• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک کی تعریف

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اور اگر آپ عالم ہیں !
تو دلیل سے بتائیں ،یہ ذاتی اور عطائی کا کیا چکر ہے،یہ کس کی گھڑی ہوئی اصطلاح ہے ؟؟
سیدھی اور صاف قرآنی اصطلاح ۔۔خالق و مخلوق ۔۔کیوں نہیں ؟؟ ۔۔لا یخلقون شیئاً وھم یخلقون
پھر آپ نے ۔تفتازانی ۔۔کا نام لیا ۔۔یاد رہے یہ مولوی تفتازانی ،صحیحین کی احادیث کو ظنی مانتا ہے اور عقائد میں ظنی بات دلیل نہیں ہوتی
جبکہ آپ نے یہ بتانے کےلئے کہ یہ امت شرک نہیں کرے گی صحیح بخاری کی حدیث کو دلیل بنایا ہے،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام عليکم :
عرض ہے کہ صفات کے موضوع پر ۔۔ذاتي اور عطائي۔۔کي اصطلاح سے ہي کئي غلط فہمياں پيدا ہو رہي ہيں ،اور غلط عقائد پھيل رہے ہيں
حالانکہ اصل تقسيم کا عنوان ۔خالق کي صفات ۔اور۔مخلوق کي صفات۔ ہے،،يعني جس طرح خالق پيدا نہيں ہوا ،اسي طرح اس کي صفات بھي حادث نہيں ،اور مخلوق کا معني ہي يہ ہے کہ جو کسي کے پيدا کرنے سے وجود ميں آئي ،اور اس کي تمام صفات بھي مخلوق ہيں ،
اور ۔۔۔چہ نسبت خاک را بہ عالم
 

ahmed

رکن
شمولیت
جنوری 01، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
38
تعریف کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جامع اور مانع ہو
آپ نے کہا شرک تب ہو گا جب وہ دو خدا مانے یا کسی کو خدا سمجھ کے پوجا کرے یہ تو صرف شرک فی الالوھیت کی تعریف ہے اس پر بھی اعتراض ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسماء و الصفات کی تعریف کہاں گئی ؟؟؟؟
ایسے ہی کیا تفتازانی سے قبل کسی حنفی نے شرک کی تعریف نہ کی تھی؟؟؟ تفتازانی کو تو ایک صوفی حنفی عالم اس بنیاد پر کافر کہ چکے ہیں کہ تفتازانی کہتا ہے کہ قرآن کی آیت ظنی ہے امکان ہے کہ اس آیت کے خلاف بھی ہو جائے ایسے ہی تفتازانی جادو کرنے سیکھنے کو کفر نہیں کہتا تفتازانی ہی کیوں ؟؟؟
باقی اگر کوئی کسی کی عبادت کرے لیکن یہ کہے کہ میں اسے معبود نہیں مانتا تو یہ ایسا ہے جو حدیث میں آیا لوگ شراب کا نام بدل کر پیئیں گے ہو گی تو شراب اب کوئی کسی قبر درخت کو پوجے اور کہے میں اسے خدا نہیں کہتا تو اس کے کہنے کے باوجود وہ خدا ہی بنایا گیا ہے کہو یا نا کہو نام جو بھی رکھو یہ تو غلام رسول سعیدی نے بھی لکھا کہ نذر عبادت ہے لوگ بزرگوں کیلئے مانتے ہیں
ان سارے شبھات پر مفصل رد شیخ توصیف الرحمن الراشدی دے رہے ہیں دو یا تین درس ریکارڈ ہو بھی چکے ہیں
ایسے ہی اللہ کی یہ صفت اور بندہ کی بھی ہے تو عام الفاظ میں یوں سمجھیں کہ یہ اللہ نے بتا دیا کہ میں بھی رووف میرا نبی بھی علی سبیل المثال
لیکن سوال وہ ہے جو نصیر الدین گولڑوی نے اٹھایا کہ یہ کیا بھونڈا مزاق ہے دلیل دیتے ہو نبی نے یوں کیا صحابی نے یوں کیا اور فرشتوں نے یوں کیا اور جب استدلال کی باری آتی ہے تو ان کو چھوڑ کر پیچھے اوروں کے لگتے ہے ان بابوں کے بارے دلائل دو کہ اللہ نے ان کو بھی یہ یہ قدرتیں دی ہیں
لاو دلیل کہ علی ھجویری کو اللہ نے داتا کہا ہے یا اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے کہا ہے قرآن یا حدیث یا کس محدث نے یہ تعریف بیان کی ہے اقتدار نعیمی تو لکھتے ہیں کہ قرآن سے استدلال کیلئے 40 علوم ضروری ہیں اور احمد رضا کے نزدیک تو مفسرین کے اقوال تفسیر میں دلیل نہیں صرف صحابی کے ہیں
 

ahmed

رکن
شمولیت
جنوری 01، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
38

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
سوال نمبر1 : شرک کی کیا تعریف ہے ؟...
