شاہ ولی اللہ کے متصوفانہ افکار کا تحقیقی جائزہ
مقالہ نگار حسین محمد قریشی
Abstract
As an eminent scholar, well composed personality and pioneer figure in the renaissance of Islam during era 18th Century, Shah Wali Ullah (1703-1762) contribution in a big way which has its own significant weight age would be remembered for ever in the heart of the true Muslim. In present article lights has been thrown on Shah Wali Ullah’s point of view regarding “THASAUF”. Its essence, historical background, characteristics of “Shakh-e-Thariqth”. A Curriculum of “SALUKE”, as defined and recommended by worthy Shah Wali Ullah for their followers has been elaborated. By practicing the teaching of “TASAUF”, what salient effects take place in the inner psyche of Human beings? What kind of behavior constitutes and how creates self reliance and discipline in the life of “SALIK” ? So, the confusion in Integration between the “SHARIATH” and “TARIQATH” solved in very sophisticated way and results have compiled.نابغہ عصر مفکرِ اسلام شاہ ولی اللہ (ولادت ۱۰ فروری ۱۷۰۳ء وفات اگست ۱۷۶۲ء) اپنے عہد اٹھارویں صدی عیسوی کے مجدد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک جید عالم دین، ایک باکمال فقیہہ، ایک دانش مند سیاسی مدبر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک عارف صوفی اور فلسفی کے طور پر ان کی علمی حیثیت یاد رکھی جائیگی۔ آزادی ہند کے سلسلہ میں دوسرے مجاہدینِ ملت اور آزادی کےسپوتوں کے مساعی کے علاوہ شاوہ ولی اللہ کے علمی و عملی مساعی کو نمایاں دخل رہا ہے۔ (۱)
پاکستان ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے اسلام اور جاملین اسلام کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ رکھتا ہے، اس رشتہ کی بقاء سے اس ملک کا استحکام ہے اور یہی نظریہ اس کی پہچان ہے، تخلیقِ پاکستان کے پس منظر میں اس نظریہ کی آبیاری جن حضرات نے کی، ان میں دوسرے زعماءِ ملت کے علاوہ صوفیاء کی خاموش جدوجہد کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے، ماضی میں صوفیاء کی خاصی تعداد اس حوالے سے بطورِ دلیل پیش کی جاسکتی ہے، ماضی قریب میں اس حوالے سے علامہ اقبال نے جن شخصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ ان میں سے شیخ احمد سرہندی م ۱۶۲۴ء، سلطان محی الدین اورنگزیب م ۱۷۰۷ء اور شاہ ولی اللہ شامل ہیں۔ علامہ کا یہ بھی لکھنا ہے، تصوف جیسی علمی قدر اٹھارویں صدی میں ہر قسم کے آمیزش سے محفوظ رہی ہے، اگر اس وقت کے علمی اشخاص ان کی حفاظت میں تساہل سےکام لیتے تو اسلامی فلسفہ یقیناً ہندو تہذیب کے زیرِ اثر آتا۔ (۲)
لہٰذا تصوف ایک اہم قدر کےطور پر اسلامی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ تصوف کیا ہے؟ کیا پیغمبر علیہ السلام کے عہد میں تصوف کا وجود تھا؟ شاہ ولی اللہ تصوف کا تاریخی پس منظر کیا بیان کرتے ہیں؟ کیا تصوف تمدنی علائق کو ترک کرکے مخصوص وضع کی زندگی ؟ اگر تصوف باطنی صفائی کا نام ہے تو اس کا شریعت جو ظاہری احکام کی پیروی سے عبارت ہے، کے ساتھ کیسے ربط جوڑا جاسکتا ہے؟ شاہ صاحب سالکین کے لئے کیا نصابِ سلوک تجویز کرتے ہیں؟ المختصر اس تحقیقی مضمون میں تصوف سے متعلق شاہ ولی اللہ کی مخصوص نظر اور اُٹھائے گئے سوالات کا محققانہ جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
تصوف کی حقیقت انسان کی نفسی قوتوں کو بیدار کرکے اُسے اوجِ کمال پر پہنچانا ہے۔ انسان کی نفسی قوتیں بے پناہ تغیر کا باعث ہیں، انسان کی لامحدود قوتیں عالمِ افاق کی بجائے جب صرف نفسِ انسانی کو اپنی تحقیق و تسخیر و تسخیر کا مرکز بناتی ہیں، تو اس کی وجہ سے اس پر زندگی کے وہ مافوق الادراک حقائق منکشف ہو جاتے ہیں، جن کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا ایک مقصد انسان کے لطائف و ملکات کو بیدار کرنا ہے یہ اعمال کی روح ہے، وہ تصوف سے مقصود احکامِ الہٰی کی تعمیل کے نتیجہ میں چار اُم الا خلاق طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت کی صفات سے انسانی نفس کو مزین کرنا اور ان کے اضداد یعنی حدث و خُبث، استکبار، خود غرضی اور ظالم سے گلو خلاصی پانا قرار دیتے ہیں، چونکہ تصوف سے مقصد اعلٰی اخلاق کی تشکیل ہے، اس لئے صوفیاء کی کتب میں اخلاقیات ہی کو تصوف کہا گیا ہے۔
امام الہند نے اپنی کُتب میں تصوف و احسان کے بارے میں قدرے وسعت سے لکھا ہے، اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ جو شاہ صاحب کی (Magnum Opus) ہے، کو گوانہوں نے اصلاً شریعت کے اسرار و حِکم، مقاصد و اغراض احادیث کی توضیح میں لکھی تھی، تاہم اس کی دوسری جلد کے آغاز میں ارکانِ اسلام نماز، زکٰوۃ، روزہ اور حج میں سے ہر ایک کی حقیقت اور بھر پور حکمتِ تشریع بیان کرنے کے بعد مبحث فی ابواب من الاحسان کی ذیل میں انہوں نے تصوف کے مسائل کا بھر پور احاطہ کیا ہے، شاہ صاحب عام صوفیاء کی طرح طریقت کو شریعت کا تابع سمجھتے ہیں اور احکامِ الہٰی کی بجا آوری کے نتیجہ میں باطنی کیفیات و نتائج کو احسان و تصوف ہی قرار دیتے ہیں۔ (۳)
الغرض تصوف سے متعلق متعین کردہ مباحث کا شاہ صاحب کی نظر میں احاطہ کرنا مقصود ہے، تاہم باضابطہ طور پر آغازِ بحث سے پہلے شاہ صاحب کا اس موضوع سے متعلق کُتب کا تعارف اور خود تصوف کی حقیقت سے متعلق اہل فن کی آراء سے واقفیت برمحل ہے۔
شاہ صاحب کی تصوف پر مشتمل کُتب:
تصوفانہ فلسفہ کے موضوع پر شاہ صاحب کی جن پانچ کتابوں کو اساسی اہمیت حاصل ہے، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) القول الجمیل (۲) الطاف القدس جی معرفتہ الطائف النفس (۳) سطعات (۴) ھمعات (۵) لمحات۔
سالک جب تصوف کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو ذکر و اذکار اور وظائف کا پورا پروگرام "القول الجمیل" پیش کرتی ہے، گویا "القول الجمیل" سالک کے لئے قوعد طریقت یعنی ان دعوات و اعمال پر مشتمل رسالہ ہے، جس کی روشنی میں انسان تصوف کی منزل کو پاسکتا ہے، یہ رسالہ سالک کا دستور العمل ہے۔
عالَم صغیر یعنی انسان کا اصطلاحی نام سِر ہے، لہٰذا شاہ صاحب نے الطاف فی معرفتہ لطائف النفس "لطیفہ عقل، لطیفہ قلب، لطیفہ نفس، روح، سِر، خفی، اخفی، حجر بہت وانا کی حقیقت میں لکھی ہے۔ امام الہند نے ان لطائف ظاہر و باطنہ کی تہذیب کے طریقے بیان کئے ہیں اور یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی اندرونی نفسی قوتوں یعنی عقل، ارادہ اور تدبیر نفس پر سلوک کا کیا اثر پڑتا ہے اور ایک قوت دوسری قوت سے کس طرح پھوٹ کر نکلتی ہے۔ ایک مسلمان کو جس طرح ظاہر شریعت کی پابندی کرنی ضروری ہے، اس طرح باطنی تصفیہ و تحلیہ بھی تکمیل انسانیت کے لیے ناگزیر ہے، الغرض الطاف القدس کا موضوع لطائف کی حقیقت کا بیان ہے۔
صوف کی آخری منزل یا ایک ترقی یافتہ دماغ کو سلوک کا منتہٰی یعنی نوع انسانی کے موطن "حظیرۃ القدس" سے تعلق کے عمیق مسئلہ کو سمجھانے کے لئے آپ نے اپنی مایہ ناز کتاب "سطعات" تحریر فرمائی، یہ کتاب نفسی تکمیل کے ارتقاء سے متعلق منفرد بحث پر مشتمل ہے، سطعات فارسی زبان میں ہے اس کتاب میں تجلی الٰہی، تنزلات ستہ کے علاوہ "وجود" سے متعلق بحث شامل ہے۔
اس طرح تاریخِ تصوف کے ابتدائی دور میں جو بڑے سالک و صوفی گذرے ہیں، مثلاً بایزید بسطامی ۲۶۱ءھ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ۲۹۷ھ اور آخری دور میں شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ معین الدین چشتی اور حضرت بہاوالدین نقشبندی رحمہم اللہ تعالٰی نے تصوف و سلوک کو کن خطوط پر استوار کیا؟ اور ان کی صحبت سے کامل کس طرح پیدا ہوئے؟ بالفاظِ دیگر تصوف کے فلسفہ تاریخ پر مبنی دستاویز شاہ صاحب کی کتاب "ھمعات" کی شکل میں موجود ہے، یہ تاریخ تصوف کے مستور گوشوں کو سر عام لاتی ہے۔
اسلامی تصوف کا تقابلی رنگ کیا ہے؟ اسی طرح تصوف کی عقلی تو جیہہ کیا ہے؟ ایک صوفی اسلامی تصوف کے فلسفے کو پُرانی یونانی اور ہندی حکماءِ انسانیت کے اصولوں پر کیسے تفوق و برتری ثابت کرسکتا ہے؟ اس حوالہ سے شاہ صاحب نے "لمحات" لکھی یہ کتاب اپنے موضوع پر مجہتدانہ مقالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
بظاہر تصوف کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی کُتب کا تعارف تشنہ رہ جائیگا، اگر اس کا تذکرہ نہ ہو کہ ان مذکورہ پانچوں کتابوں کی تمہید شاہ صاحب کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید م ۱۸۳۱ء نے "العبقات" کے نام سے لکھی جو درحقیقت علمِ فلسفہ و تصوف اور حکمتِ الٰہیہ کے مسائل و مباحث کا بیش بہا ذخیرہ ہے، یہ مجموعہ جہاں الٰہیاتی مسائل و فلسفہ کے حوالہ سے ادق ترین کاوش ہے اور اس میں جہاں "وجود" اور دوسری ماورء الطبعیاتی تحقیقات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہاں یہ انسانی فکر و نظر کی گُتھیاں سلجھانے والی کتاب بھی ہے، اس کتاب میں ولی اللہ کی زبان بولتی نظر آتی ہے، علاوہ ازیں امام الھند نے متصوفین کے طریق کی تفصیل پر مشتمل" الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ "لکھی، جبکہ اپنے والد ماجد اور چچا کی سوانح حیات، جس کو شاہ صاحب کے فلسفہ تصوف کی روح کہنا چاہیے "انفاس العارفین" قلم بند کی، "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" مرتبہ مولانا نسیم احمد امروھوی بھی موضوع (تصوف) پر ایک وقیع کاوش ہے۔
تصوف چونکہ ایک ذوقی و کیفی طرزِ فکر سے بڑھ کر طریقہ حیات ہے، اس لئے اس کی تعریفات میں تنوع کا پایا جانا ایک لازمی عمل ہے، تاہم تصوف کی تعریفات کے نتیجہ میں قدرِ مشترک کے طور پر ان امور کو ڈھونڈ نکالا جاسکتا ہے، جن پر تصوف کی عمارت استوار ہے۔
تصوف کی لغوی و اصطلاحی تعریفات:
اکثر اہل علم کے نزدیک کلمہ تصوف "صوف" سے نکلا ہے، تصوف باب تَفعّل کے وزن پر ہے، جیسے کہا جاتا ہے تقمص، اس نے قمیص پہنی، چونکہ اکثر صوفیاء "اون" کا مخصوص لباس زیب تن کرتے تھے، اس لئے وہ حضرات "صوفی" کہلانا شروع ہوئے، صاحبِ منجد لکھتے ہیں:
تصوف فلانا ای صار صُوفیاً تخلق با خلاق الصوفیہ فیتُ من المتعبدین واحد ھم "صوفی" و ھومن کان فانیاً بنفسہ باقیا باللہ مستخلصاً من الطبائع متصلاً بحقیقتہ الحقائق (۴)
تاریخ اسلام میں لفظ "صوفی" کی اصطلاح کب وجود میں آئی؟ تصوف کا رواج کب پڑا، اس حوالہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کلمہ کا رواج پہلی صدی ہجری میں ہی پڑچکا تھا، امیر معاویہ نے اپنے دورِ خلافت ۴۱ھ میں اس کلمہ کو یوں استعمال کیا:
قد کنت تشبہ صوفیاً لہ کُتب: من الفرائض او اٰیات فرقان"۵)
حالانکہ تُوایسے صوفی سے مشابہت رکھتا تھا، جو فرائض و احکامِ دین کی کتابوں کا مالک تھا۔
لفظ تصوف کی تحقیق کے سلسلے میں شیخ ابوالحسن علی ہجویری م ۴۴۶ھ لکھتے ہیں:
اس اسمِ تصوف کے ماخذ کی تحقیق میں بہت سے اقوال پیش کئے گئے ہیں، حتی کہ مخصوص کتب اس حوالہ سے لکھی گئیں ہیں، ایک گروہ کے نزدیک اہل تصوف کو صوفی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ "صوف" کا لباس زیب تن کرتے تھے، دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ ان کو صوفی اس لئے کہتے تھے کہ وہ برگزیدہ میں صفِ اول میں ہوتے تھے، تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ ایسے حضرات کو صوفی اس لئے کہتے تھے کہ وہ اصحابِ صفہ سے محبت کرتے تھے اور چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ "صفا" بمعنی پاکیزگی سے ماخوذ ہے(۶)
حضرت شیخ ہجویری مزید لکھتے ہیں:
اس لفظ (تصوف) کی تحقیق کے سلسلے میں فن کے ہر شخص نے لطیف اشارے بیان کئے ہیں، لغوی معنی کے اعتبار سے وہ سب حقیقی معنی سے دور ہیں، فی الواقع "صفا" ان سب میں زیادہ قابل قبول ہے، اس لفظ کی ضد کدورت ہے، چونکہ اہل تصوف اپنے اخلاق و معاملات کو ایک خاص مقام تک لے جاتے ہیں اور طبیعت کی آفت سے بے زاری اختیار کر لیتے ہیں، اس لئے ان قدسی صفات لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ (۷)
صوفی کو کس چیز کی تلاش رہتی ہے، وہ کیا چاہ رہا ہوتا ہے، اس سے بھی اس لفظ کے ماخذ کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔
معروف کرخی م ۲۴۵ھ سے جب "صوفی" کے متعلق سوال کیا گیا، تو جواب دیا "صوفی وہ لوگ ہیں جو کائنات میں ماسواء اللہ کو چھوڑتے ہیں اور اللہ کو پسند کرتے ہیں (۹)
سہیل ابن عبداللہ تستری م ۲۸۳ھ صوفی کے مطمعح نظر سے متعلق لکھتے ہیں:
صوفی وہ ہے، جس کا دل کدورت سے خالی ہو اور تفکر سے پُر ہو اور قربِ خدائے عزوجل میں بشر سے منقطع ہو اور اس کی آنکھ میں خاک اور سونا برابر ہو۔ (۱۰) ابوالحسن نوری م ۲۹۵ھ سے مروی ہے:
صوفی وہ لوگ ہیں، جن کی روح بشریت کی کدورت سے آزاد ہوگئی ہو اور آفتِ نفس سے صاف ہوئی ہو، وہ ہوا و ہوس سے خالص ہوگئے ہوں، یہ لوگ صفِ اول و درجہ اعلٰی میں خداوند کریم سے قربت حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ (۱۱)
تصوف کے میدان میں سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ۲۹۷ھ کا بڑا نام ہے، وہ لکھتے ہیں:
صوفی وہ ہے جس کا دل دنیا سے متنفر اور فرمان الٰہی کو ماننے والا ہو، اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تسلیم، حضرت داود علیہ السلام کا انداز، حضرت عیسٰی علیہ السلام کا فقر، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت موسٰی علیہ السلام کا شوق اور پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق ہو۔(۱۲)
