بارک اللہ فیک بھائی ۔۔اسے آج کل کی لڑکیوں کی ترجمانی نہ کہیں کیونکہ ان کے اور میرے نظریات میں زمین ،آسمان کا فرق ہے ۔ویسے بھی آج کل کی پڑھی لکھی لڑکیوں میں کوئی بھی مجھے اپنا ترجمان بنانا پسند کرے گی نہ ہی میں ان کی ترجمان بننا پسند کروں گی۔۔ماشاء اللہ آپ نے بہت عمدہ طریقے سے آج کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی ”ترجمانی“ کی ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ تاکہ کھلے مکالمہ کے ذریعہ اکثر لڑکیوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا تجزیہ کیاجاسکے۔
بہت خوب۔ اسلام کے محاسن پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ” اسلام نے ایسی خاتون کو ذلیل و رسوا کر دیا ہو جس کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی “
نظر انداز کرنا اور بات ہےلیکن مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں کہ ایسی عورتوں یا لڑکیوں کو نظر انداز کریں
ان شاء اللہ العزیز آپ مجبور ہوں جائیں گے کہ اس حدیث میں موجود پیارے پیغمبر ﷺ کی فقاہت کو سمجھیں۔کیا ” نکاح “ کا واحد مقصد صرف اور صرف ” اولاد “ کا حصول ہے کوئی اور نہیں ؟
اسلام میں کوئی قباحت نہیں۔اگر کوئی مرد پہلا نکاح کسی ایسی عورت یا لڑکی سے کر لے جبکہ وہ عورت یا لڑکی کا بھی پہلا نکاح ہو تو کیا قباحت ہے۔
اچھوت اور چھوت چھات جیسے الفاظ سے وہی لوگ واقف ہیں جن کی تعلیم میں ہندوانہ ذات پات کا علم اور عمل شامل ہے۔کیا ہمارا یہ طرزِ عمل ظاہر نہیں کرتا کہ ایسی عورت یا لڑکی پہلے نکاح کےلیے ” اچھوت “ ہے ؟
پنجابی کی مثال ہےکیا آپ مانتے ہیں کہ ایسی عورت یا لڑکی نکاح کےلیے ” ثانوی “ حیثیت رکھتی ہے۔
کیا آپ مانتے ہیں کہ ایسی عورت یا لڑکی نکاح کےلیے ” ثانوی “ حیثیت رکھتی ہے۔
مشکوٰۃ سسٹر۔محترم آصف بھائی !
مجھے آپ کی کسی بات پر اب غصہ آیا ہے نہ پہلے۔اصلاح فرما لیجئے۔۔۔ابتسامہ
باور کروانے کا شکریہ کہ میں ان میں سے نہیں جن کی بات چل رہی ہے ،آئندہ احتیاط برتوں گی ،،ان شاء اللہ
جناب جہاں آپ کی مراد نہ سمجھا اس کے متعلق اوپر میں معذرت کرچکا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر معذرت چاہوں گا ۔آپ نے میرا مراسلہ پڑھے بغیر ہی مجھ پر تیروں کی برسات کردی
شاید یہ آپ ہی کے الفاظ ہیںمیں نے خود سے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا بلکہ صرف اس کی تخریج یا مفہوم کو صحیح طور پر بیان کرنے کی درخواست کی تھی -
میرے خیال میں شاید یہ ضعیف حدیث ہے - (واللہ اعلم)-
جی معذرت معلوم نہیں تھا کہ آپ مجتہد بھی ہیں۔ویسے بھی اجتہادی غلطی کس سے نہیں ہوتی۔
پھر تو آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ کیا مذکورہ حدیث کی درایت پر سلف صالحین میں سے کسی نے اعتراض کیا ہے ؟مزید یہ کہ حدیث کا علم جاننے والوں سے کبھی پوچھیے گا کہ حدیث نبوی کو پرکھنے کے لئے صرف روایت کا اصول ہی کافی نہیں درایت کا اصول کو بھی دیکھنا پڑتا ہے -
اللہ نہ کرے کہ میں ان کے بارے میں ایسی بات کہوں۔ البتہ ان کے معاصر اور نزدیک کے زمانے کے علما نے ان کے لیے متشدد وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔تو کیا آپ ابن جوزی کے بارے میں یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کو کوئی مرض لاحق تھا ؟؟
اس بات کا ہماری بھث سے کوئی تعلق نہیںامام بخاری رح اور امام مسلم رح کی صحیین امام مہدی رح سے متعلق روایات سے خالی ہیں - جب کے ان کے استادوں کے پاس مہدی رح سے متعلق روایات موجود تھیں - تو کیا ہم بخاری اور مسلم کے بارے میں کہ سکتے ہیں کہ انھیں کوئی مرض لا حق تھا -کہ انہوں نے امام مہدی رح سے متعلق روایات کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی -؟؟
درج بالا آیت مبارکہ سے جو مطلب آپ نے قوسین میں اخذ کیا ہے وہ مجھے سرسری تلاش میں کسی تفسیر میں نہیں ملا۔ براہِ کرم اگر یہ جناب کی خود ساختہ تفسیر نہیں ہے تو حوالہ عنایت فرمادیں۔محترم ذرا اس آیت کو بھی پڑھ لیں اور جو اس کے مطابق عمل نہیں کرتا اس پر تنقید کریں تو بہتر ہو گا-
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں )-
اوپر ہائی لائٹ کی گئی بات آپ نے مان لی بات ختم ہوئی۔ باقی آپ کا مجھ کو ” منکرِ حدیث “ کی صف میں شامل کرنا آپ کی ” تنگ نظری یا جہالت “ ہے اور دوسری غیر متعلقہ باتوں کو میں جان بوجھ کر نظرانداز کر رہا ہوں کیونکہ میں نے سوال ” الف “ کیا تھا لیکن آپ نے جواب ” ب “ دیا۔بہت خوب۔ اسلام کے محاسن پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
نظر انداز کرنا اور بات ہے
جبکہ
حدیث میں فوقیت کی بات کی گئی ہے۔
بقول آپ کے مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں۔ یعنی بظاہر بات تو آپ مسلمانوں کی کر رہے ہیں لیکن یہ تو سوچئے کہ آپ کے اس طرزِ عمل سے کس پر تنقید ہو رہی ہے۔
اگر سمجھ نہیں آئی تو میں بتا دیتا ہوں
آپ کے اس طرز عمل سے حدیث رسول ﷺ پر انگلی اٹھ رہی ہے۔
اسی لئے
محترم محمدیونس بھائی نے جب آپ سےچند سوال پوچھے تو آپ نے ان کا جواب مرحمت نہیں فرمایا۔ جس سے صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ آپ اس حدیث کی مخالفت کر کے کم ازکم منکرین حدیث کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔
یہ بات اس لئے لکھی ہے کیونکہ آپ نے ایک ہی حدیث کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کی ہے جبکہ باقی احادیث کی طرف آپ نے التفات نہیں فرمایا۔ جناب۔
ان شاء اللہ العزیز آپ مجبور ہوں جائیں گے کہ اس حدیث میں موجود پیارے پیغمبر ﷺ کی فقاہت کو سمجھیں۔
صرف اور صرف اولاد ہی کا حصول آپ کی اپنی اختراع ہے۔ جبکہ حدیث میں صرف اور صرف کسی لفظ کا ترجمہ و مفہوم نہیں ہے۔
تنقید کرنے سے پہلے سمجھ ضروری ہے۔
اس حدیث میں فوقیت کی بات کی گئی ہے جبکہ دیگر احادیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ سے دیگر اُمور کے لئے نکاح کرنا بھی ثابت ہے۔ لیکن آپ کو ایک حدیث ہضم نہیں ہو رہی باقی احادیث کو تو وہی دیکھے گا جسے احادیث رسول ﷺ سے پیار ہو گا۔ ان پر عمل کرنا چاہے گا۔ اور منکرین حدیث کے حصے میں صرف تنقید ہی آئے گی۔ الا ما شاء اللہ۔
اسلام میں کوئی قباحت نہیں۔
ہاں
مسلمانوں کے طرز عمل کو بنیاد پر حدیث پر تنقید کرنا بہت بڑی قباحت ہے۔
اچھوت اور چھوت چھات جیسے الفاظ سے وہی لوگ واقف ہیں جن کی تعلیم میں ہندوانہ ذات پات کا علم اور عمل شامل ہے۔
بخاری و مسلم میں موجود ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے کوئی چیز ا‘‘چھوت’’ نہیں ہے۔
پنجابی کی مثال ہے
ڈگیا کھوتے توں غصہ کمہار اُتے
غصہ آپ کو متن اور مفہوم حدیث نبوی ﷺ پر ہے جبکہ پیش کر رہے ہیں جناب مسلمانوں کا طرز عمل۔
کیا مسلمانوں کے غلط طرز عمل کی وجہ سے دین پر عمل کرنا بند کر دیا جائے؟
راقم الحروف نے چند مثالیں قرآن مجید سے پیش کی تھیں۔ اور منکرین حدیث کے لئے صرف قرآن ہی حجت ہے۔
جناب عالی
مذکورہ بالا دھاگوں میں قرآنی امثال بھی پڑھ لیجیے پھر پوچھئے گا کہ
تنگ نظری یا جہالت سے مجھے میرے رب نے دُور رکھا ہے الحمد للہ۔اوپر ہائی لائٹ کی گئی بات آپ نے مان لی بات ختم ہوئی۔ باقی آپ کا مجھ کو ” منکرِ حدیث “ کی صف میں شامل کرنا آپ کی ” تنگ نظری یا جہالت “ ہے اور دوسری غیر متعلقہ باتوں کو میں جان بوجھ کر نظرانداز کر رہا ہوں کیونکہ میں نے سوال ” الف “ کیا تھا لیکن آپ نے جواب ” ب “ دیا۔
میرے متعلق ” حدیثِ رسولﷺ “ کو تختہ مشق اور طعن کا افسانہ تو آپ نے گھڑا ہے۔ میں نہ تو ” قادیانیت “ کا قائل ہوں نہ ” شیعت “ کا شیدائی۔تنگ نظری یا جہالت سے مجھے میرے رب نے دُور رکھا ہے الحمد للہ۔
