السلام علیکم
عمران اسلم صاحب مجبورا! جواب دے رہا ہوں جواب تو بیشک لکھ دیا لیکن میرے طبیعت بہت خراب رہی سر میں چکر آرہے تھے اور جواب لکھ رہا کہاں کہاں اب بھی غلطی کی ہوں گی معلوم نہیں کیوں کہ بار بار سر کو دبا رہا تھا اور لکھ رہا تھا چلئے اللہ مالک ہے:
اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میں لے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
میں نے انسان کی دو صفت بتانے کی کوشش کی ہیں ملاحظہ فرمائیں’ ’انسان ‘‘ نسیان اور اُنس(محبت)بیک وقت دونوں سے متصف ہے ۔یعنی انسان میں (بوجہ جہالت’’
انہ کان ظلموما جھولاً‘‘) نسیان بھی ہے نسیان کی مثال
’’وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
نسیان کی چند مثالیں اور ملاحظہ فرمالیں:
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۶۱ [١٨:٦١]
جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا
اور یہ بھی:
قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَۃِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ۰ۡوَمَآ اَنْسٰنِيْہُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَہٗ۰ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ۰ۤۖ عَجَـــبًا۶۳ [١٨:٦٣]
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا۔ اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا
اور بوجہ اُنسیت کے محبت بھی ہےآپ کے خیال میں حضرت آدمؑ کی بھول کی وجہ سے انسان کو جنت زمین میں لے آیا گیا اور انھی کی وجہ سے انسان کو دنیا کی صورت میں امتحان گاہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان بہشت میں مزے لوٹ رہا ہوتا۔
اور آپ کا ارشاد بھول کا لفظ میں نے نہیں استعمال کیا یہ آپ کا میرے اوپر اتہام ہے میں نے لفظ ’’چوک‘‘ استعمال کیا ہے اور اس کی طرف بطور خاص نشان دہی بھی کی ہے اگر بھول کا لفظ ہم استعمال کریں تو مناسب نہیں کیوں کہ انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام اکمل ترین انسان ہوتے ہیں اس لیے بھول کی نسبت نبی کی طرف کرنا بے ادبی ہے واضح رہے بھول غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبی غافل نہیں ہوتا نبی کی غفلت جرم ہے اس لیے بھول نبی کے علاوہ ہرانسان سے ہوتی ہے
مزہ لوٹنا بھی آپ کی طرف سے اضافہ ہے میں نے مزہ لوٹنے والئے الفاظ استعمال نہیں کئے
اس حوالے سے عرض ہے کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جو جنت سے اترنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کسی گناہ کی سزا کے طور پر نہ تھا بلکہ اس حکم الٰہی سے اس اعلیٰ مقصد کی تکمیل تھی جس کے لیے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے صرف آدم کی ہی تخلیق نہیں فرمائی بلکہ ان سے پہلے زمین کی تخلیق فرمائی تھی اپنئ مقصد کی تکمیل کے لیے اور آدم علیہ السلام سے پہلے جنات کو آباد کیا تھا جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پیدا فرمایا ۔اور اور تکمیل مقاصد کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ پورہ قرآن پاک ہی اسی پس منظر میں نازل ہوا اور کسی نہ کسی واقعہ کے تحت نزول قرآن ہوا ۔اب اس بارے میں آپ کیا فرمائیں گے جن کو آیات کے نزول کے بعد سزائیں دی گئیں کیوں کہ ماحول تو اللہ تعالیٰ نے ہی بنایا تھا ( نعوذ باللہ من ذالک) قرآن کی تکمیل کے لیے پھر لوگوں کو سزائیں کس بات کی جب کہ قرآن پاک لوح محفوظ میں بعینہ محفوظ تھا ۔ اللہ تعالیٰ حالات پیدا کرتے چلے گئے اور لوگوں کو سزائیں ملتی رہی اور ملزم انسان کو ہی ٹھہرایا گیا ۔ اور اگر یہی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر ابلیس کو مردود کیوں قراردیا گیایہ تو اللہ تعالیٰ کو کرنا ہی تھا یہ اللہ تعالیٰ کےمنشاء کی تکمیل تھی اور جیسا آپ نے مولانا مودودی کا حوالہ دیا ( جب کہ مولانا کی بات تو ویسے بھی قابل قبول نہیں کیوںکہ وہ مستند مولانا نہیں تھے بلکہ عالم کی صحبت یا فتہ تھے ۔ جس طرح محدچین حضرات کسی عیب والے شخص کی حدیث نہیں لیتے تھے اسی طرح ان کا قول بھی قابل التفات نہیں)
دوسرا حوالہ آپ نے مولانا شفیع صاحب کا دیا جو آپ کے یہاں معتبر نہیں
آپ کے بقول ایک پری پلان کے تحت یہ سب کام طے پارہے ہیں تو پھر یہ جزا سزا کا معاملہ انسان کے ساتھ کیوں لگا ہوا ہے اس کوآپ مجھے سمجھائیں گے۔
یہ تھا حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کا منشا و مقصد۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ عالم ارضی حضرت آدمؑ کے لیے دار العذاب تھا نیز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح بھی کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کر کے ان کی لغزش کو معاف فرما دیا تھا اور انھیں دوبارہ اپنی رحمت و توجہ و تقرب کا مستحق بنا کر نبوت و رسالت کا مقام بلند عطا فرمایا تھا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔
مولانا مودودیؒ آیت ’قلنا اهبطوا منها جميعا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمؑ نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدمؑ اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا نہ ان کی نسل کے دامن پر..... اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضیٰ نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کےطور نہیں اتارے گئے بلکہ انھیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصل جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی، البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن: ج1 ص 68، 69]
اسی طرح سورۃ اعراف کی آیت ’قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو‘ کی شرح میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:
یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انھیں معاف کر دیا لہٰذا اس حکم میں سزا کا پہلو نہیں ہے بلکہ اس منشا کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان ک پیدا کیا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن : ج2 ص 18]
اسی طرح مفتی محمد شفیع صاحب نے ’معارف القرآن‘ میں سورۃ بقرۃ کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:
آدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لیےتھا۔ [معارف القرآن : ج1 ص 142]
فلہٰذا حضرت آدمؑ کی خطا کی وجہ سے انسان کا دنیا میں آنا قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ زمین میں انسانوں کی تخلیق کا اعلان کر چکے تھے۔ اور اگر انسان کو بطور سزا ہی زمین پر بھیجا گیا ہے تو پھر حضرت آدم کی توبہ قبول ہونے کا کیا معنی ہے؟ یہ سزا تو تب دی جائے جب اللہ تعالیٰ نےتوبہ قبول نہ کی ہو۔ ایسے میں
توبہ قبول ہونا اور توبہ کرنا یہ خود اس بات پر دال ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلطی ہوئی ۔اس کا آدم علیہ السلام کو احساس ہوا اور زمیں پر آنے کے بعد برسوں تک روتے رہے تب کہیں جا کر معافی تلافی ہوئی ان سب واقعات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگاہ کرنے کے بعد بھی چوک ہوگئی اب اس کو کچھ بھی کہہ لیں حیلہ کہہ لیں یا پری پلان کہہ لیں ۔نہ آدم علیہ السلام ایسا کرتے اور نہ ایسا ہوتا
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘
جیسے جملے بولنا اور اس کا انطباق حضرت آدمؑ جیسی بزرگ ہستی پر کرنا سراسر ظلم ہے۔ اس ضمن میں قرآن نے تو ہمیں یہ اصول دیا ہے:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
اس بات کو بھی میں نہیں کہہ رہا لیجیے ملاحظہ فرمائیں
مستند احاديث سے ثابت ہے كہ حضرت حواء عليہا السلام نے حضرت آدم عليہ السلام كو غلط مشورہ ديا ۔
لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم ولولا حواء لم تخن أنثى زوجها يہ متفق عليہ حديث كے الفاظ ہیں :" اگر حوا نہ ہوتیں تو كوئى عورت اپنے شوہر كى خيانت نہ كرتى "۔ اس خيانت كا معنى ہے
كانت خيانتها في دعوتها آدم عليه السلام إلى الأكل من الشجرة التي نهي عن الأكل منها
حضرت آدم عليہ السلام كو ممنوعہ درخت سے پھل كھانے کا کہنا ۔
صحيح البخارى : كتاب الانبياء، باب قول اللہ تعالى ، حديث نمبر 3152
صحيح مسلم : كتاب الرضاع، باب لولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر، حديث نمبر 3723،3724،
مزید آپ نے اسی پوسٹ میں لکھا:
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘
یہ تسلیم کہ بڑوں کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن بڑوں کی باتوں میں عقل کو دخل ہی نہ دیا جائے یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔ پھر اس کے متصل بعد ہی آپ نے لکھ مارا :