حضرت منصور حلاج م ۳۰۹ھ اور ابوبکر شبلی م ۳۳۴ھ "صوفی" کی تعریف میں ہم خیال ہیں، وہ لکھتے ہیں صوفی وہ ہے، جو خلق سے منقطع ہو اور حق تعالٰی سے متصل ہو۔ (۱۳)
علامہ قشیری م ۴۶۵ھ اپنے زمانے کے بڑے صوفی تھے، ان کی کتاب "الرسالت القُشیریتا" آج بھی تصوف کے موضوع پر سند کی حیثیت رکھتی ہے، ان کا بیان ہے:
زیادہ صحیح بات ہے کہ یہ لقب کی طرح ہے، جو لوگ کہتے ہین کہ یہ لفظ صوف سے لیا گیا ہے اور تصوف کے معنی ہیں، اس نے صوف کا لباس پہنا، جس طرح تقمص کے معنی ہیں، اس نے قمیص پہنی، تو یہ ایک معقول توجیہ ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ جو الفاظ ہیں مثلاً یہ کہ صفاء اصحاب صفہ سے ماخوذ ہے، یا یہ لفظ صفا بمعنی (طہارت) سے مشتق ہے، تو عربی لغت کے قاعدے اس سے اب کرتے ہیں (۱۴)
حضرت مجد الف ثانی م ۱۶۲۴ء اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ تصوف کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تصوف شعائر اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے، لٰہذا ان کے ہاں تصوف کا حاصل شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت ہے(۱۵)
علم تصوف کی مختلف تعریفات کی گئیں ہیں، تاہم علم تصوف کی آج تک کوئی جامع مانع تعریف سامنے نہ آسکی اس لئے کہ یہ ایک وجدانی مسئلہ ہے، ہر کسی نے اپنے ذوق کے مطابق جیسے محسوس کیا، الفاظ کے پیرہن میں مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی اور تعبیر اختیار کی، ذوق و وجدان میں تنوع کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے، اس حوالہ سے دوسری مشکل یہ سامنے آتی ہے کہ تصوف اپنے اندر اثراتِ زمانہ جذب کرتا رہا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علم تصوف کی کتابیں ابتداءً علمِ حدیث کے اسلوب پر بطریق اسناد مرتب ہوئیں، قرونِ اولٰی میں یہ میدان خالصتہً علمی رنگ میں موجود تھا، بعد میں یہ فلسفہ کا روپ دھار گیا، دورِ قرونِ وسطٰی میں منصور حلاج م ۳۰۹ھ اور شبلی م ۳۳۴ھ نے تصوف کو جس رنگ میں پیش کیا، شیخ ابن عربی اندلسی م ۶۳۸ھ نے اس کی انتہاء کردی، موصوف نے اس علم کو بالکل رمزی اور علامتی زبان عطا کی، گویا کہ انہوں نے تصوف کو نئے خطوط پر استوار کیا۔
اگر تاریخ تصوف و صوفیاء پر نظر ڈالی جائے تو آٹھویں صدی عیسوی تک مسلم صوفیاء کے ہاں اتباعِ شریعت اور عمل صالح سے متعلق ترغیبی کلمات ملتے ہیں، اس میں کسی خارجی فلسفیانہ فکر کا اضافہ دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کے بعد تصوف میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوئی، خصوصاً حضرت شبلی کے ہاں یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جانے لگی، جیسا کہ ان کی بالا تعریف تصوف سے یہ امر واضح ہے۔، صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب تصوف کا پہلا مفہوم باقی نہ رہا، یعنی تزکیہ نفس اور تعمیرِ اخلاق سے اس کا رخ ایک مابعد الطبیعاتی نظریہ و فلسفہ کی طرف ہونے لگا۔ حضرت شبلی نے خود کہا کہ تصوف ایک شرک ہے، اس لئے کہ تصوف نام ہیں، دل کو مشاہدہ غیر سے محفوظ رکھنے کا، حالانکہ غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔
یوں دسویں صدی ہجری میں جبکہ تصوف عمل کے میدان سے نکل کر فکر کے ایک مخصوص میدان میں داخل ہوا، ابن عربی اندلسی نے تصوف کی حیثیات میں پیش کیا، کہ تصوف کے مفہوم تک کو بدل ڈالا، انہوں نے تصوف کے پورے فلسفہ کو علمی ورمزی انداز میں پیش کیا، اور تصوف کو نئی جہت دی۔
تصوف کی تعریفات اور تاریخی پس منظر کے حوالہ سے یہ بیان کرنا حسبِ حال ہے کہ جب تصوف علم کے میدان سے نکل کر محض فلسفہ و نظری بحث تک سمٹ آیا تو مغربی محققین نے بھی اس حوالہ سے وقیع کام پیش کیا، اس حوالہ سے نویلڈیکی م ۱۹۳۰ء پروفیسر نکلسن ۱۹۴۰ء کے اسماء قابل ذکر ہیں، دونوں مفکرین نے تصوف کے حوالہ سے قابل قدر معلومات فراہم کیں، البتہ ان مفکرین کا یہ لکھنا کہ صوفیاء نے ریشم کے لباس کو عیسائی راہبوں کی متابعت میں پہننا شروع کردیا تھا اور اندرون بینی (Introspectionsٰ اور ترکِ دنیا کے رجحانات صوفیاء نے راہبوں سے حاصل کئے تھے، محل نظر ہے (۱۶)۔
تصوف کا موضوع آیات انفس و افاقی کا بیان ہے، انسان اور کائنات کی حیثیات سے متعلق بحث و فکر کرنا، قرآن حکیم کا بھی حکم ہے، سنریھم فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہہ الحق (۱۷) ترجمہ: ہم تمہیں عالم آفاق و کائنات میں اور تمہارے خود اپنے نفسوں میں نشانیاں دکھلائیں گے، حتٰی کے انہیں یہ بات واضح ہو جائیگی کہ اُس اللہ کا وجود برحق ہے۔
دراصل آیات انفس تصوف ہے اور آیات آفاقی طبیعات اور تجرباتی سائنس ہے، جن کے بارے میں قرآن اعلان کرتا ہے، لہٰذا خارجی اور نفسی و وجدانی دونوں امور کا نام تصوف ہے، گہری نظر سے دیکھا جائے توتصوف کی حدیں الہٰیاتی مسائل یعنی وجود باری تعالٰی، صفات وشیون باری تعالٰی، کائنات و صدور کائنات اور خود انسان کی حقیقت اور انسان کے مقام جیسے مباحث سے ملتی نظر آتی ہیں، یہ تمام موضوعات فلسفہ کے مباحث ہیں، جو بعد میں تمام جزئیات کے ساتھ تصوف کے مباحث کا حصہ قرار پائے، ابو ریحان البیرونی م ۱۰۴۸ء نے تصوف کی تعریف میں اسی چیز کو ملحوظ رکھا۔ انہوں نے بہت پہلے لکھا: "السوفیہ ھم الحکماء فان سوف بالیو نانیہ الحکمتہ وبھا یسمی الفیلسوف فیلا سوفاً ای محب الحکمت ولا ذھب فی الاسلام قومُ الی قریب من رائتھم سمو باسمھم" (۱۸)
صوفیاء حکماء و فلاسفر ہیں، کیونکہ یونانی زبان میں سوف کی معنی حکمت و فلسفہ کے ہیں، اسلئے کہ یونانی زبان، میں فیلسوف کوفیلاسوفا کہا جاتا ہے، یعنی فلسفہ سے محبت کرنے والا، چونکہ اسلام میں ایک جماعت باعتبار مسلک ان کے قریب تھی، اس لئے اس جماعت کا نام بھی صوفی ہو گیا۔
علامہ لطفی جمعہ نے بھی صوفی کا ماخذ یونانی زبان ہی بتایا ہے، ان کا لکھنا ہے:
صوفی کا لفظ "ثبوصفیا" سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے اور جس کے معانی حکمت کے ہیں، صوفی وہ حکیم ہے جو حکمتِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے، اور اسکے حصول میں کوشاں رہتا ہے، صوفی کی غرض و غایت "حقیقت الحقاق" تک رسائی پانا ہے۔ (۱۹)
بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ بعد کے ادوار میں صوفیاء سے وہ لوگ مراد لئے جانے لگے، جو حکماء (Philosophers) کی طرح حقیقت الحقائق کے مسائل پر غور کرتے تھے، ان کا وظیفہ ہی اشتیاقِ علم، محبت و دانش، تلاشِ حقیقت رہا، یہ کائناتی اور نفسی قوتوں کے رموز و اسرار معلوم کرنے میں متفکر رہتے تھے، وہ ہر چیز کو مخصوص انتقادی نظر سے دیکھتے تھے، نفسی کیفیات و مشاہدات کو تجربی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور سائنسی طریق کی طرح نتائج مرتب کرتے تھے۔
