وعلیکم السلام ۔ جی بالکل تحقیق کرنے اور غور و فکر کرنے میں بڑا فرق ہے۔ تحقیق کا لفظ وہاں بھی استعمال ہوتا ہے جہاں بات پر شک ہو کہ درست ہے یا نہیں۔ اور تحقیق سے قبل سچ اور جھوٹ دونوں احتمالات ہوتے ہیں۔ جب کہ غور و فکر تو اس کوسچ مان کر اس کے معنی و مفاہیم اور رموز و اسرار وغیرہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے۔
لہٰذا کفار تو تحقیق کا دعوٰی کر سکتے ہیں کہ جب کہ مومن تو ایمان بالغیب سے اس قرآن کے ایک ایک حرف کے سچا ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔
یقیناََ آپ اس بات سے متفق ہونگے لیکن شاید تقلید کا رد کرنے کے شوق میں آپ کی تحریر میں یہ بات سہواََ نکل گئی ۔ واللہ اعلم
جی بالکل اس میں بھی فرق ہے۔ آپ نے شاید پوری عبارت نہیں ملاحظہ فرمائی۔ لکھا ہے:
جس طرح کافر قرآن پر ایک نئی بات سمجھ کر تماشے کے طور پر اور نیز اسمیں اعتراضات پیدا کرنے کے لیئے اس کے حقائق و معاف سے اندھے بہرے ہوکر اندھا دھند ہجوم کرلیتے تھے۔
1۔ تو کیا ہم یہاں یہ مراد لیں گے کہ کافر قرآن کی تقلید کرتے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر جناب کی تقلید والی بات یہاں ہرگز فٹ نہیں آتی۔
2۔ کیا جناب کے نزدیک قرآن یعنی کلام اللہ کی تقلید بھی جائز نہیں ؟؟؟
جب آپ بلاثبوت یہ فرمائیں گے کہ میرے خیال میں یہ حدیث ضعیف ہے۔ اور پھر ساتھ آپ اس حدیث کے متن پر بھی شک کا اظہار کریں گے (جوآپ کی تحریر سے واضح ہے)
تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اپنی عقل کی بنیاد پر رد کرنے والے کو ، یا اس پر شک کرنے والے کو ہم کم سے کم ناقص العقل یا مریض ہی قرار دیں گے۔ چاہے وہ اور ہم ایک ہی ماں کی کوکھ سے ہی کیوں نہ پیدا ہوئے ہوں۔
ہاں اگر آپ تسلیم کر لیں کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کا یہ انداز درست نہیں تھا اور آپ اپنے الفاظ سے رجوع کرتے ہیں تو اس ناچیز کو بھی اپنے الفاظ واپس لینے میں کوئی تامل نہ ہوگا ۔ ان شاءاللہ۔
السلام و علیکم -
محترم -
تحقیق اور غور و فکر دونوں حق کی تلاش میں کییے جاتے ہیں -ظاہر ہے حق واضح ہونے سے پہلے انسان ایک طرح سے اس چیز کے بارے میں تھوڑا بہت شک میں ہی مبتلا ہوتا ہے -کیا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے الله کے وجود کو جاننے کی جستجو کے دوران یہ نہیں فرمایا کہ:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ سوره الانعام ٧٦
پھر جب رات نے اس ہر اندھیرا کیا اس نے ایک ستارہ دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا-
فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ٧٧
پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا-
فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ ٧٨
ھر جب آفتاب کو چمکتاہوا دیکھا کہا یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا کہا اے میری قوم میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم الله کا شریک بناتے ہو
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٧٩
سب سے یک سو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان اور زمین بنائی اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں
حضرت ابراہیم علیہ سلام کا الله کے وجود سے متعلق غورو فکر کیا تحقیق کے زمرے میں نہیں آتا ؟؟- اگر آپ کے کہنے کے مطابق غور و فکر تو اس کوسچ مان کر اس کے معنی و مفاہیم اور رموز و اسرار وغیرہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تو ابراہیم علیہ سلام پھر کبھی ستارے ،کبھی چاند ، اور کبھی سورج کو اپنا رب نہ کہتے - لیکن جب ان کی تحقیقی نگاہ نے یہ جانا کہ یہ سب چیزیں تو فانی اور غروب ہونے والی ہیں تو ان کو ادراک ہوا کہ "میرا رب" تو وہ ہے جس کی صفت حاضر و ناظر ہے وہ نہ غائب ہو سکتا ہے نہ غروب ہو سکتا ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان پر غیب پر ایمان لانا فرض ہے - لیکن یہ استدلال صحیح نہیں کہ علم و فکر کو نظر انداز کر دیا جائے -
یہ تحقیق ہی ہے کہ جس نے آج کے دور میں بیشمار گمراہ اور زندیق لوگوں کو اسلام کی حقانیت قبول کرنے پر مجبور کردیا - اور جو تحقیق اور غور و فکر سے دور رہتے ہیں وہ گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے ہیں -
آپ فرما رہے ہیں کہ تفسیر کی پوری عبارت یہ ہے کہ :"
اس طرح کافر قرآن پر ایک نئی بات سمجھ کر تماشے کے طور پر اور نیز اسمیں اعتراضات پیدا کرنے کے لیئے اس کے حقائق و معاف سے اندھے بہرے ہوکر اندھا دھند ہجوم کرلیتے تھے"۔
تو محترم ذرا مجھے یہ سمجھا دیجیے کہ پھر آخر
"تقلید " کہتے کس کو ہیں - جان بوجھ کرحق سے اندھا بہرا بن جانا تقلید نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟ کیا آج کے مقلد حضرات یہی کچھ نہیں کرتے جو دور نبوت کے کافر کرتے تھے کہ حق کو جاننے کے باوجود حق کا انکار کرتے تھے-
آپ کہ رہے ہیں کہ "
کیا جناب کے نزدیک قرآن یعنی کلام اللہ کی تقلید بھی جائز نہیں ؟؟؟" تو محترم
تقلید تو ہے ہی حق کا انکار - یہ لفظ قرآن میں ان جانوروں کے لئے استمعال ہوا ہے کہ جن کے گلے میں پٹہ ڈالا جاتا ہے -ملاحظه ہو قرآن کی آیت -
جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٩٧
الله نے کعبہ کو جو بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کر کعبہ کو لے جائیں یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے-
تو ہم یہ کیسے که سکتے ہیں کہ قرآن کی تقلید کرو؟؟ -یہ تو زبردستی کسی چیز کے پیچھے چلنے کا نام ہے- جب کہ الله کا تو قرآن میں ارشاد ہے کہ:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ سوره البقرہ ٢٥٦
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے -
پھر آپ فرما رہے ہیں کہ
میں حدیث پر شک کر رہا ہوں - لیکن میرا منشاء صرف حدیث کی تخریج جاننا تھا - کیا محدثین نبی کریم سے منسوب روایات پر تحقیق نہیں کی - کیا ہم یہ که سکتے ہیں کہ انہوں نے روایات پر شک کیا تھا - کتنی ہی روایتیں ایسی ہیں جو محدثین نے یہ که کر رد کردیں کہ یہ نبی کریم صل الله علیہ و وسلم کا قول نہیں ہو سکتا - کیا ان پر یہ الزام دے سکتے ہیں کہ وہ دین حق کے معاملے میں شک میں مبتلا تھے -
آپ فرما رہے ہیں کہ "
تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اپنی عقل کی بنیاد پر رد کرنے والے کو ، یا اس پر شک کرنے والے کو ہم کم سے کم ناقص العقل یا مریض ہی قرار دیں گے"
محترم میرا کہنا یہ تھا کہ حدیث میں موجود اس شخص کو کیسے پتا چلا کہ جو اس عورت سے ہ شادی کرنا چاہتا تھا کہ وہ ماں نہیں بن سکتی - میں نبی کریم کی بات پر معاذ الله اعتراض نہیں کیا - صرف یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس شخص
جو نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ عورت بانجھ ہے -؟؟ ممکن ہے یہ حدیث کا حصہ نہ ہو - لیکن بعد میں ایک بھائی نے میرے اشکالات کو دور کردیا -.
دوسرا عتراض اس فتویٰ دینے والوں پر تھا کہ -جس میں انہوں نے کہا کہ بہن یا ماں کو دیکھ کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ عورت یا لڑکی بانجھ ہے یا بچے پیدا کرنے والی ہے - ظاہر ہے یہ حدیث کا حصہ یا مفہوم نہیں - بلکہ فتویٰ دینے والی کمیٹی کے فہم پر ایک ا عتراض تھا - جو ہنوز ہے -
اگر کوئی بات بری لگی تو معذرت -
والسلام -