• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب جمعہ اور ارواح کا لوٹ آنا ؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ذرا اس پوسٹر کی حقیقت واضح کر دیں ۔
IMG-20190226-WA0003.jpg

جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ذرا اس پوسٹر کی حقیقت واضح کر دیں ۔
21204 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جزاکم اللہ خیرا

عدنان بهائی جو مر گیا اسکی روح کو فرشتے لے جاتے هیں احپھی هوئی تو احپھے طریقے سے اور بری هوئے تو پهر الله کی پناه.
احپهی هوئی تو وه جنت میں جائے گی بری هوئے تو جهنم میں.
جو جنت میں هوئی اسکا تو اس نے دنیا پر کیا لینے آنا هے.
اور جو جهنم میں هوئی اسکو فرشتوں نے آنے نهیں دینا.
باقی یه گپ الذین لا یعقلون هے.
مزید دیکھیں.
saagartimes.blogspot.com/2016/02/blog-post_48.html?m=1
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ ذرا اس پوسٹر کی حقیقت واضح کر دیں ۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ بات کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں کہ "
مومنین کی روحیں شبِ جمعہ اپنے گھروں کو لوٹ آتی ہیں ،
عالم اسلام میں ہندوستان کے مولوی عبدالحق دہلوی (جنہیں لوگ محدث دہلوی کہتے ہیں ) اور مولوی احمد رضا خان نے سب سے پہلے اس کا بات انکشاف شریف فرمایا ،
عبدالحق دہلوی (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ )میں لکھتے ہیں کہ :
"مستحب است کہ تصدق کردہ شوداز میّت بعد از رفتن اواز عالم تا ہفت روز تصدق ازمیّت نفع می کند او ر ا بے خلاف میان اہل علم واردشدہ است در آں احادیث صحیحہ بہ میّت رامگر صدقہ ودعا، ودربعض روایات آمدہ است کہ روح میّت می آید خانہ خود راشب جمعہ، پس نظر می کند کہ تصدق می کنند ازوے یا نہ۔(اشعۃ اللمعات)

یہی عبارت عربی (لمعات شرح مشکوٰۃ ) میں حسب ذیل ہے

"ويستحب أن يتصدق عن الميت بعده إلى سبعة أيام، والصدقة عن الميت ينفعه بلا خلاف بين أهل العلم، وفيه وردت الأحاديث الصحيحة خصوصًا الماء، قال بعض العلماء: لا يصل إلى الميت إلا الصدقة والدعاء، وقد جاء في بعض الروايات أن روح الميت تأتي داره ليلة الجمعة فينظر هل يتصدق لأجله، واللَّه أعلم
ترجمہ :
میّت کے دنیا سے جانے کے بعد سات دن تک اس کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے۔ میّت کی طرف سےصدقہ اس کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں، اس بارے میں صحیح حدیثیں وارد ہیں، خصوصا پانی صدقہ کرنے کے بارے میں۔ اور بعض علما ء کاقول ہے کہ میّت کو صرف صدقہ اوردعا کا ثواب پہنچتاہے ، اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رُوح شب جمعہ کو اپنے گھر آتی ہے اورانتظار کرتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں یا نہیں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

مرنے کے بعد سات دن تک صدقہ مستحب ہونا ،اور روح ہر جمعہ کی رات "پیرول " پر ہندوستان شریف اڑتی ہوئی آتی ہے ،اور بریلوی پیروکار کی پدھارتی ہے ہمیں ذخیرہ حدیث کے کسی مصدر میں ایسی کوئی روایت نہ مل سکی ،
ــــــــــــــــــــــــــــ
اور انہی مولوی عبدالحق صاحب دہلوی کی تقلید میں احمد رضا خان بریلوی نے پورا ایک مضمون لکھ مارا
جس کاعنوان ہے "اتيان الأرواح لديارهم بعد الرواح " یعنی (روحوں کا بعد وفات اپنے گھر آنا)
اس مضمون میں احمد رضا بریلوی نے وہ گل کھلائے ہیں جنہیں دیکھ کر وہابی منہ دیکھتے رہ جائیں ؛
اسی لئے اس بدبودار مضمون میں احمد رضا لکھتا ہے کہ "ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون " وہابی لوگ جاہل و بیوقوف ہیں "
مزید زہر اگلتا ہے کہ :
ولکن النجدیۃ یجحدون الحق وھم یعلمون( یعنی بات تو بریلوی مذہب کی ٹھیک ہےلیکن نجدی وہابی جان بوجھ کرحق کا انکار کرتے ہیں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
احمد رضا اس مضمون میں سب سے بڑی دلیل جو دیتا ہے وہ درج ذیل ہے :
شیخ الاسلام ''کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء'' فصل ہشتم میں فرماتے ہیں:
''درغرائب وخزانہ نقل کردہ کہ ارواح مومنین می آیند خانہ ہائے خودراہر شب جمعہ روز عید وروز عاشورہ وشب برات، پس ایستادہ می شوند بیرون خانہائے خود وندامی کند ہریکے بآواز بلند اندوہ گین اے اہل و اولاد من ونزدیکانِ من مہر بانی کنید برما بصدقہ۔''
ترجمہ :
غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کی ایسی دلیلیں دیکھ وہابی بے چارے تو حیران ہوجاتے ہیں
کہ اب اس نالائق بدعتی کو کیا کہیں ؟
جس مسکین کو اتنا بھی علم نہیں کہ شرعی امور کا ثبوت کن دلائل و مصادر سے ہوتا ہے ۔
٭٭٭
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کیا مردہ انسان کی روح دنیا میں واپس آتی ہے ؟


ہندو مذہب کے پیرو کار مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں اور دیگر کچھ مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں ۔
جبکہ اسلام کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے ، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے جسے قرآن نے پیش کیا ہے ۔
ہر مرنے والے کی روح عالم دنیا سے روز محشر تک عالَم برزخ منتقل کردی جاتی ہے ،جہاں سے واپسی ناممکن ہے ، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
ترجمہ :
(نافرمانوں کی ساری زندگی ایسے ہی غفلت میں گزرتی ہے ) حتی کہ جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
شرح : جب کفار و مشرکین اور نافرمانوں کو اپنی موت کے آثار آنے لگیں گے اور ان کے گناہوں کے سیاہ بادل ان کی آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں گے، تو کہیں گے کہ میرے رب ! مجھے مہلت دے، تاکہ دنیا میں رہ کر نیک کام کروں، تو اللہ تعالیٰ ان کی طلب کو رد کردے گا اور کہے گا کہ اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔(کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا) کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات یونہی ان کی زبان سے نکل رہی ہے، اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (28) میں فرمایا ہے : (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ) اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیئے جائیں گے تو جس کفر و شرک سے انہیں روکا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگیں گے۔ (تیسیر الرحمن )


اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ الزمر آیت 24)
ترجمہ :اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ۔

یہ واضح اور سیدھا اصولی عقیدہ قرآن نے اہل اسلام کو دیا ہے ۔
لیکن جب کسی امت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے اصلی نظریات سے انحراف کر جاتی ہے ۔ ہندؤ مذہب کا نظریہ اب نام نہاد مسلمانوں میں موجود ہے کیونکہ Indo-Pak Nation culture متفرق Relationship اور مخلوط طرز زندگی کی وجہ سے ہندو مذہب کےکچھ نظریات کچھ جاہل بدعتی مسلمانوں میں بھی آ گئے ہیں ،اور اب یہ مستقل عقیدہ کاحصہ بن چکے ہیں ۔
ہندؤں کے ہاں ایک نظریہ پایا جاتا ہے ایک انسان مرنے کے بعد کسی نہ کسی روپ میں آ سکتا ہے "سات جنم والا عقیدہ "۔
ان کی دیکھا دیکھی ان کے ماحول میں بسنے والے بے خبر مسلمانوں نے یہ عقیدہ گھڑلیا کہ ہر جمعرات کو ‛‛ مردہ انسانوں ‛‛ کی روحیں آتی ہیں اور گھر سے کچھ کھا کر جاتی ہیں ۔

اس حوالہ سے ہندستان کے اسلامی تعلیم سے بے خبر ایک مسلم گھرانے کا واقعہ۔
ایک بندہ اپنے دور کے رشتے دار کے ہاں گیا کچھ دن کے بعد جمعرات ‛‛ کا دن آگیا تو اس کی کزن نے کچھ پکانا شروع کیا تو اس نے پوچھا آج آپ لوگ کس کے لیئے کھانا پکا رہے ہو ؟ اس کی کزن نے جواب دیا ؛ کہ کوئی مہمان نہیں آ رہا ہے بلکہ آج جمعرات ہے ہمارے جو آباؤاجداد مر گئے ہیں ان کی روحیں آئیں گی ہم ان کے لیئے کھانا بنا رہے ہیں ۔ اس نے پو چھا وہ تو مر گئے ہیں گئے اب وہ کیسے کھا سکتے ہیں ؟ اس کی کزن نے جواب دیا وہ کسی بھی روپ میں آکے کھا سکتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے ۔ بس شام ہوئی اس کی کزن نے کھانا پکا ہوا دروازہ کی چوکھٹ پر رکھ دیا اور ساتھ دیا بھی جلا دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کتا Dog " آیا وہ سارا کھانا کھا کے چلا گیا تو اس کی کزن نے پوچھا وہ کھانا تو ایک کتا ‛‛ کھا کر چلا گیا ہے اور آپ کے دادا GrandFather " تو نہیں آئے ۔ اس نے جواب دیا ‛ وہ کسی بھی روپ میں آسکتے ہیں یعنی اس کے دادا ایک کتے ‛‛ کے روپ میں اور کھانا کھا گئے ۔"

