السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:
پہلا طريقہ:
دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.
اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:
وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "
دوسرا طريقہ:
دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.
نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "
محترم! ان کا عربی متن بھی ساتھ لکھ دیتے تاکہ بات سمجھنی آسان ہوجاتی ۔
پہلے طریقہ کی حدیث؛
وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا
داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "
دوسرے طریقہ کی حدیث؛
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو
اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "
محترم یہ دو طریقے کیوں کر ہیں؟ کیا جب ’’داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھیں‘‘ تو ’’دایاں ہاتھ بائیں پر‘‘ ہی رہتا ہے کہیں اور تو نہیں چلا جاتا!!!!!!!!
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو طریقے بنا کرشخصیات کو خوش کرنا چاہتے ہو رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت انہیں متلون مزاج بنادو۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
محترم! غلطی انسان سے ہوتی ہے اگر اصلاح کرلے تو کوئی پکڑ نہیں اور اگر شیطان کی طرح انا کا مسئلہ بنا لے اور تکبر میں آجائے تو نقصان اٹھائے گا۔
والسلام