1۔ آپ اس سمندری جہاد میں بذات خود شامل تھے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر ج سمندر میں جہاد کرے گا، ان ( مجاہدین) کےلیے ( جنت) واجب ہے۔ ( صحیح بخاری:2799۔2800، 2924)
کیا اس روایت میں صریحاََ لکھا ہے کہ آپ شامل تھے؟ اگر نہیں تو اس بات کا حوالہ کیا ہے کہ آپ اس لشکر میں شامل تھے؟
بعض اہل فکر یہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کی آل اولاد کو کسی بھی صورت جنّتی قرار دینا جائز نہیں ہے -اس کی لئے انھیں چاہے ان کی مناقبت میں صحیح سے صحیح ترین روایت کو مسترد کرنا پڑے یا ان روایات کی باطل سے باطل تاویلات کرنی پڑیں وہ اس کی پروا کیے بغیر اس پر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہتے ہیں- جیسے یہ کہنا کہ "
کیا اس روایت میں صریحاََ لکھا ہے کہ آپ شامل تھے؟ اگر نہیں تو اس بات کا حوالہ کیا ہے کہ آپ اس لشکر میں شامل تھے؟"
اب حقیقت ملاحظه فرمائیں -
امام بخاری رحم الله اپنی صحیح میں "
باب ما قيل في قتال الروم" میں روایت بیان کرتے ہیں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ
میری امّت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا وہ مغفور ہے - (یاد رہے کہ یہ مسلمانوں کا پہلا سمندری جہاد تھا)
بخاری کے شا رح المهلب کہتے ہیں کہ:
قال المهلب : في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ، ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر
المهلب کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے
معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا -
(بحوالہ فتح الباری شرح صحیح البخاری: كتاب الجهاد والسير: باب ما قيل في قتال الروم)
الذہبی اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٥٠ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
وَفِيهَا غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ، كَانَ أَمِيرُ الْجَيْشِ إِلَيْهَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، وَكَانَ مَعَهُ وُجُوهُ النَّاسِ ، وَمِمَّنْ كَانَ مَعَهُ أَبُو أَيُّوبُ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور اس میں غزوہ القسطنطنیہ ہوا اور امیر لشکر عساکر یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ لوگ تھے اور ابو ايوب الانصاری رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے -