• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب برات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شب برات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الحمد لله:

اللہ کا فرمان ہے۔

سخت مشقت کر رہے ہونگے، تھکے جاتے ہونگے، شدید آگ میں جھلس رہے ہونگے۔ (سورۃ غاشیہ # ۳،۴)

اور جو اِس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔ (سورۃ الاسراء # ۷۲)

⏪ برصغیر پاک و ہند میں اس رات کو شب برات کے علاوہ شب قدر بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث میں اس رات کے بارے میں شب برات یا شب قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں ۔ بعض روایات میں اس رات کا جو ذکر آیا ہے وہ نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے اور ویسے بھی شب قدر اورشب برات سےمراد لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

سورہ القدر میں فرمایا:

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةِ القَدرِ‌ ﴿١﴾... سورةالقدر
کہ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔

سورہ دخان میں ہے کہ

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةٍ مُبـٰرَ‌كَةٍ... ﴿٣﴾... سورة الدخان
یعنی ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا۔

یہ خیال درست نہیں ہے کہ سورہ دخان میں مراد شعبان کی ۱۴۔۱۵ کی درمیانی شب ہے کیونکہ معتبر تفاسیر میں اس سے مراد لیلۃ القدر ہی لی گئی ہے۔

جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں اس کے مختلف طریقے رائج ہیں:

☀پهلا یہ کہ اس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے (حلوہ وغیرہ) پکائے جاتے ہیں اور بانٹے جاتے ہیں اور پھر خود بھی بیٹھ کر اسے مزے سے کھاتےہیں ۔

☀دوسرا یہ کہ آتش بازی کی جاتی ہے اور گولہ بارود خوب استعمال کیا جاتاہے۔

☀تیسرا طریقہ کچھ لوگوں کے ہاں یہ بھی مروج ہے کہ اس رات کے استقبال کے لئے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے اور انہیں خوب سجایا جاتاہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس دن مرے ہوئے لوگوں کی روحیں واپس آتی ہیں۔

☀چوتھا طریقہ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رات لوگ خصوصی اہتمام کے ساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستا ن کی زیارت اور دعا کےلئے جاتے ہیں۔

☀پانچواں طریقہ جو زیادہ معروف ہے وہ اس دن روزہ رکھنا اور رات کو عبادت و ذکر کرنے کا طریقہ ہے۔

ان پانچوں طریقوں کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ ان میں سے کجھ تو خرافات کے زمرے میں آتے ہیں۔

◀ پہلی بات تو یہ ہے کہ نصف شعبان کی اس رات کو سرے سے اسلامی تہوار کہا ہی نہیں جاسکتا اور اسے عیدین یا حج وغیرہ کی شکل دینا ہی غلط ہے۔

◀ اور پھر یہ حلوہ پکانے اور کھانے ’آتش بازی کرنے اور گھروں کو سجانے کی رسمیں تو یوں بھی کسی اسلامی تہوار کا حصہ نہیں۔ یہ وہ خود ساختہ رسومات ہیں جو یا تو بعض مذہبی پیشواؤں نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے جاری کیں اور یا پھر مسلمانوں نے ہندوؤں سے مستعار لے لی ہیں اور آتش بازی کا کسی دن کے منانے کے ساتھ اسلام میں سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔

◀ مردوں کی روحوں کے آنے کا عقیدہ بھی باطل ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ مرنے کے بعد کسی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے نہ کسی دوسرے دن وہ واپس اس دنیا میں آ سکتی ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ "اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ (سورۃ مومنون # ۹۹،۱۰۰)

وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اُس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ (سورۃ زمر # ۴۲)

◀ اس رات قبرستان کی خصوصی زیارت کا مسئلہ بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ یوں تو کسی بھی دن یا رات قبروں کی مسنون طریقے سے زیارت جائز ہے۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت کی تلقین فرمائی ہے لیکن اس رات بطور خاص اور اجتماعی شکل میں اس رات کی فضیلت کی وجہ سے جانا ثابت نہیں اس بارے میں ایک روایت ترمذی شریف کی پیش کی جاتی ہے۔مگر محدثین نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے ضعیف حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔

◀ اب رہا مسئلہ پانچویں طریقے کا جس پر زیادہ لوگ عمل کرتے ہیں یعنی دن کو روزہ رکھنا اور رات کو ذکر و عبادت کرنا اور اس کےفضائل بیان کرنے کے لئے مخصوص مجلسیں منعقد کرانا۔

اس بارے میں درج ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف جداً، حدیث # 1388 .

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہیں پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے، اور صبح صاد طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے، کہ میں اسے معاف کروں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی کسی بیماری یا مصیبت میں ) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت فرمادوں؟‘‘

۲۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف، حدیث # 1389 .

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو ( گھر میں ) نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہین اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔ ( جب مجھے دیکھا تو) فرمایا: ’’عائشہ ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ ‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا (شاید) آپ اپنی کسی) اور) زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں ) کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘

۳۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف، حدیث # 1390 .

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات( اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے ، پھر مشرک اور( مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مخفرت فرما دیتا ہے۔‘‘ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنے استاد محمد بن اسحاق کی سند سے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے صحاک بن عبدالرحمن اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ضحاک کے باپ کا واسطہ بیان کیا۔

یہ تمام روایات جو اس رات کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہیں وہ سند کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں اور محدثین نے حدیث کی صحت کے لئے جو معیار مقرر کیا ہے اس پر پورا نہیں اترتیں ۔ اس لئے ان روایات کو بنیاد بنا کر اس رات کو خصوصی اسلامی تہوار کی حیثیت دینا ہرگز قرین قیاس نہیں ہے۔
اس بارے میں جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ شعبان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ روزہ رکھتے تھے۔

جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رویت کی کہ انھوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کبھی کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں،اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی (اور) مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔

صحیح مسلم: کتاب: روزے کے احکام و مسائل (باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے) حدیث # ۲۷۲۱

آج مسلمان دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اس مہینے میں کثرت صوم کے عمل سے تو غافل ہیں لیکن فالتو رسموں کو خوب اہتمام سے کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے
(سورة المائده # 3)

نیز فرمایا :

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
(سورة الحجرات # 11)

اور فرمایا :

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ هے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے
(سورة الأحزاب # 211)

⏪ تو جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئ روش اختیار کرے وہ بدعت ہے اور بدعت سے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے۔

" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے ...

اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 20055 ).

الله ہمیں کتاب و سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ اور شرک و بدعت سے بچاۓ۔ آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ماہ شعبان: حقیقت کے آئینے میں


مقبول احمد سلفی

ماہ شعبان بطور خاص اس کی پندرہویں تاریخ سے متعلق امت مسلمہ میں بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہیں اس مختصر سے مضمون میں اس ماہ کی اصل حقیقت سے روشناس کرانا چاہتا ہوں تاکہ جو لوگ صحیح دین کو سمجھنا چاہتے ہیں ان پر اس کی حقیقت واضح ہوسکے ،ساتھ ساتھ جو لوگ جانے انجانے بدعات وخرافات کے شکار ہیں ان پر حجت پیش کرکے شعبان کی اصل حقیقت پر انہیں بھی مطلع کیا جاسکے ۔

مندرجہ ذیل سطور میں شعبان کے حقائق کو دس نکات میں واشگاف کرنے کی کوشش کروں گا ،ان نکات کے ذریعہ اختصار کے ساتھ تقریبا سارے پہلو اجاگر ہوجائیں گے اور ایک عام قاری کو بھی اس ماہ کی اصل حقیقت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا۔

پہلا نکتہ :ماہ شعبان کی فضیلت


شعبان روزہ کی وجہ سے فضیلت وامتیاز والا مہینہ ہے ، اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے پر متعددصحیح احادیث مروی ہیں جن میں بخاری و مسلم کی روایات بھی ہیں ۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے :

أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اور مسلم شریف میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

سألتُ عائشةَ رضي اللهُ عنها عن صيامِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالت : كان يصومُ حتى نقول : قد صام . ويفطر حتى نقول : قد أفطر . ولم أرَه صائمًا من شهرٍ قطُّ أكثرَ من صيامِه من شعبانَ . كان يصومُ شعبانَ كلَّه . كان يصومُ شعبانَ إلا قليلًا .(صحيح مسلم:1156)

ترجمہ: میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔

ترمذی شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

ما رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ شَهرينِ متتابعينِ إلَّا شعبانَ ورمضانَ(صحيح الترمذي:736)

ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو لگاتار دومہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے ۔

یہی روایت نسائی میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :

ما رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ يصومُ شهرينِ متتابعينِ ، إلَّا أنَّه كان يصِلُ شعبانَ برمضانَ(صحيح النسائي:2174)

ترجمہ:میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا لیکن آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔

ان ساری احادیث سے صرف روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے یعنی شعبان کا اکثر روزہ رکھنا اور جن روایتوں میں پورا شعبا ن روزہ رکھنے کا ذکر ہے ان سے بھی مراد شعبان کا اکثر روزہ رکھناہے ۔

اس ماہ میں بکثرت روزہ رکھنے کی حکمت پراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ(صحيح النسائي:2356)

میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی ﷺ کی اقتدا ء میں ہمیں ماہ شعبان میں صرف روزے کا اہتمام کرنا چاہئے وہ بھی بکثرت اور کسی ایسے عمل کو انجام نہیں دینا چاہئے جن کا ثبوت نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ : نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا


اوپر والی احادیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کا اکثر روزہ رکھنا مسنون ہے مگر کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إذا بقيَ نِصفٌ من شعبانَ فلا تصوموا(صحيح الترمذي:738)

ترجمہ:جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔

اس معنی کی کئی روایات ہیں جو الفاظ کے فرق کے ساتھ ابوداؤد، نسائی ، بیہقی، احمد ، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کی صحت وضعف کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔صحیح قرار دینے والوں میں امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز اور علامہ شعیب ارناؤط وغیرہ ہیں جبکہ دوسری طرف ضعیف قرار دینے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد، ابوزرعہ رازی ، امام اثرم ، ابن الجوزی ، بیہقی ، ابن معین اورشیخ ابن عثیمین و غیرہم ہیں۔

ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ، وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)

اس وجہ سے یہ روایت منکر اور ناقابل حجت ہے، اگر ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائےجیساکہ بہت سے محدثین اس کی صحت کے بھی قائل ہیں تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔

(2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔

(3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔

(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔

تیسرا نکتہ: نصف شعبان کا روزہ


ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے جیساکہ اوپر متعدد احادیث گزری ہیں ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق حدیث ملتی ہے تو میں کہوں گا کہ ایسی روایت گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔

چوتھا نکتہ : نصف شعبان کی رات قیام


جھوٹی اور من گھرنت روایتوں کو بنیاد بناکر نصف شعبان کی رات مختلف قسم کی مخصوص عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے :
إذا كانت ليلةُ النِّصفِ من شعبانَ فقوموا ليلَها ، وصوموا نَهارَها(ضعيف ابن ماجه:261)

ترجمہ: جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو۔

یہ روایت گھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ابوبکربن محمد روایتیں گھڑنے والا تھا۔

اس رات صلاۃ الفیہ یعنی ایک ہزار رکعت والی مخصوص طریقے کی نماز پڑھی جاتی ہے ، کچھ لوگ سو رکعات اور کچھ لوگ چودہ اور کچھ بارہ رکعات بھی پڑھتے ہیں ۔ اس قسم کی کوئی مخصوص عبادت نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ۔اسی طرح اس رات اجتماعی ذکر، اجتماعی دعا، اجتماعی قرآن خوانی اور اجتماعی عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

