• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوٰ بھی امام مالک کی فضیلت کے قائل تھے

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اہل سنت نے کب کہا ہے کہ ان کا دین سب کا سب ’’ کتب ستہ ‘‘ کے اندر ہے ۔ سنیوں کی حدیث کی سینکڑوں کتابیں ہیں ۔ ان کی الگ الگ اعتبارات سے تقسیم ہے اور ہر ایک کا اپنا درجہ او رمقام ہے ۔
اہل سنت نے اس ورثہ نبویہ پر مشتمل تمام مصادر و مراجع کی حسب استطاعت خدمت اور حفاظت کی ہے ، اور ایسی کی ہے کہ ابھی تک کوئی اور ایسی کرکے نہ دکھا سکا ۔
اہل سنت کی طرف انگشت نمائی کرنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ ’’ اسلاف سے کیا میراث آپ کے حصے میں آئی ہے ‘‘ ۔
اعتراض کرنے سے پہلے آپ کو کم از کم اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ شیعوں کی اعلی سے اعلی درجے کی کتاب سنیوں کی ایک عام کتاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اگر کوئی ہے تو موطا امام مالک کے مقابلے میں اپنی کوئی کتاب لے آئیں تاکہ قارئین بھی دیکھیں کہ اہل سنت نے موطا کو کیا مقام و مرتبہ دیا ہے اور اعتراض کرنے والے کس منہ سے اعتراض کرتے ہیں ۔
اس بندہ ناچیز کا سوال صرف اتنا تھا کہ امام مالک کی تالیف کی گئی اہل سنت کی اولین کتاب حدیث "موطاء "اہل سنت کی ابتدائی چھ مستند کتب حدیث میں شامل کس بناء پر نہیں؟ اس پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تھا
اور آپ کے مراسلے سے مجھے جواب مل گیا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا
"سنیوں کی حدیث کی سینکڑوں کتابیں ہیں ۔ ان کی الگ الگ اعتبارات سے تقسیم ہے اور ہر ایک کا اپنا درجہ او رمقام ہے"
آپ کے اس ارشاد سے میں سمجھ پایا ہوں کہ امام مالک کی موطاء کا درجہ کتب ستہ کے بعد ہے اگر میں غلط ہوں تو کرم فرماتے ہوئے تصحیح فرمادیجئے گا
اب میرے ذہین میں پھر سے ایک سوال آیا کہ
کیا امام مالک کی موطاء اہل سنت کی ساتویں مستند کتاب ہے یا اس کا درجہ اس سے بھی کم ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس بندہ ناچیز کا سوال صرف اتنا تھا کہ امام مالک کی تالیف کی گئی اہل سنت کی اولین کتاب حدیث "موطاء "اہل سنت کی ابتدائی چھ مستند کتب حدیث میں شامل کس بناء پر نہیں؟ اس پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تھا
اور آپ کے مراسلے سے مجھے جواب مل گیا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا
"سنیوں کی حدیث کی سینکڑوں کتابیں ہیں ۔ ان کی الگ الگ اعتبارات سے تقسیم ہے اور ہر ایک کا اپنا درجہ او رمقام ہے"
آپ کے اس ارشاد سے میں سمجھ پایا ہوں کہ امام مالک کی موطاء کا درجہ کتب ستہ کے بعد ہے اگر میں غلط ہوں تو کرم فرماتے ہوئے تصحیح فرمادیجئے گا
اب میرے ذہین میں پھر سے ایک سوال آیا کہ
کیا امام مالک کی موطاء اہل سنت کی ساتویں مستند کتاب ہے یا اس کا درجہ اس سے بھی کم ہے ؟
بعض اہل علم نے موطا کو صحیحین پر فوقیت دی ہے بعض نے اس کو سنن اربعہ اور صحیحین کے درمیان رکھا ہے ۔ اور بہت سارے اہل علم نے اس کو سنن کے درجہ میں رکھا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ موطا میں بہت ساری صحیح روایات بھی ہیں ، جبکہ غیر صحیح بھی اس میں کافی ہیں ، لیکن اگر موطاء سے ہٹ کر ان کے طرق کو دیکھا جائے تو وہ بھی صحت یا کم از کم حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں سوائے گنتی کی چند احادیث کے ۔
جس نے صحیحین پر فوقیت دی ہے ، اس نے اس اعتبار سے کہ یہ صحیحین سے بہلے تالیف شد ہ ہے اور شیخین نے صحیحین میں امام مالک سے بہت زیادہ روایات لی ہیں ۔ جس نے اس کو سنن اربعہ کے درجہ میں رکھاہے وہ اس لیے کہ اس میں صحیح و ضعیف دونوں قسم کی احادیث موجود ہیں ۔
ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ موطا من وجہ کتب ستہ سے افضل اور من وجہ مفضول ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
مزید تفصیل کے لیے :
http://kitabosunnat.com/kutub-library/motta-imaam-malik.html
 

ضرب توحید

مبتدی
شمولیت
دسمبر 01، 2014
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
13
بھائی میری پوسٹ لگانے کا مقصد یہ ھے کہ دیوبندی حضرات بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ سب سے افضل ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی حنفی ہیں تو سوچنے والی بات یہ ھے کہ اگر وہ حنفیت کو پسند کرتے تھے تو امام مالک کی فضیلت کیوں بیان کی بلکہ ان کی کتاب میں کئی مسائل ایسے ہیں جو مسلک اھل حدیث سے مطابقت رکھتے ہیں وہ بھی میں بیان کروں گا ان شاءاللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت کا ترجمہ ۔ضرب توحید ۔بھائی نے دیا ہے ۔اس کی اصل عبارت درج ذیل ہے ؛؛

حجة الله البالغة للشاه ولي الله الدهلوي2.jpg
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بلکہ ان روایات کو جمع کرنا تھا، جن پر اہل مدینہ کا عمل اوراجماع تھا
اس بات سے تو یہ ثابت ہوا کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہلانے کی مستحق تو امام مالک کی موطاء ہے کیونکہ اہل مدینہ کا عمل اور اجماع کسی غیر مستند حدیث پر تو ہونہیں سکتا جبکہ خضر حیات صاحب فرماتے ہیں کہ موطاء میں ضعیف روایات بھی ہیں یہ بات اس دھاگے میں ہی آپ نے ارشاد فرمائی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ پوسٹ مجھے نظر نہیں آرہی (حیرت کا آئیکون)
اب اگر آپکی بات کو جو کہ آپ نے حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی کی جانب منسوب کی ہے اس بات سے تو یہ ظاہر ہورہا کہ اہل مدینہ کا عمل اور اجماع ضعیف روایات پر بھی تھا( بہت زیادہ حیرت والا آئیکون)
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت کا ترجمہ ۔ضرب توحید ۔بھائی نے دیا ہے ۔اس کی اصل عبارت درج ذیل ہے ؛؛

