• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب القدر میں خاص نوافل اور صلوۃ التسبیح کے بارے میں معلومات درکار ہے ۔۔

sheikh fam

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2016
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
53
شب القدر میں خاص نوافل اور صلوۃ التسبیح کے بارے میں معلومات درکار ہے ۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شب القدر میں خاص نوافل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

لیلۃ القدر جس کی فضیلت یہ ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،یہ بھی رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔اور اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مومن اس کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت میں بیان فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "
جس نے شب قدر میں قیام کیا(یعنی اللہ کی عبادت کی) اسکے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے"
(صحیح بخاری،باب فضل لیلۃ القدر،باب رقم 1،رقم :2014)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔فرمایا:
"إنّي رأيت ليلة القدر ثم أُنسيتها أو نسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر "
(صحیح مسلم،الصیام باب فضل لیلۃ القدر والحث علی علیھا۔۔۔رقم:1167)
"مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی،لیکن(اب) اسے بھول گیا(یامجھے بھلا دیاگیا) پس تم اسے رمضان کے آخری دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو"
یعنی ان طاق راتوں میں خوب اللہ کی عبادت کرو،تاکہ لیلۃ القدر کی فضیلت پاسکو۔
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا:۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،
اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تومیں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"
(ترمذی ،الدعوات باب 88 ،رقم:313)
"اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"

آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول:۔
یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتاہے اور اسی عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے،جس کی تلاش وجستجو ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر وعبارت میں رات گزارنے کی تاکید ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ اخیر میں عبادت کے لیے خود بھی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی حکم دیتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر أحيا الليل وأيقظ أهله وجد وشد المئزر "
(صحیح مسلم الصیام الاعتکاف باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من رمضان رقم 1174)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتاتو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور(عبادت میں) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے"
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ -أي: من رمضان- مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں جتنی محنت کرتے تھے،اور دنوں میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے"(حوالہ مذکور)

اس کی واضح مثال اور تفصیل جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ ایک رمضان میں تین راتوں کے قیام میں بیان کی گئی ہے :
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذهب شطر اللَّيْل فَقلت: يارسول الله لَو نفلتنا قيام هَذِه اللَّيْلَة. قَالَ فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى ينْصَرف حسب لَهُ قيام اللَّيْلَة» . قَالَ: فَلَمَّا كَانَت الرَّابِعَة لم يقم فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ. ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّ التِّرْمِذِيَّ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّة الشَّهْر
ابوذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روزے رکھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں
(یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے " راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا " فلاح کیا ہے " ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا " سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ " (مشکوٰۃ شریف ،باب التراویح )
اس حدیث میں مرکزی بات واضح ہے کہ طاق راتوں میں تراویح جو باجماعت تھی وہی پڑھی ،اس کے علاوہ نفل نماز نہیں پڑھی کیونکہ ایک تو
منقول بھی نہیں اور
آخری دفعہ والی تراویح کے بعد مزید پڑھنے کا وقت بھی نہیں تھا ‘‘
خلاصہ یہ کہ :
لیلۃ القدر میں کوئی خصوصی نوافل وغیرہ ثابت نہیں ، البتہ مخصوص دعاء جو ابھی اوپر درج کی اور طویل قیام تراویح ۔۔۔۔
اور بالعموم رات کی عبادت میں تین چیزیں ثابت اور اہم و افضل ہیں :
(۱ ) وتر سمیت گیارہ رکعات نماز
(۲) نماز میں اہتمام سے زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنا ،سننا
(۳) نماز میں یا نماز کے علاوہ انفرادی طور پر دعاء و استغفار کا اہتمام

اس لیے ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ذکر وعبادت اور توبہ واستغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
طاق راتوں میں گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 08 August 2012 09:40 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے بعض اہل حدیث حضرات رمضان المبارک کی طاق راتوں میں گیارہ رکعات سے زائد قیام کرتے ہیں۔ یعنی بیس رکعات یا اس سے کم وبیش پڑھتے ہیں کیا یہ عمل ٹھیک ہے جبکہ حدیث شریف سے گیارہ رکعات ثابت ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قیام اللیل رمضان میں ہو یا غیر رمضان میں اس میں رکعات کو لمبا کر سکتے ہیں کہ قیام میں قرآن مجید زیادہ پڑھ لیں قیام اللیل کی رکعات کی تعداد کو آپﷺسے ثابت شدہ تعداد سے نہ بڑھانا چاہیے ۔
وباللہ التوفیق


 
Last edited:

sheikh fam

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2016
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
53
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

لیلۃ القدر جس کی فضیلت یہ ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،یہ بھی رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔اور اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مومن اس کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت میں بیان فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "
جس نے شب قدر میں قیام کیا(یعنی اللہ کی عبادت کی) اسکے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے"
(صحیح بخاری،باب فضل لیلۃ القدر،باب رقم 1،رقم :2014)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔فرمایا:
"إنّي رأيت ليلة القدر ثم أُنسيتها أو نسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر "
(صحیح مسلم،الصیام باب فضل لیلۃ القدر والحث علی علیھا۔۔۔رقم:1167)
"مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی،لیکن(اب) اسے بھول گیا(یامجھے بھلا دیاگیا) پس تم اسے رمضان کے آخری دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو"
یعنی ان طاق راتوں میں خوب اللہ کی عبادت کرو،تاکہ لیلۃ القدر کی فضیلت پاسکو۔
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا:۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،
اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تومیں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"
(ترمذی ،الدعوات باب 88 ،رقم:313)
"اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"

آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول:۔
یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتاہے اور اسی عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے،جس کی تلاش وجستجو ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر وعبارت میں رات گزارنے کی تاکید ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ اخیر میں عبادت کے لیے خود بھی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی حکم دیتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر أحيا الليل وأيقظ أهله وجد وشد المئزر "
(صحیح مسلم الصیام الاعتکاف باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من رمضان رقم 1174)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتاتو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور(عبادت میں) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے"
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ -أي: من رمضان- مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں جتنی محنت کرتے تھے،اور دنوں میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے"(حوالہ مذکور)

اس کی واضح مثال اور تفصیل جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ ایک رمضان میں تین راتوں کے قیام میں بیان کی گئی ہے :
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذهب شطر اللَّيْل فَقلت: يارسول الله لَو نفلتنا قيام هَذِه اللَّيْلَة. قَالَ فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى ينْصَرف حسب لَهُ قيام اللَّيْلَة» . قَالَ: فَلَمَّا كَانَت الرَّابِعَة لم يقم فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ. ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّ التِّرْمِذِيَّ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّة الشَّهْر
ابوذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روزے رکھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں
(یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے " راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا " فلاح کیا ہے " ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا " سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ " (مشکوٰۃ شریف ،باب التراویح )
اس حدیث میں مرکزی بات واضح ہے کہ طاق راتوں میں تراویح جو باجماعت تھی وہی پڑھی ،اس کے علاوہ نفل نماز نہیں پڑھی کیونکہ ایک تو
منقول بھی نہیں اور
آخری دفعہ والی تراویح کے بعد مزید پڑھنے کا وقت بھی نہیں تھا ‘‘
خلاصہ یہ کہ :
لیلۃ القدر میں کوئی خصوصی نوافل وغیرہ ثابت نہیں ، البتہ مخصوص دعاء جو ابھی اوپر درج کی اور طویل قیام تراویح ۔۔۔۔
اور بالعموم رات کی عبادت میں تین چیزیں ثابت اور اہم و افضل ہیں :
(۱ ) وتر سمیت گیارہ رکعات نماز
(۲) نماز میں اہتمام سے زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنا ،سننا
(۳) نماز میں یا نماز کے علاوہ انفرادی طور پر دعاء و استغفار کا اہتمام

اس لیے ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ذکر وعبادت اور توبہ واستغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
طاق راتوں میں گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 08 August 2012 09:40 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے بعض اہل حدیث حضرات رمضان المبارک کی طاق راتوں میں گیارہ رکعات سے زائد قیام کرتے ہیں۔ یعنی بیس رکعات یا اس سے کم وبیش پڑھتے ہیں کیا یہ عمل ٹھیک ہے جبکہ حدیث شریف سے گیارہ رکعات ثابت ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قیام اللیل رمضان میں ہو یا غیر رمضان میں اس میں رکعات کو لمبا کر سکتے ہیں کہ قیام میں قرآن مجید زیادہ پڑھ لیں قیام اللیل کی رکعات کی تعداد کو آپﷺسے ثابت شدہ تعداد سے نہ بڑھانا چاہیے ۔
وباللہ التوفیق



جزاک اللہ خیر
 
Top