زانیہ سے شادی کے متعلق درج فتوی ملاحظہ فرمائیں :
سوال :
ایک آدمی نے بازاری عورت سے شادی کی ہے شادی سے پہلے وہ مرد اس عورت سے ناجائز تعلقات قائم کرتا رہا ہے اور اب انہوں نے شادی کر لی ہے ہمارے ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ جس سے زنا کیا جائے اس سے نکاح نہیں ہو سکتا؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قاری صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی بات درست ہے واقعی ایسا نکاح حرام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾--نور3 ’’اور حرام کیا گیا ہے یہ اوپر ایمان داروں کے۔‘‘زانی کا زانیہ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کا زانی یا مشرک کے ساتھ نکاح مومنوں پر حرام ہے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اس مقام پر ذٰلک اسم اشارہ سے زنا مراد لینا ضعیف اور کمزور ہے‘‘ نیز نکاح کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمانا﴿مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾--النساء25 ’’وہ پاک دامن ہوں نہ اعلانیہ زنا کرنے والی نہ چھپے یاروں والی ] اور بیان کرنا ﴿مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیٓ أَخْدَانٍ﴾--مائدة5 ’’تمہاری نیت نکاح کی ہو نہ زنا کرنے کی اور نہ پکڑنے والے چھپی دوستی‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے مرد اور عورت دونوں کا عفیف اور پاکدامن ہونا ضروری ہے مزید تفصیل کے لیے سورۃ النور کے آغاز والی آیات کی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں پڑھ لیں۔
ہاں زنا کے بعد توبہ ہو جائے اور ان کی توبہ کا مبنی بر اخلاص ہونا شواہد وقرائن سے لوگوں پر واضح ہو جائے تو بعد ازاں انکا نکاح درست ہوگا۔
محدث فتویٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس آیت کریمہ کے معنی کیا ہیں؟
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور
’’زانی مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ کے کسی سے شادی نہیں کر سکتا اور زانیہ سے بھی سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور کوئی شخص نکاح نہیں کر سکتا، اور یہ( بدکاروں سے نکاح) اہل ایمان(تمام مسلمانوں ) کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔‘‘
کیا اس جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ایمان ختم ہو جاتا ہے اور انسان مشرک ہو جاتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب ہم اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہیں، جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو ذکر فرمایا ہے:
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سور ة النور
’’او یہ مومنوں پر حرام ہے۔‘‘
تو ان الفاظ سے ہم زانی مرد اور عورت کے نکاح کی حرمت کا حکم اخذ کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی زانیہ عورت سے شادی کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ کسی زانی مرد کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے اور جب ہم نے یہ جان لیا کہ
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سور ة النور
تو جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اگر وہ اس کی حرمت کو جانتا ہے اور اس حکم کو جانتے ہوئے محض اپنی خواہش نفس اور شہوت سے بدکار عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ بھی زانی ہو گا کیونکہ اس نے ایک ایسا حرام عقد کیا ہے جس کے بارے میں وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ معلوم ہے کہ عقد حرام شرمگاہ کو اس سے لطف اندوز ہونے کو جائز قرار نہیں دیتا۔ لہٰذا اس آدمی کے اس بدکار عورت کی شرمگاہ کو حلال سمجھنے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس سے نکاح کرنا حرام ہے، نکاح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا یہ فعل زنا ہے، یا اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ اس حکم کو نہیں مانتا ہو گا اور کہتا ہو گا کہ اس عورت سے شادی بالکل حرام نہیں بلکہ حلال ہے تو اس صورت میں وہ مشرک ہو گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شارع بنا وہ اللہ تعالیٰ کا شریک بن بیٹھا ، اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...٢١﴾... سورة الشورى
’’کیا وہ ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اس کے بندوں کے لئے دین کی ایسی باتیں ایجاد کرتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، شریک قرار دیا ہے تو یہ آدمی جس نے اپنے لئے زانیہ کو حلال قرار دے لیا ہے اور اس سلسلے میں حکم شرعی کی پابندی نہیں کی تو یہ مشرک ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ زانیہ سے نکاح کرنے والا اگر اسے حرام جانتا اور مانتا ہے تو وہ زانی ہو گا اور اگر وہ اسے حرام نہیں سمجھتا بلکہ اس کی حرمت کا منکر ہے تو وہ مشرک ہو گا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام کو حلال قرار دے لیا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ...٣﴾... سورة النور
’’بدکار عورت کو بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا۔‘‘
اگر یہ شخص بدکار عورت سے نکاح کی حرمت کو جانتے بوجھتے ہوئے نکاح کرتا ہے تو یہ زانی ہے اور اگر یہ حرمت کو نہیں مانتا تو یہ مشرک ہے یہی بات ہم اس شخص کے بارے میں کہیں گے جو کسی زانی مرد سے اپنی بیٹی کا نکاح کرتا ہے ہاں البتہ توبہ کرنے سے یہ حکم ختم ہو جائے گا یعنی اگر بدکار مرد اور عورت بدکاری سے توبہ کر لیں تو ان سے زانی کا واصف زائل ہو جائے گا جس طرح توبہ کرنے اور فسق ترک کرنے سے فسق کا وصف زائل ہو جاتا ہے لہٰذا اگر زانی مرد و عورت توبہ کر لیں تو پھر نکاح حلال ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ج3ص274
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاصل یہ کہ :
زانی یا زانیہ سے توبہ سے پہلے نکاح جائز نہیں ، توبہ کے بعد ایسے مرد و عورت سے نکاح درست ہے؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