• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے متعلق سوالات وجوابات میں محترم بھائی @یوسف ثانی صاحب نے درج ذیل دو احادیث لکھ کر سوال کیا ہے
باب: ستر کو ہاتھ لگانے پر وضو کرنا
قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ التَّيْمِيُّ قَاضِي الْيَمَامَةِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ: " أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مَسَّ ذَكَرَهُ، أَيَتَوَضَّأُ؟ قَالَ: هَلْ هُوَ إِلا بِضْعَةٌ مِنْ جَسَدِكَ "
موطا امام محمد:جلد اول:حدیث نمبر 13 مکررات 0 متفق علیہ 0
قیس بن طلق نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے ستر کو ہاتھ لگانے پر وضو کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی تو تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔


باب: ستر کو ہاتھ لگانے پر وضو کرنا
قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو الْمَكِّيُّ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ فِي مَسِّ الذَّكَرِ وَأَنْتَ فِي الصَّلاةِ، قَالَ: «مَا أُبَالِي مَسَسْتُهُ أَوْ مَسَسْتُ أَنْفِي»


موطا امام محمد:جلد اول:حدیث نمبر 14 مکررات 0 متفق علیہ 0
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماء سے شرمگاہ کے نماز کے اندر چھولینے کے بارے میں (ایک سوال کے جواب میں) نقل کیا کہ میں اپنے ستر کو چھونے یا ناک کو چھونے میں فرق نہیں سمجھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب
مؤطا امام محمد کے کے حوالے سے مذکور پہلی روایت اس لئے ضعیف ہے کہ اس کا راوی ’’ ایوب بن عتبہ قاضیء یمامہ ‘‘ضعیف ہے ، علامہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
قال الدوري عن ابن معين قال أبو كامل: "ليس بشيء" وقد أدركه أبو كامل وقال مرة عن يحيى: "ليس بالقوي" ومرةك "ليس بشيء" وقال ابن أبي خيثمة وغيره عن يحيى: "ضعيف" وقال ابن المديني والجوزجاني وابن عمار وعمرو بن على ومسلم: "ضعيف" زاد عمرو: "وكان سيء الحفظ وهو من أهل الصدق" وقال العجلي: "يكتب حديثه وليس بالقوي" وقال البخاري: "هو عندهم لين"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسری روایت جس میں ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا گیا ہے ، وہ بھی ضعیف ہے ،اس کا راوی طلحہ بن عمرو مکی ضعیف راوی ہے ،
امام ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں ؛

طلحة بن عمرو [ق] الحضرمي المكي صاحب عطاء.
ضعفه ابن معين وغيره.
وقال أحمد والنسائي: متروك الحديث.
وقال البخاري وابن المديني: ليس بشئ.
وقال الفلاس: كان يحيى وعبد الرحمن لا يحدثان عنه.

اور اس مسئلہ میں درست موقف جاننے کیلئے درج ذیل گذارشات پڑھیں ؛

سب سے پہلے اس مسئلہ پر محدث فتوی ملاحظہ فرمالیں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضوکا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
غسل جنابت کے وقت اگر شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے تو کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔
۱۔ جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔یہ قول امام شافعی اور امام احمد اور عام فقہائے محدثین رحمہم اللہ کا ہے۔
۲۔ مس ذکر سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
۳۔ مس ذکر اگر شہوت کے ساتھ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر شہوت کے بغیر ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ یہ قول امام مالک رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اسے ترجیح دی ہے کیونکہ اس قول کے ذریعے اس بارے متفر ق روایات میں تطبیق پیدا کی گئی ہے۔ راقم کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔
۴۔ مس ذکر سے وضو واجب نہیں ہوتا بلکہ مستحب ہے یہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی تطبیق ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
__________________________________

اس مسئلہ میں واضح دلیل
صحیح ابن حبان میں سیدنا ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
عن المقبري عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا أفضى أحدكم بيده إلى فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب، فليتوضأ"
یعنی نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : تم میں کسی ہاتھ اس کی شرم گاہ کو لگے ،اور (ہاتھ اور شرم گاہ کے ) درمیان میں کوئی ستر و حجاب نہ ہو ،یعنی ہاتھ براہ راست شرم گاہ کو مس کرے ،تو اسے چاہیئے کہ وضوء کرے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنن الترمذی میں بھی اس موضوع پر احادیث موجود ہیں ہے :


عن هشام بن عروة، قال: أخبرني أبي، عن بسرة بنت صفوان، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من مس ذكره فلا يصل حتى يتوضأ»،
وفي الباب عن أم حبيبة، وأبي أيوب، وأبي هريرة، وأروى ابنة أنيس، وعائشة، وجابر، وزيد بن خالد، وعبد الله بن عمرو،
(قال الترمذی ) هذا حديث حسن صحيح، هكذا روى غير واحد مثل هذا، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن بسرة،


ترجمہ : ۔ بسرہ بنت صفوان رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنی شرمگاہ (عضو تناسل) چھوئے تو جب تک وضوء نہ کر لے نماز نہ پڑھے“۔
اس حدیث کے شرح میں امام عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں : فيه دليل على أن مس الذكر ينقض الوضوء والمراد مسه من غير حائل ‘‘ اس حدیث میں دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی شرمگاہ براہ راست بغیر کسی حائل کے مس کرے گا اس کا وضوء ٹوٹ جائے گا ‘‘
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام حبیبہ، ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس، عائشہ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور عروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۷۰ (۱۸۱)، سنن النسائی/الطہارة ۱۱۸ (۱۶۳)، والغسل ۳۰ (۱۴۷)، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۳ (۶۷۹) (تحفة الأشراف : ۱۵۷۸۵)، موطا امام مالک/الطہارة ۱۵ (۵۸ مسند احمد (۶/۴۰۶)، ۴۰۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۵۰ (۷۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بسرۃ سے سماع ثابت ہے، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سنا پھر بسرۃ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (479)
.......................
ابواسامہ اور کئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند «ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرة عن النبی صلی الله علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (82)
_______________________________
امام ترمذی اس سے آگے فرماتے ہیں :

وروى هذا الحديث أبو الزناد، عن عروة، عن بسرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، حدثنا بذلك علي بن حجر، قال: حدثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبيه، عن عروة، عن بسرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وهو قول غير واحد من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول الأوزاعي، والشافعي، وأحمد، وإسحاق، قال محمد: «أصح شيء في هذا الباب حديث بسرة» [ص:130] وقال أبو زرعة: «حديث أم حبيبة في هذا الباب صحيح، وهو حديث العلاء بن الحارث، عن مكحول، عن عنبسة بن أبي سفيان، عن أم حبيبة»، وقال محمد: «لم يسمع مكحول من عنبسة بن أبي سفيان، وروى مكحول، عن رجل، عن عنبسة غير هذا الحديث وكأنه لم ير هذا الحديث صحيحا»
ترجمہ :
نیز اسے ابوالزناد نے «بسند عروہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔
۱- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے،
۳- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث ۱؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ۲؎، اور مکحول نے ایک آدمی سے اور اس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔
وضاحت: ۱؎ : ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے (دیکھئیے : «باب الوضوء من مس الذكر» رقم ۴۸۱)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (83))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں امام ترمذی نے چار ائمہ (اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ ) کا یہی قول بتایا کہ ان کے نزدیک مس ذکر سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ،
اور ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوریؒ نے امام حازمی کے حوالے مزید کئی صحابہ کرام اورتابعین کے اسمائے گرامی درج کئے ہیں جو مس ذکر سے وضوء کے وجوب کے قائل تھے ، :
(( وقال الحافظ الحازمي في كتاب الاعتبار ( ص 40 ) وممن روي عنه الإيجاب يعني إيجاب الوضوء من مس الذكر من الصحابة عمر بن الخطاب وابنه عبد الله وأبو أيوب الأنصاري وزيد بن خالد وأبو هريرة وعبد الله بن عمرو بن العاص وجابر وعائشة وأم حبيبة وبسرة بنت صفوان وسعد بن أبي وقاص في إحدى الروايتين وبن عباس في إحدى الروايتين رضوان الله عليهم أجمعين ومن التابعين عروة بن الزبير وسليمان بن يسار وعطاء بن أبي رباح وأبان بن عثمان وجابر بن زيد والزهري ومصعب بن سعد ويحيى بن أبي كثير عن رجال من الأنصار وسعيد بن المسيب في أصح الروايتين وهشام بن عروة والأوزاعي وأكثر أهل الشام والشافعي وأحمد وإسحاق والمشهور من قول مالك أنه كان يوجب منه الوضوء انتهى۔


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سنن ابوداود میں

حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، أنه سمع عروة، يقول: دخلت على مروان بن الحكم فذكرنا ما يكون منه الوضوء، فقال مروان: ومن مس الذكر؟ فقال عروة: ما علمت ذلك، فقال مروان: أخبرتني بسرة بنت صفوان، أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من مس ذكره فليتوضأ»
عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ انہوں نے عروہ کو کہتے سنا: میں مروان بن حکم کے پاس گیا اور ان چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو مروان نے کہا: اور عضو تناسل چھونے سے بھی (وضو ہے)، اس پر عروہ نے کہا: مجھے یہ معلوم نہیں، تو مروان نے کہا: مجھے بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے“۔

اس حدیث کو : سنن الترمذی/الطھارة ۶۱ (۸۲)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۸ (۱۶۳)، الغسل ۳۰ (۴۴۵)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۶۳ (۴۷۹)، موطا امام مالک/الطھارة ۱۵(۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۰۶، ۴۰۷)، سنن الدارمی/الطھارة ۵۰ (۷۵۱) (صحیح)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس بحث میں کئی غلطیاں ہیں، اولا مس ذکر کے قائلین کے تعلق سے بھی دانستہ یاانجانے میں غلطی کی گئی ہے یاہوئی ہے۔
مس ذکر سے عدم وضو کے قائل اکابر محدثین وصحابہ کرام رہے ہیں۔
امام ترمذی نے جوکچھ نقل کیاہے، اسے میں ذکر کرتاہوں۔
وقد روي عن غير واحد من أصحاب النبي صلى الله [ص:132] عليه وسلم وبعض التابعين: أنهم لم يروا الوضوء من مس الذكر، وهو قول أهل الكوفة، وابن المبارك،
یہی قول سفیان ثوری کابھی ہے جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں مذکور ہے، یہی قول سفیان ثوری کابھی ہے، جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں ہے۔
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: دَعَانِي وَابْنَ جُرَيْجٍ بَعْضُ أُمَرَائِهِمْ فَسَأَلَنَا عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: «يَتَوَضَّأُ»، فقُلْتُ: لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا اخْتَلَفْنَا قُلْتُ لِابْنِ جُرَيْجٍ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنِيٍّ، فَقَالَ: «يَغْسِلُ يَدَهُ»، قُلْتُ: فَأَيُّهُمَا أَنْجَسُ الْمَنِيُّ أَوِ الذَّكَرُ؟ قَالَ: «لَا، بَلِ الْمَنِيُّ» قَالَ: فَقُلْتُ: وَكَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: «مَا أَلْقَاهَا عَلَى لِسَانِكَ إِلَّا شَيْطَانٌ»