پانچواں نکتہ : شب برات کا تصور


پندرہویں شعبان کی رات کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے ۔مثلا لیلۃ المبارکہ(برکتوں والی رات)، لیلۃ الصک(تقسیم امور کی رات )، لیلۃ الرحمۃ (نزول رحمت کی رات) ۔ ایک نام شب برات (جہنم سے نجات کی رات)بھی ہے جو زبان زد خاص وعام ہے ۔ حقیقت میں ان ناموں کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

لیلۃ المبارکہ نصف شعبان کی رات کو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شب قدر کو کہاجاتا ہے ،اللہ کا فرمان ہے :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{الدخان:3}

ترجمہ: یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کو لیلۃ المبارکہ یعنی لیلۃ القدر میں نازل کیا جیساکہ دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[القدر:1]

ترجمہ: ہم نے اس(قرآن) کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔

تقسیم امور بھی شب قدر میں ہی ہوتی ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات اوراسےلیلۃ الرحمۃ کہنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک شب برات کی بات ہے ، تو وہ بھی ثابت نہیں ہے ، اس کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے ضعیف ہے ۔ آگے اس حدیث کی وضاحت آئے گی ۔

چھٹواں نکتہ: نصف شعبان کی رات قبرستان کی زیارت


ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

فقَدتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ليلةً فخرجتُ فإذا هوَ في البقيعِ۔
ترجمہ : ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ کوبقیع [ قبرستان] میں پایا۔

یہ روایت نصف شعبان سے متعلق ہے ، اس حدیث کو بنیاد بناکر پندرہویں شعبان کی رات قبرستان کی صفائی ہوتی ہے ، قبروں کی پوتائی کی جاتی ہے ، وہاں بجلی وقمقمے لگائے جاتے ہیں اور عورت ومرد ایک ساتھ اس رات قبرستان کی زیارت کرتے ہیں جبکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ قبروں کی زیارت کبھی بھی مسنون ہے اس کے لئے تاریخ متعین کرنا بدعت ہے اور عورت ومرد کےاختلاط کے ساتھ زیارت کرنا ، قبر پر میلہ ٹھیلہ لگاناکبھی بھی جائز نہیں ہے ۔

ساتواں نکتہ : آتش بازی


شعبان میں جس قدر بدعات وخرافات کی انجام دہی پر پیسے خرچ کئے جاتے ہیں اگر اس طرح رمضان المبارک میں صدقہ وخیرات کردیا جاتا تو بہت سے غریبوں کو راحت نصیب ہوتی اورذخیرہ آخرت بھی ہوجاتامگر جسے فضول خرچی یعنی شیطانی کام پسند ہو وہ رمضان کا صدقہ وخیرات کہاں، شعبان میں آتش بازی کو ہی پسند کرے گا۔ ماہ شعبان شروع ہوتے ہی پٹاخے چھوڑنے شروع ہوجاتے ہیں ذرا تصور کریں اس وقت سے لیکر شعبان بھر میں کس قدر فضول خرچی ہوتی ہوگی؟۔نصف شعبان کی رات کی پٹاخے بازی کی حد ہی نہیں ، اس سے ہونے والے مالی نقصانات کے علاوہ جسمانی نقصانات اپنی جگہ ۔

آٹھواں نکتہ : مخصوص پکوان اور روحوں کی آمد


نصف شعبان کی بدعات میں قسم قسم کے کھانے ، حلوے پوری اور نوع بنوع ڈنر تیار کرنا ہے ، اسے فقراء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روحیں آتی ہیں،بایں سبب ان کے لئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے ۔ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر آج حلوہ پوری نہ بنائی جائے تو روحیں دیواریں چاٹتی ہیں ۔ کھانا پکانے کے لئے تاریخ متعین کرنا اور متعین تاریخ میں فقراء میں تقسیم کرنا ، اس کھانے پرفاتحہ پڑھنا ، فاتحہ شدہ کھانامردوں کو ایصال ثواب کرنا سب کے سب بدعی امو ر ہیں ۔ اور یہ جان لیں کہ مرنے کے بعد روح دنیا میں لوٹ کر نہیں آتی ،قرآن میں متعدد آیات وارد ہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :

کَلاَّ إِنَّها کَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلي‏ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(المومنون: 100)

ترجمہ: ہرگز نہیں ، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہاہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔

نواں نکتہ : کیانصف شعبان کو اللہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ؟


ایک روایت بڑے زور شور سے پیش کی جاتی ہے :

ان الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن(سنن ابن ماجه :1390 ) .
ترجمہ: اللہ تعالی نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے ) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت کردیتا ہے ۔

اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن قرار دیا ہے جبکہ اس میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعہ ہے اور دوسرے جمیع طرق میں بھی ضعف ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ روایت آئی ہے ۔

إنَّ اللَّهَ تعالى ينزِلُ ليلةَ النِّصفِ من شعبانَ إلى السَّماءِ الدُّنيا ، فيغفرُ لأكْثرَ من عددِ شَعرِ غنَمِ كلبٍ(ضعيف ابن ماجه:262)

ترجمہ: للہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہےاور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔

اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سند میں انقطاع کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے ۔

بہرکیف! نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اللہ کے نزول کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے البتہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالی ہررات تہائی حصے میں آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ۔

دسواں نکتہ : پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث کا حکم


آخری نکتے میں یہ بات واضح کردوں کہ نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔قبیلہ کلب کی بکری کے بالوں کے برابر مغفرت والی حدیث، مشرک و بغض والے علاوہ سب کی مغفرت والی حدیث، سال بھر کے موت و حیات کا فیصلہ کرنے والی حدیث،اس دن کے روزہ سے ساٹھ سال اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی حدیث ، بارہ –چودہ- سو اور ہزار رکعات نفل پڑھنے والی حدیث یانصف شعبان پہ قیام وصیام اور اجروثواب سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔

اس وجہ سے پندرہ شعبان کے دن میں کوئی مخصوص عمل انجام دینا یا پندرہ شعبان کی رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبان کے مہینے میں نبی ﷺسے صرف اور صرف بکثرت روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا مسلمانوں کو اسی عمل پر اکتفا کرنا چاہئے اور بدعات وخرافات کو انجام دے کر پہلے سے جمع کی ہوئی نیکی کوبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
 
شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
30
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شب برات کی فضیلت میں صحیح روایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔وَعَنْ مُعَاذَ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ: ((یَطَّلِعُ اللّٰہُ اِلٰی جَمِیْعِ خَلْقِہٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ اَوْ لِشَاحِنٍ )) ’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔‘‘ (صحیح الترغیب و الترھیب: ۲۷۶۷‘علامہ ناصر البانی۔)
http://shamela.ws/browse.php/book-179/page-1394

ا- المعجم الأوسط - عربی حدیث نمبر 6776
http://shamela.ws/browse.php/book-28171#page-7089

2- المعجم الأوسط - اُردو جلد پنجم صفحہ ۲۶۱ حدیث نمبر 6776
https://archive.org/stream/AlMujamAlAwsatJild5/al%20mu%27jam%20al%20awsat%20Jild%205#page/n261/mode/2up

3- صحيح ابن حبان - محققا عربی حدیث نمبر 5665
http://shamela.ws/browse.php/book-1729/page-8323

4- صحيح ابن حبان - مخرجا عربی حدیث نمبر 5665
http://shamela.ws/browse.php/book-1734#page-11309

5- صحيح ابن حبان اُردو جلد ششم صفحہ ۵۹۲ حدیث نمبر 5665
https://archive.org/stream/SahiIbneHibbanJild1-8/Sahih%20Ibn%20Hibban%20Jild%206%20LRes#page/n591/mode/2up
 
شمولیت
اپریل 24، 2018
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
شب برات كا جشن اور اس كا حكم

اس اللہ تعالى كى تعريف ہے جس نے ہمارے ليے دین كو مكمل كيا، اور ہم پر اپنى نعمتيں پورى كيں، اور اس كے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام ہو جو رحمۃ للعالمین ہیں۔

اما بعد:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ميں نے آج كے دن تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنا انعام بھر پور كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں ۔المائدۃ ( 3 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

كيا ان لوگوں نے ( اللہ تعالى كے ) ايسے شريك ( مقرر كر ركھے ) ہيں جنہوں نے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ تعالى كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں ۔الشورى ( 21 ).

اور بخارى و مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو ( درا اصل) اس ميں سے نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے "

اور صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ ميں كہا كرتے تھے:

" اما بعد: بلا شبہ سب سے بہتر كلام اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے اچھا اور بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب بے برا كام بدعت اور دين ميں نيا كام ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اس معنى كى آيات اور احاديث تو بہت سارى ہيں ليكن اسى پر اكتفا كرتے ہيں.

يہ آيات اور احاديث اس بات كى صريح اور واضح دليل ہيں كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس امت كا دين مكمل كر ديا ہے، اور اس پر اپنا انعام بھى مكمل كر ديا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دين حنيف كو پورى اور مكمل طور پر پہنچانے كے بعد ہى فوت ہوئے، اور انہوں نے اقوال، اعمال ميں سے ہر وہ چيز امت كے سامنے بيان كر دى جو اللہ تعالى نے ان كے ليے مشروع كى تھى.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ واضح كر ديا كہ: ان كے بعد لوگ اقوال و اعمال ميں سے جو بھى دين ميں نيا كام ايجاد كر كے اسلام كى طرف منسوب كرينگے وہ سب ناقابل قبول ہے، اور اسے ايجاد كرنے والے پر واپس پلٹا ديا جائے گا، چاہے اس كا مقصد كتنا ہى نيك اور اچھا ہى كيوں نہ ہو.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو يہ اچھى طرح معلوم تھا، اور اسى طرح ان كے بعد علماء اسلام كو بھى اسى ليے انہوں نے بدعات و خرافات كى بيخ كنى كى اور اس كا انكار كيا، اور لوگوں كو اس سے ڈرايا، جيسا كہ سنت نبويہ كى تعظيم اور بدعت كى بيخ كنى كرنے والے ہر مصنف نے اسے ذكر بھى كيا ہے، مثلا ابن وضاح ا ور طرطوشى اور ابن شامۃ وغيرہ.

بعض لوگوں نے جن بدعات كو ايجاد كر ليا ہے ان بدعات ميں ماہ شعبان كے نصف يعنى پندرويں رات كو شب برات كا جشن منانا بھى شامل ہے، اور شعان كى پندرہ تاريخ كا دن روزہ ركھنے ليے خاص كرنا ہے، حالانكہ اس كى كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جس پر اعتماد كيا جائے.

اس كے متعلق جتنى بھى احاديث وارد ہيں وہ سب ضعيف ہيں جن پر اعتماد كرنا جائز نہيں، اور اس رات ميں نفلى نماز كى ادائيگى كى فضيلت ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب موضوع اور جھوٹى روايات ہيں، جيسا كہ بہت سے اہل علم نے اس پر متنبہ بھى كيا، ان ميں بعض اہل علم كى كلام آگے بيان كى جائيگى، ان شاء اللہ.

اوراس ميں اہل شام وغيرہ سے بعض آثار بھى بيان كيے جاتے ہيں، جمہور علماء كے ہاں شب برات كا جشن منانا بدعت ہے، اور اس كے متعلق جتنى بھى احاديث روايت كى جاتى ہيں وہ سب ضعيف اور ان ميں سے بعض تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اس پرمتنبہ كرنے والوں ميں حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى كتاب " لطائف المعارف " ميں تنبيہ كى ہے.

