاس کوئی " دلیل " موجود ہے فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی اور نہ پڑھنے کی تو پیش فرمائیں ۔ کیونکہ آپ نے اگر لا تفعلوا کو لا تقرؤوا کے معنی میں تسلیم نہیں کیا مگر اسے محتمل تو کہہ ہی دیا ہے تو آپکے نظریہ کے مطابق احتمال ہے لہذا اس سے آپکا استدلال باطل ہے ۔
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
رفیق طاھر بھائی، اب تک لاتفعلو سے آپ کے کئے گئے استدلال پر درج ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں:
درج بالا اعتراضات کے جوابات کے طور پر آپ نے صرف ایک ہی بات دہرائی ہے:
ازراہ کرم بالا اعتراضات کے بھی شافی جوابات عنایت فرما دیں ورنہ یہ تسلیم کرنے میں کہ آپ کا مؤقف غلط تھا، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی کوئی عار نہیں ہوگی کیونکہ تکبر علمی سے یقیناً آپ بھی پناہ طلب کرتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ میرے آپ کے سمیت ہر شخص کو ہر قسم کے تکبر سے بچائے کہ رائی برابر تکبر بھی جہنم تک لے جانے کو کافی ہے۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
کیونکہ ہم تو آپ ہی کے درج ذیل قول کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
معذرت ـ محترم شاکر بھائی ۔ تکبر والا جملہ زائد تھا ۔ یہ لکھ کر دوسرے معنی میں آپ یہ بتانا چاہے رہے کہ رفیق بھائی تکبر کر رہے ہیں ۔علمی بحث و مباحثے کے دوران اس طرح کے جملوں سے پرہیز کرنا چاہے ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
معذرت محترم شاکر بھائی ۔ تکبر والا جملہ زائد تھا۔ یہ لکھ کر دوسرے معنی میں آپ یہ بتانا چاہے رہے کہ رفیق بھائی تکبر کر رہے ہیں ۔علمی بحث و مباحثے کے دوران اس طرح کے جملوں سے پرہیز کرنا چاہے ۔
جزاکم اللہ خیرا
محترم بھائی عکاشہ
ابھی تو میرے بہت سے سوالوں کا جواب اسی تھریڈ میں باقی ہے
اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو تحریر ہونے کے لیے بے کل وبے چین ہیں۔
مثلا
اگر مقتدی امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا اور قراءت سے مراد ہمہ قسم کلام ہے تو
امام اگر قرآن بھول جائے تو اسے لقمہ دینا جائز ہے ؟؟؟
اگر ہے تو اسکی دلیل ؟؟
اور اس دلیل سے کیا علاوہ از فاتحہ قراءت کا جواز نہیں ملتا ؟؟؟
وغیرہ وغیرہ
ع
بکھرے پڑے ہیں سینکڑوں عنواں میرے لیے​
اور تکبر تو کہتے ہیں بطر الحق اور غمط الناس کو۔۔۔۔۔
حق سے کون جی چرا رہا ہے اور حقارت آمیز جملوں کی بھر مار کن کی جانب سے ہے
ع
دل والے خود ہی لکھ لیں گے کہانی اس افسانے کی​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
تکبر والا جملہ زائد تھا ۔ یہ لکھ کر دوسرے معنی میں آپ یہ بتانا چاہے رہے کہ رفیق بھائی تکبر کر رہے ہیں ۔علمی بحث و مباحثے کے دوران اس طرح کے جملوں سے پرہیز کرنا چاہے ۔
محترم بھائی، میں مشکور ہوں کہ آپ نے میری ایک سنگین غلطی کی نشاندہی کی۔ اگرچہ یہ الفاظ لکھتے وقت میرے ذہن کے دور دراز گوشے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ رفیق بھائی تکبر کر رہے ہیں۔ میں تو اپنے اور ان کے لئے تکبر سے بچنے کی دعا کر رہا تھا کہ یہ حق کی قبولیت میں مانع نہ ہو۔ فضیلۃ الشیخ کا جو مقام میرے دل میں ہے اس کی بنیاد پر تو میں ایسی نیت سے ایسے الفاظ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جو معنی آپ نے کشید کئے۔لیکن پھر بھی میں رفیق طاھر بھائی سے معذرت خواہ ہوں اور امید ہے کہ وہ بھی فراخ دلی سے اس کوتاہی کو درگزر فرما دیں گے۔
