• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈیا پر کسی بھائی نے یہ سوال پوچھا ہیں ؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
وكالت كا پيشہ اختيار كرنا :

ميرى آپ سے گزارش ہے كہ ميں آپ كے سامنے ايك بڑا معاملہ پيش كر رہا ہوں اس كے متعلق فتوى جارى كريں، ميرے سوال جيسے سوال كا جواب تو ہے ليكن ميں مزيد كئى امور كى وضاحت چاہتا ہوں، اس ليے آپ اس بنا پر جواب دينا ترك نہ كريں.

ميں كئى برس قبل حقوق كالج سے فارغ ہوا ہوں اور اب ايك وكيل كى حيثيت سے كام كر رہا ہوں، كالج ميں داخلہ ليتے وقت ميں دينى معاملات ميں كوئى بصيرت نہيں ركھتا تھا، پھر كالج سے فارغ ہونے كے بعد مجھے اللہ كے دين كے علاوہ كوئى اور قانون نافذ كرنے كے گناہ كا علم ہوا تو ميں نے ديكھا كہ ميرے ملك ميں تو اكثر قوانين اللہ كى شريعت كے مخالف ہيں، اور اس كى حدود سے تجاوز كرتے ہيں.

ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اس حالت ميں ميرا وكيل كے پيشہ كو اختيار كيے ركھنا جائز ہے كيونكہ اس ميں اللہ كى شريعت كے علاوہ كسى اور كے سامنے مقدمہ پيش كيا جاتا ہے ؟

اور كيا وكالت كا پيشہ اختيار كرنے سے شريعت كے مخالف اور ظالم قوانين كا گناہ مجھے بھى ہو گا ؟

ليكن ميں آپ سے اپنے معاملہ ميں فتوى لينے سے قبل آپ كے سامنے كچھ امور ـ چاہے وہ صحيح ہوں يا غلط ـ پيش كرنا چاہتا ہوں، تا كہ آپ كو معلوم ہو سكے ميں ميرے اندر كي سوچ كيا ہے تا كہ آپ ـ اللہ كے حكم سے ـ ميرى صحيح راہنمائى كر سكيں، ميں شريعت كے مخالف قانون سے كبھى راضى نہيں، چاہے اس كے پيچھے كتنى بھى امتيازى حيثيت حاصل ہو، اور وكالت كا پيشہ اختيار كرتے وقت ميں حسب استطاعت اللہ تعالى كى شريعت كے مخالف قوانين سے دور رہتا ہوں، اور اگر مجھے كوئى ايسا مقدمہ ملے جس ميں مجھے شريعت كے مخالف كوئى قانون استعمال كرنا پڑے تو ميں اسے قبول ہى نہيں كرتا چاہے مجھے اس كا معاوضہ كتنا بھى زيادہ مل رہا ہو.

اگر ميں يہ ظالمانہ قوانين حق كے حصول كے ليے استعمال كروں نہ كہ باطل كے حصول كے ليے تو كيا ميں نے غير شرعى قوانين كے مطابق فيصلہ كروا رہا ہوں ؟

مثلا اگر ميں نے ٹيكس اور جرمانوں اور سزا كے متعلق خاص قوانين كا سہارا ليا ـ جو كہ غالبا حدود اللہ كے احكام كے مخالف ہيں ـ تا كہ ميں كسى كا سلب كردہ مال واپس دلوا سكوں، يا جس پر يہ قوانين لاگو كر كے اس كا مال سلب كرنے كا ارادہ ہو تو كيا پھر بھى گناہ ہو گا ؟

ميں نے جو امور آپ كے سامنے بيان كيے ہيں جو ميرے دل ميں جوش مار رہے ہيں ان كے بعد بھى وكالت كا پيشہ اختيار كرنا اور شريعت كے مخالف امور سے دور رہنا بھى اللہ تعالى كى شريعت كے علاوہ كسى اور كے سامنے اپنے مقدمات پيش كرنا كہلائےگا، صرف حقوق كے حصول كے ليے ہى وضعى قوانين كا سہارا لينا بھى صحيح نہيں ؟

اور كيا قانونى كتب پڑھنا اور اس پر مال خرچ كرنا وقت اور مال كا ضياع شمار ہوتا ہے ؟

اور كيا صرف يہ پڑھائى ـ اگر فرض كريں كہ ميں اس پيشہ كو نہ اپناؤں ـ اپنے ملك ميں نافذ كردہ قوانين اور نظام كو معلوم كرنے كے ليے ہو ـ چاہے وہ شريعت كے مخالف ہو يا موافق تو كيا پھر بھى حرام ہو گى ؟

كيا اس سب كچھ كے بعد ميں وكالت كا پيشہ بغير كسى افوس كے ترك كردوں، اور اپنى اكثر كتابيں جلا دوں، يا كہ اسے ايك جانبى چيز سمجھ كر لوں ـ اور اساسى اور بنيادى روزى كسى اور طريقہ سے كماؤں ـ اور اس سے شريعت كے غير مخالف قوانين ميں اپنى اور دوسرے لوگوں كى ضروريات پورى كروں، اور اپنے حقوق حاصل كريں، اپنے اوپر لاگو قوانين كو معلوم كريں تا كہ ہميں كوئى تكليف نہ ہو، يا پھر شرعى طور پر معتبر مصالح ميں سے كوئى حقوق ہم سے نہ چھن سكيں ؟


Published Date: 2007-08-27

الحمد للہ:

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى تكليف اور مصيبت ختم كرے اور آپ كو غم سے نجات دلائے اور آپ كو زيادہ اجر دے، آپ وكالت كا پيشہ اختيار كرنے كے متعلق جو كچھ پوچھ رہے ہيں اس كا بيان سوال نمبر ( 9496 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.

وكالت كا پيشہ فى ذاتہ حرام نہيں؛ كيونكہ اس پيشہ ميں اللہ تعالى كى نازل كردہ كے علاوہ كى تنفيذ نہيں، بلكہ يہ تو مقدمہ ميں وكالت اور نيابت ہے، جو كہ جائز وكالت ميں شامل ہوتى ہے، ليكن وكيل كو چاہيے كہ وہ مقدمہ لڑنے سے قبل اس معاملہ كو اچھى طرح ديكھ لے كہ آيا وہ صحيح بھى ہے يا نہيں، اور اگر وہ دعوى سچا ہو اور اس كا حق مسلوب ہوا ہو اور اس پر واقعتا ظلم ہوا ہو تو پھر آپ كے اس كى جانب سے مقدمہ لڑنا اور اسے اس كا حق دلانا، اور اس سے ظلم كا خاتمہ كرناجائز ہے، اور يہ نيكى و بھلائى ميں تعاون ميں شامل ہو گا.

ليكن اگر وہ مقدمہ اور معاملہ ايسا ہے جس ميں كسى دوسرے كا حق سلب كيا جارہا ہو اور ان پر زيادتى ہوتى ہو تو پھر آپ كے ليے وہ مقدمہ لڑنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس مقدمہ كى وكالت قبول كرنى جائز ہے؛ كيونكہ يہ ظلم و زيادتى اور گناہ و معصيت ميں تعاون شمار ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے گناہ و معصيت معاونت كرنے والے كو گناہ و سزا كى وعيد سناتے ہوئے فرمايا ہے:

﴿ اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے ﴾المآئدۃ ( 2 ).

آپ كے مزيد اطمنان كے ليے ہم اس مسئلہ ميں كچھ اہل علم كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:

1 - شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

وكالت كا پيشہ اختيار كرنے ميں شريعت اسلاميہ كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" وكالت كا پيشہ اختيار كرنے ميں مجھے تو كوئى حرج معلوم نہيں؛ كيونكہ يہ دعوى ميں وكالت اور اس كا جواب ہے، جبكہ وكيل حق كا متلاشى ہو، اور سب وكلاء كى طرح عمدا جھوٹ نہ بولے "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 505 ).

