• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیکولرزم کے بارے میں شرعی فیصلہ

علمائے اسلام اور فقہاء عظام نے سیکولرزم کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ”دہریت“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا وہ کفر صریح ہے، اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، مسلمانوں میں سیکولرزم فکرکے ان حاملین کو منافقین کہا جائے گا، جو اسلامی تعلیمات کا انکار کرے، سیکولرزم کو حق بجانب تصور کرے، اسلامی محرمات کو حلال گردانے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیکولرزم کے دنیا پر اثرات

سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟

ہم مسلمان ،ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد ہے اور ہمارے رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت وسیاست کرے، مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔

(۱) سب سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے
وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩۔(آل عمران) تم ہی سر بلند رہو گے اگر موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔

(۲) کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں ہے ”ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا“۔

(۳) تقویٰ، یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔

(۴) اسلا می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔

(۵) دعا کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔

(۶) غفلت سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔

(۷) اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔

(۸) ٹیلی ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔

اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب العالمین!

***
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچوں کو صحبتِ زاغ

عیسائی مغرب سیکولرزم کی یہ تعریف کرتا ہے
"The view or belief that soceity's values and standards should not be influenced by religion or church."
(Chambers 21st Century Dictionary, P.1269)

ان مغربی نظریات میں سے بیشتر اپنی طبعی موت مر چکے ہیں جبکہ چند ایک موت و زیست کی کشمکش میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں۔ سیکولرزم کا شمار بھی انہی میں ہے۔
درج بالا تعریف کی رو سے پوری دنیا میں صرف دو معاشر ے ہیں جنہیں بڑی حد تک سیکولر یا بے دین کہا جا سکتا ہے۔
ایک ہے ہندو معاشرہ اور دوسرا عیسائی مغرب۔ اپنی نہاد میں یہ دونوں ہی معاشرے اُس مذہبی فکر سمیت جس کے وہ حامل ہیں ہمیشہ بے دین ہی رہے ہیں۔ نہ ہندو مت معروف معنوں میں کوئی مذہب ہے اور نہ عیسائیت۔ بنیادی طور پر یہ دونوں دو ثقافتی مظاہر ہیں جنہوں نے اپنی شناخت اور بقاءکے لیے کچھ رسوم و رواج اور مندر اور چرچ جیسے ادارے کھڑے کرلیے ہیں جہاں چند خاص موقعوں پر مذہب کے نام پر کچھ کارروائی عمل میں آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ہر فرد اپنی اپنی طرزِ فکر و عمل میں آزاد ہوتا ہے تاکہ: آتما بھی خوش رہی، پرماتما بھی شاد ہو رقص گاہیں جگمگائیں، چرچ بھی آباد ہو اسلام میں تو دین و دنیا کی ثَنَویت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات ہے
آپ کہہ دیں کہ میری نماز، میرے مناسک ِ عبودیت، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہی، جس کا کوئی ساجھی نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میں اپنے اللہ ربّ العٰلمین کے حضور سرِتسلیم خَم کرنے میں پہل کرنے والا ہوں۔
(الانعام162-163)
ایک دوسری حقیقت بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو چونکہ اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے اسی لیے اس کی فطرت میں مذہب سے وابستگی کا جذبہ بھی ودیعت کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ َادَھرمی یا لادینیت کے عروج کے ادوار میں بھی ہندو اور عیسائی معاشرے کسی نہ کسی طور مذہب کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں۔ ہندو مہاسبھا، جن سنگھ، بجرنگ دل، شیوسینا،راشٹریہ سویم سیوک سنگھ وغیرہ نام سے کٹر ہندو سیاسی، مذہبی اور نیم عسکری تنظیمات قیام پاکستان کے بعدہی وجود میں آگئی تھیں اور آج آریہ ورت میں ”ہندوتوا“ کا چرچا ہے۔ اسی طرح مغرب مذہبی احیا ءکے مختلف مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ بش دور کے امریکہ میں نیوکونز (neo-cons)اور آج برطانیہ میں مذہب کی جانب مائل Conservatives کی حکومت اس کی ایک مثال ہے۔ نائن الیون کے بعد کا دور اسلامیانِ عالم کے لیے ابتلاءکا دور ہے مگر قدرت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ انہی اسلام اور مسلم دشمن معاشروں میں طالبانِ حق کا بھی ایک گروہ ہے جو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہا ہے۔ ماضی کاکالا پانی جزائر انڈمان، اور نکوبار ہو کہ دورِحاضر کا خلیجِ گوانتانامو کا عقوبت خانہ، اسلام کی طرف واپسی کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے اور مصورِ پاکستان اوربانی پاکستان کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دینی بنیادوں پر استوار جس دو قومی نظریے کی بناءپر اسلامیانِ برصغیر کو یہ مملکت خداداد عطا کی ہے وہاں سیکولرزم کا جادو بھلا کیا چل سکتا ہے!

کمال تو یہ ہے کہ مصطفی کمال کا ترکی حقیقی معنوں میں کبھی سیکولر نہیں ہوسکا۔ وہ سرزمین جہاں نماز و اذان کی قرآنی زبان میں ادائیگی پر پابندی تھی، وہیں حق تعالیٰ نے بدیع الزمان سعید نورسی مرحوم و مغفور (مارچ 1878 - 23 مارچ 1960ء) جیسی سعید روحوں کو بیدار کردیا اور انہوں نے وہ کام کردکھایا کہ عربی اب وہاں پاکستان کی بہ نسبت کہیں زیادہ پڑھی، بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔
اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو ایام حج میں منیٰ و عرفات میں نوجوان ترک فرزندان و دخترانِ اسلام سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ دُور نہیں جاسکتے تو یہیں اسلام آباد کے معروف تعلیمی نیٹ ورک ”پاک ترک اسکول“کے ترک اساتذہ اور اربابِ حل و عقد سے عربی میں ہمکلام ہونے کی سعادت حاصل کرلیں اور پھر دیکھیے تماشہ مصطفی کمال کی لادینیت کا۔ موجودہ ترکی کے سیاسی محاذ کے مجاہد جناب رجب طیب اردغان سے ایک جانب اسرائیل
لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب روح اتاترک انگشت بدنداں۔
(بشکریہ: شکیل احمد چوہان)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیں ہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدّد کے خلاف رَدعمل کا نام ہیں جو دُنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوں کو بہت بھاتے ہیں ۔

وہ جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انھیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کرخدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کے بجاے اسلام کی تعلیمات کا ان کے اصل ماخذ قرآن و حدیث سے مطالعہ کرکے، اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علماے حق کے ساتھ بیٹھ کراجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے جن کا حل ان کے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوں کے بس کی بات نہیں۔

آج کے دگرگوں حالات میں بقا ، نجات، آزادی، عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہلِ اسلام خود قرآن و سُنّت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کے خلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں، اور پھر دُنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظامِ زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دُنیا کے انسانوں کو محبت، سکون، امن ، خوش حالی، قناعت، ہمدردی، اطمینانِ قلب، خدا سے تعلق اور روحانی لگاؤ عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
محمد فاروق ناطق
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچوں کو صحبتِ زاغ

عیسائی مغرب سیکولرزم کی یہ تعریف کرتا ہے
"The view or belief that soceity's values and standards should not be influenced by religion or church."
(Chambers 21st Century Dictionary, P.1269)

ان مغربی نظریات میں سے بیشتر اپنی طبعی موت مر چکے ہیں جبکہ چند ایک موت و زیست کی کشمکش میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں۔ سیکولرزم کا شمار بھی انہی میں ہے۔
درج بالا تعریف کی رو سے پوری دنیا میں صرف دو معاشر ے ہیں جنہیں بڑی حد تک سیکولر یا بے دین کہا جا سکتا ہے۔
ایک ہے ہندو معاشرہ اور دوسرا عیسائی مغرب۔ اپنی نہاد میں یہ دونوں ہی معاشرے اُس مذہبی فکر سمیت جس کے وہ حامل ہیں ہمیشہ بے دین ہی رہے ہیں۔ نہ ہندو مت معروف معنوں میں کوئی مذہب ہے اور نہ عیسائیت۔ بنیادی طور پر یہ دونوں دو ثقافتی مظاہر ہیں جنہوں نے اپنی شناخت اور بقاءکے لیے کچھ رسوم و رواج اور مندر اور چرچ جیسے ادارے کھڑے کرلیے ہیں جہاں چند خاص موقعوں پر مذہب کے نام پر کچھ کارروائی عمل میں آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ہر فرد اپنی اپنی طرزِ فکر و عمل میں آزاد ہوتا ہے تاکہ: آتما بھی خوش رہی، پرماتما بھی شاد ہو رقص گاہیں جگمگائیں، چرچ بھی آباد ہو اسلام میں تو دین و دنیا کی ثَنَویت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات ہے
آپ کہہ دیں کہ میری نماز، میرے مناسک ِ عبودیت، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہی، جس کا کوئی ساجھی نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میں اپنے اللہ ربّ العٰلمین کے حضور سرِتسلیم خَم کرنے میں پہل کرنے والا ہوں۔
(الانعام162-163)
ایک دوسری حقیقت بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو چونکہ اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے اسی لیے اس کی فطرت میں مذہب سے وابستگی کا جذبہ بھی ودیعت کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ َادَھرمی یا لادینیت کے عروج کے ادوار میں بھی ہندو اور عیسائی معاشرے کسی نہ کسی طور مذہب کی طرف لوٹتے نظر آتے ہیں۔ ہندو مہاسبھا، جن سنگھ، بجرنگ دل، شیوسینا،راشٹریہ سویم سیوک سنگھ وغیرہ نام سے کٹر ہندو سیاسی، مذہبی اور نیم عسکری تنظیمات قیام پاکستان کے بعدہی وجود میں آگئی تھیں اور آج آریہ ورت میں ”ہندوتوا“ کا چرچا ہے۔ اسی طرح مغرب مذہبی احیا ءکے مختلف مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ بش دور کے امریکہ میں نیوکونز (neo-cons)اور آج برطانیہ میں مذہب کی جانب مائل Conservatives کی حکومت اس کی ایک مثال ہے۔ نائن الیون کے بعد کا دور اسلامیانِ عالم کے لیے ابتلاءکا دور ہے مگر قدرت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ انہی اسلام اور مسلم دشمن معاشروں میں طالبانِ حق کا بھی ایک گروہ ہے جو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہا ہے۔ ماضی کاکالا پانی جزائر انڈمان، اور نکوبار ہو کہ دورِحاضر کا خلیجِ گوانتانامو کا عقوبت خانہ، اسلام کی طرف واپسی کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے اور مصورِ پاکستان اوربانی پاکستان کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دینی بنیادوں پر استوار جس دو قومی نظریے کی بناءپر اسلامیانِ برصغیر کو یہ مملکت خداداد عطا کی ہے وہاں سیکولرزم کا جادو بھلا کیا چل سکتا ہے!

کمال تو یہ ہے کہ مصطفی کمال کا ترکی حقیقی معنوں میں کبھی سیکولر نہیں ہوسکا۔ وہ سرزمین جہاں نماز و اذان کی قرآنی زبان میں ادائیگی پر پابندی تھی، وہیں حق تعالیٰ نے بدیع الزمان سعید نورسی مرحوم و مغفور (مارچ 1878 - 23 مارچ 1960ء) جیسی سعید روحوں کو بیدار کردیا اور انہوں نے وہ کام کردکھایا کہ عربی اب وہاں پاکستان کی بہ نسبت کہیں زیادہ پڑھی، بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔
اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو ایام حج میں منیٰ و عرفات میں نوجوان ترک فرزندان و دخترانِ اسلام سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ دُور نہیں جاسکتے تو یہیں اسلام آباد کے معروف تعلیمی نیٹ ورک ”پاک ترک اسکول“کے ترک اساتذہ اور اربابِ حل و عقد سے عربی میں ہمکلام ہونے کی سعادت حاصل کرلیں اور پھر دیکھیے تماشہ مصطفی کمال کی لادینیت کا۔ موجودہ ترکی کے سیاسی محاذ کے مجاہد جناب رجب طیب اردغان سے ایک جانب اسرائیل
لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب روح اتاترک انگشت بدنداں۔
(بشکریہ: شکیل احمد چوہان)
بھائی اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سیکولر ازم

