- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,562
- پوائنٹ
- 791
ذاتی پیغام میں ایک بہن نے سوال کیا ہے کہ :
کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے ؟
"جرموز اس کے بعد آپ کے ہتھیار لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا آپ یہ خبر سن کر حیرت زدہ رہ گئے اور بہت افسوس کا اظہار کیا اور ابن جرموز سےفرمایا۔
تجھے دوزخ کی بشارت ہو وہاں بھڑکتی ہوئی آگ میں تیرا انتظار ہو رہا ہے"
اگر ہے تو حوالہ بما سند سینڈ کر دیجئے۔۔۔جزاکم اللّه خیرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا زبیر بن عوام ابوعبداللہ قرشی کی کنیت سے مشہور ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، چوتھی پشت " قصی " پر پہنچ کر ان کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے، ان کی والدہ ماجدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا عبد المطلب کی بیٹی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی حضرت اسماء ان کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے اور ان کی والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہانے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ١٦ سال اور ایک روایت کے مطابق ٢٥ سال تھی،
سیدنا زبیر وہ خوش نصیب شخصیت ہیں جنہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : فداک ابی و امی ،تجھ پر میرے ماں ،باپ قربان جائیں "
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں حدیث روایت فرمائی ہے کہ :
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كُنْتُ يَوْمَ الأَحْزَابِ جُعِلْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي النِّسَاءِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَيْرِ، عَلَى فَرَسِهِ، يَخْتَلِفُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ: يَا أَبَتِ رَأَيْتُكَ تَخْتَلِفُ؟ قَالَ: أَوَهَلْ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ يَأْتِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَيَأْتِينِي بِخَبَرِهِمْ». فَانْطَلَقْتُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ: «فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي»
ترجمہ :
٭عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ (آپ کے والد) اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ (یہودیوں کے ایک قبیلہ کی) طرف آ جا رہے ہیں۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب میں وہاں سے واپس آیا تو میں نے عرض کیا، ابا جان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے! کیا واقعی تم نے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی (نقل و حرکت کے متعلق) اطلاع میرے پاس لا سکے۔ اس پر میں وہاں گیا اور جب میں (خبر لے کر) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرط مسرت میں) اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔( صحیح بخاری 3720 )
اور اس اعزاز کو پانے والے دوسرے خوش نصیب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں ،امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے :
سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ المُسَيِّبِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: نَثَلَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِنَانَتَهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ «ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي» (صحیح بخاری 4055 )
٭ امام سعیدؒ بن مسیب نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر مجھے نکال کر دیئے اور فرمایا کہ خوب تیر برسائے جا۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
اور سیدنا زبیر بن عوام ان بلند بخت صحابہ کرام سے ایک ہیں جنہیں نام لے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی ،
نوٹ :
اگر ان مندرجات اور تفصیلات میں اصلاح اور تبدیلی کی کوئی گنجائش ہے تو باخبر بھائی بلا جھجک آگاہ فرمائیں ،
جزاکم اللہ تعالی خیراً
کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے ؟
"جرموز اس کے بعد آپ کے ہتھیار لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا آپ یہ خبر سن کر حیرت زدہ رہ گئے اور بہت افسوس کا اظہار کیا اور ابن جرموز سےفرمایا۔
تجھے دوزخ کی بشارت ہو وہاں بھڑکتی ہوئی آگ میں تیرا انتظار ہو رہا ہے"
اگر ہے تو حوالہ بما سند سینڈ کر دیجئے۔۔۔جزاکم اللّه خیرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ
سیدنا زبیر بن عوام ابوعبداللہ قرشی کی کنیت سے مشہور ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، چوتھی پشت " قصی " پر پہنچ کر ان کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے، ان کی والدہ ماجدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا عبد المطلب کی بیٹی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی حضرت اسماء ان کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے اور ان کی والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہانے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ١٦ سال اور ایک روایت کے مطابق ٢٥ سال تھی،
سیدنا زبیر وہ خوش نصیب شخصیت ہیں جنہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : فداک ابی و امی ،تجھ پر میرے ماں ،باپ قربان جائیں "
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں حدیث روایت فرمائی ہے کہ :