(جواب )۔۔۔ علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب شرح عقائدِ نسفی میں شرک کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں ’’
کسی کو شریک ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ مجوسیوں کی طرح کسی کو الہٰ(خُدا) اورواجب الوجود سمجھا جائے یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے ۔‘‘
شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دوخداؤں کے ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہوگا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں ۔
سوال نمبر2 : شرک کی کتنی اقسام ہیں؟
جواب )۔۔۔ شرک کی تین اقسام ہیں:
(1)۔۔۔شرک فی العبادۃ (2)۔۔۔شرک فی الذات (3)۔۔۔شرک فی الصفّات
(1) شرک فی العبادۃ سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔
(2) شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے۔
(3) شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتاہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ...یا ...کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ...یا... فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ...یا... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گاجو ناقابلِ معافی جرم اورظلمِ عظیم ہے ۔
شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتاہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتاہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔
1)۔۔۔اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے :
القرآن: اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤ ف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ ،آیت143پارہ 2 )
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے،کہ ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ o
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں۔ (سورۂ توبہ، آیت128پارہ 11)
پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟.....
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اوررحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اوررحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔
(2)۔۔۔ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں :
اللہ تعالیٰ فرماتاہے،کہ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (سورۂ نمل ،آیت 65پارہ 20)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا۔(سورۂ جن ،آیت 26/27پارہ 29)
علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا؟.....
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔
3)۔۔۔ مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے،کہ
القرآن : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔(سورۂ محمد ،آیت 11پارہ 26)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے،کہ
فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اورنیک مومنین مددگارہیں۔
(سورۂ تحریم ،آیت4پارہ28)
پہلی آیت پر غور کریں تویہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا،تو کیا یہ شرک ہوگیا؟....
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں۔
جو ذات باری تعالیٰ عطا فرمارہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہاہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا؟.....
خوب یاد رکھیں !کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اورناممکن ہوجاتاہے ۔
اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہوگی۔جیساکہ
بخاری شریف میں ہے،کہ
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اورتم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اوربیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔
(بخاری شریف جلد اول، کتاب الجنائز، رقم الحدیث1258ص545مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی صفات اور مخلوق کی صفات میں ”مشابہت“ کی صورت میں ”ذاتی، لا محدود اور قدیم “اور ”عطائی، محدود اور حادث“کا فرق ہو تو شرک ثابت نہیں ہوگا ؟
کیا شرک اُس وقت لازم آئے گا جب ”مخلوق کی صفات“ کو اللہ تعالٰی کی صفات کے” برابر“ مانا جائے ورنہ شرک ثابت نہیں ہو گا؟

جواب صرف ”ہاں“ یا ”نہ“میں دیں، شکریہ !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شرک کی حقیقت
انداز بیاں گر چہ میرا شوق نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
قرآن وہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
قرآن وجہ دلیل اور نور ہے،قرآن شفاء ہے، قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، قرآن پاک نے ہمیشہ غور و فکر کرنے کی دعوت دی اور اسے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع لانے کی ترغیب دلائی لیکن ہر پڑھنے والا اور قرآن پاک میں سطحی نظر کرنے والا یا نہ سمجھے کے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے تمام ہی افراد مقصد کو پالیں گے۔نہیں ہر گز نہیں بلکل قرآن پاک نے خود اس کی تردید کی۔
بہت سے لوگ اس قرآن سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور بہت سے اس سے ہدایت پاتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ:26 )
سوال یہ پیدا ہوتا ہے بہت سے لوگ قرآن پڑھ کر گمراہ کیوں ہوجاتے ہیں؟اس کا جواب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے وہ قرآن کریم پڑھتے تو ہیں پر ان کا دل قرآن کے نور سے منور نہیں ہوتا وہ قرآن کی آیات کا غلط ترجمہ اور غلط مفہوم سمجھ لیتے ہیں، غلط معنی اور غلط مفعوم سمجھنے کی وجہ سے وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔چناچہ ایسا ہی ایک گروہ گزرا جس نے قرآن کریم کی ایک آیت پر نظر کرتے ہوئے دوسری آیت کا انکار کر دیا ،
اس گروہ کے تفصیلی حالات بخاری شریف،مسلم اور ابن ماجہ اور دیگر آحادیث کی کتابوں میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ علامہ امام عبدالرحمن بن جوزی البغدادی الرحمن جن کا وصال597ھجری میں ہوا انھوں نے 800 سال پہلے اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں بھی ان خارجیوں کے بارے میں تفصیلََا لکھا ہے ۔خارجی وہ لوگ تھے جو کلمہ بھی پڑھتے تھے،قرآن کی بھی تلاوت کرتے تھے،عبادت بھی کرتے تھے بلکہ اس قدر شدت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ عبداللہ بن عباس نے فرمایا ! میں نے ان سے بڑ ھ کر عبادت میں کوشش کرنے والی کوئی قوم نہیں دیکھی،سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی پر زخم پڑ گئے۔
لیکن قرآن مجید فرقان حمید غلط سمجھنے کی وجہ سے یہ ایسے گمراہ ہوئے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام صحابہ کرام پر شرک کا الزام لگا دیا اور وہ کہنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام سے خارج ہیں( نعوذباللہ من ذالک) وہ جس آیت کوبنیاد بنا رہے تھے وہ قرآن مجید فرقان حمیدکی یہ آیت ہے(فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ کی ذات ہے)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کے لیے کسی کو فیصلہ کرنے والا مقرر کیا تو یہ خارجی کہنے لگے ۔(فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ ہے)حالاں کہ اس آیت کے یہ مطلب نہیں،اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ حقیقی طور پر فیصلہ کرنے والا اللہ تعالی ہے،حقیقی حکم وہی ہے اور جو شخص فیصلہ کرے انسانوں میں سے اسے چاہیے کے قرآن و آحادیث کے مطابق فیصلہ کرے حقیقی فیصلہ کرنے کا اختیاراللہ کو ہے،لیکن وہ نہ سمجھ سکے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن عباس کو بھیجا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خارجیوں سے کہا جو بظاہر کلمہ بھی پڑھتے تھے اور قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے فرمایا (اگر میں قرآن سے ثابت کر دوں کہ انسانوں میں سے فیصلہ کرنے والا مقرر کیا جا سکتا ہے تو کیا تم اپنی بات سے رجوع کر لو گے؟ تو کہنے لگے (ہاں ہم کر لیں گے)تو حضرت عبداللہ بن عباس نے سورۃ النساء :آیت# 35 کی تلاوت فرمائی(جب میاں بیوی کے درمیان جھگڑاہو جائے اور تم ان کے درمیان صلح کرانا چاہو تو ایک حاکم فیصلہ کرنے والا شوہر کی طرف سے مقرر ہو اور دوسرا حاکم فیصلہ کرنے والا بیوی کی طرف سے مقرر ہو)حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا (اے خارجیو!ذرا سوچو کے رب العالمین 2 فیصلہ کرنے والے مقرر فرما رہا ہے ،تو اگر اللہ کے سوا کسی اور کو فیصلہ کرنے والا مقرر کرنا شرک ہوتا تو کبھی قرآن شرک کی دعوت نہ دیتا ،اور وہاں مراد ہے کہ حقیقی فیصلہ کرنے والا صرف اللہ ہے )کتنا پیارا انداز تھا مگر افسوس خارجیوں کی اکثریت اپنی ضد پر قائم رہی صرف چند خارجی ایسے تھے جنھوں نے توبہ کی ( وما توفیقی الابا للہ ۔۔۔ توفیق تو دینے والا صرف اللہ کی ذات ہے)
ٰٓٓان تمام باتوں سے یہ پتا چلا کہ اگر قرآن پاک کا غلط مفعہوم لے لیا جائے تو بعض اوقات کتنی غلط راہ پر وہ چلا جاتا ہے،کہ وہ قوم عبادت بھی کر رہی ہے مگر حضرت علی اور صحابہ کو مشرک سمجھ کر خود دائرہ اسلام سے خارج ہو رہی ہے۔ان کی عبادتیں ضائع ہو رہی ہے ،ایسی قرآن مجید فرقان حمید میں کئی مثالیں ہیں،بظاہر ایک آیت کا غلط مطلب سمجھ لیا تو دوسری آیت ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی آیاتیں آپس میں ٹکراتی نہیں ہیں۔اگر مفہوم غلط لیا جائے تو اس کی وجہ سے انسان غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے مثلََا قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا گیا (سورۃ التوبہ:129) ِ ََََِِِ "ِ ِ فرما دیجئے میرے لیے اللہ کافی ہے"اب اگر کوئی اس کا مفہوم لے کہ اللہ کافی ہے اور اس کے سوا کسی اور کو کافی کہنا شرک ہے تو قرآن مجید فرقان حمید پر اعتراض واقعی ہوتا ہے ،(سورہ انفال:64)"اے نبی آپ کو اللہ بھی کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے نیک صالح مومنین بھی آپ کو کافی ہیں "سوال یہ ہے کہ جب اللہ کافی ہے تو کسی اور کی کیا حاجت،تو اسکا جواب مفسرین نے بڑا پیار ا دیا ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ اللہ کافی ہے تو اس سے مراد یہ لیا جائے گا کہ حقیقی طور پر سب کچھ دینے والا اللہ ہی ہے،اور جہاں یہ کہا جائے گا کے نیک مومنین کافی ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا سے کافی ہیں،اسی طرح ایسی اور بھی مثالیں ہیں ،مثال کے طور پر اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیراللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہونا چاہیے،بعض اوقات یہ جملہ کہا جاتا ہے،یقینََا بلاشبہ تمام کام کو بنانے والی ذات تو اللہ ہی کی ہے،اس کی مشئیت کے بغیر توایک ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا لیکن ان ساری گفتگو سے اگر یہ کوشش کی جائے کہ دو جہا ں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کو بے اختیارثابت کرنے کی کوشش ہو اور یہ تصور دینے کی کوشش ہو کہ حضورنہ کچھ کر سکتے ہیں نہ کچھ دے سکتے ہیں اللہ کی عطاسے بھی نہیں دے سکتے ،اگر یہ نظریہ ہو تو معاذاللہ ثمّہ معاذاللہ تو قرآن کی کئی آیات اور احادیث طیبہ کا انکار ہو جائے ،ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ بخاری ،مسلم اور دیگراحادیث کی کتابوں میں تفصیلََا موجود ہے کہ "میدان محشر میں لوگ نجات کے لیے انبیاء کے پاس جائیں گے تو انبیاء فرمائیں گے جاؤ کسی اور کے پاس اور پھر جب لوگ حضور کی خدمت میں آئیں گے تو پیارے آقا فرمائیں گے میں ہی تمہاری شفاعت کروں گا ،تو اگر یہ عقیدہ رکھ لیا جائے کہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے بھی نبی کریم ﷺ کچھ نہیں کر سکتے تو یہ قرآن کی کئی آیتوں کا انکا ر ہے اور آحادیث کا بھی انکار ہے۔خارجی قوم جس غلط فہمی کا شکار ہوئی وہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت علی اور صحابہ کریم مشرک ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے شرک کو سمجھا نہیں کہ شرک کسے کہتے ہیں؟ اصل میں شرک کی تین قسمیں ہوتی ہیں ۔ شرک فی العبادت،شرک فی الذّات اور شرک فی الصّفات۔
شرک فی العبادت، یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھا جائے،جیسے مشرکین مکہ جنھوں نے خانہ کعبہ میں 360 بت رکھے تھے اور ان کی پو جا کرتے تھے جب کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہی نہیں ہے۔
شرک فی الذّات یہ ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ خالق کائنات کی دو ذات ہے ایسا تصورشرک فی الذّات ہے۔
الحمداللہ مسلمان نہ شرک فی العبادت میں مبتلا ہیں اور نہ ہی شرک فی الذّات میں مبتلاہیں ۔
تیسری قسم ہے شرک فی الصّفات جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے اس کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے کہ جو اللہ تعالی کی صفات ہیں ان کے برابر کسی اور کی صفات تصور کرنا یہ شرک فی الصّفات ہے۔شر ک فی الصّفات نہ سمجھنے کی وجہ سے کئی لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے باوجود گمراہ ہو گئے۔
(سورۃ بقرہ :143 )" بے شک اللہ تعالی لوگوں پر رؤف اور رحیم ہیں" اللہ رؤف بھی ہے اور رحیم بھی ہے قرآن مجید فرقان حمیدمیں دوسرے مقام پر فرمایا (سورۃ توبہ:128 )" بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بھاری ہے،تمہاری بھلائی کو بہت چاہنے والے ہیں،مومنوں پر رؤف اور رحیم ہیں" ایک طرف فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی رؤف اور رحیم ہیں اور دوسری طرف فرمایا جارہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ شرک فی الصّفات نام ہے برابری کا تو پھر یہ تو صفات ایک جیسی ہو گئیں۔اور دونوں قرآن کی آیتیں ہیں او ر قرآن تو شرک سے دور کرتا ہے ۔دلوں کو شرک سے پاک کرتا ہے، مفسرین نے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی،فرمایا کہ رؤف الرحیم اللہ بھی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں لیکن برابری نہیں ہے اللہ کا رؤف الرحیم ہونا ذاتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رؤف الرحیم ہونا اللہ کی عطا سے ہے۔اللہ تعالی ہمیشہ سے رؤف الرحیم ہے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم رؤف الرحیم ہیں جب سے اللہ نے انہیںیہ مقام اور مرتبہ دیا ہے،جب یہ فرق ہو گیا تو برابر ی نہ رہی اور شرک لازم نہ آیا۔
ایک اور مثال حاضر خدمت ہے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہوا ہے (سورہ نمل:65 )" تم فرما دو جو کوئی آسمان اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا"ایک طرف فرمایا گیا کہ اللہ ہی غیب کا علم جانتا ہے دوسری طرف ارشاد ہوا(سورہ جن:26-27 )" غیب کا جاننے والارب العالمین غیب کا علم کسی کو نہیں دیتا مگر اپنے رسولوں کو پسند فرماتا ہے اور انہیں غیب کا علم عطاء فرماتا ہے"دونوں آیتیں قرآن کی ہیں ان دونوں آیتوں کا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا کہ حقیقی طور پر غیب کا علم جاننے والا صرف اور صرف اللہ ہے ، اللہ کی عطاکے بغیر کوئی کچھ نہیں جانتا اور جب اللہ تعالی عطافر مائے تو محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں ، اللہ بھی غیب کا علم جانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کا علم جانتے ہیں لیکن برابری نہیں ہے اللہ تعالی کا علم ذ اتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اللہ کی عطاسے ہے ،جب فرق ہو گیا تو برابری نہ ہوئی۔
قرآن مجید میں اس کی ایک اور مثال بھی دی جا سکتی ہے (سورۃ محمد:11 )" مسلمانوں کا مولا مددگار اللہ ہے"پھر دوسری جگہ فرمایا (سورۃ تحریم :4 )"بے شک اللہ ان کا مولا ہے مددگار ہے اور جبرائیل بھی مولا مددگار ہیں اور صالح مومنین مددگار ہیں اور فرشتے بھی مولا مددگار ہیں"سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ارشاد ہو رہا ہے کہ اللہ مولا مددگار ہے اور اور دوسری طرف فرمایا جارہا ہے کہ اللہ بھی مددگار ہے جبرائیل بھی مددگارہیں اور نیک مومنین بھی مددگار ہیں اور فرشتے ببھی مددگار ہیں جبکہ دونوں آیتیں قرآن کی ہیں کوئی ٹکراؤ نہیں ،سمجھنا یہ ہے کہ اللہ تعالی مولا ہے مددگار ہے حقیقی طور پہ اور ذاتی طور پر اور جبرائیل اور نیک مومنین مددگار ہیں اللہ کی عطاسے،اللہ نے اپنی مدد کا انہیں ذریعہ اور وسیلہ بنایا ،قرآن مجید کی ایک اور آیت کریمہ اس مفہوم کو واضح کرتی ہے ،( سورۃمائدہ:55 )"تمہارے مددگار ہیں اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والے"اللہ بھی مددگار ہیں رسول بھی مددگار ہیں اور ایمان والے بھی مددگار ہیں ،وہی فرق ہے اللہ حقیقی اور ذاتی طور پر مددگار ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نیک صالح مومنین کی مدد اللہ کی عطاسے ہے ،اللہ کی عنایت سے اور اللہ کے کرم سے حقیقی مددگار صرف اللہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نیک مومنین اللہ کی مدد کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں ایک وسیلہ ہیں،یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کہہ دیاگیا کہ اللہ تمہا را مددگار ہے اور اسی طرح پچھلی آیت میں یہ کہہ دیا گیا کہ اللہ ہی ان کا مولا ہے مددگار ہے تو جب اللہ کی مدد کا ذکر کر دیا گیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،جبرائیل اور نیک صالح مومنین کی مدد کا ذکرکیوں کیا گیا ؟
کیا اللہ تعالی کی مدد نا کافی ہے ؟ہر گز یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ قرآن یہ عقیدہ بیان کر رہا ہے کہ اللہ تعالی ہی مدد فرمائے گا لیکن اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو مقام ،مرتبہ اور بلندی عطا فرماتا ہے اور ان سے وابسطہ رہیں گے،اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہونگے،تو اللہ تعالی کرم فرمائے گااور ان کے وسیلے سے ہمارا بیڑہ پار فرمادے گا۔

قرآن کی آیتیں پیش کی جارہی ہیں اور ان آیات کا مفہوم کیا ہے کہ اگر ایک آیت سے غلط مفہوم لے لیا جائے تو قرآن کی دوسری آیت اس سے ٹکراجائے،حالانکہ قرآن میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔(سورۃ شورےٰ:49 )"اللہ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے"اور دوسرے مقام پر (سورۃ مریم :19) حضرت جبرائیل امین حضرت مریم کے پاس آئے اور جبرائیل امین نے کیا کہا ؟"جبرائیل امین علیہ السلام بولے میں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا قاصد ہوں میں اس لیے آیا ہوں کہ تجھے ستھرا اور پاکیزہ بیٹا عطا کروں"ایک طرف فرمایا گیا کہ بیٹے اور بیٹیاں اللہ ہی دیتا ہے اور دوسری طرف جبرائیل امین کہہ رہے ہیں میں تجھے نیک صالح بیٹا عطا کروں ۔حقیقی طور پر عطا کرنے والا اللہ ہی ہے اور جبرائیل جو عطاکر رہے ہیں وہ اللہ کی عطاسے کر رہے ہیں ۔
(سورۃ الزُمر:42)"اللہ ہی جانوں کو موت دیتا ہے "زندگی موت دینے والا اللہ ہی ہے،(سورۃ سجدہ: 42)"آپ فرمایئے کہ موت کے فرشتے حضرات عزرائیل تمہیں موت دیں گے "سوال یہ ہے کہ حضرت عزرائیل موت دیں گے قرآن یہ بیان کر رہا ہے اور ایک طرف یہ کہ موت دینے والا اللہ ہے،دونوں آیاتوں میں کوئی ٹکراو نہیں ،سمجھنا یہ ہے کہ حقیقی طور پر موت دینے والا اللہ ہی ہے اور حضرات عزرائیل اللہ کی عطاء سے یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔
ذرا بتائیں بیماروں کو شفا ء دینے والا کون ہے؟ اللہ ۔ مردوں کو زندہ کون کرتا ہے ؟اللہ کرتا ہے ۔لیکن حضرت عیسی ؑ اعلان فرما رہے ہیں (سورۃآ ل عمران:49)"میں بیماروں کو شفاء دیتا ہوں ،مادرزاد اندھوں کو آنکھیں دیتا ہوں،برص کے مریضوں کو شفاء دیتا ہوں،اور میں مردوں کو زندہ کرتا ہوں، (لیکن آپ خود وضاحت فرما رہے ہیں) بِاذنِ للہ،کرتامیں ہی ہوں پر اللہ کے حکم سے"تو جب عطائی اور ذاتی کا فرق ہو گیا تو برابری نہ ہوئی تو شرک نہ ہوا۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین تھے منافقین بھی ان چیزوں کو نہ سمجھ سکے اور انھوں نے اتنی بڑی جر أت کی کہ اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انھوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر شرک کا الزام لگا دیا اسکی تفصیل کا مطالعہ کریں ۔حضرت علامہ فخرالدین رازی جن کا وصال606 ہجری میں ہوا عالم اسلام کے مشہورترین تفسیر کبیر جلد4# صفحہ150# بیروت کے نسخے میں آپ نے مفصل بیان فرمایا ہے ۔اور یہی تفصیل تفسیر خازن،جلد # 1صفحہ # 405 میں بھی موجود ہے۔
یہاں پر یہ عرض کروں کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو مقام اور مرتبے کی بلندی دیتا ہے ،انھیں طاقت و قدرت دیتا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ بیشک اللہ ہر چاہت پر قادر ہے وہ جسے جو مقام اور مرتبہ دینا چاہے وہ دے سکتا ہے۔اللہ کی قدرت کو محدود نہ سمجھا جائے۔اللہ تعالی نے حضرت سلمان علیہ السلام کو کیسی حکومت دی،جنات آپکے تابع ہوئے،پرندوں کی بولیاں آپ سنتے اور سمندر میں موجود مچھلیوں سے آپ گفتگو کرتے،یہ جو آپ کو مقام اور مرتبہ دیا گیا پوری دنیا کی حکومت دی گئی،آپ ہواؤں میں اڑتے ،ہوا آپ کے تابع تھی،یہ مقام اور مرتبہ کس نے دیا ؟اللہ نے دیا ۔اللہ اپنے بندوں کو جو مقام اور مرتبہ دے بندے کو چاہیے کے اللہ کی قدرت پر یقین رکھے اور وہ یہ کہے کہ اللہ تعالی جو چاہے کر سکتا ہے۔
(بخاری: جلد # 2 ،صفحہ # 963 ،کتاب الرقاق،حدیث # 6021 )
حدیث قدسی:ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے جو میرے ولی سے دشمنی رکھے گا،جو میرے محبوب بندے سے دشمنی رکھے گا اس کے لیے میرا اعلان جنگ ہے"
محبوب بندے سے دشمنی کے کیا معنی ہیں ؟ محبوب بندے کے مقام اور مرتبے کو گھٹانے کی کوشش کرنا اللہ نے انھیں جو مقام دیا اس مقام کو تسلیم نہ کرنا عزت و تعزیم و توقیر مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کی کوشش کرنا یہ دشمنی ہے ۔اور فرمایا "میرابندہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ فرائض کے ذریعے میری بارگاہ میں قرب حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ فرا ئض کے بعد نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتاہوں اور جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اسکے وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے میں اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کے وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر میرا وہ مقبول بندہ مجھ سے کوئی چیز مانگے سوال کرئے دعا مانگے تو میں ضرور بہ ضرور اس کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہوں "
مفسر کبیر ،حضرت علامہ فخرالدین رازی اس حدیث قدسی کی تشریح فرماتے ہیں (تفسیرکبیر ،جلد # 7 صفحہ # 436 ) "جب اللہ کا نیک بندہ مسلسل عبادت کرتا ہے اور اللہ کا مقبول بن جاتا ہے اور پھر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ فرماتاہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ کے جلال کا نور اس کے کان بن جاتا ہے تو وہ قریب کی باتیں بھی سنتا ہے اور دور کی باتیں بھی سنتا ہے، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی آنکھیں بن جاتا ہے تو وہ قریب کو بھی دیکھ لیتا ہے اور دور کو بھی دیکھتا ہے اور جب اللہ کے جلال کا نور اس کے ہاتھ بن جاتا تو اللہ تعالی اسے وہ طاقت دیتا ہے کہ وہ قریب اور دور آسان اور مشکل وہ تمام کاموں پر قدرت رکھتا ہے اور وہ وہ کراماتیں