سوال نمبر ٩
جو چیزیں تکفیر میں موانع ہے کیا وہی مشرک کہنے میں بھی موانع ہے؟
جی ہاں! موانع تکفیر کسی کو مشرک حقیقی قرار دینے میں بھی موانع ہیں۔ جس طرح اہل سنت نے کافر کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ایسے مشرکین کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا جائے گا۔ کافر کو اہل سنت کس طرح دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، اس پر ذرا غور کریں:
احادیث مبارکہ میں بہت سے کبیرہ گناہوں پر بھی کفر کا اطلاق کیا گیا ہے اوران گناہوں کے مرتکبین کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوق وَقِتَالُہ کفر))اور
((من حلف بغیر اللہ فقد کفر)) اور
((مَنْ اَتٰی کَاھِنًا فصدقہ او اتی امراة فی دبرھا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا انزل عَلٰی مُحَمَّد)) اور
((بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاة)) اور
((اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِر فَقَدْ بَاء بِھَا اَحَدُھُمَا))اور
(( لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کفارا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رقاب بعض)) اور
((لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن))وغیرہ جیسی احادیث مبارکہ۔
اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا کام کرنے والا شخص ایسا کافر نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے اور دائمی جہنمی ہو۔ اہل سنت کی ایک جماعت اس کفر کو
'کفر دون کفر'' قرار دیتی ہے اور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کا کفر 'عملی کفر' ہے۔ ائمہ ثلاثہ امام مالک' امام شافعی' امام احمدرحمہم اللہ اور محدثین کا قول یہی ہے۔ جبکہ اہل سنت کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ کفر مجازی ہے یعنی حقیقی نہیں ہے امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کا یہی قول ہے۔
لہٰذ ایسے شخص کو عملی کافر کہیں یا مجازی کافر' بہر حال اس بات پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص کافر حقیقی نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔ اہل سنت و الجماعت یہ کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے توہماری کیا مجال ہے کہ ہم اسے کافر نہ کہیں لیکن وہ 'عملی کافر' یا 'مجازی کافر' ہے نہ کہ'حقیقی کافر' کہ جو دائرہ اسلام سے خارج' واجب القتل اور دائمی جہنمی ہو۔ اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ 'عقیدة طحاویة ' کی شرح میں لکھتے ہیں:
'' أن اھل السنة متفقون کلھم علی أن مرتکب الکبیرة لا یکفر کفرا ینقل عن الملة بالکلیة کما قالت الخوارج... وأھل السنة أیضا متفقون علی أنہ یستحق الوعید المرتب علی ذلک الذنب کما وردت بہ النصوص...ثم بعد ھذا الاتفاق تبین أن أھل السنة اختلفوا خلافاً لفظیاً' لا یترتب علیہ فساد' وھو: أنہ ھل یکون الکفر علی مراتب، کفرا دون کفر؟ کما اختلفوا : ھل یکون الایمان علی مراتب،ایمانا دون ایمان؟ وھذا الاختلاف نشأ من اختلافھم فی مسمی 'الایمان' : ھل ھوقول وعمل یزید وینقص، أم لا ؟ بعد اتفاقھم علی أن من سماہ اللہ تعالی ورسولہ کافرا نسمیہ کافرا،اذ الممتنع أن یسمی اللہ سبحانہ وتعالی الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافرا' ویسمی رسولہ من تقدم ذکرہ کافرا و لا نطلق علیھما اسم 'الکافر'۔ ولکن من قال : ان الایمان قول وعمل یزید وینقص قال : ھو کفر عملی لا اعتقادی،والکفر عندہ علی مراتب ' کفر دون کفر' کالیمان عندہ۔ ومن قال: ان الایمان ھو التصدیق ولایدخل العمل فی مسمی الایمان ' و الکفر ھو الجحود، ولا یزیدان ولا ینقصان قال : ھو کفر مجازی غیر حقیقی، ذ الکفر الحقیقی ھو الذی ینقل عن الملة.'' (شرح عقیدہ طحاویة : ص ٣٠١ ۔ ٣٠٤، الرئاسة لعامة لدارات البحوث العلمیة والفتاء والدعوة والرشاد، الریاض،١٣١٤ھ)
'' جمیع اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ایسا کفر نہیں کرتا کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے کلی طور پر خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج کا قول ہے...اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرتکب کبیرہ اپنے اس گناہ کبیرہ پراس وعید کا مستحق ہے جو نصوص میں وارد ہوئی ہے...پھر اس اتفاق کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں باہمی اختلاف لفظی اختلاف ہے اور اس سے کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا۔ اہل سنت کا باہمی اختلاف اس میں ہے کہ کیا کفر کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً کفر دون کفر وغیرہ جیسا کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ایمان کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً ایمان دون ایمان؟ اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ایمان کے 'مسمی' یعنی تعریف میں ان کا اختلاف ہے۔ کیا ایمان قول و عمل کا نام ہے جو گھٹتا ہے اور بڑھتا ہے یا ایسا نہیں ہے؟ اہل سنت کا اس بات میں بھی اتفاق ہے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے تو ہم بھی اسے کافر ہی کہیں گے کیونکہ یہ ناممکن امر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو کافر قرار دیں یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض افعال کے مرتکبین کو کافر کہیں' جیسا کہ پہلے احادیث گزر چکی ہیں' تو ہم ان افعال کے مرتکبین پر لفظ کافر کا اطلاق نہ کریں۔ پس جس کا کہنا یہ ہے کہ ایمان قول و عمل کانام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے تو اس کے نزدیک یہ 'کفر عملی' ہے نہ کہ اعتقادی، اور ان علماء کے ہاں ایمان کی طرح کفر کے بھی کئی درجات ہیں جیسا کہ'کفردون کفر' ہے۔ اور جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایمان، تصدیق کا نام ہے اور عمل ایمان کے مسمی یعنی تعریف میں داخل نہیں ہے اور کفر، انکار کا نام ہے اور یہ دونوں کم یا زیادہ نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا: یہ مجازی کفر ہے نہ کہ حقیقی، جبکہ حقیقی کفر وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔''