• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شان نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت حسن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا
لمَّا وُلِدَ الحسنُ سمَّيتُهُ حربًا ، فجاءَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ : أروني ابني ، ما سمَّيتُموهُ ؟ قالَ : قلتُ : حَربًا . قالَ : بل هوَ حسَنٌ
: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/115
حضرت علی سے روایت ہے کہ جب حضرت حسن کی ولادت ہوئی تو میں نے اس کا نام حرب رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا " مجھے میرے بیٹے کا دیدار کراؤ ! اس کا نام کیا رکھا ؟ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا" اس کا نام حرب رکھا ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "نہیں وہ تو حسن ہے
حضرت علی علیہ السلام کے حضرت حسن کا نام حرب رکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ حضرت علی شروع ہی سے بڑے شجاع جنگجو بہادر اور نڈر تھے اس لئے اپنے پہلے بیٹے کا نام حرب رکھا کیونکہ حرب کے معنی جنگجو شجاع آدمی کے ہیں
اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حسن اور حسین کے نام رکھے یہ ان شہزادوں سے پہلے کسی کے نام حسن اور حسین نہیں تھے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجویز کردہ نام حسن و حسین رکھیں
عقیقہ کے ایام میں عقیدت کے انداز
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت حسن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا کیا نہ صرف نام تجویز کیا بلکہ حضرت حسن کے کان میں اذان بھی دی اور عقیقہ بھی کیا
2 - رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسَلَّمَ أذَّنَ في أُذُنِ الحَسَنِ بنِ عليٍّ ، - حِينَ ولَدْتُه فاطِمةُ - بِالصَّلاةِ .
سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 1514
حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان کہتے ہوئے دیکھا جب سیدہ فاطمہ نے انہیں جنم دیا
عقَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ عنِ الحسَنِ بشاةٍ وقالَ يا فاطمةُ احلِقي رأسَهُ وتصدَّقي بزنةِ شعرِهِ فضَّةً قالَ فوزنتْهُ فَكانَ وزنُهُ درْهمًا أو بعضَ درْهمٍ
صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 1519

حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا اے فاطمہ اس کے بال منڈواؤ اور بالوں کے برابر صدقہ کرو انہوں نے بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم یا اس سے کچھ کم وزن کے ہوئے
امام ہثیمی نے ایک روایت کی ہے جس کے مطابق بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا
حضرت حسن وہ خوش نصیب ہیں جن نام ،کان میں اذان اور عقیقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا سلام اللہ علیھما
سیدنا حسن ہمشکل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت حسن حد درجہ خوبصورت اور حسین تھے آپ کے حسن کی چمک دمک سے تاریخ کے اورق منور ہیں اور نور علی نور کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے رخ اقدس کی جھلک تھے جو بھی حضرت حسن کا رخ زیبا دیکھتا بے اختیار پکار اٹھتا کہ
لم يَكُنْ أحدٌ أشبهَ بالنبيِّ صلى الله عليه وسلم مِن الحسنِ بنِ عليٍّ .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3752

حضرت حسن سے بڑھ کر کوئی ہم شکل نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت حسن محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں بلکہ محبوب خدا بھی ہیں
امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کی کتاب زندگی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں اور ہر شخص کو محبت کو محبت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن سیدنا حضرت حسن سے محبت و انسیت کا انداز منفرد و نرالا ہے دیکھنے والے کی زبان سے یہ کلمات بے ساختہ نکلتے ہیں کہ
اللہ کی قسم ! جس طرح آپ حسن سے معاملہ فرماتے ہیں ایسا معاملہ کسی اور سے فرماتے ہوئے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا
2 - رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم ، والحسنَ بنَ عليٍّ على عاتِقِه، يقولُ: ( اللهم إني أُحِبُّه فأَحِبَّه ).
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3749

حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حضرت سیدنا حسن کو اپنے دوش مبارک پر اٹھائے ہوئے تھے اور آپ فرمارہے تھے کہ " اے اللہ ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت فرما " قارئین کرام ! اس سے بڑھ کر اور مرتبہ کیا ہوسکتا ہے کہ سیدنا حسن رسول اللہ کی جائے محبت ہیں اور آپ بارگاہ الہی میں دعا فرمارہے ہیں کہ " اے اللہ ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت فرما " یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی اس دعا کو قبول کیا ہے سیدنا حسن محبوب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اور محبوب خدا بھی ہیں


سیدنا حسن سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے


فَحَسِبْتُهُ شيئًا ، فَظَنَنْتُ أنَّهَا تُلْبِسُهُ سِخَابًا أو تُغَسِّلُهُ ، فجاءَ يشتَدُ حتى عَانَقَهُ وقَبَّلَهُ ، وقالَ : ( اللهمَّ أحِبَّهُ وأحِبَّ منْ يُحِبُّهُ ) . الراوي: أبو هريرة المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2122

أبو هريرة سے روایت ہے کہ ایک دن سیدنا حسن دوڑتے ہوئے آئے، آپ نے ان کو سینے سے لگا لیا اور بوسہ لیا، پھر فرمایا اے اللہ؟! اسے محبوب رکھ اور اس شخص کو بھی محبوب رکھ جو اس سے محبت رکھے۔

سیدنا حسن کے رخسار مبارک پر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت حسن سے بے حد محبت فرماتے اور ان کو اکثر چوما اور سونگھا کرتے اور اپنے صدر اطہر سے لگاتے کبھی گود میں کھلاتے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اقرع بن حابس نے رسول اللہ کو سیدنا حسن کو چومتے اور سونگھتے ہوئے دیکھا پس اقرع نے کہا میرے دس لڑکے ہیں میں نے کبھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

إنَّهُ مَن لا يرحَمْ لا يُرحَمْ
صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 1911



جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا

امام حاکم نے مستدرک میں واشگاف سنہرے الفاظ میں کچھ یو بیان کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر ارشاد فرمایا
" اگر اللہ نے تیرے دل سے محبت نکل لی ہے تو اس میں میرا گناہ کیا ؟
لپٹنا چمٹنا کبھی گود میں گرتا
یہ تو پھول تھا جو جو آغوش رسالت میں نکھرتا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت ابو جحیفہ فرماتے ہیں کہ
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وكان الحسن بن علي ـ عليهما السلام ـ يشبهه
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، حسن بن علی عليهما السلام میں آپ کی شباہت پوری طرح موجود تھی
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3544
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا حسن ہم شکل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور عکس رسالت کی جھلک آپ میں نظر آتی ہے
امام بخاری نے کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب مناقب الحسن کے بعد ابو ہریرہ کی روایت کو معلق بیان کیا ہے
قال نافع بن جبير عن أبي هريرة عانق النبي صلى الله عليه وسلم الحسن‏.‏
نافع بن جبیر نے حضرت ابوہریرہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن کو گلے سے لگایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدنا حسن سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے محبت کرنے والے کو حکم فرمایا مجھ سے محبت کرنے والا میرے حسن سے ضرور محبت کرے گا

- بينما الحسنُ بنُ عليٍّ يخطبُ بعدما قُتِلَ عليٌّ رضيَ اللَّهُ عنهُ إذ قامَ رجلٌ منَ الأزدِ آدمُ طوالٌ قالَ فلقد رأيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وعلى آلِهِ وسلَّمَ واضعَهُ في حبوتِهِ يقولُ من أحبَّني فليحبَّهُ فليبلِّغِ الشَّاهدُ الغائبَ ولولا عزمةُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وعلى آلِهِ وسلَّمَ ما حدَّثتُكم
جب سیدنا حضرت حسن حضرت علی کی شہادت کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ قبیلہ ازد کا ایک آدمی کھڑا ہوا جو لمبے قد کا تھا اس نے کہا " تحقیق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ان کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے جس کو مجھ سے محبت ہے پس وہ اس سے ضرور محبت کرے اور حاضر غائب تک پہنچا دے اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید نہ ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث بیان نہیں کرتا
المحدث: الوادعي - المصدر: الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 1502
الحمدللہ ہمیں اس بات سے خوشی ہے کہ ہم سیدنا حسن سے محبت رکھتے ہیں
ایمان کا فروغ محبت حسن کی ہے
پڑھ لو درود محفل مدحت حسن کی ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن میرا بیٹا ہے ،حسن سردار ہے ، حسن مصلح امت ،حسن دینا میں میرا پھول ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حضرت حسن کے بارے میں فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور میری امت میں مصلح ہوگا اس پیش گوئی کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں چھ جگہ ذکر کیا ہے کتاب الصلح ، کتاب الفتن میں باقاعدہ باب باندھا ہے
أخرَج النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ذاتَ يومٍ الحسنَ، فصعِد به على المِنبَرِ، فقال : ( ابني هذا سيدٌ، ولعلَّ اللهَ أن يُصلِحَ به بين فئتَينِ من المسلمينَ ) .

صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3629

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو مختلف جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت حسن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا کہ یہ میرا بیٹا اور سردار اور امت کا مصلح ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو مختلف جماعتوں
کے درمیان صلح کرادے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیش گوئی اس وقت پوری ہوئی جب سیدنا حسن نے معاویہ سے صلح کی سیدنا حسن کے اس عمل سے مسلمانوں میں خون خرابا نہیں ہوا اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا جبکہ سیدنا حضرت حسن کے لئے حالات ساز گار تھے اور آپ کے ہاتھ پر ستر ہزار لوگوں نے جان دینے پر بیعت کی تھی یہ اللہ کے نیک بندوں کی پہچان ہے کہ وہ دنیا کا نقصان خود برداشت کرلیتے ہیں مگر فتنہ و فساد نہیں چاہتے
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ
پس اللہ کی قسم ! اللہ ہی کی قسم جب سیدنا حسن خلیفہ بنے تو آپ کے عہد خلافت میں سینگی لگوانے جتنا خون (یعنی تھوڑا سا خون ) بھی نہیں بہایا گیا

اس کے علاوہ ایسا ہی صحیح ابن حبان میں بیان ہوا کہ


" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے جب آپ سجدے میں جاتے تو سیدنا حسن جو اس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے نبی کریم جب سجدے سے سر کو اٹھاتے تو حسن کو نرمی سے پکڑ کر زمین پر آرام سے بیٹھا دیتے جب آپ نمازسے فارغ ہوئے تو آپ نے حضرت حسن کو اپنی آغوش مبارک میں لےکر چومنا شروع کردیا ایک آدمی نے ( جب یہ نظارہ محبت دیکھا تو ) کہا آپ اس بچے سے ایسا پیار کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " یہ دنیا میں میرا پھول ہے اور اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عین ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے دو مختلف مسلم جماعتوں میں صلح کرادے "


جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سردار کہیں اس سے بڑا سردار کون ہوسکتا ہے ؟
حضرت سیدنا حسن بڑے بردباد ،پرہیز گار اور صاحب علم و فضل ہیں ان کےتقویٰ اور علم نے انہیں مجبور کیا کہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امید وار ہوتے ہوئے دنیا کی حکومت سے دست کش ہوجائیں دنیاوی حکومت کے طلب گار کو ایسے سونپ دیں
اللهمَّ صلِّ على محمدٍ وعلى آلِ محمدٍ ، كما صلَّيتَ على إبراهيمَ ، وعلى آلِ إبراهيمَ ، إنكَ حميدٌ مجيدٌ ،
اللهمَّ بارِكْ على محمدٍ وعلى آلِ محمدٍ ، كما باركتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ ، إنكَ حميدٌ مجيدٌ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سیدنا حسن دوش رسالت اقدس کے بہترین سوار
1 - كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم حاملَ الحَسَنِ بنِ عَلِيٍّ عَلَى عاتِقِهِ . فقال رجُلٌ : نِعْمَ المَرْكَبُ رَكِبْتَ يا غُلاَمُ . فقال النبِيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم : ونِعْمَ الراكِبُ هُو
سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3784
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار حضرت حسن کو لیکر اس طرح آئے کہ وہ ان دوش مبارک پر سوار تھے یہ منظر دیکھنے والے ایک شخص نہ کہا " اے لڑکے تیری سواری بہترین ہے "اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "ہاں مگر سوار بھی بہترین ہے "
رسالت کے سائے تلے
سیدنا حسن نے کم و بیش آٹھ سال کا عرصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و شفقت اور نگرانی میں بسر کیا آغوش رسالت میں پرورش پانے والے شہزادے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں پیش آمدہ مسائل و واقعات کو بھی ذہین نشیں رکھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
حضرت ابن عباس اور سیدنا حضرت حسن کے پاس سے ایک جنازہ گذرا حضرت حسن کھڑے ہوگئے اور ابن عباس بیٹھے رہے ( ابن عباس کو بیٹھا دیکھ کر ) سیدنا حسن نے فرمایا کہ کیا یہودی یا یہودیہ کا جنازہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے نہیں ہوئے تھے ؟ ابن عباس کہنے لگے کہ کیوں نہیں مگر بعد میں آپ نے کھڑا ہونا چھوڑ دیا تھا ۔
الجمعم الکبیر 87/3 حدیث 2744 ، السنن الکبریٰ 28/4
ایسی طرح مبارکپوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ
10 - كنَّا عندَ الحسنِ بنِ عليٍّ فسألَ ما عقَلتَ منَ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أو عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ؟ قالَ كنتُ أمشي معَهُ فمرَّ على جَرينٍ من تمرةِ الصَّدقةِ فأخذتُ تمرةً فألقيتُها في فَمي فأخذَها بلُعابِها فقالَ بعضُ القومِ وما عليكَ لو تركتَها؟ فقالَ إنَّا آلَ محمَّدٍ لا تحلُّ لنا الصَّدقةُ
تحفة الأحوذي - الصفحة أو الرقم: 3/63
حضرت سیدنا امام حسن سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو رسول اللہﷺکی کوئی بات یاد ہے تو سیدنا حسن نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جارہا تھا آپ ﷺ کھجوروں کے ایک ڈھیر کے پاس سے گذرے جو صدقہ کی کھجوریں تھیں میں نے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں رکھ لی آپ نے میرے لعاب والی کھجور کو نکال لیا بعض لوگوں کہا آپ ﷺ ایسے رہنے دیتے تو کیا حرج تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " آل محمد پر صدقہ حلال نہیں "

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آل محمد ﷺ پر صدقہ حلال نہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سیدنا امام حسن کا خوف خدا

سیدنا امام حسن ہمہ صفت موصوف انسان کامل ہیں نانا اور والد کی تربیت کا مزاج پر بڑا گہرا اثر تھا ساری زندگی صدقات و حسنات میں بسر کی دنیا کی محبت کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جی بھر کر اللہ کی عبادت کرنے والے جنت کے یہ سردار اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہیبت سے لرزہ براندام رہتے تھے روضہ الوعظین میں ہے کہ
حضرت حسن جب وضو کرتے تو آپ کے جوڑ جوڑ کانپتے اور رنگ زرد ہوجاتا آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ حق یہ ہے ہر وہ بندہ جو رب العرش عظیم کے سامنےکھڑا ہونے کی تیاری کرے اس کا رنگ زرد ہو اور اس کا جوڑ جوڑ کانپ اٹھے ایسی طرح آپ کا معمول تھا کہ جب آپ نماز فجر سے فارغ ہوتے تو اشراق تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے،سبحان اللہ
اہل تاریخ نے آپ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ آپ نے کئی بار حج بیت اللہ کیا اور ایک اندازے کے مطابق آپ نے کم وبیش 20 سے 25 حج کئے زیادہ تر آپ پیدل حج کیا کرتے سائل نے سوال کیا کہ آپ سواری کی سہولت کے باوجود پیادہ حج کیوں فرماتے ہیں آپ نے فرمایا کہ ادنیٰ غلام اپنے مولا کے سامنے سوار نہیں بلکہ پیادہ جاتا ہی اچھا لگتا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سیدنا حضرت حسن اہل بیت میں سے ہیں
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " [ 33 / الأحزاب / 33 ]
مذکورہ بالا آیت کو آیت تطہیر کہا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تو رسول اللہﷺ نے حضرت حسن کو بھی اپنی چادر میں لے کر اس آیت کی تلاوت کی
صحیح مسلم میں امی عائشہ سے روایت ہے کہ
- خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال " إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " [ 33 / الأحزاب / 33 ] .
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2424
''امی عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔''