دکھاتا ہے کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں"امام جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قسم کی تشریح بیان فرمائی ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں بھی اللہ کے نیک بندوں کی طاقت کا ذکر ہے،ملکہ بلقیس ملک سبا کی ملکہ اس کا وہ تخت جو 80 گز لمبا 40 گز چوڑا،سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے سجا ہوا،دو مہینے کی مصافت پر تھا ،دومہینے تک گھوڑا دوڑتا رہے تب جا کر اس کے فاصلے کوطے کرے، سخت پہرے میں،سات کمروں کے سات تالوں میں بند تھا ،اس پر پہرے دار مقرر کیا گئے،حضرت سلمان ؑ نے اپنے درباریوں سے فرمایا ملکہ بلقیس میرے پاس آ رہی ہیں ،ان کے آنے سے پہلے تم میں سے ہے کوئی جو میرے پاس ان کا تخت لے کر آئے؟ قرآن بیان فرما رہا ہے کہ ایک طاقت ور جن نے کہا کہ میں لے آؤں گا ،آپ نے فرمایا کب لے کر آؤ گے؟کہنے لگا شام ہونے سے پہلے لے آؤں گا ۔آپ نے فرمایا یہ تو تاخیر ہو جائے گی ،مجھے اس سے بھی پہلے چاہیے۔(سورہ نمل: 40 )"کہا اس بندے (آصف بن برخیہ)نے جس کے پاس کتاب (زبور )کا علم تھاکہا میں اس تخت کو لے کر آؤں گا آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے "حضرت سلمان ؑ نے کہا لے آ ؤ تو آصف بن برخیہ نے فوراََ ہی تخت کو آپ کے سامنے حاضر کر دیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب حضرت سلمان ؑ کا امتی جس کے پاس زبور کا علم ہے اس کے پاس اتنی طاقت ہے تو اللہ کے محبوب کے کامل ولیوں میں کتنی طاقت ہو گی جو قرآن کا علم جانتے ہوں اور پھر سردار الانبیاء کا تو کیا ہی کہنا۔
حضرات ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کے دور خلافت میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والامسیلمہ کذاب نے سر اٹھا یا اس کے ساتھ 60 ہزار فوجی تھے اس جنگ یما مہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ایک موڑ وہ آیا کہ مسلمان سخت مشکل میں مبتلا ہوئے پریشانی میں مسلمانوں کے سپاہ سالار حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے پکارا،ابن کثیر جنھیں دینا محقق تسلیم کرتی ہے ،البدایہ والنہایہ ،جلد# 6 صفحہ # 24 ،وہ لکھتے ہیں "اس وقت ان صحابہ کرام کا یہ شعارر تھا کہ وہ حضور کو مدد کے لیے پکارر ہے تھے "اب مجھے یہ بتائیے کہ صحابہ کرام سے بڑھ کر توحید کو سمجھنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ اگر کسی کو مدد کے لیے پکارنا شرک ہوتا تو صحابہ کرام ہر گز نہ پکارتے ،ہاں اتنا عرض کر دوں کہ جب ہم کسی سے مدد مانگتے ہیں توعقیدہ ہونا چاہیے کہ انھیں جو طاقتیں ہیں وہ اللہ کی عطاسے ہیں ، وہ اللہ کی اجازت سے مدد کرتے ہیں ۔
بس اتنا سجھ لیں کہ شرک جب ہو گا کہ جب ہم کسی کی صفت کو یہ سمجھیں کہ یہ اس کی ذاتی ہے،اللہ کی عطاء کردہ نہیں تو شرک ہے
واللہ اعلم بالصواب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن کوصحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تحریر کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی معاف فرمائے، اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب فرمائے اور جو مقام اللہ نے اپنے اولیاء کو عطا کیا ہے اسے بلاشبہ ماننے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
نوٹ: اس تحریرکو عالم اہلسنت کے بیان میں سے لکھا گیا ہے۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ !
محترم اقبال صاحب !
آپ سےمندرجہ ذیل ”سوالات“کے”جوابات“مطلوب ہیں۔ ” اُمید“ہے”جوابات“عنایت فرمائیں گے۔
مشرکینِ عرب کے ہاں اپنے ”معبودوں“کی صفات کا ”لامحدود“تصور تھا یا ”محدود“؟
کیا”انبیاء واولیاء“کو ”محدود“ صفات کا حامل قرار دینا ”شرک “ہے ؟
مشرکینِ عرب اپنے ”معبودوں“کو ”خالق“قرار دیتے تھے یا ”مخلوق “ ؟
مشرکینِ عرب اپنے ”معبودوں“کے”ذاتی اختیارات“کے قائل تھے یا ”عطائی اختیارات“کے ؟
شکریہ !
 
Top