اور جو عبادات صحيح دلائل سے ثابت ہيں ان ميں ضعيف احاديث پر عمل كيا جا سكتا ہے، ليكن شب برات كا جشن منانے ميں تو صحيح دليل وارد ہى نہيں تا كہ ضعيف احاديث كو بھى ديكھا جا سكے.

امام ابو العباس شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى يہ عظيم قاعدہ ذكر كيا ہے.

علماء كرام اس متفق ہيں كہ جن مسائل ميں لوگوں كا تنازع ہو اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانا واجب ہے، اور كتاب اللہ اور سنت رسول دونوں يا دونوں ميں سے ايك جو بھى فيصلہ كر ديں وہ شريعت ہے اور اس پر عمل كرنا واجب ہے.

اور جس كى كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم مخالف كريں اسے پھنك دينا اور اس پر عمل نہ كرنا واجب ہے، اور جو عبادات كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نہ ہوں وہ بدعات ہيں ان پر عمل كرنا جائز نہيں، چہ جائيكہ ان كى دعوت دى جائے، اور انكى مدح سرائى كى جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور تم ميں سے اختيار والوں كى، پھر اگر كسى چيز ميں اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تمہيں اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ہے، يہ انجام كے لحاظ سے بہت اچھا اور بہتر ہے ۔ النساء ( 59 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور جس چيز ميں بھى تمہارا اختلاف ہو اس كا فيصلہ اللہ تعالى ہى كى طرف ہے ۔الشورى ( 10 ).

اور ايك مقام اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

كہہ ديجئے! اگر تم اللہ تعالى سے محبت ركھتے ہو تو ميرى تابعدارى اور اطاعت كرو خود اللہ تعالى تم سے محبت كرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ۔آل عمران ( 31 ).

اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا ارشاد ہے:

قسم ہے تيرے رب كى! يہ اس وقت تك مومن نہيں ہو سكتے جب تك كہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كرليں، پھر آپ ان ميں جو فيصلہ كر ديں اس ميں وہ اپنے دل ميں كسى طرح تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں ۔النساء ( 65 ).

اس معنى اور موضوع كى آيات بہت زيادہ ہيں، اور يہ آيات اختلافى مسائل كو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كرنے اور پھر ان كے فيصلہ پر رضامندى كے وجوب پر واضح نص ہيں، اور يہى ايمان كا تقاضا ہے، اور بندوں كے ليے جلد يا بدير بہتر بھى ہے: اور انجام كے لحاظ سے بہتر ہے . يعنى اس كا انجام اچھا ہے.

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " لطائف المعارف " ميں مندرجہ بالا كلام كے بعد اس مسئلہ كے متعلق كہتے ہيں:

( اور شعبان كى پندرويں رات ( يعنى شب برات ) اہل شام ميں سے خالد بن معدان، اور مكحول، اور لقمان بن عامر وغيرہ كى تعظيم كرتے اور اس رات عبادت كرنے كى كوشش كرتے، اور لوگوں نے ان سے ہى اس رات كى فضيلت اور تعظيم كرنا سيكھى.

اور ايك قول يہ ہے كہ: انہيں اس سلسلہ ميں كچھ اسرائيلى آثار پہنچے تھے، ... اور حجاز كے اكثر علماء كرام نے اس كا انكار كيا ہے جن ميں عطاء، ابن ابى مليكہ شامل ہيں، اور عبد الرحمن بن زيد بن اسلم نے اسے فقھاء مدينہ سے نقل كيا ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ كے اصحاب وغيرہ كا يہى قول ہے، ان كا كہنا ہے: يہ سب كچھ بدعت ہے... اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے شب برات كے بارہ ميں كوئى كلام معلوم نہيں ہے.. )

حافظ رحمہ اللہ نے يہاں تك كہا ہے كہ: شب برات ميں نفلى نماز اور شب بيدارى كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ سے كچھ بھى ثابت نہيں ہے ) .

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا مقصود ختم ہوا.

اور اس ميں انہوں نے يہ صراحتا بيان كيا ہے كہ شب برات كے سلسلے ميں نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كچھ ثابت ہے اور نہ ہى صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے.

اور جس چيز كا شرعى دلائل سے مشروع ہونا ثابت نہ ہو؛ كسى بھى مسلمان كے ليے جائز نہيں كہ وہ اسے دين ميں ايجاد كرتا پھرے، چاہے وہ كام انفرادى كيا جائے يا پھر اجتماعى، يا پھر وہ اس كام كو خفيہ طور پر انجام دے يا اعلانيہ طور پر كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا كام ايجاد كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل ناقابل قبول اورمردود ہے "

اس كے علاوہ دوسرے ان دلائل كى بنا جن ميں بدعت سے بچنے كا كہا گيا ہے اور اسے منكر قرار ديا گيا ہے.

امام ابو بكر الطرطوشى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " الحوادث والبدع " ميں كہتے ہيں:

( ابن وضاح نے زيد بن اسلم رحمہ اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے كہا:

ہم نے اپنے اساتذہ اور فقھاء ميں سے كسى ايك كو بھى شب برات كى طرف ملتفت ہوتے نہيں پايا، اور نہ ہى وہ مكحول رحمہ اللہ كى روايت كى طرف التفات كرتے تھے، اور نہ ہى وہ شب برات كى باقى راتوں پر كوئى فضيلت سمجھتے تھے.

اور ابن ابى مليكۃ رحمہ اللہ تعالى كو كہا گيا كہ: زياد النميرى يہ كہتے ہيں كہ: شعبان كى پندرويں رات كا اجروثواب ليلۃ القدر جتنا ہے، تو ابن ابى مليكۃ رحمہ اللہ كہنے لگے:

اگر ميں اس سے يہ سنوں اور ميرے ہاتھ ميں چھڑى ہو تو ميں اسے زدكوب كروں، اور زياد قصہ گو شخص تھا ) انتہى المقصود

علامہ شوكانى رحمہ اللہ تعالى " الفوائد المجموعۃ " ميں كہتے ہيں:

( يہ حديث: اے على جس نے شعبان كى پندرويں رات كو ايك سو ركعت ادا كيں اور ہر ركعت ميں سورۃ الفاتحۃ اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) دس بار پڑھى تو اللہ تعالى اس كى ہر ضرورت پورى كرے گا... الخ"

يہ حديث موضوع يعنى نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ اور بہتان ہے اور اس كے الفاظ ميں ـ يہ صراحت ہے كہ اسے پڑھنے والا كتنا اجروثواب حاصل كرتا ہے ـ وہ كچھ ہے جس سے ايك تمييز كرنے والے شخص كو اس كے موضوع ہونے ميں كوئى شك نہيں ہوتا، اور اس كے رجال مجھول ہيں، اور يہ ايك دوسرے طريق سے بھى مروى ہے جو سارا موضوع ہے، اور اس كے راوى بھى مجھول ہيں ).

اور " المختصر " ميں ہے كہ:

شعبان كى پندرويں رات والى حديث باطل ہے، اور ابن حبان ميں على رضى اللہ تعلى عنہ سے حديث مروى ہے:

" جب شعبان كى پندرويں رات ہو تو اس رات قيام كرو اور دن كو روزہ ركھو"

يہ حديث ضعيف ہے.

اور " اللآلى " ميں ہے كہ: شعبان كى پندرويں رات دس بار سورۃ اخلاص كے ساتھ سو ركعت ...

يہ موضوع ہے، اور اس حديث كے تينوں طرق ميں اكثر راوى مجھول اور ضعيف ہيں، ان كا كہنا ہے: اور بارہ ركعت ميں تيس بار سورۃ اخلاص، يہ بھى موضوع ہے، اور چودہ بھى موضوع ہے.

اس حديث سے فقھاء كى اكثر جماعت دھوكہ كھا گئى ہے مثلا: ( الاحياء) وغيرہ كا مصنف اور اسى طرح مفسرين ميں سے بھى، اور اس رات كى نماز " يعنى شب برات نماز " كے بارہ ميں مختلف قسم كى مختلف طريقوں سے روايات بيان كى گئى ہيں جو سب كى سب باطل اور موضوع ہيں. انتہى

اور حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( شب برات كى نفلى نماز كے متعلق حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ اور بہتان ہے ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المجموع " ميں رقمطراز ہيں:

( صلاۃ رغائب كے نام سے جو نماز معروف ہے وہ بارہ ركعات ہيں جو رجب كے پہلے جمعہ كو مغرب اور عشاء كے مابين ادا كى جاتى ہيں، اور شب برات ميں ادا كى جانے والى سو ركعت، يہ دونوں نمازيں بدعت اور منكر ہيں، اسے كتاب " قوت القلوب " اور " احياء علوم الدين " ميں ذكر كرنے سے دھوكہ نہيں كھانا چاہيے، اور نہ ہى اس سلسلے ميں روايت كى جانے والى حديث سے دھوكہ كھانا چاہيے، كيونكہ يہ سب باطل ہے، اور نہ ہى بعض ان مصنفين سے دھوكہ كھانا چاہيے جن پر اس كا حكم مشتبہ ہو چكا ہے جس كى بنا پر انہوں نے اس كے مستحب ہونے ميں كئى ايك اوراق سياہ كر ڈالے ہيں، يہ سب كچھ غلط ہے ).

اور امام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعيل المقدسى رحمہ اللہ تعالى نے اس كے ابطال اور رد ميں ايك بہت ہى نفيس كتاب لكھى ہے، اور انہوں نے اس سلسلے ميں بہت كاميابى بھى حاصل كى اور اچھى كلام كى ہے، اس مسئلہ ميں اہل علم كى كلام بہت زيادہ ہے، اگر ہم اس مسئلہ ميں اہل علم كى سارى كلام كو ذكر كرنے لگيں تو يہ سلسلہ بہت طويل ہو جائے گا، جو كچھ ہم نے مندرجہ بالا سطور ميں ذكر كيا ہے وہى كافى ہے، اور حق تلاش كرنے والے كے ليے اسى ميں اطمنان ہے.

اور پر جو آيات اور احاديث اور اہل علم كا كلام بيان ہوا ہے، حق كے متلاشى كے ليے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ شب برات كو شب بيدارى كرنا اور اس رات نفلى نماز وغيرہ دوسرى عبادات ادا كرنا، اور پندرہ شعبان كو روزے كے ليے خاص كرنا اكثر اہل علم كے ہاں ايك منكر بدعت ہے، شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى.

بلكہ يہ ان بدعات اور ايجادات ميں شامل ہوتى ہے جو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كے دور كے بعد ايجاد ہوئيں، اس سلسلے ميں حق كے متلاشى كے ليے اللہ سبحانہ وتعالى كى مندرجہ ذيل فرمان ہى كافى ہے:

(آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے ).

اور اس موضوع كى دوسرى آيات جن ميں اس موضوع كو بيان كيا گيا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا عمل ايجاد كيا جو اصلا اس دين ميں نہيں تو وہ ناقابل قبول اور مردود ہے "

اور اس موضوع كى دوسرى احاديث، اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" راتوں ميں جمعہ كى رات كو قيام الليل كے ليے خاص نہ كرو، اور نہ ہى جمعہ كا دن باقى دنوں سے روزہ كے ليے خاص كرو، الا يہ كہ اگر وہ دن اس كے روزہ ركھنے كى عادت كے موافق ہو"

اگر كسى راتوں ميں كسى رات كو عبادت كے ليے خاص كرنا جائز ہوتا تو وہ رات جمعہ كى ہوتى جو كہ دوسرى راتوں سے اولى اور بہتر ہے، كيونكہ جمعہ كا دن سب سے بہترين دن ہے جس ميں سورج طلوع ہوتا ہے، اس كا ذكر نص حديث ميں بيان كيا گيا ہے.

