کیا مردہ انسان کی روح دنیا میں واپس آتی ہے ؟
ہندو مذہب کے پیرو کار مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں اور دیگر کچھ مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں ۔
جبکہ اسلام کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے ، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے جسے قرآن نے پیش کیا ہے ۔
ہر مرنے والے کی روح عالم دنیا سے روز محشر تک عالَم برزخ منتقل کردی جاتی ہے ،جہاں سے واپسی ناممکن ہے ، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
ترجمہ :
(نافرمانوں کی ساری زندگی ایسے ہی غفلت میں گزرتی ہے ) حتی کہ جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
شرح : جب کفار و مشرکین اور نافرمانوں کو اپنی موت کے آثار آنے لگیں گے اور ان کے گناہوں کے سیاہ بادل ان کی آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں گے، تو کہیں گے کہ میرے رب ! مجھے مہلت دے، تاکہ دنیا میں رہ کر نیک کام کروں، تو اللہ تعالیٰ ان کی طلب کو رد کردے گا اور کہے گا کہ اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔(کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا) کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات یونہی ان کی زبان سے نکل رہی ہے، اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (28) میں فرمایا ہے : (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ) اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیئے جائیں گے تو جس کفر و شرک سے انہیں روکا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگیں گے۔ (تیسیر الرحمن )
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ الزمر آیت 24)
ترجمہ :
اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ۔
یہ واضح اور سیدھا اصولی عقیدہ قرآن نے اہل اسلام کو دیا ہے ۔
لیکن جب کسی امت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے اصلی نظریات سے انحراف کر جاتی ہے ۔ ہندؤ مذہب کا نظریہ اب نام نہاد مسلمانوں میں موجود ہے کیونکہ Indo-Pak Nation culture متفرق Relationship اور مخلوط طرز زندگی کی وجہ سے ہندو مذہب کےکچھ نظریات کچھ جاہل بدعتی مسلمانوں میں بھی آ گئے ہیں ،اور اب یہ مستقل عقیدہ کاحصہ بن چکے ہیں ۔
ہندؤں کے ہاں ایک نظریہ پایا جاتا ہے ایک انسان مرنے کے بعد کسی نہ کسی روپ میں آ سکتا ہے
"سات جنم والا عقیدہ "۔
ان کی دیکھا دیکھی ان کے ماحول میں بسنے والے بے خبر مسلمانوں نے یہ عقیدہ گھڑلیا کہ ہر جمعرات کو ‛‛ مردہ انسانوں ‛‛ کی روحیں آتی ہیں اور گھر سے کچھ کھا کر جاتی ہیں ۔
اس حوالہ سے ہندستان کے اسلامی تعلیم سے بے خبر ایک مسلم گھرانے کا واقعہ۔
ایک بندہ اپنے دور کے رشتے دار کے ہاں گیا کچھ دن کے بعد جمعرات ‛‛ کا دن آگیا تو اس کی کزن نے کچھ پکانا شروع کیا تو اس نے پوچھا آج آپ لوگ کس کے لیئے کھانا پکا رہے ہو ؟ اس کی کزن نے جواب دیا ؛ کہ کوئی مہمان نہیں آ رہا ہے بلکہ آج جمعرات ہے ہمارے جو آباؤاجداد مر گئے ہیں ان کی روحیں آئیں گی ہم ان کے لیئے کھانا بنا رہے ہیں ۔ اس نے پو چھا وہ تو مر گئے ہیں گئے اب وہ کیسے کھا سکتے ہیں ؟ اس کی کزن نے جواب دیا وہ کسی بھی روپ میں آکے کھا سکتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے ۔ بس شام ہوئی اس کی کزن نے کھانا پکا ہوا دروازہ کی چوکھٹ پر رکھ دیا اور ساتھ دیا بھی جلا دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کتا Dog " آیا وہ سارا کھانا کھا کے چلا گیا تو اس کی کزن نے پوچھا وہ کھانا تو ایک کتا ‛‛ کھا کر چلا گیا ہے اور آپ کے دادا GrandFather " تو نہیں آئے ۔ اس نے جواب دیا ‛ وہ کسی بھی روپ میں آسکتے ہیں یعنی اس کے دادا ایک کتے ‛‛ کے روپ میں اور کھانا کھا گئے ۔"
اصلی دین اور شریعت سے بے خبری اور جہالت کا یہ عالم گذشتہ کئی صدیوں سے پاک و ہند کے خطہ میں بسنے والے مسلمانوں پر طاری ہے ،
بعض سادہ لوح لوگ جمعرات کا جمعہ کو کھانا پکا کر اپنے محلہ کے امام مسجد کوبلاتے ہیں اور ختم وغیرہ مروجہ طریق پر دلاتے اور مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے ائمہ مساجد یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعرات کور وح قبروں یا گھروں میں آتی اور اپنے ورثاء سے توقع کرتی ہیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ طبعی طور پر ہر شخص کے دل پر اثر پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے اچھے طریق پر دنیا میں کاوش کی اب وہ بے بس ہیں ان کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تو ہیں عوام میں جذباتی تخیلات، بلکہ یوں کہیئے کہ موہوم خیالات۔
مگر افسوس مردوں کی ارواح کی اپنے گھروں کو واپسی کا عقیدہ رکھنے والوں کے دل میں اس عقیدہ کی حقیقت جاننے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوتی ،حالانکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر کی جائے، جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو اسے دین و شریعت کا حصہ بالکل نہ بنایا جائے۔
بات درحقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔
اور اگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں تو مرنا کیسا ؟ اور ان کی موت پر رونا پیٹنا اور جنازہ تعزیت کس لئے ؟
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
{ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَا اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْن }
’’ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کر دیا وہ دنیا میں واپس نہ آئیں گے ۔‘‘
" اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے" ترجمہ جونا گڑھی
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں:
((قال ابن عباس: وجب، يعني: قدرا مقدرا أن أهل كل قرية أهلكوا أنهم لا يرجعون إلى الدنيا قبل يوم القيامة. هكذا صرح به ابن عباس، وأبو جعفر الباقر، وقتادة، وغير واحد )) تفسیرابن کثیر))
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مقدر کر دیا گیا ہے کہ ہر بستی والے پر جو لوگ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف قیامت سے پہلے واپس نہ آئیں گے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ جناب امام ابو جعفر باقرؒ ،امام قتادہؒ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے اس کی تصریح کی ہے۔‘‘
اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:«أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ
شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً»، فَقَالَ: " هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا "
ترجمہ
مشہور تابعی مسروقؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (سورۃ آل عمران )اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔"
تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے (تاکہ ہم واپس دنیا میں جائیں اور ) ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"(صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ )
٭٭٭
یعنی اللہ کے محبوب شہداء جنت میں اللہ تعالی کے پوچھنے پر کہ تمہاری کوئی خواہش ہو جو ہم پورا کریں تو ہمیں بتاؤ ۔تو شہداء جو اللہ کے بہت پیارے ہیں وہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیری راہ میں لڑ کر پھر شہید ہوں اور شہادت کالطف اٹھائیں کیوں کہ وہ اگلے جہان پہنچ کر شہادت کا عظیم ثواب اور مزہ دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یا خواہش قبول نہیں ہوتی‘‘
تو شہداء جیسے محبوب حضرات کی ارواح کو دنیا میں واپسی کی اجازت نہیں ،تو باقی ارواح کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یہ وہ مضبوط عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــ