• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک نواقض الاسلام

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
شرک نواقض الاسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم


شرک تمام نیک اعمال کو ضائع اور برباد کردیتا ہے اور شرک کرنے والے کا کوئی عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں۔ اگر کوئی مسلمان دانستہ یا لاعلمی میں شرک کا ارتکاب کر بیٹھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور مرتد وکافر ٹھرتا ہے۔ اس پر بے شمار قرآنی آیات دلالت کرتی ہیں، اور تمام مسلمانوں کا اس پرا جماع ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے :

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ [الزمر : ٦٥]

اور البتہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔


انبیاء کی ذات سے شرک کا صدور ناممکن ہے لیکن اللہ تعالی نے مسلمانوں کو شرک کا انجام سمجھانے کیلئے ارشاد فرمایا کہ اگر بالغرض میرے معصوم عن الخطا انبیاء بھی میرے ساتھ شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال بھی رائگاں وضائع ہو جاتے۔ جب اللہ تعالی نے اپنے محبوب انبیاء کو یہ فرمایا تو آج مسلمانوں کو شرک کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شرک سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں اور یہ دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث ہے۔

اللہ تعالی نے سورہ انعام میں اپنے اٹھارہ انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا :

وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
[انعام: ۸۸]

اور اگر انھوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کے سب اعمال ضائع ہو جاتے۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کے ضمن میں فرماتے ہیں:

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اس کے علاوہ سب عبادتوں سے بیزاری کا اعلان کیا جائے، اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرتا ہے وہ شرک اکبر کا مرتکب ہے۔ اور شرک اکبر دین سے خارج کرنے والا ہے۔ یہ بنیاد و اصول اللہ نے رسولوں کی یہی بات پہنچانے کیلئے مبعوث فرمایا اور ان پر کتب نازل فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھیج کر لوگوں پر حجت قائم کی۔ یہی جواب اس مسئلے کا اس دین کی طرف سے ملے گا… لفظ مسلمان ان شرک کرنے والوں کیلئے بولا نہیں جا سکتا کیا شرک کی موجودگی میں بھی کوئی عمل باقی رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : لا یدخلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط [الاعراف: ٤٠] یہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے۔

[عقیدہ الموحدین: ۱۷۱]

امام بخاری صحیح بخاری میں اس آیت : ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک به ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء. کے ذیل میں فرماتے ہیں:

باب المعاصی من امر الجاھلیۃ ولا یکفر صاحبھا الا بالشرک وقول اللّٰہ تعالٰی ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک به ویغفر ما دون ذلک لم یشاء.

اس بات کا بیان کہ نافرمانیاں جاھلیت کا فعل ہیں اس کے مرتکب کی تکفیر نہیں کی جائے گی سوائے اس کے کہ شرک کرے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ یقیناً اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کردے۔


شرک اکبر سب سے بڑا کفر اور نواقض الاسلام میں سے ہے۔ جس سے آدمی کا اسلام ٹوٹ جاتاہے۔ اور اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ کا جہنمی ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے :

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ [النور: ۳۹]

جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال سراب کی طرح ہے پیاسا اس(ریت) کو پانی سمجھتا رہا حتی کہ جب اس کے پاس پہنچا تو وہاں کچھ بھی نہ پایا اور اللہ کو اپنے پاس پایا پس اللہ نے اس کاحساب پورا پورا چکا دیا۔


نیز ارشاد باری تعالٰی ہے :

وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا [الفرقان: ۲۳]
اور انہوں نے جو اعمال کیے تھے۔ ہم نے ان کی طرف آگے بڑھ کر انھیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا۔

نیز ارشاد باری تعالٰی ہے :

أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ [التوبہ: ۱۷]
یہی لوگ ہیں جن کے اعمال اللہ نے ضائع کر دئیے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

یہ تو واضح بات ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس قدر احکام لے کر تشریف لائے ان سب سے بڑا فریضہ توحید ہے جو نماز، زکوۃ، روزہ اور حج سب سے اہم اور بڑا فریضہ ہے۔ تو جو شخص ان احکام میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو کافر قرار پائے گا اگرچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دیگر تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور اگر وہ توحید کا انکار کرے جو تمام رسولوں کا دین ہے تو وہ کیسے کافر نہ ہوگا۔ سبحان اللہ یہ عجیب طرح کی جہالت ہے۔

[کشف الشبھات: ۳۵]


اللہ تعالی نے توحید کو آدمی کے جان ومال کی امن وسلامتی کی شرط قرار دیا ہے اور شرک کے مرتکب مشرک کو جان ومال کا تحفظ نہیں دیا بلکہ اس کے خلاف جہاد وقتال فرض کیا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے :

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ [الانعام: ۸۲]

جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) نہ ملایا یہی لوگ امن وسلامتی اور ہدایت والے ہیں۔


اس آیت میں اللہ تعالٰی نے شرک جیسے ظلم عظیم کو امن اور جان ومال کی سلامتی نہیں دی بلکہ اس کے خلاف لڑائی کو فرض قرار دیا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے :

وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کله للّٰہ.

اور ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ(شرک) باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کیلئے ہو جائے۔

نیز ارشاد باری تعالٰی ہے :

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ
[التوبہ: ۵]

جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو ان کو پکڑو ان کو گھیرو اور ان کی تاک میں ہر گھات کی جگہ بیٹھو پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز ادا کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ [صحیح بخاری: ۲۵]

مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں، جب وہ ایسا کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جان ومال کو بچا لیا، سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
 
Top