• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شبِ برات احادیث مبارکہ کی روشنی میں ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شبِ برات
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ

حافظ زبیر احمد
ہمارے ہاں شبِ برات کے حوالے سے دو انتہائیں پائی جاتیں ہیں۔ایک طرف متشدّد ین ہیں جواسے بدعت قراردیتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔ اس مضمون میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان امور کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا کرنا ماہِ شعبان یا شبِ برات میں مستحب و مستحسن ہے اور ان خرافات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کو عبادت کے نام پر دین کا ایک حصہ بنا لیا گیا۔ علامہ البانی نے ماہِ شعبان اور شبِ برات کے حوالے سے تقریباً ایک سو پینتیس (۱۳۵) صحیح ‘ حسن ‘ضعیف اور موضوع روایات کو مختلف کتبِ احادیث میں بیان کیا ہے ۔اِن کے علاوہ بھی بعض دوسرے علماء نے کتب تفسیر وغیرہ میں کچھ روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔اس مضمون کو ترتیب دیتے وقت میں نے ان تمام روایات کو سامنے رکھااور مکررات کو حذف کرتے ہوئے ایک ہی موضوع کو بیان کرنے والی احادیث میں سے جامع احادیث کو بیان کر دیاہے‘ تا کہ مقصد کے حصول کے ساتھ ساتھ غیر ضروری طوالت سے بھی بچا جا سکے ۔حدیث پر حکم لگاتے وقت علامہ البانی کی تحقیق و تخریج سے استفادہ کیا گیا ہے۔اس مضمون میں حدیث کی کچھ بنیادی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے جن کا تعارف مَیں عام قارئین کے لیے ضروری سمجھتا ہوں ۔
حدیث کی بنیادی طور پردو اقسام ہیں ۔ ایک ’’مقبول‘‘ یعنی جس کو قبول کیا جائے اور دوسری ’’مردود‘‘یعنی جس کو ردّ کر دیا جائے ۔’’مقبول‘‘ روایت وہ ہے جو احکامِ شرعیہ کے ثبوت کے لیے دلیل بن سکے اور ’’مردود‘‘ روایت وہ ہے جو احکامِ شرعیہ کے ثبوت کے لیے دلیل نہ بن سکے ۔ ’’مقبول‘‘ روایت کی دو قسمیں’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ ہیں جبکہ باقی تمام اقسامِ حدیث مثلاً ضعیف ‘ موضوع اور منکر وغیرہ ’’مردود‘‘ ہیں ‘ جن کو دین کے کسی معاملے میں حجت نہیں بنایا جا سکتا ۔
مضمون کو آسانی کی خاطر دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے حصے میں ماہِ شعبان کی فضیلت سے متعلقہ روایات کو جمع کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں شب برات کی احادیث کو بیان کیا گیا ہے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ماہِ شعبان کی فضیلت میں صحیح روایات
1
۔عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَدَّثَـتْـہُ قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ ﷺ یَصُوْمُ شَھْرًا اَکْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ فَاِنَّـہٗ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ وَ کَانَ یَقُوْلُ: ((خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا)) (۱)
’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے ۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے :’’اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُکتاتا ‘یہاں تک کہ تم (عمل سے) اکتاجاؤ۔‘‘
2۔ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ سَأَ لْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ صِیَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَتْ کَانَ یَصُوْمُ حَتّٰی نَـقُوْلَ قَدْ صَامَ وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ قَدْ اَفْطَرَ وَلَمْ أَرَہُ صَائِمًا مِنْ شَھْرٍ قَطُّ اَکْثَرَ مِنْ صِیَامِہٖ مِنْ شَعْبَانَ ‘ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ اِلاَّ قَلِیْلًا (۲)
’’حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے (نفلی) روزوں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپؐ اتنے دن روزہ رکھتے تھے کہ ہم کہتے کہ آپؐ نے بہت روزے رکھے اور آپؐ اتنے دن روزہ نہ رکھتے کہ ہم کہتے کہ آپؐ نے بہت دن روزہ نہیں رکھا۔ اور میں نے آپؐ ‘کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھتے تھے‘ آپؐ شعبان کاسارا مہینہ روزہ رکھتے تھے سوائے چند دن کے۔‘‘
3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ اَحَبَّ الشُّھُوْرِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَنْ یَصُوْمَہٗ شَعْبَانُ (۳)
’’اللہ کے رسول ﷺ کو سب مہینوں میں سے شعبان میں روزہ رکھنا زیادہ پسند تھا ۔‘‘
