• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینہ پر هاتھ باندهنے کے دلائل ! محدث زبیر علی زئی رحمہ الله

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
دوسروں کو نصیحت کرتے ھیں اور اپنے آپ کو بھلا بیٹھے ھیں؟
تعصب، بغض وعناد آپ کی تحاریر سے عیاں ھے.
محترم @عبدالرحمن بھٹی صاحب
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اہل حدیث کے علاوہ کئی ایک لوگ سینے پر ہاتھ باندھنے کا موقف رکھتے ہیں ۔
محترم! معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔ میری تحریر کو آپ لوگ بغور کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے پہلے ہی تریڈ میں دکھائی گئی زبیر عی زئی کی وڈیو کا ”سنیپ“ لگایا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے کسی بھی حدیث کے مطابق ہاتھ نہیں باندھے ہوئے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اہلحدیثوں کےشیخ محدث زبیر علی زئی رحمۃ اللہ کا ہاتھ باندھنے کا طریقہ جو کہ کسی بھی حدیث کے مطابق نہیں بلکہ حدیثِ نفس کے مطابق ہے ملاحظہ فرمائیں؛
زبیر علی زٗیی.png
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
دلچسپ بات یہ کہ اس طرح ہاتھ باندھنے سے سینہ پر نہیں رہتے۔ نارمل جسامت کے حامل حضرات عملاً کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ”ضعیف“ نہیں ”ثقہ“ دلیل ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ

محترم قارئین کرام!
ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یوں ہے؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر گٹ کے قریب رکھیں اور سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑیں اور سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیاں الٹے ہاتھ پر بچھا دیں۔
ہاتھ باندھنے کا یہ طریقہ کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں بلکہ تمام احادیث کے مطابق ہے۔ اس طریقہ سے ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا بھی سنت ہے جیسا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔ مسنون طریقہ سے صف بندی بھی اسی طرح ہاتھ باندھ کر ممکن ہے کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں۔
اہم بات
مسنون طریقہ سے ہاتھ باندھ کر اگر انہیں ناف سے اوپر کی طرف بتدریج لاتے جائیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ہاتھ ناف سے اوپر کی طرف آتے جاتے ہیں کہنیاں کندھوں سے باہر کی طرف نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کہنیاں کندھے سے باہر ہوں تو صف میں ایسے دو آدمی کندھے سے کندھا نہیں ملا سکتے (آزمائش شرط ہے بشرطیکہ یہ دونوں حضرات متناسب جسامت رکھتے ہو ”ابنارمل“ نہ ہوں)۔
جب ہاتھ کہنی کے محاذات میں آجائیں گے اس وقت کہنیاں (سب حالتوں سے زیادہ) کندھوں سےباہر ہوں گی۔
تنبیہ: جب ہاتھ مزید اس سے اوپر کی طرف لے جائیں تو کہنیاں دوبارہ اندر کی طرف آنا شروع ہوجائیں گی مگر مسنون طریقہ سے ہاتھ باندھ کر ایسا کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
  • نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم،اما بعد​
  • نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ کہاں باندھنے ہیں ؟یہ معرکۃ آراء مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے۔اسی اختلاف کی وجہ سے دلائل کی بنیاد پر علماءکے مختلف مؤقف ہیں۔کوئی سینے پر یا ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی زیر ناف باندھنے کو۔​
  • فیس بک پرحنفی بھائی جو تقلید پر بات کرتے ہوئے اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ اہل حدیث علماء کو سفہاء، نفس کے پجاری، جیسے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں۔​
  • وہیں اس مسئلہ پر اتے متشدد ہو جاتے ہیں کہ کئی طرح کے دعویےکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔​
  • کوئی کہتا ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنا بدعت ہے جو اہل حدیثوں نے ایجاد کی ہے۔​
  • کوئی کہتا ہےسلف صالحین میں سے کسی کا مؤقف سینے پر ہاتھ باندھنےکا نہیں ہے۔​
  • اس کا جواب دینے سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ اگر یہ اختلاف اولی ، غیر اولی تک محدود ہوتا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے کہ ایک مکتب فکر کا اجتہاد ہے۔لیکن اسے بدعت کہنا اور سلف صالحین کی مخالفت کہنا سراسر تشدد ہے جو کہ تعصب کی بنا پر ہے۔​
  • اسے بدعت کہنے والوں کو مین کہوں گا اگر میں صرف کوئی ایک حدیث بھی اس موضوع پر پیش کر دوں تو آپ کے دعوی کی بنیاد ہی ختم ہو جائےگی۔​
  • 759 - حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد)​
  • ترجمہ:طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔​
  • نوٹ"۔یاد رہے کہ احناف کے ہاں مرسل حدیث حجت ہے۔​
  • 21967 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ '​
  • وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.(مسند احمد)​
  • ترجمہ:سیدنا ھلب طائی ۓ؄ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔​
  • امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ​
  • نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال : " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره [دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479 ]​
  • حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھ لیا۔​
  • نتیجہ:​
  • ان احادیث کی موجودگی میں سینے پر ہاتھ باندھنے کو بدعت کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔​
  • کیاسلف صالحین خیر القرون سے سینہ پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے؟​
  • دیکھنے میں آتا ہے کہ جیسے ہی سینے پر ہاتھ باندھنے کی یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں تو فورا کچھ اعترضات سامنے آجاتے ہیں ۔​
  • کچھ اعتاضات کا تعلق احادیث کے صحیح ،ضعف کے ساتھ ہے میں انہیں یہاں ڈسکس نہیں کر رہا کیونکہ یہ بات تو اھناف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان احادیث سے سلف صالحین بھی دلیل پکڑی ہے۔​
  • کچھ اعتراضات کا تعلق ان احادیث کے فہم پرہے​
  • میں انہیں ترتیب کے ساتھ ذکر کردیتا ہوں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔​
  • -سلف صالحین میں سے کسی کا بھی مؤقف سینے پر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے​
  • -علی الصدر سے مراد تحت الصدر ہے​
  • -فوق السرۃ سے مرادتحت الصدر ہے​
  • سلف صالحین سے سینے پر ہاتھ بانھنے کا ثبوت​
  • یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے کہ وہ سینے پرہاتھ باندھتے تھے۔​
  • اب میں سلف صالحین خیر القرون سے کچھ حوالے پیش کر دیتا ہوں کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا عمل صرف علماء اھل حدیث کا ہی نہیں بلکہ یہ عمل سلف صالحین سے بھی ثابت ہے۔​
  • یاد رہے احناف کے اس اعتراض پر اگر میں سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی ثابت کر دوں تو ان کا دعوی باطل ہو جائے گا۔​
  • پہلا حوالہ:​
  • ؐمحدثین میں سے امام بیہقی رحمہ اللہ​