11583 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
واقعی میں مجھے آج اس مقولے پر یقین ہوگیا کہ ہر جاہل وہابی نہیں ہوتا لیکن ہر وہابی جاہل ہوتا ہے کیونکہ جو عبارت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے وہابیہ کے رد میں لکھی ایسے وہابیہ اپنے حق میں سمجھ رہے ہیں
اس عبارت سے پہلے شاہ صاحب لکھتے ہیں
پس معلوم ہوا کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ جو خدا کی ان متشا بہات سے مراد ہے ایسی پر ایمان رکھنا چاہئے مخلوقات کے مشابہات سے خدا تعالیٰ نے اس طرح تنزیہ ذکر کردی کہ لیس کمثلہ شیئ (اس کی مثل کوئی نہیں ) جس شخص نے ان کے بعد اس قول کی مخالفت کی تو گویا اسلامی طریقے کی مخالفت کی انتہے میں یہ کہتا ہوں کہ شنوائی ، بینائی ،قدرت، ضحک ،کلام استواء میں کوئی فرق نہیں اہل زبان کی نظر میں ان تمام اوصاف کے وہی معنی و مفہم ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ اقدس کے لائق نہیں
پھر فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ پھر ان اللہ کی صفات میں خوص کرنے والوں نے اہل حدیث پر بڑی زبان درازی کی اور ان نام مجسمہ اور مشبہ رکھا ہے اور کہتے ہیں یہ لوگ تجسیم چھپاتے تھے
یعنی جس طرح وہابیہ تجسیم کے قائل ہیں شاہ صاحب نے انہیں تجسیم کے قائل لوگوں کا رد کیا اور وہابیہ اسے اپنے حق میں سمجھ رہے ہیں
اسی موضوع پر امام احمد رضا بریلوی کا فتویٰ بھی جو کہ فتویٰ رضویہ میں
قوارع القہارعلی المجسمۃ الفجّار ۱۳۱۸ھ
جسمیتِ باری تعالٰی کے قائل فاجروں پر قہر فرمانے والے ( اللہ تعالٰی) کی طرف سے سخت مصیبتیں)
کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے وہابیہ کے عقیدے جسمیتِ باری تعالٰی کا رد کیا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
واقعی میں مجھے آج اس مقولے پر یقین ہوگیا کہ ہر جاہل وہابی نہیں ہوتا لیکن ہر وہابی جاہل ہوتا ہے کیونکہ جو عبارت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے وہابیہ کے رد میں لکھی ایسے وہابیہ اپنے حق میں سمجھ رہے ہیں
اس عبارت سے پہلے شاہ صاحب لکھتے ہیں
پس معلوم ہوا کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ جو خدا کی ان متشا بہات سے مراد ہے ایسی پر ایمان رکھنا چاہئے مخلوقات کے مشابہات سے خدا تعالیٰ نے اس طرح تنزیہ ذکر کردی کہ لیس کمثلہ شیئ (اس کی مثل کوئی نہیں ) جس شخص نے ان کے بعد اس قول کی مخالفت کی تو گویا اسلامی طریقے کی مخالفت کی انتہے میں یہ کہتا ہوں کہ شنوائی ، بینائی ،قدرت، ضحک ،کلام استواء میں کوئی فرق نہیں اہل زبان کی نظر میں ان تمام اوصاف کے وہی معنی و مفہم ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ اقدس کے لائق نہیں
پھر فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ پھر ان اللہ کی صفات میں خوص کرنے والوں نے اہل حدیث پر بڑی زبان درازی کی اور ان نام مجسمہ اور مشبہ رکھا ہے اور کہتے ہیں یہ لوگ تجسیم چھپاتے تھے
یعنی جس طرح وہابیہ تجسیم کے قائل ہیں شاہ صاحب نے انہیں تجسیم کے قائل لوگوں کا رد کیا اور وہابیہ اسے اپنے حق میں سمجھ رہے ہیں
اسی موضوع پر امام احمد رضا بریلوی کا فتویٰ بھی جو کہ فتویٰ رضویہ میں
قوارع القہارعلی المجسمۃ الفجّار ۱۳۱۸ھ
جسمیتِ باری تعالٰی کے قائل فاجروں پر قہر فرمانے والے ( اللہ تعالٰی) کی طرف سے سخت مصیبتیں)
کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے وہابیہ کے عقیدے جسمیتِ باری تعالٰی کا رد کیا ہے
ہم نے نصوص میں ۔۔یہود ،اور روافض ۔۔کی تحریٖف کا ذکر بہت سنا تھا ۔۔آپ کی مہربانی سے اس تحریف ۔۔شگفتہ نمونہ ۔۔آپ ہی قلم محرف سے دیکھ بھی لیا ۔۔
آپ نے جہالت کا کمال مظاہرہ فرماتے ہوئے اپنے قلم سے ۔۔شاہ صاحب کی عبارت کا ۔۔الٹ مطلب ۔۔اخذ فرمالیا ۔۔۔
شاہ صاحب نے دو گروہوں ۔۔اہل الحدیث اور اہل تاویل کا ذکر فرمایا ہے :
ان کی عبارت کا ترجمہ ہم قارئیں کے لئے پیش کئے دیتے ہیں ،
(آپ بھی آنکھیں کھول کر مستفید ہوں۔۔تاکہ اگلی پوسٹ میں جہالت کا۔۔گل دیگر ۔۔نہ کھلادیں اور کسی اسود کذاب کا حوالہ ۔۔امام کے نام سے رعب ڈالنے کےلئے نہ پھینک دیں

شاہ صاحب اہل الحدیث کا مذہب یوں نقل کرتے ہیں :
قال الأئمة نؤمن كما جاء من غير أن يفسر أو يتوهم هكذا قال غير واحد من الأئمة، منهم سيفان الثوري، ومالك بن أنس، وابن عيينة، وابن المبارك: أنه تروى هذه الأشياء ويؤمن بها، ولا يقال كيف وقال في موضع آخر: إن إجراء هذه الصفات كما هي ليس بتشبيه، وإنما التشبيه أن يقال: سمع كسمع وبصر كبصر،
کہ اہل حدیث کےائمہ فرماتے ہیں :
کہ صفات باری کو ہم بغیر تفسیر کے ،جیسے وارد ہوئی ہیں ویسے ہی مانتے ہیں (یعنی بغیر تاویل و تشبیہ و تکییف )
ان صفات کو ۔۔کما ہی ۔۔ ماننا ہرگز تشبیہ نہیں کیونکہ تشبیہ تو تب بنے جب کہا جائے ۔۔اس کی سمع فلان کی سمع جیسی ہے‘‘


اس کے بعد اہل تاویل کا ذکر کرتے ہیں :
کہ یہ لوگ زبان دراز ہیں ۔۔ظائفہ محدثین ۔۔ کے ائمہ ہدی کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں


واستطال هؤلاء الخائضون على معشر أهل الحديث، وسموهم مجسمةومشبهة، وقالوا هم المتسترون بالبلكفة،
وقد وضح علي وضوحا بينا أن استطالتهم هذه ليست بشيء وانهم مخطئون في مقالتهم رواية ودراية
وخاطئون في طعنهم أئمة الهدى

ان خوض کرنے والوں نے اہل حدیث پر بڑی زبان درازی کی ہے ،
اور تجسیم و تشبیہ کا مرتکب کہہ کر ان کو ’‘ مجسمہ ،مشبہہ کا لقب دے ڈالا ،
اور ان پر یہ الزام لگایا کہ یہ لوگ اپنے اصل عقیدہ کو چھپاتے ہیں
جبکہ (غور وخوض کے بعد ) مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ ان زبان درازوں کیزبان درازی کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔
یہ از روئے نقل و عقل اپنے قول میں بالکل غلط ہیں ۔۔اور ان ہدایت کے اماموں پر بے بنیاد طعن کرتے ہیں ’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھا آپ نے کہ شاہ صاحب کیا فرماگئے ہیں ۔۔۔
ایک طرف ۔زبان دراز۔اور بے بنیاد الزام تراش۔۔۔اور دوسری جانب ۔۔۔ہدایت کے امام (یعنی محدثین ،اور اہل حدیث )
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس کے بعد اہل تاویل کا ذکر کرتے ہیں :
چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد

چور کیسا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے
آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اہل تاویل دراصل وہابیہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت استواءکی تاویلات بیان کرتے پھرتے ہیںً جبکہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
میں یہ کہتا ہوں کہ شنوائی ، بینائی ،قدرت، ضحک ،کلام استواء میں کوئی فرق نہیں اہل زبان کی نظر میں ان تمام اوصاف کے وہی معنی و مفہم ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ اقدس کے لائق نہیں
امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں کہ

کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ۔۳؂


ہم امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔
(۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)
فتویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 133
یہاں امام ما لک فرمارہے کہ استواء مجہول ہے اور کیفیت معقول نہیں اور اس پرایمان لانا فرض ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا یا پوچھنا بدعت ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ بد مذہب لیکن وہابیہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ "یہ استواء کس طرح کا ہے؟"
اب خود ہی غور فرمالیں کہ شاہ صاحب جو کہ امام مالک کی فضیلت کے قائل ہیں وہ امام ما لک کے ان اقوال سے رو گردانی کیوں کریں گے اور حقیقتا یہ عبارت شاہ صاحب نے وبابیہ کے اس عقیدے کے خلاف لکھی ہے کہ نعوذباللہ وہابیہ اللہ کی صفت ا ستواء کا معنی اردو میں قائم ہونا یا چڑھنا بیان کرتے ہیں جبکہ امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں کہ
الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک ۔۱
۱؂ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔
( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰)
اُسی میں بطریق امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے:
ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ ۔۲؂
۲؂یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔
( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۱ وباب ماذکر فی یمین والکف ۲/ ۱۵۱

بطریق اسحق بن موسٰی انصاری زائد کیا:
لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ ۔۳؂
کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔

( ۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی اثبات العین المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۴۲)

اُسی میں حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے:
الرحمن علی العرش استوی بلاکیف ۴ ؎
رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔

(۴ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)

(۱۱) اسی میں ہے :
والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی ۔۱؂
یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)
امام ابوالقاسم لالکائی کتاب السنہ میں سیدنا امام محمد سردار مذہب حنفی تلمیذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرماتے:
اتفق الفقہاء کلھم من المشرق الی المغرب علی الایمان بالقرآن و بالاحادیث التی جاء بہا الثقات عن رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی صفۃ الرب من غیر تشبیہ ولا تفسیر فمن فسر شیئا من ذلک فقد خرج عما کان علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و فارق الجماعۃ فانہم لم یصفوا ولم یفسرواولکن اٰمنوا بما فی الکتاب والسنۃ ثم سکتوا ۔۲؂
شرق سے غرب تک تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ آیات قرآن عظیم و احادیث صحیحہ میں جو صفاتِ الہیہ آئیں ان پر ایمان لائیں بلاتشبیہ و بلا تفسیر تو جو ان میں سے کسی کے معنی بیان کرے وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقے سے خارج اور جماعتِ علماء سے جدا ہوا اس لیے کہ ائمہ نے نہ ان صفات کا کچھ حال بیان فرمایا نہ اُن کے معنی کہے بلکہ قرآن و حدیث پر ایمان لا کر چپ رہے۔

( ۲ ؎ کتاب السنۃ امام ابوالقاسم لالکائی)
طرفہ یہ کہ امام محمد کے اس ارشاد و ذکر اجماع ائمہ امجاد کو خود ذہبی نے بھی کتاب العلو میں نقل کیا اور کہا محمد سے یہ اجماع لالکائی اور ابو محمد بن قدامہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا بلکہ خود ابن تیمیہ مخذول بھی اُسے نقل کرگیا۔وﷲ الحمد ولہ الحجۃ السامیۃ ( حمد ﷲ تعالٰی کے لیے ہے اور غالب حجت اسی کی ہے۔
نیز مدارک میں زیر سورہ طٰہٰ ہے:
والمذھب قول علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ الاستواء غیر مجہول والتکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ لانہ تعالٰی کان ولا مکان فھو علی ما کان قبل خلق المکان لم یتغیر عما کان ۔۱؂
مذہب وہ ہے جو مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ استواء مجہول نہیں اور اس کی چگونگی عقل میں نہیں آسکتی اُس پر ایمان واجب ہے اور اس کے معنی سے بحث بدعت ہے اس لیے کہ مکان پیدا ہونے سے پہلے اﷲ تعالٰی موجود تھا اور مکان نہ تھا پھر وہ اپنی اُس شان سے بدلا نہیں یعنی جیسا جب مکان سے پاک تھا اب بھی پاک ہے۔