اس حدیث میں نفلی روزے مراد ہیں نہ کہ فرض روزے‘ ورنہ اس اعتبار سے اللہ کے رسول ﷺ کو سب سے زیادہ رمضان کا مہینہ پسند تھا ۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : (( اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا)) (۴)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے نصف شعبان کے بعد اپنی اُمت کو اس لیے روزہ رکھنے سے منع فرمایاکہ مبادارمضان کے فرض روزوں میں کوتاہی اور سستی ہوجائے۔
5۔عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ ﷺکَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَبُّ الشُّھُوْرِ اِلَیْکَ اَنْ تَصُوْمَـہٗ شَعْبَانَ قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ یَکْتُبُ فِیْہِ کُلَّ نَفْسٍ مَیْتَۃٍ تِلْکَ السَّنَۃِ فَأَحَبُّ اَنْ یَاْتِیَنِیْ اَجَلِیْ وَاَنَا صَائِمٌ))(۵)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ شعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھتے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ !آپ سب مہینوں میں سے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ‘تو آپؐ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ اس مہینے میں اس سال مرنے والوں کے نام لکھ دیتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میری موت کے بارے جب فیصلہ کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے یہ پتا چلتا ہے کہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا مستحب و مستحسن امر ہے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ماہِ شعبان کی فضیلت میں حسن روایت
1۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
شَعْبَانُ بَیْنَ رَجَبَ وَشَھْرِ رَمَضَانَ تَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ تُرْفَعُ فِیْہِ اَعْمَالُ الْعِبَادِ فَاَحَبُّ اَنْ لاَّ یُرْفَعَ عَمَلِیْ اِلاَّ وَاَنَا صَائِمٌ (۶)
’’شعبان ‘ ماہِ رجب اور ماہِ رمضان کے درمیان ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس سے لوگ غافل رہتے ہیں‘ حالانکہ اس میں لوگوں کے اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ اور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اوپر اٹھائے جائیں کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
ماہِ شعبان کی فضیلت میں ضعیف روایات
۱۔عَنْ اَنَسٍ قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّﷺ اَیُّ الصَّوْمِ اَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: ((شَعْبَانُ))(۷)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا گیاکہ رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا :’’شعبان۔‘‘
۲۔ ((شَھْرُ رَمَضَانَ شَھْرُ اللّٰہِ وَشَھْرُ شَعْبَانَ شَھْرِیْ ٗ شَعْبَانُ الْمُطَھِّرُ وَرَمَضَانُ الْمُکَفِّـرُ)) (۸)
’’رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے ۔شعبان( گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے جبکہ رمضان( گناہوں کو) مٹانے والا ہے ۔‘‘
ماہِ شعبان کی فضیلت میں موضوع روایات
۱۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اِنَّمَا سُمِّیَ شَعْبَانُ لِأَنَّہٗ یَتَشَعَّبُ فِیْہِ خَیْرٌ کَثِیْرٌ لِلصَّائِمِ فِیْہِ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ (۹)
’’شعبان کو شعبان اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس مہینے میں روزہ رکھنے والے کے لیے مختلف قسم کی بہت ساری بھلائیاں جمع ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔‘‘
۲۔حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
شَعْبَانُ شَھْرِیْ وَرَمَضَانُ شَھْرُ اللّٰہِ (۱۰)
’’شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ‘‘۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شب برات کی فضیلت میں صحیح روایت
۱۔وَعَنْ مُعَاذَ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ: ((یَطَّلِعُ اللّٰہُ اِلٰی جَمِیْعِ خَلْقِہٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ اَوْ لِشَاحِنٍ )) (۱۱)
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔‘‘
شب برات کی فضیلت میں حسن روایت
۱۔حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
((اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِطَّلَعَ اللّٰہُ اِلٰی خَلْقِہٖ فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَیُمْلِیْ لِلْکَافِرِیْنَ وَیَدَعُ اَھْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِھِمْ حَتّٰی یَدَعُوْہُ)) (۱۲)
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں ۔‘‘
(یعنی جب تک وہ بغض اور کینہ ختم نہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا)۔
شب برات کی فضیلت میں ضعیف روایات
۱۔حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
((اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادٰی مُنَادٍ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہٗ؟ ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأَعْطِیَہُ؟ فَلَایَسْاَلُ اَحَدٌ شَیْئًا اِلاَّ أُعْطِیَ اِلاَّ زَانِیَۃٌ بِفَرْجِھَا أَوْ مُشْرِکٌ)) (۱۳)
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکار لگانے والا پکار لگاتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والاکہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ پس نہیں کوئی سوال کرتا کسی چیز کے بارے میں مگر اس کو وہ چیز دے دی جاتی ہے سوائے اُس عورت کے جو اپنی شرم گاہ کے ساتھ زنا کرتی ہے اور مشرک کے ‘‘۔
۲۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
((اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَغْفِرُ اللّٰہُ مِنَ الذُّنُوْبِ اَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ)) (۱۴)
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰــ’’ کلب‘‘ قبیلے کی بکریوں سے زیادہ گناہوں کو معاف کرتے ہیں ۔‘‘
۳۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
((اِنَّ اللّٰہَ یَطَّلِعُ عَلٰی عِبَادِہٖ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَـیَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِیْنَ وَیَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِیْنَ وَیُؤَخِّرُ اَھْلَ الْحِقْدِ کَمَا ھُمْ)) (۱۵)
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہل بغض کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں ۔‘‘
۴۔راشد بن سعد سے نصف شعبان کی رات کے بارے میں مرسلاً مروی ہے :
یُوْحِی اللّٰہُ اِلٰی مَلَکِ الْمَوْتِ یَقْبِضُ کُلَّ نَفْسٍ یُرِیْدُ قَبْضَھَا فِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ (۱۶)
’’اللہ تعالیٰ( اس رات میں ) ملک الموت کی طرف وحی کرتے ہیں کہ وہ ہر اُس جان کو قبض کر لے جس کو اللہ تعالی ٰنے اس سال میںقبض کرنے کا ارادہ کیا ہے‘‘۔
۵۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
فَقَدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَیْلَۃً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ھُوَ بِالْبَقِیْعِ فَقَالَ : ((اَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہٗ )) قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ))(۱۷)
’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایک رات گم پایا۔میں (آپؐ‘ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپؐ ‘بقیع (مدینہ کا قبرستان) میں موجود تھے ۔پس آپ ؐنے فرمایا: ’’اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے ؟‘‘تو حضرت عا ئشہ ؓنے کہا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ !میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے ۔پس آپؐ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ (گناہوں )کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘
۶۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : یَطَّلِعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلٰی خَلْقِہٖ لَـیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَـیَغْفِرُ لِعِبَادِہٖ اِلاَّ اثْنَیْنِ مُشَاحِنٍ وَ قَاتِلِ نَفْسٍ (۱۸)
’’حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے کینہ رکھنے والے اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے۔‘‘
۷۔عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ : ((ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا ھٰذِہِ اللَّـیْلُ؟یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ)) قَالَتْ مَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟ فَقَالَ: ((فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ أَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تُنْزَلُ أَرْزَاقُھُمْ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ فَقَالَ : ((مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی)) ثَلَاثًا‘ قُلْتُ وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی ھَامَّتِہٖ فَقَالَ: ((وَلَا أَنَا اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ)) یَقُوْلُھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ (۱۹)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ نبی اکرمﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’(اے عائشہ!) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ !اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا:’’اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ‘‘۔ پس حضرت عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’ کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔‘‘ آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو حضرت عائشہؓ نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ !کیا آپ بھی؟آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ’’ہاں میں بھی‘ سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔‘‘ آپؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔‘‘
۸۔عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : ((أَتَانِیْ جِبْرَئِیْلُ فَقَالَ ھٰذِہٖ لَــیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلّٰہِ فِیْھَا عُتَقَائُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ بَنِی کَلْبٍ وَلَا یَنْظُرُ اللّٰہُ فِیْھَا اِلٰی مُشْرِکٍ وَلَا اِلٰی شَاحِنٍ وَلَا اِلٰی قَاطِعِ رَحِمٍ وَلَا اِلٰی مُسْبِلٍ وَلَا اِلٰی عَاقٍّ لِوَالِدَیْہِ وَلَا اِلٰی مُدْمِنِ خَمْرٍ)) (۲۰)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ میرے پاس حضرت جبرئیل ؑ آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اور اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ اس رات مشرک اور کینہ پرور کی طرف نظر کرم نہیں فرماتا اور نہ ہی قطع رحمی کرنے والے کی طرف اور نہ ہی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ہی والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ ہی ہمیشہ شراب نوشی کرنے والے کی طرف۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شب برات کی فضیلت میں موضوع روایات
۱۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اِذَا کَانَ لَــیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَـیْلَتَھَا وَصُوْمُوْا یَوْمَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْھَا بِغُرُوْبِ الشَّمْشِ اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَـہٗ؟ أَلَا مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَأَرْزُقَہٗ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ؟ أَلَا سَائِلٍ فَأُعْطِیَہٗ؟ أَلَا کَذَا وَکَذَا؟ حَتّٰی یَطَّلِعَ الْفَجْرُ (۲۱)
’’جب نصف شعبان کی رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو ۔بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میںغروبِ آفتاب کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتاہے۔اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر تک یہ آواز لگاتے رہتے ہیں کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والاکہ میںاس کورزق دوں؟ہے کوئی آزمائش والاکہ میں اس کی آزمائش دُور کر دوں؟ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ کیا ایسا ایسا کوئی نہیں ہے؟‘‘
۲۔حضرت ابواسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
خَمْسُ لَـیَالٍ لَا تُرَدُّ فِیْھِنَّ دَعْوَۃٌ : أَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَیْلَۃُ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃُ الْفِطْرِ وَلَیْلَۃُ النَّحْرِ (۲۲)
’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی: رجب کے مہینے کی پہلی رات ‘ نصف شعبان کی رات ‘ جمعہ کی رات ‘ عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات ۔‘‘
۳۔قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ صَلّٰی فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ مِائَۃَ رَکْعَۃٍ اَرْسَلَ اللّٰہُ اِلَیْہِ مِائَۃَ مَلَکٍ ثَلاَثُوْنَ یُبَشِّرُوْنَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَثَلاَثُوْنَ یَؤْمِنُوْنَہٗ عَنْ عَذَابِ النَّارِ وَثَلاَثُوْنَ یَدْفَعُوْنَ عَنْہُ آفَاتِ الدُّنْیَا وَعَشْرَۃٌ یَدْفَعُوْنَ عَنْہُ مَکَائِدَ الشَّیْطَانِ (۲۳)
’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص بھی اس رات سو رکعات ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کی طرف سو فرشتوں کو بھیجے گا ‘تیس فرشتے اس کو جنت کی خوشخبری دیں گے ‘تیس اس کو آگ کے عذاب سے امن دیں گے ‘ تیس اس سے دنیا کی آفات کودُور کریں گے اور دس اس سے شیطان کی چالوں کو دور کریں گے ۔‘‘
۴۔مَنْ صَلّٰی لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یَقْرَأُ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ثَلَاثِیْنَ مَرَّۃً لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَرٰی مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ (۲۴)
’’جس نے نصف شعبان کی رات کو بارہ رکعات ادا کیں اور ہر رکعت میں ’’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ تیس مرتبہ پڑھی تو وہ اپنے مرنے سے پہلے جنت میں اپنا مقام دیکھ لے گا اور گھر کے ان دس افراد کی شفاعت کرے گاجن کے لیے آگ واجب ہو چکی ہو ۔‘‘