حق سے کون جی چرا رہا ہے اور حقارت آمیز جملوں کی بھر مار کن کی جانب سے ہے
محترم بھائی، حقارت آمیز جملے کسی عامی کیلئے کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے آپ جیسے اہل علم کے لئے ایسی بات کہنے کا تو تصور تک نہیں کر سکتا۔ پھر بھی میرے جن الفاظ کی بنیاد پر آپ کو تکلیف پہنچی ہو اس کے لئے دوبارہ سے معذرت خواہ ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال : اگر نماز میں اس وقت شامل ہوں جب امام سورۃ الفاتحہ پڑھ چکا ہو تو کیا آدمی سورۃ فاتحہ سے پہلے جو اللہ کی حمد والی دعا ہے وہ بھی لازمی پڑھے یا صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی پہلی رکعت میں۔ (محمد ارسلان)
شیخ بن باز رحمہ اللہ کے نزدیک مقتدی اگر امام کے پیچھے ہو اور امام جہرا قراء ت کر رہا ہو تو مقتدی کے لیے کسی قسم کی بھی دعا جائز نہیں ہے اور اگر سری نماز ہو تو مقتدی وہ دعا کر سکتا ہے جو فرائض میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔
السؤال : أنا أقرأ القرآن والحمد لله ، وعندما أصل إلى صفات المؤمنين أدعو الله أن يجعلني منهم ، وعندما أصل إلى صفات الكفار والمنافقين ومصيرهم أستعيذ بالله أن يجعلني منهم . فهل بعد الدعاء تلزمني البسملة من جديد ، أم اتباع القراءة دون ذلك ؟ وهل قطع القراءة للدعاء جائز ؟
الجواب :
الحمد لله
"هذا يجوز ، فعله النبي صلى الله عليه وسلم ، فكان في تهجده بالليل عليه الصلاة والسلام إذا مر بآية وعيد تعوذ ، وإذا مر بآية رحمة سأل ربه الرحمة ، فلا بأس بهذا ، بل هذا مستحب في التهجد بالليل ، أو في صلاة النهار ، أو في القراءة خارج الصلاة ، كل هذا مستحب وليس عليك أن تعيد البسملة ولا التعوذ ، بل تأتي بهذا الدعاء ثم تشرع في القراءة من دون حاجة إلى إعادة التعوذ ولا إعادة البسملة ، وهذا كله إذا كنت تصلي وحدك في النافلة .
أما إذا كنت في الفريضة فلم يثبت عنه صلى الله عليه وسلم أنه كان يفعل هذا في الفريضة ، وهكذا إذا كنت مع الإمام فإنك تنصت لإمامك ولا تدعُ بهذه الأدعية والإمام يقرأ بل تنصت وتستمع في الجهرية ، أما في السرية فتقرأ الفاتحة وما تيسر معها من دون الأدعية التي يدعى بها في النافلة ؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يكن يفعل هذا في الفريضة ، ولعل السبب في ذلك والله أعلم التخفيف على الناس وعدم التطويل عليهم ؛ لأنه لو دعا عند كل آية فيها رحمة وتعوذ عند كل آية فيها وعيد ربما طالت الصلاة ، وربما شق على الناس ، فكان من رحمة الله ومن إحسانه إلى عباده ومن لطفه بهم أنه لم يشرع ذلك في الفريضة حتى تكون القراءة متوالية ، وحتى لا تطول القراءة على الناس ، أما في النافلة أو في التهجد أو في الليل أو في صلاة الضحى أو في غير ذلك من النوافل فلا بأس فالأمر فيها واسع" انتهى .
الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله
"فتاوى نور على الدرب" (1/334)
 
Top