لہٰذا تصوف اور صوفی سے متعلق ایک تاریخ وابستہ ہے، اس لئے اس کی حقیقت کے بیان میں تنوع کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔
ابن عربی کے عہد میں جب "وجود" کی بحث تصوف کا مستقل موضوع ٹھہرا اور اس حوالہ سے مستقل مسالک قائم ہوئے، وجود کی حقیقت میں غور کرتے کرتے مفکرین کے اذہان میں یہ سوالات انگڑائیاں لینے لگے کہ جب وجود بسیط یا وجود حقیقی ایک ہے تو موجودات کائنات کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟ ایسے حالات میں وجود کی دقیق بحثوں کو بنیاد بناکر مفکرین نے بڑے شدو مد سے ایسی تحقیقات پیش کیں اور ثابت کیا کہ تصوف کے اکثر مسائل میں ہندی کے اپنشدوں، ویدانت، بھگوت گیتا، بدھ مت، مسیحیت یا یونانی فلسفہ کے نوافلاطونیت کا اثر ہے اور یہ ان سے ماخوذ ہے، (۲۰) مفکرین نے ان فلسفوں میں قدر مشترک کو ڈھونڈ نکالا اور اپنے مزعومہ دعوی کو ثابت کرنے کی کوشش کی، انہوں نے تصوف کے جزوی مسئلہ کو لیکر مذکورہ مذاہب کے کسی جزوی مسئلے کا مماثل قرار دیا اور پورے تصوف کو متعلقہ مذہب سے ماخوذ ہونے کا دعوٰی کیا، دراصل ادنٰی مناسبت سے بعد کے علوم کو قدیم علوم پر استوار کرکے اس کی ترقی یافتہ یا اصلاحی شکل قرار دینا اس زمانے میں ایک عام غلطی کے طور پر رائج ہوئی، جو اصلاح طلب ہے۔ فقہ کا رومن لاء سے ماخوذ ماننا، ڈارون کا نظریہ ارتقاء اس غلطی کی عام مثالیں ہیں۔
اگر کوئی صاحبِ نظر تصوف کے ڈانڈے غیر اسلامی ماخذ کے ساتھ ملاتے ہیں، تو مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اسلامی تصوف اور غیر اسلامی تصوف الگ الگ حیثیتوں کے درجہ میں قبول کر لیں، اسلامی تصوف کی بنیاد خالصتہ توحید پر قائم ہے، یہ فطرت انسانی سے ہر لحاظ سے ہم آہنگ ہے، ایک لحاظ سے فطرت سلیمہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، اسلامی تصوف کو بعض جہات سے ویدانت یا نوافلاطونیت سے مماثلت کی وجہ سے تصوف کو عجمی افکار کا مجموعہ کہنا ہی حقائق سے اغماض ہے، کیونکہ کتنے علوم ہیں، جو عہد نبوت کے بعد منصہ شہود پر آئے اور مسلمانوں نے نہ صرف ان علوم کو متعارف کرایا، بلکہ ان کے اصول و جزئیات کی تدوین کرکے پوری دنیا میں ان کی اہمیت و افادیت کو منوایا ہے، علم اصول فقہ، علم مصطلح الحدیث کے علاوہ خود علم تصوف کا بھی یہی حال ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ علم تصوف قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے سے الگ کوئی چیز نہیں البتہ یہ مخصوص طرزِ حیات اور محبت علمِ ہے، یہ تصوف کی وہ ابتدائی تعریف ہے جو عہد نبوی میں رہی، تصوف کے حوالہ سے باقی تمام مباحث علمی موشگافیاں ہی ہیں، تصوف کی اس اصل کی طرف دنیا پھر پلٹ رہی ہے، زمانہ حال کے عظیم صوفی وجید عالمِ دین شاہ اشرف علی تھانوی اتباع شریعت کا نام ہی تصوف رکھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: "تصوف کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تصوف کی حقیقت ارشادِ الہٰی کے مطابق اِتقواللہ حق تقاتاہ (۲۱) یعنی اللہ تعالٰی سے اس طور پر ڈرتے رہنا، جیسے کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، کہ سوا اور کچھ نہیں، تقوٰی کا راز اتباع سنت میں مضمر ہے(۲۲)۔ تصوف کی حقیقت سے متعلق بحث یہاں انتہاء کو پہنچتی ہے، خود شاہ ولی اللہ تصوف کا تاریخی پس منظر کیا بیان کرتے ہیں؟ ان کی نظر میں اس علم کی بنیادیں کیا ہیں؟ یہ کن مراحل سے ہوکر تنو مند ہوا؟