محترم ،
اپ نے مجھے بات مکمل کرنے نہیں دی بہرحال چند حوالے احادیث کی کتب سے اور آئمہ کے حوالے سے نقل کر دیتا ہوں
سب سے پہلے قرآن کی آیت
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو (۷) اور ہم نے ان کے لئے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے(سوره انبیاء )
صحابہ کرام رضی الله عنہم بہت پاکیزہ ہستیاں ہیں انہوں نے ہمیں دین پہنچایا ہے اپ نے شاید یہ سمجھ لیا کہ ان کی نہ وفات ہونی تھی اور نہ ان پر ضعف آنا تھا اپ جن فتوحات کا ذکر فرما رہے ہے وہ عمر رضی الله عنہ کے دور کی بات ہے اور میں اس کے ٤٠ سال بعد کی بات کر رہا ہوں جب حسین رضی الله عنہ بھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بچے تھے اس وقت ٦٠ سال کی عمر کے لگ بھگ تھے تو جو صحابہ اس وقت جوان تھے وہ اس وقت کس عمر میں ہوں گے ان میں سے زیادہ تر وفات پا گئے تھے اور جو تھے وہ بڑھاپے کی عمر میں تھے اور ظلم ایسا تھا کہ مرتے وقت حدیث سنا کر گیے ہیں صحت کی حالت میں حدیث بھی نہیں سناتے تھے اپ کو اندازہ نہیں ہے کیونکہ اپ لوگ صرف تاریخ کے رطب و یابس میں پڑ گئے ہیں اس وقت جو ان کے جسم میں طاقت تھے اس کے حساب سے کرتے تھے اتنی بڑی افواج کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا اس پر کہ ان کا آخری لیڈر بھی دنیا سے چلا گیا تھا علی رضی الله عنہ کے ساتھ مل کر کیا صحابہ کرام نے جنگ نہیں لڑی تھی ابن عباس رضی الله عنہ آخر تک ان کے ساتھ تھے مگر جب وہ شہید کر دیے گئے تو انہوں نے حالات پر صبر کر لیا جیسے ابن عمر نے کیا تھا اسی طرح امر بالمروف اور نہی ان منکر زبان سے کرتے تھے اور جب تابعین اس کو بدل سکنے کے قابل ہوۓ تو کیا مروان کے خلاف جمام جم پر اس کے خلاف جہاد نہیں کیا تھا تو چند روایات اس حوالے سے کہ ظلم اتنا تھا کے مرتے وقت حدیث بتا کر گئے اس سے پہلے حدیث نہیں بتاتے تھے .
17856 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
[FONT=times new roman, serif]
یہ پڑھ لیں اس میں عبیداللہ بن زیاد صحابی رضی اللہ عنھ کس بے ادبی کا مظاہرہ کر رہا ہےمگر وہ خاموش رہے دوسری روایت پڑھیں اس میں معقل بن یسار رضی اللہ عنھ جب مرنے لگے تو حدیث بیان کررہے ہیں اگر زندہ رہنےکی امید ہوتی تو نھ بیان کرتے۔
17859 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
[/FONT]
یہ حاکم کے بارے میں روایت ہے جو بیان نہیں کر رہے اور فرمایا اگر اب بھی زندہ رہنے کی امید ہوتی تو نہ بتاتا یہ حاکم عمر رضی الله عنہ نہیں تھے جو عدل کی بات سن لیتے تھے یہ عبیداللہ بی زیاد تھا قریش کا چھوکرا ظالم جس کے ظلم سے بچنے کے لئے مرتے وقت حدیث بیان کی ہے اور پہلی میں صحابی کی عزت کس طرح کی جاتی تھی اور اپ ان کو رحمہ اللہ لکھتے ہو
پڑھا یہ مسلم کی روایت ہے تاریخ کے رطب و یابس نہیں ہیں
دوسری روایت پڑھیں یہ بھی مسلم میں ہے عمران بن حصین رضی الله عنہ کس طرح مرتے وقت حدیث بتارہے ھیں اور یہ بھی فرما رھے ھیں کہ اگر میں زندہ رہ جاؤ تو نہ بتانا غور سے پڑھیں
17858 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مسلم کتاب الحج
[FONT=times new roman, serif]
یہ ظلم صرف اس کو نظر آئے گا جو یزید کے کارنامے حدیث سے ڈھونڈے گا مگر اپ کو اب بھی نظر نہیں آئے گا[/FONT]
اب ذرا بخاری پر نظر ڈالتے ہیں
17860 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
کتاب العیدین رقم ٩٥٦
اس میں مروان خطبہ دے رہا ہے ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے اس بدعت سے اس کو روکنے کی کوشش کی یہ بتاؤ جمعہ میں اتنے لوگ ہوتے ہے کیوں اس کو اس بدعت سے نہیں روکا اورابو سعید خدری رضی الله عنہ کا ساتھ اس بدعت کے روکنے میں کیوں نہ دیا مگر یہ اپ کوسمجھ نہیں آئے گا کیونکھ اپ کو دین اور صحابہ کی عزت نہیں یہ بنو مروان اوربنوامیہ کے چھوکرے پیارےاور عزیز ہیں