عام طور پر سیکولر ازم کا معنی لادینیت سمجھا جاتا ہے۔ سیکولرازم کے حامیوں کے نزدیک یہ لادینیت کے مترادف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ کر دیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ معاشروں کی اکثریت متعدد مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ اگر کسی ایک مذہب کو یہ حق دیا جائے کہ وہ پبلک لاء بن کر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو متاثر کرسکے تو یہ مذہبی آزادی کے منافی ہو گا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی اقلیتیں اس بات پر مجبور ہو جائیں گی کہ وہ ریاست کی وفادار شہری بن کر نہ رہیں۔

مغربی ممالک سیکولرازم کو پوری طرح اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے ہاں سیکولرازم کے متعدد ماڈل موجود ہیں۔ ان میں ایک ماڈل فرانس (اور مسلم دنیا میں ترکی) کا ہے جس میں پبلک مقامات پر مذہبی علامات کے اظہار تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا ماڈل ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن ریاست کے تمام تر معاملات میں مذہب کو استعمال نہیں کیا جاتا۔

مسلم ممالک کے ہاں اس معاملے میں متضاد رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کے نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کو اجتماعی بنیادوں پر اپنا نظام صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم کرنا چاہیے۔ اقلیتوں کو ان کے پرسنل لاء کی آزادی دی جائے لیکن پبلک لاء صرف اور صرف اسلام کا ہونا چاہیے۔ اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں اسلامی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسی نقطہ نظر کو سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں نے مکمل طور پر اور پاکستان کے آئین میں جزوی طور پر اختیار کیا گیا ہے۔

دوسرا نقطہ نظر بالعموم مسلم حکمرانوں کا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر سیکولر ذہن کے مالک ہیں اور سیکولر ازم کو پسند کرتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتیں سیکولر ازم کی حامی ہیں اور ان کے مذہبی علماء اسی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔

اگر غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیکولر ازم ایک مثبت تبدیلی ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں اسے منفی تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ دین اسلام ہر غیر مسلم قوم کو اس کے پرسنل لاء کی آزادی دیتا ہے۔ عبادات، فیملی لاء، وراثت اور بہت سے دیگر معاملات میں ہر غیر مسلم قوم کو اپنے عقیدے اور نظریے پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دینا مسلمانوں کی حکومت پر لازم ہے۔

رہا سوال پبلک لاء کا جس میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق بلا کسی مذہب کے تمام اقوام سے ہے۔ اس کی واضح مثال مملکت کا سیاسی نظام، اس کی معاشی پالیسی، عوام کو سہولیات فراہم کرنا، جرائم کی سزا، امن و امان وغیرہ کے مسائل ہیں۔

جب بھی کوئی قوم اپنے ملک کے پبلک لاء سے متعلق کوئی قانون سازی کرتی ہے تو وہ اپنی طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو اہمیت دیتی ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو تو یہ بالکل ہی نامعقول بات ہو گی کہ مسلمان قانون سازی میں اپنے طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہب کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں۔ ایسا مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا اور ان کے ہاں بھی اکثریت کے مذہب یا روایات کو پبلک لاء سے متعلق قانون سازی میں اہمیت (Weightage) دی جاتی ہے۔ جمہوری نظام کا تقاضا یہ ہے کہ اکثریت کو اقلیتوں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اپنی روایات اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کا حق دیا جائے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولر ازم کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے جو پہلو دین اسلام سے متصادم ہوتے ہیں، ان میں ضروری تغیر و تبدل کر کے انہیں دین اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ سیکولر ازم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین کے بہت سے احکام مسلمانوں کو اجتماعی حیثیت سے دیے گئے ہیں۔ اگر ریاست کو مکمل طور پر لادین بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں تو اچھے مسلمان ہوں مگر اجتماعی طور پر وہ اللہ تعالی سے یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ اس طرز عمل کو منافقت کے علاوہ شاید ہی کوئی نام دیا جا سکے۔

اس معاملے میں سب سے اچھی مثال ملائشیا نے قائم کی ہے۔ ان کے ہاں اسلامی قوانین کو مسلمانوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے لئے ان کےاپنے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں یا پھر سیکولر قوانین موجود ہیں۔

ریاست کا معاشرے میں مذہبی کردار

سیکولر ازم سے متعلق ایک اور تبدیلی جدید سیاسی نظریے میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی دور جدید میں پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ریاست کو معاشرے میں مذہبی کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست کو اپنے شہریوں پر مذہب کو بزور طاقت نافذ کرنا چاہیے؟