2 - شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

وكالت كے پيشہ كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، ميں عدالت ميں ان تجارتى مقدموں كى پيروى كرتا ہوں جن ميں سود كا شبہ ہوتا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" بلا شك كسى دوسرے كى جانب سے مقدمہ ميں نيابت كرنے ميں كوئى حرج والى بات نہيں، ليكن مقدمہ كى نوعيت كو ديكھا جائيگا:

1 - اگر تو وہ حق ہو اور نائب تو صرف اپنے پاس پائے جانے والے حقائق پيش كرے جس ميں كوئى جھوٹ اور جعل سازى اور حيلہ بازى نہ ہو، اور وہ صاحب مقدمہ كى نيابت كر رہا ہو تا كہ اس كے دعوى كے دلائل پيش كر سكے، يا ان كے ساتھ اس كا دفاع كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

2 - ليكن اگر وہ معاملہ اور مقدمہ باطل ہو، يا پھر نائب اور وكيل كسى باطل چيز كے ليے لڑ رہا ہو تو يہ جائز نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہيں:

﴿ اور آپ خيانت كرنے والوں كے حمايتى نہ بنيں ﴾النساء ( 105 ).

اور ہم سب يہ جانتے ہيں كہ اگر مقدمہ اور معاملہ حق ہو اور اس ميں كسى بھى قسم كا جھوٹ اور فراڈ استعمال نہ كيا گيا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب معاملہ والا كمزور ہو اور اپنا دفاع نہ كر سكتا ہو، يا اپنے حق كو ثابت كرنے كے ليے دعوى نہ كر سكتا ہو، تو كسى اور شخص كا نائب بننا جو اس سے طاقتور ہو شرعا جائز ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ تو اگر وہ جس پر حق ہے وہ بے وقوف ہو يا كمزور يا وہ لكھوانے كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اس كا ولى عدل و انصاف كے ساتھ لكھوائے ﴾.

تو كسى كمزور اور ضعيف شخص كا حق دلوانے كے ليے، يا پھر اس سے ظلم كو روكنے كے ليے اس كا نائب بننا ايك اچھى چيز ہے، ليكن اگر معاملہ اس كے خلاف ہو يعنى اس مقدمہ ميں كسى باطل كى معاونت ہوتى ہو، يا پھر ظلم كا دفاع كيا جائے، يا كھوٹى اور جعلى دلائل پيش كيے جائيں اور وكيل يا نائب جانتا ہو كہ يہ مقدمہ اصل ميں باطل ہے، اور كسى حرام كام مثلا سود وغيرہ ميں نيابت كرنى جائز نہيں.

اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى باطل ميں نائب يا وكيل بنے، اور نہ ہى سودى معاملات ميں وكالت كرنى چاہيے كيونكہ يہ سود كھانے ميں معاونت ہے، اور لعنت ميں شامل ہوتى ہے.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 3 / 288 ).

دوم:

اور يہ كہ آپ ايسے ملك ميں رہتے ہيں جہاں اللہ تعالى كى شريعت كے مطابق فيصلے نہيں ہوتے، اور بشرى قوانين كا نفاذ ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ وكالت كا پيشہ حرام ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وكالت كا پيشہ اس ليے اختيار كيا جائے كہ حق كا حصول كيا جائے، اور لوگوں سےظلم روكا جائے، كيونكہ مظلوم شخص اپنا حق حاصل كرنے كے ليے ان بشرى قوانين كے مطابق فيصلہ كروانے پر مجبور ہے، وگرنہ لوگ ايك دوسرے كو كھا جائيں، اور معاشرہ ميں بدنظمى پيدا ہو جائے.