اب ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی پڑھ لیں کہ وہ حدیث نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ ان کو جان کا خوف تھا
17861 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
کتاب العلم رقم ١٢٠
ابوہریرہ رضی الله عنہ کیوں حدیث نہیں بتا رہے ان کو حدیث بتانے میں اپنی جان کا خوف کیوں ہے ابن ہجر نے لکھا ہے اس میں حکمران کے بارے میں باتیں تھی اور اگر مروان اتنا نیک تھا اس کو کیوں نہ بتا دیا وہ بقول اپ لوگوں کے اس دور میں تو امن تھا مسلمان چین سے زندگی بسر کر رہے تھے اس چین کی زندگی میں حدیث کیوں نہیں بتا رہے ایک حوالہ بھی حدیث کی کتب سے پیش کر دو کہ خلفاء راشدین کے دور میں حدیث بتانا جرم تھا اور صحابہ کرام مرتے وقت حدیث بتاتے تھے اس سے پہلے بتا نہیں سکتے تھے ایک روایت صرف ایک میرا اعلان ہے کہ میں یزید ، مروان ابن زیاد ان سب جو اعتراضات ان سے رجوع اور ان سب کو رحمہ الله لکھوں گا
آگے اور لکھ رہا ہوں
اگر احادیث و روایت کو بغیر سوچے سمجھے بیان کریں گے تو ایسی ہی خرافات قلم سے نکلیں گی جو آپ کے قلم سے نکل رہی ہیں- قرآن تو صحابہ کرام رضوان الله آجمعین کے بارے میں واضح گواہی دے رہا ہے کہ :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرْتَدَّ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔(سوره المائدہ آیت 54)
ا
اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا۔ مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے
اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے- یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔
یہ آیات صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی شان میں نازل ہوئیں یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور اللہ کی اطاعت اور اس کی حدود کو قائم رکھنے والے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی انہیں کوئی روکنے والا ان کاموں سے روک سکتا ہے، اس کے برخلاف منافقین زمانہ ءحوادثات سے ڈرتے رہتے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر، ص: ۷۳ ۲، ۲۱۸ ۴۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۴۳ ۶۔
اور آپ فرما رہے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی زبانیں بنو امیہ خاندان کے خلفاء و حاکموں کے خوف سے گنگ ہو گئی تھیں؟؟- اب یا تو آپ قرآن کی اس واضح گواہی کو قبول کرلیں یا اپنے پسندیدہ علماء کی ان روایت سے متعلق باطل تاویلات کو قبول کرلیں جو بنو امیہ مخالف ہیں- اور اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے بغض صحابہ کا تو مسلم شریف کی اس روایت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ جس میں ہے کہ -
فَقَالَ عُمَرُ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَ فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ- (صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ حدیث 80)- حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس
جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے-
کیا آپ حضرت علی رضی الله عنہ کے متعلق حضرت عباس رضی الله عنہ کے ان الفاظ کو قبول کریں گے- کیا حضرت علی رضی الله عنہ ایسے ہی تھے جسے حضرت عباس رضی الله نے ان کے بارے میں فرمایا؟؟ محترم روایات کو پرکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ تمام روایات اور ان کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھ کر اسماء و رجال و درایت کی روشنی میں ان کو پرکھا جائے نہ کہ تعصب کو دل میں رکھ کر جس پر جو جی میں آے تنقید و تنقیص شرو ع کری جائے -