میرا خیال یہ ہے کہ ایمان کے سلسلے میں ہمیں اللہ پاک نے آسان ترین کام تک محدود رکھا ہے۔
ورنہ اسلام کے بیان کردہ ہر معجزے اور واقعے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔
یہاں یہ کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے شب معراج میں تمام صدیاں گزاریں لیکن یہ تصریحات سے متصادم ہے۔ بجائے یہ کہنے کے کہ آپ ﷺ مستقبل میں چلے گئے تھے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آپ سے اور معراج کے واقعے سے متعلق ہر چیز کی رفتار ہزاروں گنا بڑھ گئی تھی۔ یعنی صرف سفر تیز نہیں ہوا تھا بلکہ ہر عمل تیز ہو گیا تھا اور ساتھ ساتھ اس عمل میں شامل اذہان بھی اس لیے وہ بآسانی سب کچھ سمجھتے گئے۔
اس کی ایک بہت عام سی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پیدل چل رہا ہے اور دوسرا شخص اس کے برابر سے 100 کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی پر گزرتا ہے اور ایک کلو میٹر آگے جاکر اسی رفتار سے واپس آجاتا ہے۔ اسے تقریبا ایک منٹ اور بارہ سیکنڈ لگیں گے۔ زمین پر چلنے والے کے لیے یہ بہت مختصر وقت ہے اور اس نے اس میں بہت کم کام کیا۔ لیکن گاڑی والا دو سو کلو میٹر طے کر کے آگیا اور بہت کچھ دیکھ بھی آیا۔
اگر اسی دوران اس گاڑی والے کے جسم کا ہر نظام بھی سو گنا زیادہ تیز ہو جائے تو وہ اس ایک منٹ اور بارہ سیکنڈ کے عرصے میں بہت کچھ کر لے گا جو پیدل شخص کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔
چنانچہ آپ ﷺ کی رفتار اور آپ کے ہر فعل کی رفتار تصور سے زیادہ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کنڈی ہلنے سے پہلے آپ سب کر کے واپس تشریف لے آئے۔
و اللہ اعلم