• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی سیاست کے بارہ میں عصر حاضر کے چند مسائل -۱

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
شرعی سیاست کے بارہ میں عصر حاضر کے چند مسائل -۱​

فتوى از قلم : امام العصر علامه ناصر الدين الألباني رحمه الله تعالى


یہ فتوی اردن سے عربی میں شائع ہونے والے ایک سلفی ماہنامہ ”الاصالہ“ کے شمارہ بابت جمادی الثانی١٤١٣ ھ صفحہ ١٦ تا ٢٤ سے لیا گیا ہے ۔




ان الحمدﷲ نحمدہ و نستعینہ ، ونعوذ باﷲ من شرور انفسنا، ومن سیئات اعمالنا‘ من یھدہ اﷲ فھو المھتد ‘ من یضل فلا ہادی لہ۔ واشھدان لا الہ الا اﷲ وحد ہ لا شریک لہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔ اما بعد:


یقینا اللہ تعالی نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کےلئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں جو ان کی خاطر نازل کی گئی ۔اللہ تعالی کا ارشادہے:

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ۔۔۔۔۔(آل عمران ١٨٧)

ترجمہ:اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس کی کسی بات کو نہ چھپانا۔

اور وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپالیں ۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (البقرہ ١٥٩)’

ترجمہ: بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کوجوہم نے نازل کی ہیں(کسی غرض فاسدسے) چھپاتے ہیں‘ جب کہ ہم نے انہیں لوگوں(کے سمجھانے) کےلئے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے سو ایسوں پر اللہ اور تما م لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

پھر علم چھپا رکھنے والوں کو اللہ تعالی نے دوزخ کی وعید سنائی ہے ۔فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَـئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرہ١٧٤)

ترجمہ:بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں وہ جو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے، اور اس کے بدلے میں کچھ تھوڑی سی قیمت لے کھاتے ہیں، تویہ لوگ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں، اور اللہ تعالی ان سے قیامت کے دن بات بھی نہیں کریگا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا ، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

رسول اللہ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کی غرض سے جس میں آپ نے فرمایا :

الدین نصیحہ قلنا لمن یارسول اﷲ ؟ قال: ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولا ئمہ المسلمین وعامتھم (رواہ مسلم)

”دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے(صحابہ) نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! کس کےلئے؟ فرمایا: اللہ کےلئے اس کی کتاب کےلئے، اس کے رسول کےلئے، مسلمان سربراہوں اور عوام کےلئے“۔

اور اس صورتحال کے پیش نظر بھی جوکہ امت اسلامیہ کو آج درپیش ہے اور جن سازشوں کے جال امت کے خلاف پھیلائے جارہے ہیں خصوصاً ملت میں گھس آنے والے وہ درآمد شدہ افکار جنہوں نے امت کے عقیدہ اور شریعت کو مسخ کردیا ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر ان لوگوں کا فرض ٹھہرا جن کو اللہ تعالی نے اپنی شریعت کا علم دیا تھا کہ وہ یہ واضح کردیں کہ ان در پیش امور کی بابت اللہ کاحکم و فیصلہ کیا ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
١۔جمہوریت کا حکم​

جمہوریت کے بانی اور علمبردار اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کےلئے، اور یہ کہ سب اختیارات Mandate& Powers کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت اسلام کی شریعت اور اسلام کے عقیدہ کے منافی اور ضد ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ۔۔
(یوسف٤٠)

ترجمہ:
”حکم و قانون چلانا صرف اللہ کا حق ہے“۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدہ۴۴)

ترجمہ:” اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں“۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ (الشوری ٢١)

ترجمہ:کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کےلئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا“۔

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء٦٥)

ترجمہ:”تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ تب تک مومن نہیں ہونگے جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں“۔

وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (الکھف٢٦)

ترجمہ:”اور وہ (اللہ تعالی) اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا“۔

مزید برآں یہ کہ جمہوریت ایک نظام طاغوت ہے´ جبکہ طاغوت سے ہمیں کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرہ٢٥٦)

ترجمہ:پس جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط کڑے کو پکڑا کہ جو ہرگز ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ (النحل٣٦)

ترجمہ:اور ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت (کی پرستش) سے دور رہو۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً ( النساء٥١)

ترجمہ:تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور طاغوت(ہرو ہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو) پرایمان لاتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔

لہذا جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یا تو اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کا نازل کیا ہو ا قانون ہوگا۔ اور یا پھر طاغوت پر ایمان اور اسکا کہا قانون ہوگا۔ کیونکہ اللہ کی شریعت سے متصادم ہر نظام ہی طاغوت ہے۔ رہے وہ لوگ جو جمہوریت کو اسلامی شورائیت کا پر تو قرار دیتے ہیں تو ان کی رائے کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ شوری کی نوبت وہاں آتی ہے جہاں شریعت سے نص موجود نہ ہو اور اس(شوریٰ) کے مجاز بھی صرف دین کے عالم اور متقی اہل حل و عقد ہوسکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ پیچھے بات گزر چکی ہے جمہوریت اس کے بر عکس ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
٢۔تعدّد(افکار و احزاب) کا حکم

یہ بھی جمہوریت ہی کی پیداوار ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ تعدد احزاب یعنی کثیر جماعتی نظام اور تعدد افکار یعنی کثیرفکری و اعتقادی آزادی۔ جہاں تک تعدد افکار کا تعلق ہے تو اس کی رو سے جمہوری نظام کے اندر لوگوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہے اعتقاد رکھیں۔ ان کو اجازت ہے کہ وہ اسلام سے نکل کر کسی بھی مذہب یا ملت کو اختیار کرلیں چاہے و ہ یہودیت ہو، عیسائیت ہو،کمیونزم ہو، سوشلزم ہو یا سیکولرازم ۔ جبکہ دین اسلام میں ارتداد (مرتد ہوجانا) اسی چیز کا نام ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:


إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ ۔ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (محمد٢٥،٢٦)

ترجمہ:بے شک جو لو گ ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انہیں مزین کردکھایا۔ اور انہیں طول (عمر کا وعدہ) دیا، اس لیے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری بات بھی مانیں گے اور اللہ کریم انکے پوشیدہ(مشوروں سے) واقف ہے۔

اور فرمایا:

وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَـئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ(البقرہ٢١٧)

ترجمہ: اور جوکوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافرہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے، اور یہی لوگ دوزخ(میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور فرمایا:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران٨٥)

ترجمہ: او رجو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

جہاں تک تعددا حزاب (کثیر الجماعتی نظام) کا تعلق ہے تو اس کی رو سے تمام جماعتوں اور پارٹیوں کےلئے قطع نظر اس کے کہ ان کے افکار اور عقائد کیا ہیں، میدان کھلا ہے کہ وہ انتخابات کے راستے سے مسلمانوں پر حکومت چلائیں۔ اس سے مسلم او ر غیرمسلم میں مساوات لازم آتی ہے۔ جو کہ شریعت کے ان قطعی اور حتمی دلائل کی خلا ف ورزی ہے جن کی رو سے مسلمانوں پر دوسرے افکار کے حاملین کا حکمران بننا حرام ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً (النساء١٤١)

ترجمہ: او ر اللہ کریم کافروں کو مومنوں پر ہر گز غلبہ نہیں دے گا۔

اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ( النساء٥٩)

ترجمہ: مومنو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں(ان کی بھی)۔

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (القلم ٣٥)

ترجمہ: کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرح کردیں گے۔

مزید برآں یہ ہے کہ یہ کثیر فکری اور کثیر جماعتی نظام تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے ۔ جبکہ تفرقہ و اختلاف اللہ کے عذاب کا موجب ۔ ارشاد ربا نی ہے:

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (آل عمران ١٠٥)

ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے ۔ اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔

یہ تفرقہ و اختلاف اس امر کا موجب بھی ہے کہ جو اس کا مرتکب ہو اللہ اور اس کا رسول اس سے بری و بیزار ہوں۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (الانعام١٥٩)

ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے راستے نکالے اور کئی کئی گروہ ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

رہے وہ لوگ جو تعدد کو مسلکوں کے تعدد(کئی ایک فکری راستوں) کی بجائے منشوروںکا تعدد قرار دیتے ہیں یا پھر علماء اور آئمہ اسلام کے مابین ہونے والے فقہی اختلاف کی طرز کے اختلاف قرار دیتے ہیں تو یہ بات واقعہ کے سراسر خلاف ہے۔ مزید برآں یہ کہ ہر پارٹی کا منشور دراصل اس کی فکر اور اس کے عقیدے ہی سے برآمد ہو کر آتا ہے۔ چنانچہ کسی سوشلسٹ کا منشور لازما سوشلزم ہی سے نکلا ہوگا اور ایک جمہوریت پرست سیکولر کا منشور۔ جمہوریت کے اصولوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی مثال دوسری پارٹیوں کی ہوگی۔

فتوى از قلم : امام العصر علامه ناصر الدين الألباني رحمه الله تعالى
 
شمولیت
نومبر 24، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
38
السلام علیکم بہت اچھی شئرنگ ہے. ما شآ اللہ
ویسے فورم پہ موجود کچھ لوگوں کو طاغوت کے لفظ سے تکلیف ہوتی ہے آپ کو اُل کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے تھا. :)
 
Top