آخری دور یا آخری عمر:
آپ کو اس معاملے میں خیانت کے تذکرہ کی ضرورت نہیں۔ اول تو ہمارے نزدیک بھی آخری دور سے آخری عمر ہی مراد ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ "جلسہ استراحت آخری دور کا عمل ہے" سے آخری عمر کے علاوہ بھی کوئی معنی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ پھر علمائے دیوبند نے بھی دونوں طرح کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ پوسٹ 7 میں ایک فتویٰ پیش کیا گیا تھا، جس میں یہ الفاظ تھے۔
مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رفع یدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائی دور کا عمل تھا، پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اور جلسہٴ استراحت آخری دور کا عمل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا۔
لہٰذا اس پر بات کر کے طول دینے کا کچھ فائدہ نہیں۔
بیس دنوں میں ممکن ہے؟
ہمارا اصل اعتراض یہ ہے کہ اگر رفع الیدین ابتدائی دور کا عمل ہے اور جلسہ استراحت آخری دور کا، تو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے فقط بیس روز کی صحبت میں دونوں اعمال ایک ساتھ کیسے ملاحظہ کر لئے۔ اس پر جو آپ نے جوابات دئے ہیں۔ وہ نکتہ وار یہ ہیں:
1۔ ابتدائی دور سے مراد نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہے۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے۔
2۔ آخری دور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور ہے۔ ہمیں اس سے بھی اتفاق ہے۔
3۔ اب آپ پہلی ممکنہ صورت یہ بتلاتے ہیں کہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور تھا (یا ہوسکتا ہے)۔ (گویا یہ دونوں ادوار overlap کرتے ہیں)۔ اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔ اگر آپ کی اس بات سے اتفاق کیا جائے، تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ:
۔ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں منسوخ کیا۔
۔ جلسہ استراحت نماز کی فرضیت کے ابتدائی دور سے ہی شروع کر دیا۔
کیا آپ درج بالا دونوں باتوں سے اتفاق کرتے ہیں؟
4۔ آپ دوسری ممکنہ صورت یہ بتلاتے ہیں کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ تشریف لائے ہوں گے۔ اس کا جواب آگے ملاحظہ کریں۔
دلیل اور احتمال:
محترم، ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہاں جلسہ استراحت یا رفع الیدین کے سلسلے میں دلائل ذکر نہیں کئے جا رہے۔ نا آپ نے ایسا کیا ، نا ہم نے اور نا ہی اس دھاگے میں یہ مطلوب ہی ہے۔ لیکن آپ ابتدائی دور اور آخری عمر کو ملانے کے لئے جو ممکنہ صورتیں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ممکنہ صورتیں خود دیگر دلائل سے ٹکرا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ کے پیش کردہ ممکنہ صورتوں نہ شرعاً ممکنہ صورتیں قرار پاتی ہیں اور نہ عقلاً۔ تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تشریف لائے یا دو مرتبہ
صحیح بخاری اور علمائے احناف کے حوالہ جات کے ساتھ بادلائل یہ بات آپ پر واضح کر دی گئی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فقط ایک ہی دفعہ اور فقط بیس روز کے لئے تشریف لائے۔ اس کے بالمقابل آپ نے فقط
احتمالات پیش کئے ہیں اور کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ اگر آپ کے پاس دلیل ہو تو پیش کیجئے ورنہ صحیح بخاری اور علمائے احناف کی تحقیق کو مان لیجئے کہ وہ فقط ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کب تشریف لائے
ہم نے علمائے احناف کے حوالہ جات کے ساتھ اور فتح الباری سے ثابت کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو بنو لیث کے وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ آپ نے اس کے جواب میں
