• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک کے تعلق سے کچھ سوالات کے جوابات درکار ہے

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ٦
اگر کوئی شرک میں مبتلا ہے تو کیا اسے مشرک کہا جائگا؟
دیکھیں ! مشرک کہنے کے دو مطلب ہیں۔ ایک معنی تو یہ ہے وہ مشرک حقیقی معنوں میں ہے یعنی دائرہ اسلام سے خارج ہے اور دائمی جہنمی ہے تو اس معنی میں وہ اسی وقت مشرک قرار جبکہ شرائط پوری ہوں اور موانع موجود نہ ہوں۔

دوسرا معنی ہے کہ کسی کو مشرک اسی معنی میں کہا جائے کہ وہ کسی شرکیہ فعل یا قول یا عقیدے کا مرتکب ہے اور اس فعل یا قول یا عقیدے کی نسبت سے اسے مشرک کہا جاتا ہے اور کہنے والا کا اصل مقصود اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا یا دائمی جہنمی قرار دینا نہیں ہوتا بلکہ مقصود اس قول یا فعل یا عقیدے کی قباحت اور شناعت ہو تو اس معنی میں ہر شرکیہ فعل یا قول یا عقیدے کے مرتکب کو مشرک کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اس معنی میں تو شرک اصغر کے مرتکب یعنی ریاکار کو بھی مشرک کہا جا سکتا ہے۔

