- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
گو کہ اس مضمون سے مکمل اتفاق نہیں۔۔ لیکن اسے کاٹ چھانٹ کیے بغیر یہاں پر شئیر کر رہا ہوں کہ اس میں سائنس کی بنیاد پر بننے والے ملحدین کا رد ہے۔
گو کہ اس مضمون سے مکمل اتفاق نہیں۔۔ لیکن اسے کاٹ چھانٹ کیے بغیر یہاں پر شئیر کر رہا ہوں کہ اس میں سائنس کی بنیاد پر بننے والے ملحدین کا رد ہے۔
شب معراج، فزکس اور سامی مذاہب کا تصورِ زماں
آئن سٹائن سے بہت پہلے کی بات ہے جب سائنس یہ مانتی تھی کہ کائنات قدیم ہے۔ ٹائم ایبسولیوٹ (مطلق) ہے۔ سپیس (مطلق) ایبسولیوٹ ہے۔ اُس وقت سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے ماننے والے سائنس کی اِس بات سے انکاری تھے اور کبھی کسی مذہبی نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ سائنس کا کائنات کے بارے میں یہ ماننا کہ ’’کائنات قدیم ہے، ازل سے ہے، زمانہ مطلق ہے، مکان مطلق ہے‘‘ وغیرہ کو محض اس لیے تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سائنس کہہ رہی ہے۔ اس موضوع پر، فلسفی لائبنز اور بابائے سائنس نیوٹن کے درمیان کتنے ہی مناظرے ہوئے جن میں لائبنز کا مؤقف سامی مذاہب والوں جیسا تھا کہ
’’کائنات کی ایک خاص وقت میں ابتدأ ہوئی اور یہ کبھی ختم بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
اور نیوٹن جسے ہم بجا طور پر بابائے مادیات بھی کہہ سکتے ہیں، کا یہ مؤقف تھا کہ
’’کائنات قدیم ہے، یہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیگی اور زمان و مکاں مطلق یعنی ایبسولیوٹ ہیں‘‘۔ نیوٹن اور لائبنز کے مباحث فزکس اور فلسفہ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ خاص طور پر نیوٹن کا بالٹی والا تجربہ (Bucket Experiment) بہت مشہور ہے، جس کے بعد کہتے ہیں کہ لائبنز بحث ہارگیا تھا اور نیوٹن کا مکانِ مطلق ثابت ہوگیا تھا۔ ویسے ایک بات ہے، ڈیکارٹ کا مشہور تھاٹ ایکسپری منٹ جس میں وہ کائنات کا ہر تصور مفقود کرکے ’’میں سوچتا ہوں سو میں ہوں‘‘ کا نتیجہ اخذ کرتاہے، خلا (سپیس) کے تصور کو ذہن سے غائب کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی تجربے میں وہ خود کو ایک آئینے کے سامنے غائب (Invisible) تصورکرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور یہ خیال قائم کرتا ہے کہ ’’باڈی‘‘ کے بغیر’’ مائنڈ‘‘ کا تصور ممکن ہے لیکن’’ مائینڈ‘‘ کے بغیر ’’باڈی‘‘ کا تصور ممکن نہیں۔ وہ اس تھاٹ ایکسپریمنٹ کو مزید وسیع تناظر میں اس طرح انجام دیتا ہے کہ پوری کائنات کو، بشمول اپنے جسم، حتیٰ کہ سَر اور دماغ کو بھی غائب تصورکرتا ہے۔ تب وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ’’تمام تصورات‘‘ کے خاتمے کے بعد ایک تصورباقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ، ’’میں ایک سوچتی ہوئی ہستی ہوں‘‘۔ میں نے جب کبھی بھی ڈیکارٹ کے اِس تجربے کو آزمایا، ہمیشہ کالی کالی خلا کا ایک تصور بھی میری نام نہاد ’’مطلق مَیں‘‘ (Absolute I) کے تصور کے ساتھ موجود رہا۔ میں نے اس الجھن کی تصدیق کے لیے دوسرے لوگوں کو ڈیکارٹ کا تھاٹ ایکسپری منٹ بار بار پرفارم کے لیے کہا اور ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’تاریک سپیس‘‘ کا تصوربہرصورت موجود رہتا ہے۔ ہم ایک پتھر سے لے کر ایک ہاتھی تک ، اپنے ہاتھوں پیروں سے لے کر سر اور پھر دماغ تک، سیارۂ زمین سے لے کر ساری کائنات کے ہر ہر آبجیکٹ تک ہر ہر تصور کو ہم باری باری غائب ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہم جب مادی اشیأ کو غائب (Disappeared) دیکھتے ہیں تو ، جہاں وہ تھیں، یعنی تاریک خلا، وہ جگہ تصور سے نکالی نہیں جاسکتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سپیس ہمارے منطقی فہم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے ذہن (مائینڈ) کا لازمی حصہ ہے۔ غالباً بالکل ویسے، جیسے ’’مَیں‘‘ کا تصور ہمارے ذہن کا لازمی حصہ ہے ، ویسے ہی خلا (سپیس) بھی ذہن کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو سپیس کا مطلق ہونا اور بھی زیادہ مشکوک ہوجاتا ہے اور یہ فقط ہمارے ذہن کی ایک کمی یا بیماری کے درجے کی چیز رہ جاتی ہے، کیونکہ ہمیں ’’مَیں‘‘ کے تصور کا بھی خالصتاً موضوعی تجربہ حاصل ہوتا ہے ۔ معروض میں، ’’میری مَیں‘‘ کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ خیر! نیوٹن نے لائبنز کو بکٹ ایکسپری منٹ پرفارم کرکے دکھایا۔ یہ تجربہ کچھ اِس طرح ہے، آپ ایک بالٹی لیں۔ اس کو پانی سے آدھا بھر لیں۔ پھر اسے ایک رسی کی مدد سے کسی چھت کےساتھ لٹکا دیں۔ اب بالٹی کو گھمانا شروع کریں۔ رسی میں بل آنا شروع ہوجائینگے۔ کچھ دیر بعد رَسی تَن جائینگی۔ تب آرام سے بالٹی کو چھوڑ دیں۔ رسی کے بل فوراً کھلنا شروع ہوجائینگے۔ بالٹی بھی گھومنے لگ جائیگی۔ بالٹی میں موجود پانی مقعر (Concave)شکل اختیار کرلے گا۔ یعنی پانی درمیان سے نیچے کی طرف دب جائیگا اور کناروں سے اوپر کو اُٹھ جائیگا۔ کچھ دیر بعد جب بالٹی کی گردش رُک جائیگی تب بھی پانی کی شکل برقرار رہے گی۔ نیوٹن سوال کرتا ہے کہ پانی کی گردش کس شئے کے ساتھ ریلیٹو(Relative) ہے؟ آپ کچھ دیر سوچ کر جواب دینگے کہ، پانی ہمارے ساتھ ریلیٹو ہے۔ یعنی بیرونی چیزوں کے ساتھ۔ تب نیوٹن آپ سے مکرر سوال کریگا کہ اگر آپ اسی بالٹی کو دُور بہت دُور ایسے تاریک خلاؤں میں تصور کریں جہاں لاکھوں میل تک کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی نہ ہو ، تب اسی گھومتے ہوئے پانی کی حرکت کس شئے سے ریلیٹو ہوگی؟ کیونکہ اگر کسی شئے کے ساتھ ریلیٹو نہ ہو تو ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ پانی گھوم رہا ہے۔ اگر ریلیٹو ہوگی تو ہم بتاسکینگے کہ پانی گھوم رہا ہے۔
’’کائنات کی ایک خاص وقت میں ابتدأ ہوئی اور یہ کبھی ختم بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
اور نیوٹن جسے ہم بجا طور پر بابائے مادیات بھی کہہ سکتے ہیں، کا یہ مؤقف تھا کہ
’’کائنات قدیم ہے، یہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیگی اور زمان و مکاں مطلق یعنی ایبسولیوٹ ہیں‘‘۔ نیوٹن اور لائبنز کے مباحث فزکس اور فلسفہ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ خاص طور پر نیوٹن کا بالٹی والا تجربہ (Bucket Experiment) بہت مشہور ہے، جس کے بعد کہتے ہیں کہ لائبنز بحث ہارگیا تھا اور نیوٹن کا مکانِ مطلق ثابت ہوگیا تھا۔ ویسے ایک بات ہے، ڈیکارٹ کا مشہور تھاٹ ایکسپری منٹ جس میں وہ کائنات کا ہر تصور مفقود کرکے ’’میں سوچتا ہوں سو میں ہوں‘‘ کا نتیجہ اخذ کرتاہے، خلا (سپیس) کے تصور کو ذہن سے غائب کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی تجربے میں وہ خود کو ایک آئینے کے سامنے غائب (Invisible) تصورکرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور یہ خیال قائم کرتا ہے کہ ’’باڈی‘‘ کے بغیر’’ مائنڈ‘‘ کا تصور ممکن ہے لیکن’’ مائینڈ‘‘ کے بغیر ’’باڈی‘‘ کا تصور ممکن نہیں۔ وہ اس تھاٹ ایکسپریمنٹ کو مزید وسیع تناظر میں اس طرح انجام دیتا ہے کہ پوری کائنات کو، بشمول اپنے جسم، حتیٰ کہ سَر اور دماغ کو بھی غائب تصورکرتا ہے۔ تب وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ’’تمام تصورات‘‘ کے خاتمے کے بعد ایک تصورباقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ، ’’میں ایک سوچتی ہوئی ہستی ہوں‘‘۔ میں نے جب کبھی بھی ڈیکارٹ کے اِس تجربے کو آزمایا، ہمیشہ کالی کالی خلا کا ایک تصور بھی میری نام نہاد ’’مطلق مَیں‘‘ (Absolute I) کے تصور کے ساتھ موجود رہا۔ میں نے اس الجھن کی تصدیق کے لیے دوسرے لوگوں کو ڈیکارٹ کا تھاٹ ایکسپری منٹ بار بار پرفارم کے لیے کہا اور ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’تاریک سپیس‘‘ کا تصوربہرصورت موجود رہتا ہے۔ ہم ایک پتھر سے لے کر ایک ہاتھی تک ، اپنے ہاتھوں پیروں سے لے کر سر اور پھر دماغ تک، سیارۂ زمین سے لے کر ساری کائنات کے ہر ہر آبجیکٹ تک ہر ہر تصور کو ہم باری باری غائب ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہم جب مادی اشیأ کو غائب (Disappeared) دیکھتے ہیں تو ، جہاں وہ تھیں، یعنی تاریک خلا، وہ جگہ تصور سے نکالی نہیں جاسکتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سپیس ہمارے منطقی فہم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے ذہن (مائینڈ) کا لازمی حصہ ہے۔ غالباً بالکل ویسے، جیسے ’’مَیں‘‘ کا تصور ہمارے ذہن کا لازمی حصہ ہے ، ویسے ہی خلا (سپیس) بھی ذہن کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو سپیس کا مطلق ہونا اور بھی زیادہ مشکوک ہوجاتا ہے اور یہ فقط ہمارے ذہن کی ایک کمی یا بیماری کے درجے کی چیز رہ جاتی ہے، کیونکہ ہمیں ’’مَیں‘‘ کے تصور کا بھی خالصتاً موضوعی تجربہ حاصل ہوتا ہے ۔ معروض میں، ’’میری مَیں‘‘ کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ خیر! نیوٹن نے لائبنز کو بکٹ ایکسپری منٹ پرفارم کرکے دکھایا۔ یہ تجربہ کچھ اِس طرح ہے، آپ ایک بالٹی لیں۔ اس کو پانی سے آدھا بھر لیں۔ پھر اسے ایک رسی کی مدد سے کسی چھت کےساتھ لٹکا دیں۔ اب بالٹی کو گھمانا شروع کریں۔ رسی میں بل آنا شروع ہوجائینگے۔ کچھ دیر بعد رَسی تَن جائینگی۔ تب آرام سے بالٹی کو چھوڑ دیں۔ رسی کے بل فوراً کھلنا شروع ہوجائینگے۔ بالٹی بھی گھومنے لگ جائیگی۔ بالٹی میں موجود پانی مقعر (Concave)شکل اختیار کرلے گا۔ یعنی پانی درمیان سے نیچے کی طرف دب جائیگا اور کناروں سے اوپر کو اُٹھ جائیگا۔ کچھ دیر بعد جب بالٹی کی گردش رُک جائیگی تب بھی پانی کی شکل برقرار رہے گی۔ نیوٹن سوال کرتا ہے کہ پانی کی گردش کس شئے کے ساتھ ریلیٹو(Relative) ہے؟ آپ کچھ دیر سوچ کر جواب دینگے کہ، پانی ہمارے ساتھ ریلیٹو ہے۔ یعنی بیرونی چیزوں کے ساتھ۔ تب نیوٹن آپ سے مکرر سوال کریگا کہ اگر آپ اسی بالٹی کو دُور بہت دُور ایسے تاریک خلاؤں میں تصور کریں جہاں لاکھوں میل تک کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی نہ ہو ، تب اسی گھومتے ہوئے پانی کی حرکت کس شئے سے ریلیٹو ہوگی؟ کیونکہ اگر کسی شئے کے ساتھ ریلیٹو نہ ہو تو ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ پانی گھوم رہا ہے۔ اگر ریلیٹو ہوگی تو ہم بتاسکینگے کہ پانی گھوم رہا ہے۔