  • الكتاب : السنن الكبرى وفي ذيله الجوهر النقي​
  • المؤلف : أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي البيهقي​
  • الناشر : مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آباد​
  • الطبعة : الطبعة : الأولى ـ 1344 ھ​
  • امام بیہقی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے​
  • 148 - باب وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الصَّدْرِ فِى الصَّلاَةِ مِنَ السُّنَّةِ.​
  • پھر اس کے تحت یہ حدیثیں لےکر آئے ہیں​
  • 2429- أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الصُّوفِىُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِىٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا ابْنُ صَاعِدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُجْرٍ الْحَضْرَمِىُّ حَدَّثَنِى سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُمَّهِ​
  • عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- نَهَضَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ الْمِحْرَابَ ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ بِالتَّكْبِيرِ ، ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يُسْرَاهُ عَلَى صَدْرِهِ.​
  • 2430- وَرَوَاهُ أَيْضًا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الثَّوْرِىِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ​
  • عَنْ وَائِلٍ : أَنَّهُ رَأَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ ثُمَّ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ.​
  • أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ فَذَكَرَهُ.​
  • 2431- أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدُ بْنِ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ أَبُو الشَّيْخِ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَرِيشِ الْكِلاَبِىُّ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْجَحْدَرِىُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ كَذَا قَالَ​
  • إِنَّ عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فِى هَذِهِ الآيَةِ (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ : وَضْعُ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى وَسْطِ يَدَهِ الْيُسْرَى ، ثُمَّ وَضْعُهُمَا عَلَى صَدْرِهِ.​
  • 2432- وَقَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو الْحَرِيشِ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَنَسٍ مِثْلَهُ أَوْ قَالَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-.​
  • 2433- أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِى إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ الْبُخَارِىِّ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِى طَالِبٍ أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ حَدَّثَنِى عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِىُّ عَنْ أَبِى الْجَوْزَاءِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ : وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِى الصَّلاَةِ عِنْدَ النَّحْرِ.​
  • -اب سوال یہ ہے کہ کیا امام بیہقی رحمہ اللہ سلف صالحین خیرالقرون میں شامل نہیں ؟جنہوں نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا باب باندھ کر ان احادیث سے استدلال کیا ہے۔​
  • -نیزعلی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فصل لربک وانحر کی جو تفسیر سینہ پر ہاتھ باندھنا مروی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سلف صالحین خیرالقرون میں شامل نہیں ؟​
  • دوسرا حوالہ​
  • فقہاء میں سے امام شافعیؒ​
  • شرح مختصر التبریزی علی مذھب الامام الشافعی​
  • المؤلف: الإمام العلامة عمر بن علي بن أحمد ( ابن الملقن )​
  • تحقيق: وائل محمد بكر زهران​
  • الناشر: دار الفلاح ، الفيوم / مصر​
  • صفحہ 92 پر ابن الملقنؒ لکھتے ہیں:قال:((ووضع الیمین علی الیسار علی الصدر)) لما روی ابن خزیمۃ فی صحٰیحہ عن وائل بن حجر قال رایت النبی ﷺیصلی فوضع یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ​
  • امام شافعیؒ کا مذھب یہ ہے کہ((دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھے جائیں))کیونکہ ابن خزیمہؒ نے اپنی صحیح میں وائل ابن حجر سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا :میں نے نبیﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھ لیا۔​
  • -یادرہے کہ امام شافعیؒ کا یہ مؤقف دیگر نے بھی بیان کیا ہےجیسا کہ عبد اللہ بن مبارکؒ جوکہ امام ابو حنیفہؒ کے تلمیذ ہیںتحفۃ الاحوذی میں امام شافعیؒ کے تین مؤقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں​
  • وأما الامام الشافعي فعنه أيضا ثلاث روايات​
  • - إحداها أنه يضعهما تحت الصدر فوق السرة وهي التي ذكرها الشافعي في الأم وهي المختارة المشهورة عند أصحابه المذكورة في أكثر متونهم وشروحهم​
  • - الثانية وضعهما على الصدر وهي الرواية التي نقلها صاحب الهداية من الشافعي وقال العيني إنها المذكورة في الحاوي من كتبهم​
  • -الثالثة وضعهما تحت السرة​
  • وقد ذكر هذه الرواية في شرح المنهاج بلفظ قيل وقال في المواهب اللدنية إنها رواية عن بعض أصحاب الشافعي​
  • -اسی طرح ہدایہ جو کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے اس میں بھی صاحب ہدایہ نے امام شافعی کا یہی مؤقف بیان کیا ہے:وعلى الشافعي رحمه الله تعالى في الوضع على الصدر​
  • -اردو دان طبقہ احسن الھدایہ شرح ھدایہ مکتبہ رحمانیہ جلد نمبر 2 صفحہ 31 اور 32 پر امام شافعی ؒ کا یہ مؤقف دیکھ سکتے ہیں​
  • -الكتاب: بداية المحتاج في شرح المنهاج​
  • المؤلف: بدر الدين أبو الفضل محمد بن أبي بكر الأسدي الشافعي ابن قاضي شهبة (798 - 874 هـ)​
  • نماز جنازہ میں ہاتھ باندھنے کے متعلق فرماتے ہیں​
  • الشافعي ويضع يديه على صدره بعد كل تكبيرة؛ كما في غيرها.​
  • تیسرا حوالہ​
  • عبد اللہ بن مبارک تحفۃ الاحوذی میں امام سیوطیؒ کا عمل لکھتے ہیں​
  • وقد اختصره كما قال السيوطي في شرح ألفيته والظاهر أن الزيلعي الذي شمر ذيله بجمع أدلة المذهب لم يظفر بها وإلا لذكرها وهو من أوسع الناس اطلاعا وهذا السيوطي الذي هو حافظ وقته يقول في وظائف اليوم والليلة وكان يضع يده اليمنى على اليسرى ثم يشدهما على صدره​
  • چوتھا حوالہ​
  • اسحاق بن راھویہؒکاچھاتی پر ہاتھ باندھنے کا عمل​
  • عنوان الكتاب: مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه​
  • تأليف: إسحاق بن منصور المروزي​
  • دراسة وتحقيق:​
  • الناشر: عمادة البحث العلمي، الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة، المملكة العربية السعودية​
  • الأولى، 1425هـ/2002م​
  • [3547-*] وكان إسحاق يرى قضاء الوتر بعد الصبح ما لم يصل الفجر،ويرفع يديه في القنوت الشهر كله، ويقنت قبل الركوع، ويضع يديه على ثدييه أو تحت الثديين،۔۔۔۔)​
  • احناف کا دوسرا اعراض کہ علی الصدر سے مراد تحت الصدر ہے​
  • احناف جب ان دلائل کا جواب نہیں دے سکتے تو ایک اور اعتراض کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ امام شافعیؒ و دیگر کا مؤقف علی الصدر کا موجود ہے لیکن ا س سے مراد تحت الصدر ہے۔​
  • ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ اب کوئی حنفی اس آیت کا معنی تحت السماوات کرتا ہے؟؟؟​
  • - إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب-72)​
  • یا ان آیات کا معنی تحت الارض کرتا ہے؟؟؟؟​
  • -وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ ھَوْنًاوَإِذَاخَاطَبَهُمُالْجَاهِلُونَقَالُواسَلَامًا(الفرقان۔63)​
  • -إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الکھف-7)​
  • -وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (نوح۔26)​
  • اب کل کو کوئی کہے کہ علی السماوات سے مراد تحت السماوات ہے یا علی الارض سے مراد تحت الارض ہے تو کیا ہم مان لیں کہ سب ٹھیک ہے؟؟؟؟؟​
  • جیسے ان آیات میں معنی واضح ہے ویسے ہی علی الصدر والی احادیث میں معنی واضح ہے ۔​
  • احناف کا تیسرا اعتراض کہ فوق السرۃ سے مراد تحت الصدر ہے​
  • یہ بات یادرہے فوق السرۃ کی احادیث موجود ہیںاور فوق السرۃ بھی سینے میں ہی شامل ہے۔کیونکہ فوق السرۃ یعنی ناف سے اوپر سینے ہی پسلیاں موجود ہیں اور سینے کی پسلیاں سینے ہی شامل ہیں ۔​
  • احناف کا اعتراض کہ ہماری ناف کا اوپر تو پیٹ ہے سینہ نہیں۔۔​
  • تو عرض یہ ہے کہ پیٹ کا کچھ حصہ موجود ہے وہ بھی سینے کی پسلیوں کے درمیان۔ آپ کو پیٹ تو دکھائی دیا لیکن پسلیاں نظر نہ آئیں آخر کیؤں؟؟​
  • والسلام علی من اتبع الھدی​
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اسی اختلاف کی وجہ سے دلائل کی بنیاد پر علماءکے مختلف مؤقف ہیں۔
اس کا جواب دینے سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ اگر یہ اختلاف اولی ، غیر اولی تک محدود ہوتا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے کہ ایک مکتب فکر کا اجتہاد ہے۔لیکن اسے بدعت کہنا اور سلف صالحین کی مخالفت کہنا سراسر تشدد ہے جو کہ تعصب کی بنا پر ہے۔
نام نہاد اہلحدیثوں کو جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ تو تمام احادیث ہی کے خلاف ہے اور حدیث نفس والا ہے۔
کسی حدیث کی کتاب میں پوری ذراع پر ذراع رکھنے کا ذکر نہیں۔
زبیر علی زئی مرحوم نے حدیث کی غلط تشریح کرتے ہوئے پوری ذراع پر پوری ذراع رکھنے کی ترغیب دے دی۔
ان کی اپنی تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
احناف کی مخالفت کے لئے۔
اللہ کے بندے اگر احناف کا عمل سنت ثابتہ ہو تو کیا اس کی بھی مخالفت کرنا لازم ٹھہرا؟؟؟؟؟؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
  • اس کا جواب دینے سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ اگر یہ اختلاف اولی ، غیر اولی تک محدود ہوتا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے کہ ایک مکتب فکر کا اجتہاد ہے۔لیکن اسے بدعت کہنا اور سلف صالحین کی مخالفت کہنا سراسر تشدد ہے جو کہ تعصب کی بنا پر ہے۔​
  • اسے بدعت کہنے والوں کو مین کہوں گا اگر میں صرف کوئی ایک حدیث بھی اس موضوع پر پیش کر دوں تو آپ کے دعوی کی بنیاد ہی ختم ہو جائےگی./QUOTE]​
دو اردو فقروں کے معانی جو نا سمجھ سکے اسے سمجھانا عبث ھے ۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
زبیر علی زئی مرحوم متعصب شخص تھا (معذرت کے ساتھ) دیگر نام نہاد اہلحدیثوں کی طرح۔
ثبوت ملاحطہ ہو۔
مختصر نماز نبوی میں لکھا ہے کہ ؛

upload_2020-3-13_10-46-11.png

upload_2020-3-13_10-55-22.png

یعنی مقصد ہاتھوں کو ناف سے اوپر لانا ہے بھلے بات بیوقوفی کی حد تک پہنچ جائے :)
کیا ہاتھ پوری ذراع پر آسکتا ہے؟
کوئی شریف آدمی بتائے؟
اگر ہاتھ ذراع کے بعض پر ہی آنا ہے (یقیناً ایسا ہی ہے) تو اپنی مرضی کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کی جگہ کو کیوں نا چنا جائے!؟
جب دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، گٹ اور ساعد پر رکھا جائے تو وہ ذراع پر ہی ہوتا ہے کہ ذراع نام ہی ان اجزاء کے مجموعہ کا ہے۔

مزید برآں اگر سیدھا ہاتھ الٹی ذراع کی کہنی کے پاس رکھا جائے تو ناف سے اوپر تو ضرور آجائے گا مگر سینہ پر بھی نا پہنچ پائے گا جس کے لئے اس قدر دیدہ دلیری سے سنت کی مخالفت کرانے کی کوشش کی۔
 
Top