اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
سوال :
علمائے کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کے علاوہ جو شبینہ پڑھایا جاتا ہے جس میں قاری حضرات دو رکعت میں ایک پارہ قرأت کرتے ہیں اور مقتدی پیچھے کھڑے ہو کر سنتے ہیں اور اسی طرح رات ایک بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی کئی پارے اور کئی رکعات نفل ادا کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ اگر نہیں تو کیا یہ عمل باعث ثواب ہے یا بدعت کی بنا پر گمراہی ہے اور گناہ کا باعث ہے؟جواب :
مذکورہ صورت میں دو تین باتیں قابل غور ہیں اولاً نماز نفل باجماعت ادا کرنا، ثانیاً نماز نفل کا اپنی طرف سے مقررہ اہتمام اور اس پر دوام و اصرار کرنا۔ یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام کرنا۔ اوّل الذکر بات تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری باب اذا ینو الامام ان یوم ثم جاء قوم فامھم میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنھا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں مشغول ہوئے تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ ان کی اقتداء میں نماز تہجد پڑھنے لگا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امامت کی نیت نہیں کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر سے پکر کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ (صحیح بخاری۱/۹۷)
اور اسی طرح صحیح بخاری باب صلوة النوافل جماعۃ میں محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے سید نا عتبان بن مالک کا واقعہ منقول ہے کہ رسول اکرم ۖسیدنا عتبان کی فرمائش پر ان کے گھر تشریف لائے اور دو رکعت نماز با جماعت ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری)
ان ہر دو احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نماز نفل کی جماعت بلاشک و شبہ جائز ہے۔ لیکن اس کا اعلان کرنا مردوں اور عورتوں کو بذریعہ اشتہارات جمع کرنا، نوافل با جماعت، بالدوام ادا کرنا اور رات کو چراغ گل کر کے دعائیں ناجائز اور بدعت معلوم ہوتا ہے کیونکہ مطلقاً نماز نفل با جماعت ادا کرنا تو صحیح ہے لیکن یہ قیود مع اہتمام اس مطلق جواز کو بدعت میں بدل دیتے ہیں جیسا کہ نماز چاشت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور ام ہانی رضی اللہ عنھا سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی بپابندی کی وصیت بھی فرمائی (صحیح بخاری۱/۱۰۸) مگر اس وصیت کے باوصف سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کو بدعت کہتے ہیں اس کی وجہ ذیل میں آرہی ہے )جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ مجاہد کہتے ہیں: میں اور عروة دونوں مسجد میں داخل ہوئے: (صحیح بخاری باب کم اعتمر النبی۱/۲۳۷، صحیح مسلم۱/۴۰۹)
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت کچھ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے ۔ ہم نے ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ بدعت ہے۔''
جبکہ یہ نماز متعدد سانید صحیحہ سے مروی ہے جیسا کہ اوپر صحیح بخاری کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہا نے اسے بدعت کیوں کہا؟اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں اس نماز کو با جماعت ادا کرنے کا دستور نہیں تھا۔ چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے:
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مُراد یہ تھی کہ نماز چاشت کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لئے اجتماع و اہتمام کرنا بدعت ہے نہ کہ نماز چاشت بدعت ہے''۔
امام ابو بکر محمد بن ولید الطرطوشی لکھتے ہیں:
''ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کی اس نماز کو تو اس لئے بدعت قرار دیا کہ وہ اسے با جماعت پڑھ رہے تھے یا س لئے کہ اکیلے اکیلے اس طرح پڑھ رہے تھے جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت میں تمام نمازی سنن رواتب پڑھا کرتے ہیں۔(کتاب الحوادث و البد ۴۰)
اس کی دوسری مثال یہ لے لیں کہ سبحان اللہ ، اللہ اکبر، لا الہٰ الاّ اللہ کا وظیفہ اپنے اپنے اندر بڑے فضائل رکھتا ہے۔ اور مفسرین نے اس کو باقیات صالحات میں شمار کیا ہے یہ بلندی درجات اور نجات اخروی کا بہترین ذریعہ ہے مگر اس کے باوجود جب اسے خاص قیود اور غیر ثابت تکلفات و التزامات کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہی وظیفہ ہلاکت اور خسارے کا باعث بن جائے گا۔ جیسا کہ سنن دارمی میں بسند صحیح سیدنا عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آتا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ شہر کی مسجد میں حلقہ باندھے کنکریوں پر سبحان اللہ ، اللہ اکبر، لا الٰہ اللہ سو سو دفعہ پڑھ رہے تھے تو ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا:
''تم اپنے گناہوں کو شمار کرو میں ضمانت دیتا ہوں تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امت محمد ۖتم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو ابھی تم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بکثرت موجود ہیں۔ ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور آپ کے استعمال میں آنے والے برتن بھی نہیں ٹوٹے۔ تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔''(سنن دارمی ۶۱)
اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت اور اطاعت جس طرح شریعت میں منقول ہو، اس کو اسی انداز میں ادا کرنا چاہیے یعنی جس ہیئت و صورت میں وہ عبادت ہوئی ہے ، اس کو اسی طرز سے اپنانا چاہیے۔ اپنی طرف سے اس میں پابندیاں عائد کرنا، بغیر دلیل کے مطلق کو مقید کرنا،غیر مؤقت کو مؤقت کرنا یعنی کسی وقت کے ساتھ خاص کر لینا، غیر معین کو معین بنانا، بدعت بن جائے گا جس سے اجتناب ضروری ہے۔ وگرنہ ہلاکت میں پڑ نے کا اندیشہ ہے ۔ چنانچہ یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر ابنِ عمر رضٰ اللہ عنہما نے چاشت کو بدعت کہا اور ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ نے حلقہ باندھ کر اللہ اکبر لا الہٰ الااللہ وغیرہ کا ذکر کرنے کو بدعت اور ہلاکت قرار دیا۔ امام ابو اسحاق شاطبی رقم طراز ہیں کہ:
یہ بھی بدعات سے ہے کہ کسی نیک عمل کی ادائیگی کے لئے اجتماع کی صورت میں ایک ہی آواز کے ساتھ ذکر کا التزام کرنا، عید میلاد النبی منانا اور اس کی مثل دیگر امور اور ان بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ عبادات کو معین کرنا، معین اوقات کے ساتھ جن کی تعین شریعت نہیں پائی جاتی۔ جیسا کہ ۱۵شعبان اور اس کی رات کو پابندی کے ساتھ عبادت بجا لانے کا کوئی ثبوت شریعت میں نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام شاطبی اور دیگر محدثین کی تصریح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت نے جن عبادات و اطاعات کو مطلق چھوڑا ہے ، ان میں اپنی طرف سے پابندیاں عائد کرنا ان کی ہیئت و کیفیت کو بدلنا ہے۔ ان کو اوقات کے ساتھ معین کرنا گو یا دین کوبدلنا ہے اس کا نام تحریف ہے اور یہ گمراہی ہے۔
لہٰذا لوگوں کا نوافل کے لئے اہتمام ، خصوصی شبینہ کرنا، اس کے لئے لوگوں کو تیار کرنا، اس پر اصرار کرنا سراسر سنت اور سبیل المؤمنین کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، فقہاء ، محدثین رحمة اللہ علیہم نے اس تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں کیا۔ لہٰذا اس بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے اور عبادت کا جو طریقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس پر عمل کرنا چاہیے