اس کے علاوہ سورہ آل عمران کی آیت61 میں جب اللہ نے نجرانی عیسائیوں کو مباہلہ کا چیلنج کیا اور رسول اللہﷺ سے یہ ارشاد فرمایا کہ

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اس لئے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آو ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کواور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلالیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نے کہتے ہیں کہ
عن جابر قال : قدم على النبي صلى الله عليه وسلم العاقب والطيب ، فدعاهما إلى الملاعنة فواعداه على أن يلاعناه الغداة . قال : فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأخذ بيد علي وفاطمة والحسن والحسين ، ثم أرسل إليهما فأبيا أن يجيئا وأقرا بالخراج ، قال : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " والذي بعثني بالحق لو قالا لا لأمطر عليهم الوادي نارا " قال جابر : فيهم نزلت ( ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ) قال جابر : ( وأنفسنا وأنفسكم ) رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلي بن أبي طالب ) وأبناءنا ) : الحسن والحسين ( ونساءنا ) فاطمة .
وهكذا رواه الحاكم في مستدركه ، عن علي بن عيسى ، عن أحمد بن محمد الأزهري عن علي بن حجر ، عن علي بن مسهر ، عن داود بن أبي هند ، به بمعناه . ثم قال : صحيح على شرط مسلم ، ولم يخرجاه .


جابر سے روایت ہے کہ عاقب اور طیب( جو کہ اہل نجران کے وفد کے ساتھ آئے تھے )وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے آپﷺ نے انہیں ملاعنہ کے لئے کہا اور صبح کو حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین کو لئے ہوئے تشریف لائے اور انہیں کہلا بھیجا انہوں نے اس کو قبول نہ کیا اور خراج دینا منظور کرلیا آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر یہ نہیں کہتے تو ان پر یہی وادی آگ برساتی جابر کہتے ہیں کہ ندع أبناءناوالی آیت انہیں کے لئے نازل ہوئی وأنفسنایعنی خاص اپنی جانوں سے مراد خود رسول اللہﷺ اور حضرت علی ہیں اور وأبناءنایعنی فرزندوں سے مراد حضرت حسن و حسین ہیں اور ونساءنایعنی عورتوں سے مراد حضرت فاطمۃ الزہرہ ہیں
مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی ایسی معنی کی حدیث مروی ہے ایسے حاکم نے صحیح کہا ہے مسلم کی شرط پر لیکن مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا

گھر سے مباہلے کے لئے پانچ تن چلے

کچھ پھول ہیں جو بن کے وقار چمن چلے​
اس قافلے کی جیت پہ کیوں نہ یقین ہو​
جس قافلے کی پشت پہ خیبر شکن چلے​

ایسی طرح سعد بن ابی وقاص سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ
ولما نزلت هذه الآيةُ : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ [ 3 / آل عمران / 61 ] دعا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عليًّا وفاطمةَ وحسنًا وحُسَينًا فقال " اللهمَّ ! هؤلاءِ أهلي " .
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2404 ، صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2999
''حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ''آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔'' تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔''


اے اللہ! ان پاکیزہ افراد پر درود بھیج جو تیری خلق کیلیے ذریعہ نجات ہیں اور جو ان سے متمسک ہوا اسکی نجات یقینی ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حضرت حسن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا
لمَّا وُلِدَ الحسنُ سمَّيتُهُ حربًا ، فجاءَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ : أروني ابني ، ما سمَّيتُموهُ ؟ قالَ : قلتُ : حَربًا . قالَ : بل هوَ حسَنٌ
: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/115
حضرت علی سے روایت ہے کہ جب حضرت حسن کی ولادت ہوئی تو میں نے اس کا نام حرب رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا " مجھے میرے بیٹے کا دیدار کراؤ ! اس کا نام کیا رکھا ؟ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا" اس کا نام حرب رکھا ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "نہیں وہ تو حسن ہے
بہرام صاحب یہ روایت کمزور ہے کیا کوئی مستند روایت نہیں ملی آپ کو ؟ اگر اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو کیا ہی بات تھی مگر کہیں سے کاپی پیسٹ کر دی ہے اور بس
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب یہ روایت کمزور ہے کیا کوئی مستند روایت نہیں ملی آپ کو ؟ اگر اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو کیا ہی بات تھی مگر کہیں سے کاپی پیسٹ کر دی ہے اور بس
آپ کے بے وجہ ہی پیٹ میں درد ہورہا ہے یہ ایک صحیح حدیث ہے اب آپ بھی ملاحظہ فرمالیں اور دیگر حضرات بھی اس پیٹ میں درد کی وجہ سمجھ سے بالا ہے
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/115
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

http://dorar.net/hadith?skeys=لمَّا وُلِدَ الحسنُ سمَّيتُهُ حربًا&s[]=13482
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کے بے وجہ ہی پیٹ میں درد ہورہا ہے یہ ایک صحیح حدیث ہے اب آپ بھی ملاحظہ فرمالیں اور دیگر حضرات بھی اس پیٹ میں درد کی وجہ سمجھ سے بالا ہے
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/115
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

http://dorar.net/hadith?skeys=لمَّا وُلِدَ الحسنُ سمَّيتُهُ حربًا&s[]=13482
یہ صاحب تو حدیث پر حکم لگانے میں متساہل ہیں اور دیگر محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے:


هذا الحديث رواه احمد والحاكم والطبراني من طريق إسرائيل عن أبي إسحاق عن هانئِ بن هانئِ عن علي وروي من طريق يونس بن أبي إسحاق عن أبيه عن هانئِ بن هانئِ عن علي رواه البيهقي وغيره ولكنه ضعيف فيه هانئ بن هانئ
وهانئًا هذا لم يرو عنه غير أبي إسحاق وحده وهو مجهول صرح به الإمام ابن المديني ، كما صرح بذلك الذهبي وغيره . وقال الشافعي : لا يعرف ، وأهل العلم بالحديث لا يثبتون حديثه لجهالة حاله" ؛ كما في "التهذيب"وأيضا أبو إسحاق ، وهو السبيعي ، مدلس مختلط وقد عنعنه وروي من طرق أخرى ولكن لا يصح منها شيئا والله تعالى اعلم

علامہ الالبانی لکھتے ہیں :


وهذا منه عجيب!! فإن هانئاً هذا لم يرو عنه غير أبيإسحاق وحده، ولازمه أنه مجهول، وهذا ما صرح به الإمام ابن المديني، كما صرح بذلك الذهبي نفسه وغيره. وقال الشافعي:
"لا يعرف، وأهل العلم بالحديث لا يثبتون حديثه لجهالة حاله"؛ كما في "التهذيب"، فلا ينفعه بعد ذلك قول النسائي فيه:
"ليس به بأس"، وبالأولى أن لا ينفعه ذكر ابن حبان إياه في "الثقات"؛ لاشتهاره بتساهله في التوثيق، ولذلك لم يسع الحافظ في "التقريب" إلا أن يقول فيه:
"مستور"! وكأنه غفل عن هذا فقال في ترجمة (المحسن) من "الإصابة" - بعد ما عزاه لأحمد -:
"إسناده صحيح"! واغتر به محقق "تحفة المودود" (132) ، فسكت عليه!!
وأيضاً فأبو إسحاق - وهو السبيعي - مدلس مختلط وقد عنعنه، فأنى للحديث الصحة؟!

 
Top