احتمال پیش کیا کہ وہ غزوہ تبوک میں بھی شامل ہوئے ہوں گے، لہٰذا بیس روز سے زیادہ دن ٹھہرے ہوں گے اور دو مرتبہ تشریف لائے ہوں گے، وغیرہ۔ آپ نے یہ تمام احتمالات بغیر کسی دلیل کے پیش کئے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ان کے نو ہجری میں آنے کے دلائل موجود ہیں۔اور فقط بیس دن کے لئے حاضر ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں اور خود علمائے احناف کی یہی تحقیق ہے ، اس ضمن میں سرفراز صاحب اور اوکاڑوی صاحب کے حوالہ جات پیش کئے جا چکے ہیں۔ پھر آپ کے احتمال کے مقابلے میں ایک رائے ہم نے بھی پیش کی کہ جہاد میں شامل نہ ہونے کی ایک وجہ ان کی کم عمری بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نو ہجری میں ابھی یہ صحابی نو عمر تھے اور خود سرفراز صاحب انہیں جلسہ استراحت دیکھنے کے وقت کم عمر تسلیم کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ غزوہ تبوک میں جانے سے وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ ہمارے اس احتمال کی سپورٹ کرنے کے لئے صحیح بخاری اور صفدر صاحب کا حوالہ موجود ہے۔ آپ کے
احتمال کہ وہ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے ہوں گے، کی کیا دلیل ہے؟
اگر درج بالا دونوں باتیں ، جو کہ دلائل سے ثابت ہیں، مان لی جائیں کہ:
1۔ حضرت مالک فقط ایک بار ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور بیس روز ٹھہرے۔
2۔ حضرت مالک 9 ہجری میں تشریف لائے۔
اس سے یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ:
1۔ 9 ہجری کا دور نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور نہیں کہلایا جا سکتا۔
2۔ 9 ہجری تک رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا تھا۔
اب تک دلائل کے ساتھ ہم نے جو باتیں ثابت کی ہیں۔ وہ تکرار کی کوفت کے باوجود سمجھنے کی نیت سے پیش ہیں۔
1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ زندگی میں فقط ایک مرتبہ اور بیس دن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے۔ (صحیح بخاری ، علمائے احناف)
2۔ یہ ملاقات 9 ہجری کو غزوہ تبوک سے کچھ قبل ہوئی۔ (علمائے احناف، ایک مختلف فیہ حدیث، فتح الباری)
3۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری)
4۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری)
5۔ وہ خود رفع الیدین اور جلسہ استراحت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی عامل رہے۔ (صحیح بخاری)
لہٰذا معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو ابتدائی دور کا عمل قرار دینا غلط ہے، بلکہ اس پر 9 ہجری تک یعنی آخری عمر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا۔
آپ نے اوپر کئی پوسٹس میں تسلیم کیا ہے اور احتمال بھی پیش کیا کہ حضرت مالک غزوہ تبوک میں شامل ہوئے ہوں گے۔ اب ان کی غزوہ تبوک میں شرکت کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں:
1۔حضرت مالک 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
2۔ شاید غزوہ تبوک میں شامل بھی ہوئے۔
3۔ اس کے باوجود وہ خود رفع الیدین پر عامل رہے۔ گویا 9 ہجری میں بھی اور غزوہ تبوک میں ساتھ رہنے کے باوجود، ان پر رفع الیدین کے نسخ کا راز نہ کھلا۔
4۔ معلوم ہوا کہ رفع الیدین 9 ہجری تک منسوخ نہیں ہوا تھا۔
لہٰذا چاہے آپ ہمارے طرز استدلال سے دیکھیں، یا اپنے احتمالات کی روشنی میں ملاحظہ کریں، دونوں طرح سے ہی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ 9 ہجری تک رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا تھا۔
اب ہمارے استدلال کی تردید کے لئے آپ کے کرنے کے یہ کام ہیں:
1۔ یہ ثابت کیجئے کہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور ہو سکتا ہے۔ اور اس کے لئے اوپر پیش کردہ دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔
2۔ یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ دو مرتبہ یا ایک سے زائد مرتبہ تشریف لائے۔
3۔ اور پھر یہ بھی بتائیے کہ دوسری مرتبہ تشریف لانے پر بھی انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے ہوئے کیونکر دیکھا؟ (کیونکہ ان کا اپنا عمل رفع الیدین کرنے کا تھا)۔
4۔ یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو تشریف نہیں لائے۔
5۔ یا یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ خود رفع الیدین پر عامل نہیں تھے۔