جدید سیاسی نظریے میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتی اگرچہ فرانس اور ترکی جیسے ممالک میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔

مسلم ممالک میں اس معاملے میں دو نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً اپنے شہریوں پر نافذ کرنا چاہیے۔ روایتی مذہبی طبقہ بالعموم اسی نقطہ نظر کا حامی ہے۔ دوسرا گروہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ہے جو اس معاملے مغربی نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک تیسرا نقطہ نظر بھی اس معاملے میں موجود ہے جس کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً نافذ کرنے کی بجائے دعوت و اصلاح کے ذریعے پھیلانا چاہیے اور اس ضمن میں سرکاری وسائل کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔

اگر دین اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ اس کا اہم ترین حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے۔ ان اخلاقیات کے بارے میں اسلام، دیگر مذاہب اور یہاں تک کہ لادین حلقوں میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں۔ دین اسلام میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے عوام کی اخلاقی اصلاح کے لئے کوشش کرے۔ اس کوشش کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا نام دیا گیا ہے۔

معروف سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا نیکی ہونا انسانوں کے نزدیک مسلمہ حیثیت کا حامل ہو جیسے دیانت داری، عجز و انکسار ، غرباء کی مدد وغیرہ۔ اسی طرح منکر سے مراد وہ برائیاں ہیں جو انسانوں کے نزدیک مسلمہ طور پر برائی سمجھی جاتی ہوں جیسے چوری، قتل، بد دیانتی، جھوٹ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان نیکیوں کی ترویج اور برائیوں کے خاتمے سے کسی غیر مسلم یا سیکولر شخص کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔

دین اسلام کا دوسرا حصہ عقائد اور شریعت پر مشتمل ہے۔ اس حصے سے غیر مسلموں کو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ شریعت کے معاملے میں مختلف مسلم فرقوں اور مسالک کے مابین اختلافات بھی موجود ہیں۔ اس معاملے میں یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ ہماری رائے میں حکومت کو یہ معاملہ خود انجام دینے کی بجائے مختلف مذاہب کے ایسے اہل علم پر چھوڑ دینا چاہیے جو اپنے نقطہ نظر کو معقولیت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت ایک مسلک کو بزور نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے فرقوں کی جانب سے بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کو سوائے انتشار کے کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔

ہمارے نزدیک موجودہ دور میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے کیونکہ اگر ریاست معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لئے کام نہ کرے گی تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار اور بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ ہماری رائے میں حکومت کو اخلاقیات کے فروغ کی حد تک اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ رہے دیگر مذہبی معاملات تو ان کو مذہبی علماء کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اس معاملے میں مذہبی علماء کی تربیت کی ضرورت بھی ہے تا کہ وہ ان اختلافات کو بڑھا کر تفرقہ بازی کی سطح تک نہ لے جائیں بلکہ مثبت انداز میں اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت سے واقف ہوں۔

عالمگیریت
موجودہ دور کی ایک اہم تبدیلی عالمگیریت کی تحریک ہے۔ دنیا بھر میں یہ تحریک جاری ہے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو ایک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ معاشی میدان میں اس تحریک کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی صورت میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ معاشرت کے میدان میں بھی اس تحریک کو کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر کسی حد تک ایک ملٹی نیشنل کلچر وجود پذیر ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں اس تحریک کو اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

گلوبلائزیشن کی اس تحریک کے بالمقابل علاقائیت (Regionalism) کی تحریک بھی دنیا میں چل رہی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں یورپی یونین کا بہت بڑا اتحاد معرض وجود میں آ چکا ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی معاشی بنیادوں پر ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمگیریت کے خلاف اینٹی گلوبلائزیشن کی تحریک بھی موجود ہے جس میں مختلف سطحوں پر عالمگیریت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

ہماری رائے میں، معاشی گلوبلائزیشن کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دیگر میدانوں میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی مثبت ہے۔ دینی نقطہ نظر سے اس تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ معاشروں کے اوپن ہونے کے نتیجے میں دین اسلام اور مثبت اقدار کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بہت سے نئے مواقع پیش آ رہے ہیں۔
 
Top