• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب برات کو قبرستان جانا۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
شب برأت کو قبرستان جانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ

فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ " . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ"

ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپﷺ بقیع الغرقد میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے...؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ
تخریج وتحقیق :
ــــــــــــــــــــــــــــــ

ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)

ضعیف !!

حدثنا أحمد بن منیع حدثنا یزید بن ھارون أخبرنا الحجاج بن أرطاةِ عن یحي بن أبی کثیر عن عروة عن عائشة

اس روایت میں دو جگہ ضعف ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعداس کے ساتھ ہی وہ تاریخی کلمات لکھتے ہیں کہ جس کی بناء پر اس روایت کی تحقیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحیٰی (ابن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا۔ اور نہ حجاج بن أرطاة نے یحیٰی سے سنا ہے، نیز یہ دونوں راوی عند المحدثین مدلس ہیں۔"

( الجرح والتعدیل (۲۷۳/۳) وتاریخ بغداد (۲۲۵/۸) )

معلوم ہوا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ اس روایت کے تین شواہد موجود ہیں جبکہ وہ تمام ضعیف، منکر اور مردود ہیں۔
( العلل المتناھیة (٦٩،٦٧ /٢)(۹۱۹،۹۱۸) )

آپﷺ کا بقیع قبرستان جانے کے سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت بھی مروی ہے لیکن اس میں پندرہ شعبان کا تذکرہ نہیں ہے ۔ دیکھئے صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)، والنسائی (۲۰۳٦، ۳۹۷۳،۳۹۷٤)

صحیح حدیث
ــــــــــــــــــــــــــــ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:

(ایک دفعہ) جب میری(باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے،آپ(مسجد سے) لوٹے،اپنی چادر(سرہانے)رکھی،اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا،پھر لیٹ گئے۔آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں،تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی،آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا،نکلے،پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔(یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری(جلدی سے پہنی)اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار(کمر پر) باندھی،پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع(کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے،پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے ،پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی،آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا:"عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟سانس چڑھی ہوئی ہے۔"

میں نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے(باریک بین ہے اور انتہائی باخبر )ہے۔"

میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اور میں نے(پوری بات) آپ کو بتادی۔آپ نے فرمایا:"تو وہ سیاہ(ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا ،تم تھیں؟"

میں نے کہا:ہاں۔آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔

پھر آپ نے فرمایا:"کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟"

(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے )کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے،ہاں۔

آپ نے فرمایا:"جب تو نے(مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے(آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم(اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا:آپ کا رب آپ کو حکم دیتاہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔"

(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا:میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کے حق میں(دعا کے لئے) کیسے کہوں؟آپ نے فرمایا:"تم کہو،مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو،اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے،اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔"

صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا (۲۲۵٦)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رہنمائی فرمائیں بھائی @اسحاق سلفی
السلام علیکم
جی بالکل درست لکھا ہے ، رات کے وقت بقیع قبرستان جا کر دعاء کا واقعہ (نصف شعبان کے ذکر کے بغیر ) صحیح اسناد سے منقول ہے
اور نصف شعبان والی روایت انتہائی ضعیف و ناکارہ اسناد سے منقول ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس موضوع پر ایک مضمون ملا ہے پیش خدمت ہے

شب برات....شعبان کی پندرھویں رات ..کتاب و سنت صحیحہ میں اس کا جائزہ لیں گے..
ــــــــــــــــــــــــــــــــ

ماہ شعبان کا آغاز ہوتے ہی شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت و عظمت اور اس کے خصائل و خصائص بیان ہو نا شروع ہوجاتے ہیں، جبکہ کتاب و سنت صحیحہ میں اس کی کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں ہوئی۔ذیل میں ہم مروجہ دلائل کا جائزہ لیں گے۔

لیلۃ مبارکہ:۔

بعض لوگ سورۂ دخان کی ابتدائی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں جو لیلہ مبارکہ کا تذکرہ ہوا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے۔ مگر یہ قیاس آرائی محض باطل پر مبنی ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے سورۂ دخان میں فرمایا ہے:

"إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{3} فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ{4}" [الدخان:۳،۴]

"یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔ (یہ وہ رات ہے) جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اس جگہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے کیونکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ } [القدر:1]

"ہم نے اس کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔"

اور یہ معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہے ۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ۔۔۔} [البقرة:185]
رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔

ان تینوں آیات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہواکہ لیلہ مباکہ لیلہ قدر ہے اور وہ رمضان میں ہے کیونکہ قرآن مجید کا نزول رمضان کے مہینہ میں لیلہ مبارکہ یعنی لیلہ قدر کو ہوا۔ اور اسی رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے، نہ کہ شعبان کی پندرھویں رات کو۔