واضح رہے کہ عبداللہ بن مبارک اورسفیان ثوری دونوں امیرالمومنین فی الحدیث ہیں،یہی قول تیسرے امیرالمومنین فی الحدیث علی بن المدینی کابھی ہے، صحابہ کرام میں سے یہی قول حضرت حذیفہ ،سعد بن ابی وقاص ،حضرت ابن عباس اور دیگر کاہے، اس کو اس طرح پیش کرنا گویا اس میں مسئلہ پوری امت مسلمہ ایک جانب اور احناف دوسری جانب ہیں، علمی امانت سے بعید ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
رُوِّينَا هَذَا الْقَوْلَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحُذَيْفَةَ [ص:199] وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَسَأَلُ رَجُلٌ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ [ص:200] مَسِّ الذَّكَرِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: إِنْ عَلِمْتَ أَنَّ مِنْكَ بَضْعَةً نَجِسَةً فَاقْطَعْهَا، وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: أَجْمَعَ لِي رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: مَا أُبَالِي إِيَّاهُ مَسِسْتُهُ أَوْ مَسِسْتُ أُذُنِي أَوْ رُكْبَتِي أَوْ فَخِذِي
الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
وَحَكَى يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ وَضَعْتُ يَدِي فِي دَمِ خِنْزِيرٍ أَوْ جِيفَةٍ مَا نُقِضَ وُضُوئِي، فَمَسُّ الذَّكَرِ أَيْسَرُ مِنَ الدَّمِ. قَالَ: وَكَانَ رَبِيعَةُ يَقُولُ: وَيْحَكُمْ مِثْلُ هَذَا يَأْخُذُ بِهِ أَحَدٌ أَوْ يَعْمَلُ بِهِ بِحَدِيثِ بُسْرَةَ، وَاللهِ لَوْ أَنَّ بُسْرَةَ شَهِدَتْ عَلَى هَذَا الْفِعْلِ مَا أَجَزْتُ شَهَادَتَهَا إِنَّمَا قِوَامُ الدِّينِ الصَّلَاةُ وَقِوَامُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ فَلَمْ يَكُنْ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُقِيمُ هَذَا الدِّينَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بُسْرَةُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِذَا لَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ بُسْرَةَ فَالنَّظَرُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ غَيْرُ وَاجِبٍ وَلَوْ تَوَضَّأَ مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ احْتِيَاطًا كَانَ ذَلِكَ حَسَنًا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ
الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف
واضح رہے کہ یہ بزرگ حنفی نہیں ہیں، امام مالک کے استاد ہیں، ثقہ راوی ہیں، اگرکوئی حنفی ایساکہتاتوآسمان وزمین سرپر اٹھالیاجاتا
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ماقبل کے پوسٹ میں غلطی ہوئی ہے، مس ذکر سے عدم وضو کے قائل یحیی بن معین ہیں، غلطی سے علی بن المدینی کانام شامل ہوگیاہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
واضح رہے کہ اس مسئلہ پر مزید داد تحقیق دی جاسکتی ہے کہ عقل ونقل کی روشنی میں کس جانب کا پلڑا جھکاہواہے ،یہاںمحض اس غلطی کی نشاندہی کی گئی ہے کہ محض حنفیہ ہی مس ذکر سے عدم وضو کے قائل ہیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس اختلاف کے فیصلہ کے لئے کافی وشافی ہے، الحمد اللہ۔ اس حدیث کے بعد کوئی قیل وقال کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اس بحث میں کئی غلطیاں ہیں، اولا مس ذکر کے قائلین کے تعلق سے بھی دانستہ یاانجانے میں غلطی کی گئی ہے یاہوئی ہے۔
مس ذکر سے عدم وضو کے قائل اکابر محدثین وصحابہ کرام رہے ہیں۔
امام ترمذی نے جوکچھ نقل کیاہے، اسے میں ذکر کرتاہوں۔
وقد روي عن غير واحد من أصحاب النبي صلى الله [ص:132] عليه وسلم وبعض التابعين: أنهم لم يروا الوضوء من مس الذكر، وهو قول أهل الكوفة، وابن المبارك،
یہی قول سفیان ثوری کابھی ہے جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں مذکور ہے، یہی قول سفیان ثوری کابھی ہے، جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں ہے۔
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: دَعَانِي وَابْنَ جُرَيْجٍ بَعْضُ أُمَرَائِهِمْ فَسَأَلَنَا عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: «يَتَوَضَّأُ»، فقُلْتُ: لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا اخْتَلَفْنَا قُلْتُ لِابْنِ جُرَيْجٍ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنِيٍّ، فَقَالَ: «يَغْسِلُ يَدَهُ»، قُلْتُ: فَأَيُّهُمَا أَنْجَسُ الْمَنِيُّ أَوِ الذَّكَرُ؟ قَالَ: «لَا، بَلِ الْمَنِيُّ» قَالَ: فَقُلْتُ: وَكَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: «مَا أَلْقَاهَا عَلَى لِسَانِكَ إِلَّا شَيْطَانٌ»

واضح رہے کہ عبداللہ بن مبارک اورسفیان ثوری دونوں امیرالمومنین فی الحدیث ہیں،یہی قول تیسرے امیرالمومنین فی الحدیث علی بن المدینی کابھی ہے، صحابہ کرام میں سے یہی قول حضرت حذیفہ ،سعد بن ابی وقاص ،حضرت ابن عباس اور دیگر کاہے، اس کو اس طرح پیش کرنا گویا اس میں مسئلہ پوری امت مسلمہ ایک جانب اور احناف دوسری جانب ہیں، علمی امانت سے بعید ہے۔
مندرجہ ذیل عبارت کے متعلق آپ کیا فرمائیں گے ؟؟

حدثنا محمد بن علي بن مخلد الوراق لفظا قال في كتابي عن أبي بكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قال سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه والشافعي وأصحابه والأوزاعي وأصحابه والحسن بن صالح وأصحابه وسفيان الثوري وأصحابه وأحمد بن حنبل وأصحابه فقالوا له يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه فقال هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة - ( تاريخ بغداد 13/383,384)

ابو بکر بن أبي داود السجستاني رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارے ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور اسکے اصحاب شافعي اوراسکے اصحاب اوزاعي اور اسکے اصحاب حسن بن صالح اور اسکے اصحاب سفيان ثوري اور اسکے اصحاب احمد بن حنبل اور اسکے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئي نہيں ہو سکتا- تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنيفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے -
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس بحث کے بارے میں کہنایہ ہے کہ اولاتو ابوبکر بن ابی دائود کو حافظ ذہبی نے خفیف العقل کہاہے اورآپ بھی انہی کے جیسے خفیف العقل والفہم دونوں واقع ہوئے ہیں،بحث کیاچل رہی ہے نہیں چل رہی ہے اس کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ کا ذکر خیرکرنے کی کیاتک بنتی ہے،اگر عقل سلامت ہے اور غیرمقلدیت کے جوش میں عقل کی نعمت سلب نہیں ہوگئی ہے تو موضوع پر بات کیاکریں،
 
Top