باقی
آپ واقعی منکرین حدیث نہیں ہیں تو نعیم یونس صاحب کے سوالات کا جواب کیوں نہیں دے دیتے۔
اگر آپ واقعی منکرین حدیث میں سے نہیں ہیں تو پھر حدیث پر طعن کیوں کر رہے ہیں؟؟؟۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا تعلق قادیانت سے ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ شیعہ ہوں
اگر آپ ان سب سے اپنے دامن کو بچاتے ہیں یا بچانا چاہتے ہیں تو حدیث پر طعن کرنے سے توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر جائیے اور حدیث کے متعلق لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ مت کریں۔
میں نے آپ کی تمام تحریر کا احاطہ کیا اور آپ کے اعتراضات ہی کا جواب دیا جسے آپ نے الف ب بنا دیا۔ آپ کا انصاف پسند اصول اپنے متعلق کتنی انگلیاں اٹھائے گا
اگر آپ خود اپنے اوپر انگلیاں نہیں اٹھائیں گے تو پھر اپنے اوپر انگلیاں اٹھائے جانے سے کیوں گھبراتے ہیں؟؟؟؟
مبارک ہے ہر وہ انگلی جو آپ کی تحریر پر اس لئے اٹھائی جا رہی ہے کہ آپ نے حدیث رسول ﷺ کو تختہ مشق بنا یا ہے۔
السلام علیکم -جناب جہاں آپ کی مراد نہ سمجھا اس کے متعلق اوپر میں معذرت کرچکا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر معذرت چاہوں گا ۔
شاید یہ آپ ہی کے الفاظ ہیں
جی معذرت معلوم نہیں تھا کہ آپ مجتہد بھی ہیں۔
پھر تو آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ کیا مذکورہ حدیث کی درایت پر سلف صالحین میں سے کسی نے اعتراض کیا ہے ؟
اللہ نہ کرے کہ میں ان کے بارے میں ایسی بات کہوں۔ البتہ ان کے معاصر اور نزدیک کے زمانے کے علما نے ان کے لیے متشدد وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔
اس بات کا ہماری بھث سے کوئی تعلق نہیں
درج بالا آیت مبارکہ سے جو مطلب آپ نے قوسین میں اخذ کیا ہے وہ مجھے سرسری تلاش میں کسی تفسیر میں نہیں ملا۔ براہِ کرم اگر یہ جناب کی خود ساختہ تفسیر نہیں ہے تو حوالہ عنایت فرمادیں۔
مولانا محمد جونا گڑھی صاحب نے ترجمہ کیا ہے ۔
اور وہ کہ جب انکو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غورو فکر سے سنتے ہیں )
مولانا فتح محمد جالندھری نے ترجمہ کیا ہے۔
اور وہ کہ جب انکو انکے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غورو فکر سے سنتے ہیں )
تفسیر احسن البیان (تفسیرِمکی) میں مولانا صلاح الدین یوسف نے اس آیت کے حواشی میں لکھا ہے۔
یعنی وہ ان سے اعراض اور غفلت نہیں برتتے۔ جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں اور اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انہیں آویزہ گوش اور حرزِ جان بناتے ہیں۔
معارف القران میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں۔
اور وہ ایسے ہیں جس وقت ان کو اللہ کے احکام کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو ان (احکام) پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (جس طرح کافر قرآن پر ایک نئی بات سمجھ کر تماشے کے طور پر اور نیز اسمیں اعتراضات پیدا کرنے کے لیئے اس کے حقائق و معاف سے اندھے بہرے ہوکر اندھا دھند ہجوم کرلیتے تھے۔
تفسیرِ عثمانی میں لکھا ہے ۔
بلکہ نہایت فکر وتدبر سے سنیں اور سن کر متاثر ہوں۔ مشرکین کی طرح پتھر کی مورتیں نہ بن جائیں۔
فی الحال دستیب تفاسیر میں سے کسی میں بھی آپ کی پیش کردہ (تحقیق اور تقلید والی) منطق نہیں ملی۔
اگر جناب قرآن اور حدیث کے علاوہ کسی تیسری چیز کو دلیل نہیں مانتے تو پھر یہ مطلب قرآن و حدیث سے پیش کردیں ۔
اگر علمائے حق کی پیش کردہ تشریحات کی تقلید کرتے ہیں تو وہ تشریح پیش کر دیں جو آپ کے بیان کردہ منطق کے مطابق ہو۔
بصورتِ دیگر ہمیں اپنی اور اپنے خیالات کی تقلید پر قائل نہ کریں۔ چاہے خود آپ اپنے خیالات کی تقلید کرتے رہیں ۔