بے حساب مغفرۃ:۔

ایک روایت جامع ترمذی کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں: " فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فخرجت ، فإذا هو بالبقيع ، فقال : " " أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله " ، قلت : يا رسول الله ، إني ظننت أنك أتيت بعض نسائك ، فقال : " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا ، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب " [جامع الترمذي ، أبواب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، حديث:‏۷۳۹]

" میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کو گم پایا تو مٰں آپ کی تلاش میں نکلی ۔ آپ ﷺ بقیع میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تجھ پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں سمجھی شاید آپﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان (پندرھویں) کی رات کو آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتے ہیں۔"

اس روایت کی سند میں کئی نقص ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ہی لکھا ہے: " " حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج " " ، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث ، وقال : يحيى بن أبي كثير لم يسمع من عروة ، والحجاج بن أرطاة لم يسمع من يحيى بن أبي كثير"

"ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے منقول یہ حدیث ‏صرف اسی سند سے ہی مروی ہے اور میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ الباری کو سنا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا اور حجاج بن ارطاۃ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا۔"

تو گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے اور سبب ضعف بیان کرتے ہوئے سند کا دوجگہ پر انقطاع ذکر فریاما ہے۔ اور اسی طرح "حجاج بن ارطاۃ" صدوق ہے لیکن کثیر الخطاء والتدلیس ہے، اور یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس راوی ہے، اور یہ دونوں لفظ "عن" سے روایت کررہے ہیں اور عالم اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ مدلس راوی کا عنعنہ ناقابل قبول ہے۔

لہٰذا ان چار نقائص کی بناء پر یہ روایت مردود و ناقابل اعتبار ہے۔


روزہ:۔

اسی طرح کی ایک اور روایت سنن ابن ماجہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان ، فقوموا ليلها وصوموا نهارها ، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا ، فيقول : ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا ، حتى يطلع الفجر " [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏138۸‏]

" جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو ، بے شک اللہ تعالیٰ غروب شمس کے بعد آسمان دنیا پر آجاتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا نہیں کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا نہیں ہے کہ میں اس کو رزق دوں؟ کیا کوئٰ پریشانی میں مبتلا نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"

اس روایت کی سند میں ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی ہے، جو کہ ضعیف ہےبلکہ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ روایتیں گھڑتا ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ اور من گھڑت روایات ضعیف کی بدترین قسم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرک یا کینہ پرور کے سوا عام معافی:۔

ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو مشرک اور بغض وکینہ رکھنے والے کے سوا اپنی ساری مخلوق کو معاف فرمادیتے ہیں: [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏13۹۰‏]

لیکن اس کی سند میں بھی کئی علتیں ہیں جن میں سے عبداللہ بن لھیعہ کا مختلط ہونا اور ضحاک بن ایمن کا مجہول ہونابالخصوص قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا ان دوموٹی موٹی وجوہات کی بنا پر یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ٹھہری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلاۃ الفیۃ:۔

شعبان کی نصف کی رات کو بعض لوگ صلاۃ البراۃ یا صلاۃ الالفیۃ ادا کرتے ہیں جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں ۱۰ بار "قل ھواللہ " (سورۂ اخلاص) پڑھی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل البحث:۔

اس مذکورہ بالا توضیح سے یہ نتیجہ نکلا کہ نصف شعبان کے بارہ میں جو بھی مرویا ت ہیں وہ تمام تر موضوع یا ضعیف ہیں ۔ یہی بات امام عقیلی نے الضعفاء ۲۹/۳ میں اور حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ نے الباعث علی انکار البدع والحودث ص۲۵ میں کہی ہے۔

لہٰذا ان تمام تر بدعات و خرافات سے اجتناب کیاجائے۔

واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اکمل واتم ورد العلم الیہ اسلم

الراجی الی عفو ربہ الظاہر

پندرہ شعبان کی رات کو جلوس کی شکل بنا کرچراغاں کرتے ہوئے قبرستان کے لیے نکلنااور اسے سنت سمجھنا بالکل
غلط ہے۔ رسول اللہﷺ کی کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ پندرہ شعبان کی رات کو قبرستان کے لیے نکلے ہوں۔ اس کے لیے عموماً جو احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ ضعیف روایات ہیں ۔لہٰذا قبرستان جانا تو سنت ہے ‘لیکن خصوصاً پندرہ شعبان کی رات کو جانے کی خاص فضیلت سنت سے ثابت نہیں ہے ۔

اس رات کی کوئی مخصوص عبادت مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ‘‘پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیںہے ‘بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیں وہ موضوعات کے درجے کی ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور موضوع روایات کا بیان کرنا بھی حرام ہے ‘چہ جائیکہ ان پر عمل کیا جائے ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیرا بھائی اسحاق
 
Top