۵۔منْ أَصْبَحَ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ صَائِمًا کَانَ کَصِیَامِ سِتِّیْنَ سَنَۃً مَاضِیَۃً وَسِتِّیْنَ سَنَۃً مُقْبِلَۃً (۲۵)
’’جس نے اس دن روزہ رکھا اسے ساٹھ سال ماضی کااور ساٹھ سال مستقبل کا روزہ رکھنے کا ثواب ہو گا ۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شب برات کی بدعات
ہمارے معاشرے میں شب برات کے حوالے سے درج ذیل بدعات پائی جاتی ہیںجن کی نقل و عقل میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا
یہ بری رسم سوائے پاکستان کے دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یہ رسم ہندوؤں سے وراثت میں ملی ہے ۔آتش بازی ہندوؤں کی رسم دیوالی کی نقل ہے۔ علاوہ ازیں اس میں آتش پرست مجوسیوںسے بھی مشابہت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) (۲۶)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (یعنی اس کا مجھ سے او ر دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے )۔‘‘
ایک تو اس رسم میں ہندوؤں اور مجوسیوں کی مشابہت ہے دوسرا اس میں اسراف اور تبذیر ہے۔ لاکھوں روپے آگ کی نذر ہو جاتے ہیں‘ حالانکہ اسی رقم کو معاشرے کے غرباء اور مساکین کی فلاح و بہبودمیں لگایا جا سکتا ہے ۔ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ الْمُبَـذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰـطِیْنِ ط} (الاسرائ:۲۷)
’’بے شک فضول خرچ شیاطین کے بھائی ہیں۔ ‘‘
آتش بازی کی سب سے بڑی قباحت جو آئے دن دیکھنے میں آتی ہے‘ وہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ قومی روزناموں میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی شادی میں پورا خاندان بس میں موجود پٹاخوں کے آگ پکڑنے کی وجہ سے جل کر راکھ ہو گیا ۔لہٰذا آتش بازی چاہے شب برات پر ہو یا دوسرے مواقع پر‘ ایک شیطانی فعل ہے اور ممنوع ہے۔
شب برات کا حلوہ
حلوہ پکانا اور کھانا ایک مباح امر ہے ۔سال بھر میں کسی بھی دن ‘ کسی بھی وقت میں پکایا اور کھا یا جا سکتا ہے‘ لیکن شب برات میں اس عقیدے کے ساتھ حلوہ تیار کرنا کہ یہ ہمارے مُردوں کی عید ہے اور ان کی ارواح اس دن اپنے گھروں کو واپس لوٹتی ہیں ‘ ایک مَن گھڑت عقیدہ و عمل ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اس عمل کے ابطال کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہمارے رسول ﷺ کی زندگی میں تقریبا ۲۳ دفعہ شب برات آئی‘ لیکن کیاآپ نے زندگی میں ایک دفعہ بھی حلوہ پوری یا چاول پکوا کر مُردوں کی فاتحہ دلوائی؟ دراصل یہ رسم بھی ہمارے ہاں ہندوؤں سے آئی ہے۔ ہندوبھی سال بھر میں ایک دفعہ حلوا پکا کر کوؤں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ حلوہ اپنے پرکھوں کو کھلاتے ہیں ۔خلاصۂ کلام یہ کہ حلوہ بنانے اور کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ‘لیکن ایک مخصوص دن میں ایک خاص عقیدے کے تحت مُردوںکو ایصالِ ثواب کی نیت سے حلوہ ‘ کھیر یا چاول وغیرہ تیا ر کرنا ایک ہندوانہ رسم ہے جس کا کوئی ثبوت رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ سے نہیں ملتا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قبرستان کی زیارت
قبرستان کی زیارت کرنا مشروع ہے اوررسول اللہﷺ نے اس کا حکم بھی فرمایا ۔آپؐ کی حدیث ہے :
((کُنْتُ نَھَیْتُـکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ… فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ))(۲۷)
’’میں نے پہلے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا …پس اب تم ان کی زیارت کیا کرو‘کیونکہ قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے‘‘ ۔
لیکن پندرہ شعبا ن کی رات کو جلوس کی شکل بنا کرچراغاں کرتے ہوئے قبرستان کے لیے نکلنااور اسے سنت سمجھنا بالکل غلط ہے۔ رسول اللہﷺ کی کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ پندرہ شعبان کی رات کو قبرستان کے لیے نکلے ہوں۔ اس کے لیے عموماً جو احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ ضعیف روایات ہیں ۔لہٰذا قبرستان جانا تو سنت ہے ‘لیکن خصوصاً پندرہ شعبان کی رات کو جانا سنت نہیں ہے ۔
شب برات کی مخصوص عبادات
نصف شعبان کی رات کی فضیلت توصحیح احادیث سے ثابت ہے اوراس رات کی فضیلت کا اعتبار کرتے ہوئے اس رات عمومی عبادات مثلا نوافل ‘ تلاوت اور انفرادی ذکرو اذکار وغیرہ کااہتمام کیا جا سکتا ہے ‘لیکن اس رات کی کوئی مخصوص عبادت مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ‘‘پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیںہے ‘بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیںوہ موضوعات کے درجے کی ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور موضوع روایات کا بیان کرنا بھی حرام ہے ‘چہ جائیکہ ان پر عمل کیا جائے ۔
پندرہ شعبان کا روزہ
شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہے ‘لیکن آپؐ نے اپنی اُمت کو پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا‘تاکہ رمضان کے روزوں میں سستی پیدا نہ ہو۔اس لیے شعبان کے مہینے کی عموعی فضیلت کے تحت یا ایامِ بیض میں روزہ رکھنے والی صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَاْمُرُنَا اَنْ نَصُوْمَ الْبِیْضَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ وَاَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ (۲۸)
’’ اللہ کے ر سول ﷺ ہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ ‘ چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔‘‘
لیکن پندرہ شعبان کے روزے کی علیحدہ سے کوئی خصوصی فضیلت کسی صحیح روایت سے ثابت‘نہیں ہے ۔اس بارے میں جو روایات ہیںوہ موضوع ہیں‘ لہٰذا اگر کوئی شخص ایامِ بیض کے روزے ہر ماہ رکھتا ہے اوروہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھ لے تو اس کے لیے باعث اجروثواب ہو گا ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حواشی
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘باب صوم شعبان۔
(۲)صحیح مسلم‘کتاب الصیام‘باب صیام البنیﷺ فی غیر رمضان…الخ۔
(۳)سنن ابی داوٗد‘کتاب الصوم ‘باب فی صوم شعبان۔
(۴)جامع الترمذی‘ابواب الصوم عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم فی النصف الثانی من شعبان۔
(۵)صحیح الترغیب و الترھیب : ۶۱۹۔ علامہ البانی۔
(۶)صحیح الجامع الصغیر: ۳۷۱۱‘ علامہ البانی۔
(۷)جامع الترمذی‘ابواب الزکاۃ‘ باب ما جاء فی فضل الصدقۃ۔
(۸)ضعیف الجامع الصغیر:۳۴۱۱‘ علامہ البانی۔
(۹)ضعیف الجامع الصغیر:۲۰۶۱‘ علامہ البانی۔
(۱۰)ضعیف الجامع الصغیر:۳۴۰۲‘ علامہ البانی۔
(۱۱)صحیح الترغیب و الترھیب: ۲۷۶۷‘علامہ البانی۔
(۱۲)صحیح الجامع الصغیر:۷۷۱‘علامہ البانی۔
(۱۳)ضعیف الجامع الصغیر:۶۵۳‘ علامہ البانی۔
(۱۴)ضعیف الجامع الصغیر:۶۵۴‘علامہ البانی۔
(۱۵)ضعیف الجامع الصغیر:۱۷۳۹‘علامہ البانی۔
(۱۶)ضعیف الجامع الصغیر:۴۰۱۹‘علامہ البانی۔
(۱۷)جامع الترمذی‘ابواب الصوم‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔
(۱۸)مسند احمد۔ وتحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی‘ علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔
(۱۹)مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الصلاۃ‘ باب قیام شہر رمضان‘ فصل ثالث۔
(۲۰)ضعیف الترغیب و الترھیب: ۶۲۰‘علامہ البانی۔
(۲۱)سنن ابن ماجہ‘ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ وضعیف الجامع الصغیر:۶۵۲‘علامہ البانی۔
(۲۲)ضعیف الجامع الصغیر:۲۸۵۲‘ علامہ البانی۔
(۲۳)الموضوعات‘ علامہ ابن جوزی‘ کتاب الصلاۃ‘ باب صلاۃ اللیلۃ النصف من شعبان۔
(۲۴)اللآلی المصنوعۃ‘ علامہ سیوطی‘ کتاب الصلاۃ۔
(۲۵)تحفۃ الاحوذی‘ شرح جامع الترمذی‘ علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔
(۲۶)سنن ابی داوٗد‘کتاب اللباس‘ باب فی لبس الشھرۃ۔ و مسند احمد۔
(۲۷)سنن الترمذی‘ ابواب الجنائز عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور۔
(۲۸)سنن ابی داوٗد‘کتاب الصوم‘ باب فی صوم الثلاث من کل شھر۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
فضیلت شعبان میں جن روایات کو حسن یا صحیح کہا گیا ہے جن میں نصف شعبان کا تذکرہ ہے یعنی حاشیہ نمبر ۱۱ اور ۱۲ والی روایت جسے البانی صاحب نے صحیح قرار دیا ہے ہماری تحقیق کے مطابق وہ روایت ضعیف ہے ۔ جسکی وضاحت ہم نے شعبان سے متعلق ایک رسالہ میں کی ہے جوکہ مرکز الدعوۃ السلفیۃ اسلام آباد کی طرف سے شائع ہو چکا ہے اور اسکی مختصر وضاحت دین خالص اور رد فتن پر بھی موجود ہے ۔
اور مفصل بحث ان لنکز پر قسط وار موجود ہے :
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ اول)
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ دوم)
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ سوم)
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ چہارم)
اور
fitan.net - فِتًن.نيٹ (رد فتن) || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ اول)
fitan.net - فِتًن.نيٹ (رد فتن) || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ دوم)
fitan.net - فِتًن.نيٹ (رد فتن) || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ سوم)
fitan.net - فِتًن.نيٹ (رد فتن) || شب براءت سے اعلان براءت (حصہ چہارم)
 
شمولیت
اکتوبر 26، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
225
پوائنٹ
31
Top