یہ لکھ مارا کون سی اصطلاح ہے یہ تو بہت ہی گھٹیا قسم کے الفاظ ہیں بالکل بازاری زبان ہے اور اپنے سے کم ترآدمی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ایک طرف تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’آپ مفتی ہیں تو آپ کی عمر پچاس سال کے آس پاس ہوگی’’ لکھ مارا ‘‘یہ آپنے پہلا ہی اصول توڑ دیا یہی تو باتیں ہیں جو دل کو کاٹتی ہیں
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے۔
جب بڑوں کی باتوں پر عقل کا استعمال ہی نہیں کرنا تو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ خیر کی بات ہے یہ شر کی؟؟
یہ بڑوں کی باتیں ہی تو ہیں جن کی تشریح آج تک کی جارہے کیا انبیاء ورسل علیہم السلام اور صحابہ کرام علماء کرام بڑے نہیں ہوتے کیا ان کی باتیں قابل قبول نہیں ہوتی اور کیا والدین کے ساتھ بھی زبان چلانے اجازت ہے اگرکوئی بچہ اپنے باپ کو ہی سمجھانے لگے تو کیسا لگے گا جب کہ اب تو یہ چلن نکل پڑا ہے کہ بچے ماں باپ کو سمجھانے لگے ہیں یہ شاید آپ ان کی ہی حمایت فرمارہے ہیں
ویسے ہمارے صاحبانِ طریقت آپ کے پہلے جملے پر بخوبی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خوددکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
اپنی دوسری پوسٹ میں آپ نےحضرت خضرؑ کے صاحب طریقت ہونے پر جو نگارشات اور ’بیچارے‘ حضرت موسیؑ کے ’صاحب شریعت ‘ہونے سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا جائزہ میں اگلی پوسٹ میں لوں گا۔
ارے بھائی دوسری پوسٹ میں کیوں خبر لیں سب باتیں ایک دفعہ ہی نبٹا لیں
کیا حضرت خضر علیہ لسلام علم لدنی عطا نہیں ہوا تھا ۔ میں واضح کرکرے چلا ہوں کہ طریقت اور شیریعت ایک ہی چیز ہے
البتہ اتنا ضرور ہے کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام کے ہاس تھا وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے کچھ مخصوص علم حضرت علیہ السلام کو دیا تھا جس کو باطنی علم یا چھپا ہوا علم کہتے ہیں اور اسی باطنی علم کو علم کا ایک طریقہ کہا جا تا ہے اسی طریقہ کو طریقت سے تشبیہ دے دی گئی اس مین کون سے پہاڑ ٹوٹ گئے اور کون سا شریعت کا اصول ٹوٹ گیا کیا صراط المستقیم قرآن پاک میں استعمال نہیں ہے اور کیا طریق کا لفظ قرآن پاک میں استعمال نہیں ہوا ۔ اسی طریق ھدایت کو طریقت کہا جا تا یعنی شریعت کا راستہ جسکو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ ہم تک پہنچایا۔
اور یہ کھلی بات ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی بات پر عمل کرتے رہتے تو ان کو اور بھی عجائبات معلوم پڑتے۔
اور ’
قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْساً زَكِيّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لّقَدْ جِئْتَ شَيْئاً نّكْراً سے کیاسمجھیں گے آپ موسیٰ علیہ السلام کیوں کہ صاحب شریعت تھے اس لیئے کہ ان کی شریعت میں قتل جائز نہیں تھا اس لیے انہوں نے شرعی قانون کے مطابق ٹوکا اب آپ مجھے اس وقعہ کی روشنی میں واضح فرمادیں کہ خضر علیہ السلام کے ہاس کون سا علم تھا ۔
اس کے علاوہ کچھ یہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۶۵ [١٨:٦٥]
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
اور یہ بھی:
قَالَ لَہٗ مُوْسٰي ہَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۶۶ [١٨:٦٦]
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ
جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
اور یہ بھی:
وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۶۸ [١٨:٦٨]
اور جس بات کی
تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو
اور تفسیر ابن کثیر کی یہ عبارات ملاحظہ فرمائیں:
وقوله تعالى: {رحمة من ربك وما فعلته عن أمري} أي هذا الذي فعلته في هذه الأحوال الثلاثة, إنما هو من رحمة الله بمن ذكرنا من أصحاب السفينة, ووالدي الغلام وولدي الرجل الصالح, وما فعلته عن أمري أي لكني أمرت به ووقفت عليه, وفيه دلالة لمن قال بنبوة الخضر عليه السلام مع ما تقدم من قوله: {فوجدا عبداً من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علماً} وقال آخرون: كان رسولاً. وقيل: بل كان ملكاً, نقله الماوردي في تفسيره, وذهب كثيرون إلى أنه لم يكن نبياً, بل كان ولياً, فالله أعلم.
أَمّا السّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مّلِكٌ يَأْخُذُ كُلّ سَفِينَةٍ غَصْباً
هذا تفسير ما أشكل أمره على موسى عليه السلام, وما كان أنكر ظاهره, وقد أظهر الله الخضر عليه السلام على حكمة باطنة, فقال:
وقوله: {وكان أبوهما صالحاً} فيه دليل على أن الرجل الصالح يحفظ في ذريته وتشمل بركة عبادته لهم في الدنيا والاَخرة بشفاعته فيهم, ورفع درجتهم إلى أعلى درجة في الجنة, لتقر عينه بهم, كما جاء في القرآن ووردت به السنة. قال سعيد بن جبير عن ابن عباس: حفظا بصلاح أبيهما, ولم يذكر لهما صلاحاً, وتقدم أنه كان الأب السابق, فالله أعلم. وقوله: {فأراد ربك أن يبلغا أشدهما ويستخرجا كنزهما} ههنا أسند الإرادة إلى الله تعالى, لأن بلوغهما الحلم لا يقدر عليه إلا الله, وقال في الغلام {فأردنا أن يبدلهما ربهما خيراً منه زكاة} وقال في السفينة {فأردت أن أعيبها} فالله أعلم
ان سب کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
علم لدنی عظافرمایا تھا جس کا
القاء رجل صالح کے قلب سلیم پر ہوتا ہے جس کو ابن کثیرؒ نے
باطنی علم وحکمت سے تعبیر کیا ہے
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ وہ ولی تھے یا نبی ابن کثیر ؒ ولی کا لفظ استعمال فرمایا ہے بہرحال اگر سورہ کہف کا باریکی سے مطالعہ کیا جائے تو معلومات کا خزانہ ہے۔
ہمیں سوال جواب سے انکار نہیں لیکن طریقہ سوال پر اعتراض ہے سائلین کا طریقہ الگ ہوتا ہے اور معترضین کا الگ سائل کو مطمئن کیا جا سکتا ہے معترض کو نہیں اور اس کا اندازہ سائل کی عبارت سے ہوجاتا ہے اس لیے مجبوراً ہمیں شیخ عطار( فریدالدین) کے پند نامہ کی نصیحتوں پر عمل کرنے میں عافیت نظر آتی ہے۔ استفادہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی (عالم)کسی بات کو بیان کررہا ہے تو پہلے اس کی اپنے طور پر تطبیق کرنی چاہئے کتا بوں سے رجوع کرنا چاہئے پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو متعلقہ عالم سے رجوع بہت عمدگی سے کرنا چاہئے بعض طبائع بہت حساس اور نازک ہوتی ہیں کسی کو پانی بوند گرنے سے ہی تکلیف ہوتی ہے یا گھڑے کا ڈھکن غلط رکھا ہوا ہونے کی وجہ سے ہی سر میں درد ہونے لگتا ہے اور کسی کے سر ڈھول بجائے جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ میں پہلے ہی سوچ سمجھ کر لکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کس فورم پر کام کررہا ہوں اس لیے میں ائمہ اربعہ کے حوالوں سے گریز کرتا ہوں اور قرآن وحدیث تک ہی محدود رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔شخصیات سے میں مرعوب نہیں ہوتا سب اپنے اپنے حساب سے بات بیان کرتے ہیں غلط بھی ہوتی ہیں اور صحیح بھی ۔ لوگوں کے اذہان بھی الگ ہوتے ہیں کسی کو مولانا مودودی پسند ہیں تو کسی کو ڈاکٹر ذاکر نائک کسی وؤکو طاہر القادری تو کسی کوعلامہ البانی اسی طرح کوئی رشدی کو پسند کرتا ہے تو کوئی کسی کو تو سب کو کوئی مطمئن نہیں کرسکتا ۔ ہم نے اپنی تحقیق کے مطابق بات پیش کردی جو ہمیں اچھی لگتی تھی میں اپنی سوچ کا پابند ہوں دوسروں کا نہیں فقط واللہ اعلم بالصواب