Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
شب برأت کو قبرستان جانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ
فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ " . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ"
ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپﷺ بقیع الغرقد میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے...؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
تخریج وتحقیق :
ــــــــــــــــــــــــــــــ
ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
ضعیف !!
حدثنا أحمد بن منیع حدثنا یزید بن ھارون أخبرنا الحجاج بن أرطاةِ عن یحي بن أبی کثیر عن عروة عن عائشة
اس روایت میں دو جگہ ضعف ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعداس کے ساتھ ہی وہ تاریخی کلمات لکھتے ہیں کہ جس کی بناء پر اس روایت کی تحقیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحیٰی (ابن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا۔ اور نہ حجاج بن أرطاة نے یحیٰی سے سنا ہے، نیز یہ دونوں راوی عند المحدثین مدلس ہیں۔"
( الجرح والتعدیل (۲۷۳/۳) وتاریخ بغداد (۲۲۵/۸) )
معلوم ہوا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ اس روایت کے تین شواہد موجود ہیں جبکہ وہ تمام ضعیف، منکر اور مردود ہیں۔
( العلل المتناھیة (٦٩،٦٧ /٢)(۹۱۹،۹۱۸) )
آپﷺ کا بقیع قبرستان جانے کے سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت بھی مروی ہے لیکن اس میں پندرہ شعبان کا تذکرہ نہیں ہے ۔ دیکھئے صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)، والنسائی (۲۰۳٦، ۳۹۷۳،۳۹۷٤)
صحیح حدیث
ــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
(ایک دفعہ) جب میری(باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے،آپ(مسجد سے) لوٹے،اپنی چادر(سرہانے)رکھی،اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا،پھر لیٹ گئے۔آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں،تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی،آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا،نکلے،پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔(یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری(جلدی سے پہنی)اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار(کمر پر) باندھی،پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع(کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے،پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے ،پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی،آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا:"عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟سانس چڑھی ہوئی ہے۔"
میں نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے(باریک بین ہے اور انتہائی باخبر )ہے۔"
میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اور میں نے(پوری بات) آپ کو بتادی۔آپ نے فرمایا:"تو وہ سیاہ(ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا ،تم تھیں؟"
میں نے کہا:ہاں۔آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔
پھر آپ نے فرمایا:"کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟"
(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے )کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے،ہاں۔
آپ نے فرمایا:"جب تو نے(مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے(آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم(اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا:آپ کا رب آپ کو حکم دیتاہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔"
(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا:میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کے حق میں(دعا کے لئے) کیسے کہوں؟آپ نے فرمایا:"تم کہو،مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو،اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے،اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔"
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ
فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ " . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ"
ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپﷺ بقیع الغرقد میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے...؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
تخریج وتحقیق :
ــــــــــــــــــــــــــــــ
ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
ضعیف !!
حدثنا أحمد بن منیع حدثنا یزید بن ھارون أخبرنا الحجاج بن أرطاةِ عن یحي بن أبی کثیر عن عروة عن عائشة
اس روایت میں دو جگہ ضعف ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعداس کے ساتھ ہی وہ تاریخی کلمات لکھتے ہیں کہ جس کی بناء پر اس روایت کی تحقیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحیٰی (ابن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا۔ اور نہ حجاج بن أرطاة نے یحیٰی سے سنا ہے، نیز یہ دونوں راوی عند المحدثین مدلس ہیں۔"
( الجرح والتعدیل (۲۷۳/۳) وتاریخ بغداد (۲۲۵/۸) )
معلوم ہوا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ اس روایت کے تین شواہد موجود ہیں جبکہ وہ تمام ضعیف، منکر اور مردود ہیں۔
( العلل المتناھیة (٦٩،٦٧ /٢)(۹۱۹،۹۱۸) )
آپﷺ کا بقیع قبرستان جانے کے سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت بھی مروی ہے لیکن اس میں پندرہ شعبان کا تذکرہ نہیں ہے ۔ دیکھئے صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)، والنسائی (۲۰۳٦، ۳۹۷۳،۳۹۷٤)
صحیح حدیث
ــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
(ایک دفعہ) جب میری(باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے،آپ(مسجد سے) لوٹے،اپنی چادر(سرہانے)رکھی،اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا،پھر لیٹ گئے۔آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں،تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی،آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا،نکلے،پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔(یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری(جلدی سے پہنی)اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار(کمر پر) باندھی،پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع(کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے،پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے ،پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی،آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا:"عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟سانس چڑھی ہوئی ہے۔"
میں نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے(باریک بین ہے اور انتہائی باخبر )ہے۔"
میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اور میں نے(پوری بات) آپ کو بتادی۔آپ نے فرمایا:"تو وہ سیاہ(ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا ،تم تھیں؟"
میں نے کہا:ہاں۔آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔
پھر آپ نے فرمایا:"کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟"
(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے )کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے،ہاں۔
آپ نے فرمایا:"جب تو نے(مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے(آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم(اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا:آپ کا رب آپ کو حکم دیتاہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔"
(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا:میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کے حق میں(دعا کے لئے) کیسے کہوں؟آپ نے فرمایا:"تم کہو،مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو،اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے،اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔"
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)