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۳/ ۵ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۴۸)

گمراہ اپنی ہی مستند کی اس عبارت کو سوجھے اور اپنا ایمان ٹھیک کرے

(۱۵) اسی میں زیر سورہ اعراف یہی قول امام جعفر صادق و امام حسن بصری و امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل فرمایا ۔۲؂

( ۲ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۷ /۵۴ دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶)

(۱۶) یہی مضمون جامع البیان سورہ یونس میں ہے۔
الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃ ۔۳؂
استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس سے بحث و سوال بدعت ہے۔(ت)

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۰/۳ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۲۹۲)

(۱۷) یہی مضمون سورہ رعد میں سلف صالح سے نقل کیا کہ:
قال السلف الاستواء معلوم و الکیفیۃ مجھولۃ ۔۴ ؎

سلف نے فرمایا : استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ہے۔(ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۳/ ۲ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۳۴۵)

(۱۸) سورہ طٰہٰ کی تفسیر میں لکھا ہے:
سئل الشافعی عن الاستواء فاجاب اٰمنت بلاتشبیہ واتھمت نفسی فی الادراک وامسکت عن الخوض فیہ کل الامساک ۔۱؂
یعنی امام شافعی سے استواء کے معنی پوچھے گئے، فرمایا : میں استواء پر ایمان لایا اور وہ معنی نہیں ہوسکتے جن میں اﷲ تعالٰی کی مشابہت مخلوق سے نکلے اور میں اپنے آپ کو اُس کے معنی سمجھنے میں متہم رکھتا ہوں مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں کہ اس کے صحیح معنی سمجھ سکوں لہذا میں نے اس میں فکر کرنے سے یک قلم قطعی دست کشی کی۔

( ۱ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۰/ ۵ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ۲/ ۱۶و ۱۵)

(۱۹) سورہ اعراف کی تفسیر میں لکھا:
اجمع السلف علٰی ان استواء ہ علی العرش صفۃ لہ بلا کیف نؤمن بہ ونکل العلم الی اﷲ تعالٰی ۔۲؂
سلف صالح کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء اﷲ تعالٰی کی ایک صفت بیچون و بے چگون ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا علم خدا کو سونپتے ہیں۔

( ۲ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۷/ ۵۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱ /۲۲۳)

(۲۰) طرفہ یہ کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں تو صرف اتنا لکھا کہ اس کے معنی ہم کچھ نہیں جانتے اور سورہ فرقان میں لکھا۔قدمرفی سورۃ الاعراف تفصیل معناہ ۔۳؂اس کے معنی کی تفصیل سورہ اعراف میں گزری۔

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۵/ ۵۹ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۸۹)

یونہی سورہ سجدہ کی تفسیر میں لکھا
قدمر فی سورۃ الاعراف ۔۴؂(سورہ اعراف میں گزرا۔ ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۳۲/ ۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۱۵۷)

یونہی سورہ حدید کی تفسیر میں قد مرتفصیلہ فی سورۃ الاعراف وغیرھا ۔۵؂ (اس کی تفصیل سورہ اعراف وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ت)

( ۵ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۵۷ /۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۳۳۶)

دیکھو کیسا صاف بتایا کہ اس کے معنی کی تفصیل یہی ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، اب تو کھلا کہ وہابیہ مجسمہ کا اپنی سند میں کتاب الاسماء و معالم ومدارک وجامع البیان کے نام لے دینا کیسی سخت بے حیائی تھا ۔ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
فتویٰ رضویہ سوفٹوئیر جلد 29 صٍفحہ 19
امید اب آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی یہ عبارت کن کے خلاف ہے
 
Top