اصلی دین اور شریعت سے بے خبری اور جہالت کا یہ عالم گذشتہ کئی صدیوں سے پاک و ہند کے خطہ میں بسنے والے مسلمانوں پر طاری ہے ،
بعض سادہ لوح لوگ جمعرات کا جمعہ کو کھانا پکا کر اپنے محلہ کے امام مسجد کوبلاتے ہیں اور ختم وغیرہ مروجہ طریق پر دلاتے اور مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے ائمہ مساجد یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعرات کور وح قبروں یا گھروں میں آتی اور اپنے ورثاء سے توقع کرتی ہیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ طبعی طور پر ہر شخص کے دل پر اثر پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے اچھے طریق پر دنیا میں کاوش کی اب وہ بے بس ہیں ان کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تو ہیں عوام میں جذباتی تخیلات، بلکہ یوں کہیئے کہ موہوم خیالات۔
مگر افسوس مردوں کی ارواح کی اپنے گھروں کو واپسی کا عقیدہ رکھنے والوں کے دل میں اس عقیدہ کی حقیقت جاننے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوتی ،حالانکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر کی جائے، جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو اسے دین و شریعت کا حصہ بالکل نہ بنایا جائے۔
بات درحقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔
اور اگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں تو مرنا کیسا ؟ اور ان کی موت پر رونا پیٹنا اور جنازہ تعزیت کس لئے ؟
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
{ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَا اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْن }
’’ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کر دیا وہ دنیا میں واپس نہ آئیں گے ۔‘‘
" اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے" ترجمہ جونا گڑھی

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں:
((قال ابن عباس: وجب، يعني: قدرا مقدرا أن أهل كل قرية أهلكوا أنهم لا يرجعون إلى الدنيا قبل يوم القيامة. هكذا صرح به ابن عباس، وأبو جعفر الباقر، وقتادة، وغير واحد )) تفسیرابن کثیر))
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مقدر کر دیا گیا ہے کہ ہر بستی والے پر جو لوگ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف قیامت سے پہلے واپس نہ آئیں گے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ جناب امام ابو جعفر باقرؒ ،امام قتادہؒ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے اس کی تصریح کی ہے۔‘‘

اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:«أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ
شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً»، فَقَالَ: " هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا "

ترجمہ
مشہور تابعی مسروقؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (سورۃ آل عمران )اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔"
تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے (تاکہ ہم واپس دنیا میں جائیں اور ) ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"(صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ )
٭٭٭
یعنی اللہ کے محبوب شہداء جنت میں اللہ تعالی کے پوچھنے پر کہ تمہاری کوئی خواہش ہو جو ہم پورا کریں تو ہمیں بتاؤ ۔تو شہداء جو اللہ کے بہت پیارے ہیں وہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیری راہ میں لڑ کر پھر شہید ہوں اور شہادت کالطف اٹھائیں کیوں کہ وہ اگلے جہان پہنچ کر شہادت کا عظیم ثواب اور مزہ دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یا خواہش قبول نہیں ہوتی‘‘

تو شہداء جیسے محبوب حضرات کی ارواح کو دنیا میں واپسی کی اجازت نہیں ،تو باقی ارواح کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یہ وہ مضبوط عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــ​
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله-

کیا مردہ انسان کی روح دنیا میں واپس آتی ہے ؟

کاش کہ یہ "عود روح" یعنی دنیا میں روح کی واپسی کا عقیدہ دور حاضر کے اہل حدیث کا نہ ہوتا- مگر بظاھر ایسا نظر نہیں آتا- یہ لوگ بھی بریلویوں، دیوبندیوں اور ہندووں کی طرز پر اس عقیدے کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے ہیں-

علامہ ناصر البانی کتاب موسوعة العلامة میں فرماتے کہ :


إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله

نبی کریم صل الله صلی علیہ وآله و وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے -

عرب کے مفتی بن باز کا عقیدہ :.


وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت
اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے-

دور حاضر کے محقق زبیر علی زئی بھی اسی عود روح کے عقیدے کے قائل تھے - کتاب توضح الاحکام میں سنن ابن ماجہ، مسند احمد کی ایک ضعیف روایت کو صحیح کہتے ہیں - کہتے ہیں کہ سنن ابن ماجہ (کتاب الزھد باب الذکر الموت) والی حدیث ثم تصیرالی القبر - اسکی سند بلکل صحیح ہے -

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عود روح کا عقیدہ حقیقت میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد خاص امام ابن قیم کا بھی تھا -

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ :

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں (مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩)

یعنی صرف نبی کا ہی نہی-تمام انسانوں کی روحیں اترتی اور چڑھتی ہیں-

ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے- (ظاہر ہے جب جسد میں روح ہو گی تو پہچانے گی)-

اس پر ایک معروف اہل حدیث عالم عبدالرحمان کیلانی نے جرّت دکھائی اور اپنی کتاب، روح عذاب قبر اور سماع موتٰی " میں لکھا کہ

ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی (صفحہ 55،56) (ماہنامہ محدث ) -

حیرت پر حیرت اس بات پر کہ آجکل اہل حدیث علماء جو سماع موتی اور عذاب قبر کو عالم برزخ کا احوال کہتے ہیں- وہ امام ابوبكر البيهقي کی اس روایت کو اثبات عذاب قبر میں حسن کا درجہ قرار دے رہے ہیں- جب کہ اس روایت میں عالم برزخ کی ایسی کی تیسی کردی گئی -

امام ابوبكر البيهقي کی اس روایت کو حسن کہا جارہا ہے -

خبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: " بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية "
(اثبات عذاب القبر ص183 )

ترجمہ :
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں غزوہ ابواء سے واپس لوٹ رہا تھا کہ میں ( کچھ ) قبروں کے پاس سے گزرا۔ ایک آدی ( اچانک ) قبر سے نکل کر میری طرف آیا ۔ اسے آگ لگی ہوئی تھی ۔ اور اس کی گردن میں ایک زنجیری جسے وہ گھسیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: اے عبد الله! ( اللہ کے بندے) مجھے پانی پلاؤ ، اللہ تھے پانی پلائے۔ الله کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ اس نے مجھے پہچان کر ) عبداللہ کہا یا ویسے ہی کہہ دیا جیسے ایک آدمی دوسرے آدمی کو: اے اللہ کے بندے! کہہ کر پکارتا ہے۔ اس شخص کے پیچھے ایک کالا شخص نکلا جس کے ہاتھ میں کانٹوں والی ٹہنی تھی اور وہ کہ رہا تھا۔ اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا کیونکہ یہ کافر ہے ۔ پھر اس ( کالے شخص )نے اسے پکڑ لیا ۔ اس کی زنجیر لے کر اس ٹہنی سے اسے مارتا ہوا دوبارہ قبر میں لے گیا۔ میں ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا حتی کہ وہ قبر میں غائب ہو گئے۔ (یہ قصہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے اور (عذاب قبر پر ) صحیح آثار کافی ہیں۔ اسناده حسن، کتاب الروح (ص 93، 94) میں اس کے شواہد ہیں-)

اس جیسی روایات اگر دیوبندیوں کی کتب فضائل اعمال یا ملفوظات اشرف علی تھانوی یا بریلوی مکاتب فکر میں پائی جائیں- تو اہل حدیث ان کی خوب مٹی پلید کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے کہ ایسی روایات قبر پرستی کا موجب ہیں (کہ مردہ قبر میں زندہ ہے) -لیکن خود اہل حدیث حضرات اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ وہ کن بنیادوں پر ان بے سروپا روایت کو "حسن" قرار دے رہے ہیں- اور کل ان پر بھی اس بنا پر انگلی اٹھے گئی-

یاد رہے کہ عالم برزخ پر ایمان کا تعلق عقیدے سے ہے- برزخ وہ مقام آڑ ہے کہ جس کے بارے میں الله ہی بہتر جانتا ہے کہ وہاں مردوں سے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟؟ لیکن اس واقعہ میں تو ایک زندہ انسان مردہ انسان پر گزرنے والے پر عذاب کا خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے-اور یہ کیسا مردہ تھا جو بھاگ دوڑ رہا تھا ؟؟-فللعجب -

لنک یہاں ہے -
http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر-سے-متعلق-ایک-روایت-کی-تحقیق-درکار-ہے.37961/

سوال یہ ہے کہ ہم کس بنیاد پر یہ کہیں کہ "عود روح" کا عقیدہ صرف ہندؤوں اور بریلوی یا دیوبندی حضرات کا ہے ؟؟-جیسا کہ اسحاق سلفی بھائی اپنی پوسٹ میں کہہ رہے ہیں (ہندو مذہب کے پیرو کار مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں اور دیگر کچھ مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں) ۔-جب کہ یہاں تو اہل حدیث علماء ان سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں-

یہ بات نوٹ کرلیں کہ میری اس سے مراد حق بیان کرنا ہے کسی عالم کی توہین کرنا نہیں ہے-کل کو یہ نہ ہو ہم اہل حدیث کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں میں قران میں فرمایا گیا کہ :

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ سوره توبہ ٣١

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 
Last edited:
Top