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے راتوں ميں اس رات كو خاص كرنے سے بچنے كا كہا تو يہ اس كى دليل ہے كہ عبادت كے ليے دوسرى راتوں كو بالاولى خاص كرنا جائز نہيں، ليكن اگر اس تخصيص كى كوئى دليل مل جائے تو جائز ہے.

جب رمضان المبارك كى راتيں اور ليلۃ القدر ميں قيام كرنا مشروع تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس قيام پر امت كو ابھارا، اور خود بھى اس پر عمل كيا.

جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جس نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كى پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

" اور جس نے ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

لہذا اگر شعبان كى پندرويں رات ( جسے عام طور پر شب برات كا نام ديا جاتا ہے ) يا پھر رجب كے پہلے جمعہ كى رات، يا اسراء و معراج كى رات ( جسے شب معراج كا نام ديا جاتا ہے ) كى عبادت كے ليے تخصيص مشروع ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم امت كو اس كى بھى راہنمائى فرماتے يا پھر خود اس پر عمل كرتے، اور اگر اس ميں سے كچھ ہوا ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ان سے نقل بھى كرتے، اور ہم سے كچھ بھى نہ چھپاتے كيونكہ انبياء كے بعد صحابہ كرام لوگوں ميں سے سب سے زيادہ نصيحت كرنے والے اور خير خواہ اور بھلائى كرنے والے تھے، اللہ تعالى ان سب سے راضى ہو.

اور اب آپ نے علماء كرام كى كلام سے معلوم كر ليا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام سے نہ تو رجب كے پہلے جمعہ كى فضيلت ميں اور نہ ہى شعبان كى پندرويں رات ( شب برات ) كى فضيلت ميں كچھ ثابت ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ ان دونوں راتوں كا جشن منانا اسلام ميں نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اور اسى طرح ان راتوں كو عبادت كے ليے خاص كرنا بدعت منكرہ ہے، اور اسى طرح رجب كى ستائيسويں رات جس كے بارہ ميں لوگ اسراء و معراج كى رات كا اعتقاد ركھتے ہيں ان راتوں كو عبادت كے ليے خاص كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح مندرجہ بالا دلائل كى بنا پر اس رات كو جشن منانا بھى جائز نہيں ہے.

يہ تو اس وقت ہے جب اس رات كا علم ہو جائے، اور علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق تو اس رات كا علم ہى نہيں ؟!

اور جو شخص يہ كہتا ہے كہ: يہ رات رجب كى ستائيسويں رات ہے، يہ قول باطل ہے احاديث صحيحہ كى روشنى ميں اس كى كوئى اساس اور دليل نہيں ملتى.

كسى عربى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:

سب سے بہتر اور اچھے امور وہ ہيں جو ہدايت پر ہوں، اور برے امور نئى ايجاد كردہ بدعات ہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور سب مسلمانوں كو كتاب و سنت پر عمل كرنے كى توفيق عطا فرمائے، اور اس پر ثابت قدم ركھے، اور كتاب و سنت كى مخالفت سے ہميں بچا كر ركھے، يقينا اللہ تعالى بڑا سخى اور كرم والا ہے.

اللہ تعالى اپنے بندے اور رسول ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور سب صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.انتہى
 
شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
30
محترم ابو علی السلفی السلام علیکم
آپ سے صرف ایک مختصر سی گذارش ہے کہ میں نے آپ کے تبصرے کے اوپر جو روایت حوالہ جات کے ساتھ بیان کی ہے، اس کا ضعف بیان فرما دیجئے۔

Sent from my FRD-L09 using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
امام ابو حاتمؒ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں
هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ بهذا الإسنادِ ، لم يَرْوِ بهذا الإسنادِ [غير] أَبِي خُلَيدٍ، وَلا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهِ! قلتُ: ما حالُ [أَبِي] خُلَيدٍ؟ قَالَ: شيخٌ .
یہ حدیث اس سند سے منکر ہے۔ اس سند سے روایت کرنے والے ابوخلید تنہا ہیں، میں نہیں جانتا کہ وہ اس سند کو کہاں سے لائے! میں (عبدالرحمن بن ابی حاتم) دریافت کیا کہ ابوخلید کی کیا کیفیت ہے؟ جواباً فرمایا: شیخ ہے۔
العلل - ابن أبي حاتم
علل الحديث لابن أبي حاتم

امام دارقطنیؒ سند میں اضطراب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ غَيْرُ ثَابِتٍ
یہ حدیث ثابت ہی نہیں۔
علل الدارقطني - الإمام الحافظ شيخ الإسلام الدارقطني
علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية
 
شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
30
محترم عدیل سلفی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کے جوابات کا بہت شکریہ۔ ذیل میں ان پر میرا تبصرہ ہے:
۱- آپ نے جس تھریڈ کا لنک دیا ہے اس میں ایک مختلف سند کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس میں اصل اعتراض احوص بن حکیم پر ہے۔ میں نے جو سند پیش کی ہے اس میں احوص بن حکیم ہیں ہی نہیں اس لئے اس اعتراض کا تو خاتمہ ہو جاتا ہے۔
۲- دوسرا اعتراض آپ نے کیا کہ مکحول کی مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں ہے۔ مكحول بن شهراب بن شاذل مالک بن یخامر کے شاگردوں میں شامل ہیں اس لئے اس اعتراض کا خاتمہ ہو جاتا ہے کہ مكحول اور مالك بن يخامر کے درمیان انقطاع ہے'۔ شاگرد اُستاد کے رشتے کی صورت میں اُس انقطاع کے امکان کا رد ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے نیچے دیا ہوا لنک ملاحظہ کیجئے، مالک بن یخامر کے تلامذہ میں ۱۹ نمبر پر مکحول موجود ہیں۔
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=6698

۳- ابو خلید عتبہ بن حماد الدمشقی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجرالعسقلانی اور جرح و تعدیل کے دوسرے امام ان کو سچا اور ثقہ کہتے ہیں۔ http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=5465
اس لئے اگر وہ اس روایت میں تنہا بھی ہیں تو یہ اس کو منکر کر دینے والا کوئی اعترض نہیں۔ جرح و تعدیل کے اصولوں میں سے کوئی اصول اس کے لئے لائیے۔
۴- شیخ البانی اپنی کتاب 'السلسلة الصحيحة' میں رقمطراز ہیں کہ "یہ ایک صحیح حدیث ہے جو مختلف صحابہ سے مختلف اسناد سے منقول ہے جیسا کہ حضرت معاذ ابن جبل، حضرت أبو ثعلبة الخشني، حضرت عبد الله بن عمرو، حضرت ابو موسى اشعری، حضرت ابو هريرہ، حضرت ابو بكر صديق، حضرت عوف ابن مالك اور حضرت عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ حضرت معاذ ابن جبلؓ کی بواسطہ مكحول اور مالك بن يخامر روایت مرفوع ہے جسے ابن أبي عاصم 'السنة' میں لائے ہیں۔ " اس کا سکین میرے پاس موجود ہیں جو میں آپ کو بھیج سکتا ہوں۔ شیخ البانی کے مطابق یہ روایت آٹھ صحابہ سے مروی ہے جو اُوپر بیان ہے۔ ان تمام کے حوالہ جات صحيح ابن حبان کے اُردو ترجمہ کے حاشیہ میں موجود ہیں۔
۵- شیخ شعيب الأرنؤوط (جنہیں بلاشبہ شیخ البانی کے ساتھ پچھلی صدی کے سب سے بڑے امام الحدیث قرار دیا جا سکتا ہے) نے بھی اسے صحیح حدیث قرار دیا ہے۔
۶- شیخ البانی نے اپنی کتاب 'السلسلة الصحيحة' میں اس حدیث کی تمام اسناد پر چار صفحات پر تفصیلی بحث کی ہے اور نتیجے کے طور پر اسے ایک معتبر اور قابلِ اعتماد حدیث قرار دیا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
۵- شیخ شعيب الأرنؤوط (جنہیں بلاشبہ شیخ البانی کے ساتھ پچھلی صدی کے سب سے بڑے امام الحدیث قرار دیا جا سکتا ہے) نے بھی اسے صحیح حدیث قرار دیا ہے۔
۶- شیخ البانی نے اپنی کتاب 'السلسلة الصحيحة' میں اس حدیث کی تمام اسناد پر چار صفحات پر تفصیلی بحث کی ہے اور نتیجے کے طور پر اسے ایک معتبر اور قابلِ اعتماد حدیث قرار دیا ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو :
(1) یہ کیسے ثابت ہوا کہ " لیلۃ النصف من شعبان " لیلۃ براءۃ " ہے ،
(2)اس رات ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جزاک اللہ خیرا بہت اچھی کوشش کری آپ نے اس روایت کو صحیح ثابت کرنے کی! مشہور معروف عربی ویب سائٹ ملتقى أهل الحديث پر اس روایت کا اور اس کے شواہد اور متابعت کا رد بلیغ موجود ہے۔
بيان ضعف حديث النزول الإلهي في النصف من شعبان

جہاں تک بات ہے شیخ البانیؒ کی تو ان کا تساہل معروف ہے، اس کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا آپ کے لیے تراجعات الألباني ۔

امام ابو حاتمؒ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں
هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ بهذا الإسنادِ ، لم يَرْوِ بهذا الإسنادِ [غير] أَبِي خُلَيدٍ، وَلا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهِ! قلتُ: ما حالُ [أَبِي] خُلَيدٍ؟ قَالَ: شيخٌ .
یہ حدیث اس سند سے منکر ہے۔ اس سند سے روایت کرنے والے ابوخلید تنہا ہیں، میں نہیں جانتا کہ وہ اس سند کو کہاں سے لائے! میں (عبدالرحمن بن ابی حاتم) دریافت کیا کہ ابوخلید کی کیا کیفیت ہے؟ جواباً فرمایا: شیخ ہے۔
العلل - ابن أبي حاتم
علل الحديث لابن أبي حاتم

امام دارقطنیؒ سند میں اضطراب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ غَيْرُ ثَابِتٍ
یہ حدیث ثابت ہی نہیں۔
علل الدارقطني - الإمام الحافظ شيخ الإسلام الدارقطني
علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية
شیخ البانیؒ کے شاگرد شیخ عبدالقادر بن حبیب اللہ السندیؒ بھی امام ابوحاتمؒ کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔
إسناده منكر موضوع كما قال أبوحاتم وعنه ابنه عبدالرحمن في العلل كما مضي، ولا يصلح للمتابعات والشواهد، فضلا أن يكون حجة
سند منکر اور موضوع ہے، جیسا کہ امام ابوحاتمؒ نے فرمایا اور ان کے بیتے حضرت عبدالرحمنؒ نے ان سے کتاب العلل میں نقل کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ یہ روایت بطور متابعات پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ہی بطور شواہد، چہ جائیکہ اسے حجت قرار دیتے ہوئے پیش کیا جائے۔
عنوان الكتاب: التصوف في ميزان البحث والتحقيق والرد ابن عربي الصوفي في ضوء الكتاب والسنة
المؤلف: عبد القادر بن حبيب الله السندي
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: مكتبة ابن القيم - المدينة المنورة
 
Top