- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
جزاکم اللہ خیرا۔ مشکور ہوں کہ آپ نے کچھ وقت نکالا۔ مجھے واقعی سنجیدگی سے ٹیبل کے دوسری طرف کا موقف جاننے کی خواہش تھی۔ آپ کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی:میں ایک اور پوسٹ میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ شاکربھائی کے طرح سے بلاوا آیا تو سوچا پہلے یہاں سے ہوتا آوں
زبانی معلومات کی بنیاد پر کچھ لکھ رہا ہوں ۔اگر اعداد و شمار غلط ہو تو کوئی بھائی تصحیح فرمادیں
جب لیلہ الاسراء کا واقعہ ہوا اور نماز فرض ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 51 یا 52 سال تھی۔ اگر ہم مثال کے طور پر وہ عرصہ لیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 57 یا 58 برس تھی تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری حصہ کہلائے گا لیکن یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہی کہلائے گا کیوں کہ نماز کی فرضیت کو ابھی صرف 6 برس کے قریب ہوئے ہیں
یہاں صاحب مضون کو غلط فہمی اس لئیے ہوئی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ اور نماز کے دور کو اکٹھا شروع کرتا ہیں۔
۔ رفع الیدین نماز فرض ہونے کے بعد ابتدائی دور میں جاری رہا اور بعد میں منسوخ ہوا۔
۔ جلسہ استراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے آخری دور میں، بوجہ ضعف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش تیرہ چودہ سال نمازیں ادا کی تھیں۔ ان میں سے نماز کی فرضیت کے بعد کے تین چار سال کو "ابتدائی دور" کہا جا سکتا ہے اور آخری تین چار سال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے لحاظ سے "آخری دور" کہا جا سکتا ہے۔ اب اسے ذہن میں رکھیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے اور اصل سوال سمجھ نہیں سکے۔ بیس دن کی قید ہم نے اپنی طرف سے نہیں لگائی۔ بلکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے فقط بیس روز کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف پانے کی قوی و صریح دلیل کی بنیاد پر یہ قید عائد ہوئی ہے۔ اور یہی اہم نکتہ ہے۔ پہلی پوسٹ ازراہ کرم دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ مختصراً دوبارہ عرض ہے:تو یہ کوئی متضاد بات نہیں۔ اور یہ دو عمل بیک وقت ممکن ہیں ۔ اگر چہ آپ بیس دن کی بھی قید نہ لگائیں
1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے قبل و بعد رفع الیدین کیا۔ صحیح و صریح حدیث ہے، لہٰذا شک یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
2۔ انہی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ہی صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا۔ صحیح و صریح حدیث، شک یا تاویل کے غبار سے بالکل پاک۔
3۔ یہ صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فقط بیس دن کے لئے حاضر ہوئے۔ اور یہ بات بھی صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے اور اس پر علمائے دیوبند کا بھی اتفاق ہے۔ حوالہ جات پہلی پوسٹ میں موجود ہیں۔
تلمیذ بھائی، اب اگر آپ درج بالا تین میں سے کسی ایک بھی شق سے متفق نہیں تو اس کی ازراہ کرم وضاحت کر دیجئے۔ اور اگر آپ متفق ہیں۔ تو سوال یہ ہے:
رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل مانا جائے تو ذیل میں سے کوئی ایک شق ماننی لازم ہے:قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آلِ دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور صرف بیس دنوں پر مشتمل ہے۔
1۔ دور نبوت فقط بیس روز پر محیط ہو۔ اور یہ امر محال ہے۔
2۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے منسوب رفع الیدین اور جلسہ استراحت کی احادیث ضعیف ہوں یا کوئی ایک حدیث ضعیف ہو۔ یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ دونوں صحیح بخاری کی احادیث ہیں۔
3۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیس روز کے لئے خدمت میں حاضر نہ ہوئے ہوں بلکہ طویل عرصہ قیام کیا ہو یا دو مختلف اوقات میں حاضر ہوئے ہوں۔ ایک ابتدائی دور میں اور ایک آخری دور میں۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے کہ وہ فقط بیس روز ہی کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے اور علمائے دیوبند کی بھی یہی تحقیق ہے۔ اور دو مرتبہ علیحدہ اوقات میں حاضری کی کوئی ضعیف سے ضعیف دلیل بھی موجود نہیں۔
یا تو یہ کہئے کہ درج بالا نکات میں حصر نہیں اور مزید کوئی شق بتائیں جو ممکن ہو سکتی ہو۔ اور یا یوں کہئے کہ رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل ماننا بجائے خود غلط ہے۔
یہ اہم نکتہ ہے۔ اور شاید اس اختلافی مسئلہ کو ایک نئے زاویہ سے سلجھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ انصاف شرط ہے۔