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كُنْتُ يَوْمَ الأَحْزَابِ جُعِلْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي النِّسَاءِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَيْرِ، عَلَى فَرَسِهِ، يَخْتَلِفُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ: يَا أَبَتِ رَأَيْتُكَ تَخْتَلِفُ؟ قَالَ: أَوَهَلْ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ يَأْتِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَيَأْتِينِي بِخَبَرِهِمْ». فَانْطَلَقْتُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ: «فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي»
ترجمہ :
٭عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ (آپ کے والد) اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ (یہودیوں کے ایک قبیلہ کی) طرف آ جا رہے ہیں۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب میں وہاں سے واپس آیا تو میں نے عرض کیا، ابا جان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے! کیا واقعی تم نے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی (نقل و حرکت کے متعلق) اطلاع میرے پاس لا سکے۔ اس پر میں وہاں گیا اور جب میں (خبر لے کر) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرط مسرت میں) اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔( صحیح بخاری 3720 )
اور اس اعزاز کو پانے والے دوسرے خوش نصیب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں ،امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے :
سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ المُسَيِّبِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: نَثَلَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِنَانَتَهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ «ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي» (صحیح بخاری 4055 )
٭ امام سعیدؒ بن مسیب نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر مجھے نکال کر دیئے اور فرمایا کہ خوب تیر برسائے جا۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
اور سیدنا زبیر بن عوام ان بلند بخت صحابہ کرام سے ایک ہیں جنہیں نام لے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
امام ترمذیؒ نے روایت کیا ہے کہ :
عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعثمان في الجنة، وعلي في الجنة، وطلحة في الجنة، والزبير في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد في الجنة، وسعيد في الجنة، وابو عبيدة بن الجراح في الجنة "(جامع الترمذیؒ 3747 )
٭ ترجمہ
٭ سیدناعبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید (سعید بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں (رضی اللہ علیہم اجمعین)“
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جنگ جمل (جو 10 جمادی الاول سنۃ 36 ھ کو ہوئی ) اس میں سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے ،
جنگ کے بعد واپس جاتے ہوئے ،جناب علی رضی اللہ عنہ کے ایک سپاہی عمیر بن جرموز نے بصرہ کے قریب انہیں شہید کردیا ،
اور ان کا سرکاٹ کر جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا ،
آٹھویں صدی کے حدیث اور تاریخ کے مشہورامام شمس الدين أبو عبد الله الذهبي (المتوفى : 748 ھ) نے (سیراعلام النبلاء ) میں نقل فرمایا ہے کہ :
قرة بن حبيب: حدثنا الفضل بن أبي الحكم، عن أبي نضرة، قال:
جيء برأس الزبير إلى علي، فقال علي: تبوأ يا أعرابي مقعدك من النار، حدثني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن قاتل الزبير في النار "
یعنی ایک اعرابی (ابن جرموز سیدنا زبیر بن عوام کو قتل کرکے ان کا سر مبارک ) جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ،تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا :اے اعرابی ! تو اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے ،کیونکہ مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنم میں جائے گا "
(سیر اعلام النبلاء کی تحقیق میں علامہ شعیب الارناؤط اس روایت کے تحت لکھتے ہیں : رجال الإسناد ثقات )
نیز امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں انہی الفاظ سے نقل فرمائی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام احمدؒ نے فضائل صحابہ ( )1272اور اپنی مسند (799 )میں صحیح اسناد سے حدیث روایت فرمائی ہے کہ :
حدثنا عبد الله قال: حدثني أبي، قثنا معاوية قثنا زائدة، عن عاصم، عن زر قال: استأذن ابن جرموز على علي، وأنا عنده فقال: علي بشر قاتل ابن صفية بالنار، ثم قال علي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لكل نبي حواري، وحواري الزبير» فضائل الصحابہ
حدثنا عفان، حدثنا حماد، أخبرنا عاصم بن بهدلة، عن زر بن حبيش، أن عليا قيل له: إن قاتل الزبير على الباب. فقال: ليدخل قاتل ابن صفية النار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن لكل نبي حواريا، وإن الزبير حواري» مسند احمد
إسناد. حسن. وأخرجه ابن سعد 3/105 عن عفان، بهذا الإسناد
ثقہ تابعی اور قراءت کے امام زر بن حبیشؒ کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی،اور میں بھی وہاں موجود تھا جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے اندر آنے دو ، زبیر کے قاتل کوجہنم کی بشارت دو، ابن صفیہ کا قاتل جہنم میں جائے گا ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ "
(فضائل صحابہ 1271 ، الاحادیث المختارۃ ، المعجم الکبیر للطبرانی ، المتدرک للحاکم5578 ، السنۃ لابن ابی عاصم )
نیز دیکھئے :امام ابن جریرؒ الطبری کی (تهذيب الآثار جلد 3 ،ص169 )
اور امام سیوطیؒ کی جامع الاحادیث ملاحظہ فرمائیں :
https://books.google.com.pk/books?i...fAVsQ6AEIPTAI#v=onepage&q=جرموز و علي&f=false