پس ایک مشرک کہنا ہے بطور فتوی یعنی دائرہ اسلام سے خارج اور دائمی جہنمی قرار دینے کے لیے اور یہ اہل علم کا کام ہے اور اہل علم بھی ایسا مشرک شرائط کی موجودگی اور موانع کی عدم موجودگی میں قرار دیں گے جبکہ ایک مشرک کہنا ہے کسی کو اس کے کسی شرکیہ قول، فعل یا عقیدے پر اصرار کے سبب سے تو ایسا کہنے میں اگر مقصود تکفیرنہ ہو بلکہ ترہیب یعنی ڈرانا ہو تو ایسا کہنا جائز ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ٧
اگر کوئی شرک میں مبتلا ہے اور اسے سمجھانے کے بعد بھی شرک نہیں چھوڑ رہا ہے تو کیا اسے مشرک کہا جائگا؟
شرکیہ عقیدے یا قول یا فعل پر اصرار ایک مسلمان کو مشرک بنا دیتا ہے پس وہ مشرک ہے اور وہ مشرک کہلائے گا جیسا کہ جھوٹ بولنے والے کو جھوٹا ہی کہا جائے گا۔
لیکن ہم اس بات کی بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ اگر آپ اسے مشرک اس معنی میں قرار کہہ رہے ہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج اور دائمی جہنمی ہے تو اس معنی میں مشرک قرار دینا اہل علم اور اہل فتاوی کا حق ہے اور وہ بھی شرائط کے مکمل ہونے اور موانع کی عدم موجودگی میں۔
اگر آپ دوسرے معنی میں اس کو مشرک قرار دے رہے ہیں مثلا لغوی معنی میں مشرک یا اسے مشرک کہنے میں مقصود ترہیب اور انذار یعنی اسے اس کے اس شرکیہ فعل یا قول یا عقیدے اور اس کے اخروی انجام سے ڈرانا مقصود ہے تو اس معنی میں ایک داعی اور مبلغ کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ کسی شرکیہ قول یا فعل یا عقیدے کے حامل کو مشرک قرار دے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ٨
اگر مسلمان جہالت کی بنا پر یا تاویل کرتے ہوے اگر شرک میں مبتلا ہے اسکا کیا حکم ہے؟
ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ کسی شرک کے مرتکب کو دو معنوں میں مشرک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر تو بطور فتوی اسے مشرک یعنی دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا ہے تو اس صورت میں جہالت اور تاویل اسے مشرک قرار دینے میں موانع یا عذر شمار ہوتے ہیں لیکن اگر اسے دعوتی اعتبار سے ترہیب یا انذار کے پہلو سے مشرک کہنا مقصود ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس معنی میں اسے مشرک قرار دینا شریعت اسلامیہ کا مقصود امر ہے تا کہ اہل توحید اور اہل شرک میں تمییز ہو سکے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں فرق ہو سکے۔ اور موحدین اور مجرمین کی صفیں آخرت میں تو علیحدہ ہوں ہی گی، انہیں دنیا میں بھی علیحدہ کر دیا جائے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ٩
جو چیزیں تکفیر میں موانع ہے کیا وہی مشرک کہنے میں بھی موانع ہے؟
جی ہاں! موانع تکفیر کسی کو مشرک حقیقی قرار دینے میں بھی موانع ہیں۔ جس طرح اہل سنت نے کافر کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ایسے مشرکین کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا جائے گا۔ کافر کو اہل سنت کس طرح دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، اس پر ذرا غور کریں:
احادیث مبارکہ میں بہت سے کبیرہ گناہوں پر بھی کفر کا اطلاق کیا گیا ہے اوران گناہوں کے مرتکبین کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوق وَقِتَالُہ کفر))اور((من حلف بغیر اللہ فقد کفر)) اور ((مَنْ اَتٰی کَاھِنًا فصدقہ او اتی امراة فی دبرھا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا انزل عَلٰی مُحَمَّد)) اور ((بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاة)) اور((اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِر فَقَدْ بَاء بِھَا اَحَدُھُمَا))اور(( لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کفارا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رقاب بعض)) اور ((لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن))وغیرہ جیسی احادیث مبارکہ۔
اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا کام کرنے والا شخص ایسا کافر نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے اور دائمی جہنمی ہو۔ اہل سنت کی ایک جماعت اس کفر کو 'کفر دون کفر'' قرار دیتی ہے اور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کا کفر 'عملی کفر' ہے۔ ائمہ ثلاثہ امام مالک' امام شافعی' امام احمدرحمہم اللہ اور محدثین کا قول یہی ہے۔ جبکہ اہل سنت کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ کفر مجازی ہے یعنی حقیقی نہیں ہے امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کا یہی قول ہے۔ لہٰذ ایسے شخص کو عملی کافر کہیں یا مجازی کافر' بہر حال اس بات پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص کافر حقیقی نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔ اہل سنت و الجماعت یہ کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے توہماری کیا مجال ہے کہ ہم اسے کافر نہ کہیں لیکن وہ 'عملی کافر' یا 'مجازی کافر' ہے نہ کہ'حقیقی کافر' کہ جو دائرہ اسلام سے خارج' واجب القتل اور دائمی جہنمی ہو۔ اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ 'عقیدة طحاویة ' کی شرح میں لکھتے ہیں:
'' أن اھل السنة متفقون کلھم علی أن مرتکب الکبیرة لا یکفر کفرا ینقل عن الملة بالکلیة کما قالت الخوارج... وأھل السنة أیضا متفقون علی أنہ یستحق الوعید المرتب علی ذلک الذنب کما وردت بہ النصوص...ثم بعد ھذا الاتفاق تبین أن أھل السنة اختلفوا خلافاً لفظیاً' لا یترتب علیہ فساد' وھو: أنہ ھل یکون الکفر علی مراتب، کفرا دون کفر؟ کما اختلفوا : ھل یکون الایمان علی مراتب،ایمانا دون ایمان؟ وھذا الاختلاف نشأ من اختلافھم فی مسمی 'الایمان' : ھل ھوقول وعمل یزید وینقص، أم لا ؟ بعد اتفاقھم علی أن من سماہ اللہ تعالی ورسولہ کافرا نسمیہ کافرا،اذ الممتنع أن یسمی اللہ سبحانہ وتعالی الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافرا' ویسمی رسولہ من تقدم ذکرہ کافرا و لا نطلق علیھما اسم 'الکافر'۔ ولکن من قال : ان الایمان قول وعمل یزید وینقص قال : ھو کفر عملی لا اعتقادی،والکفر عندہ علی مراتب ' کفر دون کفر' کالیمان عندہ۔ ومن قال: ان الایمان ھو التصدیق ولایدخل العمل فی مسمی الایمان ' و الکفر ھو الجحود، ولا یزیدان ولا ینقصان قال : ھو کفر مجازی غیر حقیقی، ذ الکفر الحقیقی ھو الذی ینقل عن الملة.'' (شرح عقیدہ طحاویة : ص ٣٠١ ۔ ٣٠٤، الرئاسة لعامة لدارات البحوث العلمیة والفتاء والدعوة والرشاد، الریاض،١٣١٤ھ)
'' جمیع اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ایسا کفر نہیں کرتا کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے کلی طور پر خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج کا قول ہے...اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرتکب کبیرہ اپنے اس گناہ کبیرہ پراس وعید کا مستحق ہے جو نصوص میں وارد ہوئی ہے...پھر اس اتفاق کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں باہمی اختلاف لفظی اختلاف ہے اور اس سے کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا۔ اہل سنت کا باہمی اختلاف اس میں ہے کہ کیا کفر کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً کفر دون کفر وغیرہ جیسا کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ایمان کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً ایمان دون ایمان؟ اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ایمان کے 'مسمی' یعنی تعریف میں ان کا اختلاف ہے۔ کیا ایمان قول و عمل کا نام ہے جو گھٹتا ہے اور بڑھتا ہے یا ایسا نہیں ہے؟ اہل سنت کا اس بات میں بھی اتفاق ہے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے تو ہم بھی اسے کافر ہی کہیں گے کیونکہ یہ ناممکن امر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو کافر قرار دیں یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض افعال کے مرتکبین کو کافر کہیں' جیسا کہ پہلے احادیث گزر چکی ہیں' تو ہم ان افعال کے مرتکبین پر لفظ کافر کا اطلاق نہ کریں۔ پس جس کا کہنا یہ ہے کہ ایمان قول و عمل کانام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے تو اس کے نزدیک یہ 'کفر عملی' ہے نہ کہ اعتقادی، اور ان علماء کے ہاں ایمان کی طرح کفر کے بھی کئی درجات ہیں جیسا کہ'کفردون کفر' ہے۔ اور جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایمان، تصدیق کا نام ہے اور عمل ایمان کے مسمی یعنی تعریف میں داخل نہیں ہے اور کفر، انکار کا نام ہے اور یہ دونوں کم یا زیادہ نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا: یہ مجازی کفر ہے نہ کہ حقیقی، جبکہ حقیقی کفر وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔''
 
Top