ليكن اگر قانون نے اس كے حق ميں اس كے حق سے زيادہ فيصلہ ديا تو پھر اس كے ليے زيادہ لينا حرام ہے، بلكہ وہ صرف اپنا حق لے سكتا ہے، اور اپنا حق لينے اور ظلم روكنے كے ليے ان قوانين كا سہارا لينے ميں مظلوم كو كوئى گناہ نہيں، اور نہ ہى وكيل پر كوئى گناہ ہے جو مقدمہ ميں اس كى طرف سے نيابت كر رہا ہے تا كہ ان قوانين كے مطابق فيصلہ كيا جائے، بلكہ گناہ تو اس پر ہے جس نے اللہ كى شريعت كے بدلے ان قوانين كو لاگو كيا اور لوگوں پر اسے لازم كيا اور اس كے مطابق فيصلہ كروانے كا كہا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الطرق المكميۃ " كے صفحہ نمبر ( 185 ) ميں اس كى طرف اشارہ بھى كيا ہے.

اس ليے ہم آپ كو يہ پيشہ ترك كرنے كى نصيحت نہيں كرتے، بلكہ ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ كام جارى ركھيں، اور ہميشہ اپنا معيار بلند كرنے كے ليے كتابوں كا مطالعہ كريں، اور بڑے بڑے وكيلوں سے بھى تعليم حاصل كريں، كيونكہ لوگ ايك امانتدار اور مخلص وكيل كے محتاج ہيں جو ان كے مقدمات لڑے اور انہيں ظلم سے بچائے اور ان كے حقوق ان كو واپس دلائے.

ليكن آپ كا ہميشہ مقصد يہ ہو كہ مظلوم كى مدد و نصرت اور معاونت كرنى ہے، اور اسے اس كا حق دلانا ہے، آپ كو خوشى ہونى چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص كسى مظلوم شخص كے ساتھ چلا حتى كہ اس كا حق اسے مل جائے تو اللہ تعالى اس كے قدم پل صراط پر ثابت ركھے گا جس روز قدم ڈگمگا جائينگے "

اسے ابن ابى الدنيا نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ميں حسن قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/9496
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
14055540_10208575663367533_680896503_n (1).jpg


Fawad Khalil

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہُ


اللہ سبحان و تعالیٰ سے اُمید ہے آپ معززین خیر خیریت سے ہوں گے۔

اصل میں بہت دنوں سے میرے دل میں ایک سوال ہے، جس میں آپکی راہنمائی مطلوب ہے۔
میزان بینک (پاکستان) میں کار اجارہ کی ایک سہولت ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں میری راہنمائی کیجئے گا۔

جزاک اللہ خیر

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہُ

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
میزان بینک (پاکستان) میں کار اجارہ کی ایک سہولت ہے۔
اس کی مکمل تفصیل درج کی جائے اور تفصیل میں ان کی کاغذی کارروائی یا دعوی کو چھوڑ کر عملی طور پر کیا کچھ ہوتا ہے یہ تفصیل ضرور منظر عام پر آجائے ،پھر کہا جائے کہ یہ سہولت ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہُ

اللہ سبحان و تعالیٰ سے اُمید ہے آپ معززین خیر خیریت سے ہوں گے۔

اصل میں بہت دنوں سے میرے دل میں ایک سوال ہے، جس میں آپکی راہنمائی مطلوب ہے۔
میزان بینک (پاکستان) میں کار اجارہ کی ایک سہولت ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں میری راہنمائی کیجئے گا۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی : ۔ مجھے بینک کی اکثر سکیموں اور طریقہ کار و شرائط کا علم نہیں ، اس لئے آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا ۔
محترم بھائی شیخ @خضر حیات صاحب توجہ فرمائیں ؛
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میزان بینک (پاکستان) میں کار اجارہ کی ایک سہولت ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں میری راہنمائی کیجئے گا۔
اس کی مکمل تفصیل درج کی جائے اور تفصیل میں ان کی کاغذی کارروائی یا دعوی کو چھوڑ کر عملی طور پر کیا کچھ ہوتا ہے یہ تفصیل ضرور منظر عام پر آجائے ،پھر کہا جائے کہ یہ سہولت ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل ، تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی اس پر رہنمائی دی جاسکتی ہے ۔
فی الوقت ماہنامہ محدث میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے میزان بینک کی کار اجارہ اسکیم کے متعلق ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’ کار اجارہ سکیم میں میزان بینک کی جاری کردہ Provisional Rental Calculation Sheet (کرایہ کی عبوری تشخیص) میں درج ہے کہ پہلے ماہ کا کرایہ رجسٹریشن اور باربرداری کے اِخراجات کو بھی شامل ہے اور باقی مہینوں کے کرائے انشورنس (یا تکافل ) کی رقم کو بھی شامل ہیں ۔
مثلاً ایک گاڑی جس کی قیمت 3,44,000 روپے ہے۔ اس کے پہلے ماہ کا کرایہ 31,487 روپے ہے جو بشمول رجسٹریشن، کرایہ اورباربرداری اخراجات Inclusive of Registration, Rent and Freight charges ہے۔جب کہ اگلے ہر ماہ کا کرایہ 11,487 روپے ہے جو انشورنس کی رقم سمیت ہےInclusive of insurance ہے۔
اگرچہ یہ تشخیص نامہ عبوری (Provisional) ہے، لیکن بینک کی دستاویزات میں شامل ہے اور گاہک کو بھی دکھایا جاتا ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کار اِجارہ میں بینک خود اپنی طرف سے انشورنس کراتا ہے اور خود اپنی طرف سے پریمیم ادا کرتا ہے۔ چنانچہ گاہک کی طرف سے غیراسلامی انشورنش کے اخراجات ادا کرنا اس کوگناہگار کرتا ہے۔‘‘
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
Fawad Khalil

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہُ!

محترم یہ میزان بنک کے کار اجارہ کا لنک ہے۔ آپ جناب کو اگر دقت نہ ہو اور یہ پڑھ لے اور راہنمائی کرے، تو اللہ آپ کو اجر دیگا ان شا ء اللہ، میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آیا جو دعویٰ کیا ہے وہ ٹھیک ہے کہ نہیں، اگر دعویٰ ٹھیک ہے، پھر میں ان کے عملی طریقہ کار سے واقف ہو کر آپ کو مطلع کردوں گا

ان شا ء اللہ۔ وباللہ التوفیق

https://www.meezanbank.com/car-ijarah/
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے کل ہی میزان بینک کی سائٹ دیکھی تھی ، اس میں شروع میں ہی لکھا ہوا ہے :
?What is Meezan Car Ijarah
Car Ijarah is Meezan Bank’s car financing product and is Pakistan’s first Interest-free car financing. It is based on the Islamic financing mode of Ijarah (leasing). This product is ideal for individuals who want to get interest-free financing for acquiring a car.
Car Ijarah works through a car rental agreement, under which the Bank purchases the car and rents it out to the customer for a period of 1 to 5 years, agreed at the time of the contract. Upon completion of the Ijarah period, the vehicle will be sold at a token amount or gifted to the customer.
تھوڑی بہت انگریزی سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ کار لیزنگ پر دی جاتی ہے ، اسے اجارہ کہیں یا لیزنگ کہیں ، یہ درست محسوس نہیں ہوتا ، ذیل میں ایک سوال کا جواب ملاحظہ کیجیے :
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل اسلامی بنک کار اجارہ پر دیتے ھیں!! کیا ان سے لینا درست ھے؟ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لیزنگ:
مروجہ جدید مالی معاملات میں سے ایک لیزنگ بھی ہے ، لیز اصل عربی کے لفظ ’الاجارۃ‘ کا ترجمہ ہے جو شرعی اصطلاح ہے لیکن مروجہ لیزنگ شرعی اجارہ سے مختلف ہے۔ شرعی اجارہ کا مفہوم تو صرف اتنا ہے:

"بيع منفعة معلومة باجر معلوم"
’’طے شدہ اجرت کے بدلے طے شدہ منفعت فروخت کرنا۔‘‘(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 18/251)
اس کی دو قسمیں ہیں:

1۔معاوضے کے بدلے کسی شخص ( انجنیئر وغیرہ) کی خدمات حاصل کرناٰ۔

2۔اپنی ذاتی چیز جیسے گاڑی یا مکان کا حق استعمال کسی دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس کے عوض کرایہ وصول کرنا۔
جب لیزنگ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اقتصادی ماہرین کے نزدیک اس سے عموما اجارہ کی یہ آخری قسم ہی مراد ہوتی ہے۔
صحیح بخاری میں اجارہ کے عنوان کے تحت دونوں قسموں کا بیان ہے ، اجارہ کی اس قسم میں چوں کہ اصل مالک کی ملکیت ہی ہوتی ہے ، مستاجر کرایہ کے عوض صرف اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لیے ملکیتی اخراجات مستاجر کے ذمے ہوں گے۔ مثلاً مکان کرائے پر دیا گیا ہے تو اس کی پراپر ٹی ٹیکس مالک ادا کرے گا لیکن بجلی، گیس اور پانی کا بل مستاجر کے ذمہ ہو گا۔ اسی طرح اگر کرایہ پر دی گئی چیز کا ایسا نقصان ہو جائے جس میں مستاجر کی غلطی، غفلت یا کوتاہی کا عمل دخل نہ ہو تو وہ نقصان بھی مالک ہی برداشت کرے گا۔

لیزنگ کا جدید مفہوم:
اس کے برعکس انیسویں صدی عیسوی سے لیزنگ کی ایک نئی قسم متعارف ہوئی جس کو عربی میں ’ البیع الایجاری‘ ’’یعنی وہ اجارہ داری جس کی انتہا بیع پر ہوتی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بینک کسی کو کچھ سالوں کے لئے گاڑی خرید کر لیز پر دیتا ہے اس کا کرایہ اقساط میں وصول کیا جاتا ہے۔ بینک کرایہ طے کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اس عرصے میں گاڑی کی قیمت مع اتنے نفع کے جو اس عرصے میں بینک کو اس رقم پر سود کی شکل میں حاصل ہونا تھا، وصول ہو جاتے ہیں جب گاہک مکمل اقساط ادا کر دیتا ہے تو گاڑی اس کی ملکیت ہو جاتی ہے اس طرح ابتدا میں یہ اجارہ ہوتا ہے جو آخر میں بیع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس عرصے میں گاڑی کے ہر طرح کے نقصانات کی ذمہ داری گاہک کی ہوتی ہے بعض اہل علم کی رائے میں یہ ایک جدید صورت ہے۔ دین میں اس کے متعلق کوئی ممانعت نہیں ہے اس لیے جائز ہے۔ جب کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ ایک عقد میں دو عقد جمع ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ ہمارا خیال میں اس میں زیادہ قابل اعتراض پہلو سود کی آمیزش کا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ گاہک جب بینک کے پاس گاڑی لینے جاتا ہے تو وہ اس کی قیمت کا کچھ حصہ ڈاؤن پے منٹ (Down Payment) کے نام سے پہلے ادا کرتا ہے جو زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی ، لیکن ایک خاص شرح (گاڑی کی قیمت کا دس فیصد) سے کم نہیں ہوتا، اب بینک نے کرائے کے نام پر جو اضافی رقم صول کرنا ہوتی ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ڈاؤن پے منٹ کی رقم کتنی ہے؟ اگر وہ زیادہ ہے تو اضافی رقم زیادیہ وصول کی جائے گی۔ اس بارے میں ہم نے مسلم کمرشل بینک کے ایک ذمہ دار سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق اگر آپ بینک سے Baleno گاڑی لیتے ہیں اور ڈاؤن پے منٹ پانچ لاکھ ادا کرتے ہیں تو آپ کے پانچ سال کے لئے 9738 روپے ماہانہ قسط جمع کروانا ہو گی جو 584280 روپے بنتے ہیں۔ اس میں پانچ لاکھ ڈاؤن پے منٹ جمع کر لیں تو مکمل 1084260 روپے کی ماہانہ قسط جمع کروائیں گے جو 984480 روپے بنتے ہیں۔ دو لاکھ ڈاؤن پے منٹ کے نام سے پہلے ادا کیا جا چکا ہے اس طرح کل رقم 1184480 روپے ہو گی۔ پہلی صورت میں ایک لاکھ دو سو روپے کم اور دوسری صورت میں زیادہ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ سودی معاملہ ہے پہلی صورت میں بینک کو چونکہ کم پیسے دینے پڑے اس لیے اس کا سود کم اور دوسری صورت میں زیادہ رقم دینا پڑی اس لیے سود بھی زیادہ بنا۔ اگر یہ حقیقی اجارہ ہوتا تو یہ فرق اتنا نہ ہوتا!! کیونکہ اجار ہ میں کرائے کا تعلق حق استعمال سے ہوتا ہے جو دونوں صورتوں میں برابر ہے نہ کہ اس بات سے کہ اس میں بینک کے کتنے پیسے استعمال ہوتے ہیں نیز اگر یہ حقیقی اجارہ ہوتا تو بینک اس کے نقصان کا بھی ذمہ دار ہوتا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں یہ سودی معاملہ ہے جسے اجارہ کا نام دیا گیا ہے۔ حقیقی اجارہ سے اس کا کو ئی تعلق نہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بظاہر یہ بیع قسط کے مشابہ ہے اس لیے بعض حضرات اسے بیع قسط قرار دے کر اس کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درج ذیل وجوہ کے باعث یہ درست نہیں:
٭ سطور بالا میں ہم نے اس کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق اسے بیع قسط قرار دینے کی قطعاً گنجائش نہیں۔
٭ یہ در اصل دو عقد پر مشتمل ہے۔
1۔ عقد اجارہ 2۔ عقد بیع
جب کہ بیع قسط میں صرف ایک عقد ہوتا ہے بیع اور اجارہ الگ الگ اصطلاحات ہیں اور ہر ایک کے احکام بھی مختلف ہیں۔
٭ بیع قسط میں قیمت تو ادھار ہوتی ہے مگر ملکیت فوراً خریدار کے نام منتقل ہو جاتی ہے لیکن یہاں ملکیت تمام اقساط کی ادائیگی کےساتھ مشروط ہے یہ عقد بیع کے منافی ہے کیونکہ بیع اصل مقصد ہی یہی ہے کہ چیز کی مکمل طور پر فروخت کنندہ کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں آجائے۔

لیزنگ کا متبادل:
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے اجلاس جو 10 تا 15 دسمبر 1988 کو کویت میں منعقد ہوا اس میں مروجہ لیزنگ کے درج ذیل دو متبادل تجویز کیے تھے۔
مدت ختم ہونے کے بعد مستاجر کے پاس تین اختیار ہوں:

1۔گاڑی مالک کے حوالے کر کے عقد اجارہ ختم کر دے۔

2۔نئے سرے سے عقد اجارہ کر لے۔
3۔گاڑی خرید لے۔ (بحوالہ بحوث فی الاقتصاد الاسلامی للدکتور علی القراہ الداغی)
اگرچہ اس پر بھی بعض علماء کے تحفظات ہیں مثلاً مدت اجارہ پوری ہونے پر مستاجر تو آزاد ہے مگر مؤجر مستاجر کی پسند کا پابند ہے لیکن یہ اعتراض کوئی زیادہ وزنی نہیں اس لیے یہ صورت شرعی طور پر جائز ہے۔ بشرطیکہ اس کی عملی تطبیق میں کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔
مروجہ لیزنگ کا دوسرا متبادل:
اسلامی فقہ اکیڈمی نے اس کی جگہ دوسرا متبادل بیع قسط تجویز کیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں انتقال ملکیت آخری قسط کی ادائیگی کےساتھ معلق نہ ہو بلکہ دوسری ضمانتیں ہوں۔ ( ایضا)
نوٹ
مزید تفصیل کےلیے اس کتاب’’دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم‘‘ کا مطالعہ کریں۔

وباللہ التوفیق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
Top