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مستدرک حاکم جہاں امام حاکم اور امام ذہبیؒ نے اس روایت کو صحیح کہا ہےمیں بالاسناد ان الفاظ سے ہے :
حدثنا أبو بكر بن دارم الحافظ، بالكوفة، ثنا أبو جعفر الحضرمي، ثنا حمزة بن عون المسعودي، ثنا محمد بن القاسم الأسدي، ثنا سفيان الثوري، وشريك، عن عاصم بن أبي النجود، عن زر بن حبيش، قال: كنت جالسا عند علي فأتي برأس الزبير ومعه قاتله، فقال علي: للآذن بشر قاتل ابن صفية بالنار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لكل نبي حواري، وإن حواري الزبير» هذه الأحاديث صحيحة، عن أمير المؤمنين علي، وإن لم يخرجاه بهذه الأسانيد "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 5580 - هذه أحاديث صحاح
ترجمہ :
امام زر بن حبیشؒ کہتے ہیں کہ امیں جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا کہ ان کے پاس سیدنا زبیر بن عوام کا سر مبارک لایا گیا ،اور ساتھ ہی سیدنا زبیر کا قاتل بھی تھا ،(جس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو ) جناب علی نے اسے بلا کر لانے والے کو کہا کہ پیغمبر اکرم کے پھوپھی زاد زبیر کے قاتل کو جہنم کی بشارت دےدو ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ " (امام حاکم اور امام الذھبیؒ فرماتے ہیں : یہ احادیث صحیح ہیں )عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعثمان في الجنة، وعلي في الجنة، وطلحة في الجنة، والزبير في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد في الجنة، وسعيد في الجنة، وابو عبيدة بن الجراح في الجنة "(جامع الترمذیؒ 3747 )
٭ ترجمہ
٭ سیدناعبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید (سعید بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں (رضی اللہ علیہم اجمعین)“
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جنگ جمل (جو 10 جمادی الاول سنۃ 36 ھ کو ہوئی ) اس میں سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے ،
جنگ کے بعد واپس جاتے ہوئے ،جناب علی رضی اللہ عنہ کے ایک سپاہی عمیر بن جرموز نے بصرہ کے قریب انہیں شہید کردیا ،
اور ان کا سرکاٹ کر جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا ،
آٹھویں صدی کے حدیث اور تاریخ کے مشہورامام شمس الدين أبو عبد الله الذهبي (المتوفى : 748 ھ) نے (سیراعلام النبلاء ) میں نقل فرمایا ہے کہ :
قرة بن حبيب: حدثنا الفضل بن أبي الحكم، عن أبي نضرة، قال:
جيء برأس الزبير إلى علي، فقال علي: تبوأ يا أعرابي مقعدك من النار، حدثني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن قاتل الزبير في النار "
یعنی ایک اعرابی (ابن جرموز سیدنا زبیر بن عوام کو قتل کرکے ان کا سر مبارک ) جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ،تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا :اے اعرابی ! تو اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے ،کیونکہ مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنم میں جائے گا "
(سیر اعلام النبلاء کی تحقیق میں علامہ شعیب الارناؤط اس روایت کے تحت لکھتے ہیں : رجال الإسناد ثقات )
نیز امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں انہی الفاظ سے نقل فرمائی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام احمدؒ نے فضائل صحابہ ( )1272اور اپنی مسند (799 )میں صحیح اسناد سے حدیث روایت فرمائی ہے کہ :
حدثنا عبد الله قال: حدثني أبي، قثنا معاوية قثنا زائدة، عن عاصم، عن زر قال: استأذن ابن جرموز على علي، وأنا عنده فقال: علي بشر قاتل ابن صفية بالنار، ثم قال علي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لكل نبي حواري، وحواري الزبير» فضائل الصحابہ
حدثنا عفان، حدثنا حماد، أخبرنا عاصم بن بهدلة، عن زر بن حبيش، أن عليا قيل له: إن قاتل الزبير على الباب. فقال: ليدخل قاتل ابن صفية النار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن لكل نبي حواريا، وإن الزبير حواري» مسند احمد
إسناد. حسن. وأخرجه ابن سعد 3/105 عن عفان، بهذا الإسناد
ثقہ تابعی اور قراءت کے امام زر بن حبیشؒ کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی،اور میں بھی وہاں موجود تھا جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے اندر آنے دو ، زبیر کے قاتل کوجہنم کی بشارت دو، ابن صفیہ کا قاتل جہنم میں جائے گا ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ "
(فضائل صحابہ 1271 ، الاحادیث المختارۃ ، المعجم الکبیر للطبرانی ، المتدرک للحاکم5578 ، السنۃ لابن ابی عاصم )
نیز دیکھئے :امام ابن جریرؒ الطبری کی (تهذيب الآثار جلد 3 ،ص169 )
اور امام سیوطیؒ کی جامع الاحادیث ملاحظہ فرمائیں :
https://books.google.com.pk/books?i...fAVsQ6AEIPTAI#v=onepage&q=جرموز و علي&f=false
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مستدرک حاکم جہاں امام حاکم اور امام ذہبیؒ نے اس روایت کو صحیح کہا ہےمیں بالاسناد ان الفاظ سے ہے :
حدثنا أبو بكر بن دارم الحافظ، بالكوفة، ثنا أبو جعفر الحضرمي، ثنا حمزة بن عون المسعودي، ثنا محمد بن القاسم الأسدي، ثنا سفيان الثوري، وشريك، عن عاصم بن أبي النجود، عن زر بن حبيش، قال: كنت جالسا عند علي فأتي برأس الزبير ومعه قاتله، فقال علي: للآذن بشر قاتل ابن صفية بالنار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لكل نبي حواري، وإن حواري الزبير» هذه الأحاديث صحيحة، عن أمير المؤمنين علي، وإن لم يخرجاه بهذه الأسانيد "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 5580 - هذه أحاديث صحاح
ترجمہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ :
اگر ان مندرجات اور تفصیلات میں اصلاح اور تبدیلی کی کوئی گنجائش ہے تو باخبر بھائی بلا جھجک آگاہ فرمائیں ،
جزاکم اللہ تعالی خیراً