Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کا بیان
- "حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لانبے تھے ، نہ کوتاہ قد، ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں پُر گوشت تھے (یہ صفات مردوں کے لئے محمود ہیں اس لئے کہ قوت اور شجاعت کی علامت ہیں۔ عورتوں کے لئے مذموم ہیں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بھی بڑا تھا۔ اور اعضاء کے جوڑ کی ہڈیاں بھی بڑی تھیں ۔ سینہ سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک باریک دھاری تھی۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے گویا کہ کسی اونچی جگہ سے نیچے کو اتر رہے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ حضور سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔"
- "حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ میں نے کسی پٹھوں والے کو سرخ جوڑے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈھوں تک رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کا حصہ ذرا زیادہ چوڑا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لانبے تھے نہ ٹھگنے۔"
- "حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت لانبے قد کے تھے نہ پستہ قد (جس کو ٹھگنا کہتے ہیں) بلکہ آپ کا قد مبارک درمیانہ تھا اور نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونہ کی طرح ، نہ بالکل گندم گوں کہ سانولا بن جائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پُر نور اور کچھ ملاحت لئے ہوئے تھے) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ بالکل سیدھے تھے نہ بالکل پیچدار (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) چالیس برس کی عمر ہو جانے پر حق تعالی جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اور پھر دس برس مکہ مکرمہ میں رہے (اس میں کلام ہے جیسا کہ فوائد میں آتا ہے)۔"
- "حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد تھے ، نہ زیادہ طویل نہ کچھ ٹھگنے، نہایت خوبصورت معتدل بدن والے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے نہ بالکل سیدھے (بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) نیز آپ گندمی رنگ کے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم راستہ چلتے تو آگے کو جھکے ہوئے چلتے۔"
- "حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک دریافت کیا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بہت ہی کثرت سے اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے۔ مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ ان اوصاف جمیلہ میں سے کچھ میرے سامنے بھی ذکر کریں تاکہ میں ان کے بیان کو اپنے لئے حجت اور سند بناؤں ۔ (اور ان اوصاف جمیلہ کو ذہن نشین کرنے اور ممکن ہو سکے تو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کروں ، حضرت حسن رضی اللہ تعالہ عنہ کی عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت سات سال کی تھی۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جمیلہ میں اپنی کمسنی کی وجہ سے تامل اور کمال تحفظ کا موقع نہیں ملا تھا) ماموں جان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ شریف کے متعلق یہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے شاندار تھے۔ اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ماہ بدر کی طرح چمکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بالکل متوسط قد والے آدمی سے کسی قدر طویل تھا۔ لیکن لانبے قد والے سے پست تھا، سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے۔ اگر سر کے بالوں میں اتفاقا خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے (یہ مشہور ترجمہ ہے اس بناء پر یہ اشکال پیش آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قصداً مانگ نکالنا روایات سے ثابت ہے۔ اس اشکال کے جواب میں علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس کو ابتدائے زمانہ پر حمل کیا جائے کہ اول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام نہیں تھا، لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک یہ جواب اس لئے مشکل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ مشرکین کی مخالفت اور اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نہ نکالنے کی تھی، اس کے بعد پھر مانگ نکالنی شروع فرما دی، اس لئے اچھا ترجمہ جس کو بعض علماء نے ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بسہولت مانگ نکل آتی تو نکال لیتے اور اگر کسی وجہ سے بسہولت نہ نکلتی اور کنگھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اس وقت نہ نکالتے، کسی دوسرے وقت جب کنگھی وغیرہ موجود ہوتی نکال لیتے)"
- "جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فراخ دہن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے، ایڑی مبارک پر بہت کم گوشت تھا۔"
- "حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں ، کہ میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سرخ جوڑا زیب تن فرما تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، بالآخر میں نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ جمیل وحسین اور منور ہیں ۔"
- ابو اسحاق کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت براء سے پوچھا کہ کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح شفاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ بدر کی طرح روشن گولائی لئے ہوئے تھا۔
- "ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر صاف شفاف حسین و خوبصورت تھے کہ گویا کہ چاندی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک قدرے خمدار گھونگریالے تھے۔"
- "جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں ، کہ مجھ پر سب انبیاء علیہم الصلوة والسلام پیش کئے گئے یعنی مجھے دکھائے گئے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو میں نے دیکھا تو وہ ذرا پتلے دبلے بدن کے آدمی تھے گویا کہ قبیلہ شنوئیہ کے لوگوں میں سے ہیں، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو ان سب لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں عروة بن مسعود ان سے زیادہ ملتے جلتے معلوم ہوئے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں سے میں خود ہی ان کے ساتھ مشابہ ہوں ، ایسے ہی جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تو ان کے ساتھ زیادہ مشابہ ان لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں وہ دحیہ کلبی ہیں ۔"
- "سعید جریری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والوں میں اب روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں رہا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ حلیہ بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفید رنگ تھے۔ ملاحت کے ساتھ یعنی سرخی مائل اور معتدل جسم والے تھے۔"
- "ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے یعنی ان میں کسی قدر ریخیں تھیں گنجان نہ تھے جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تکلم فرماتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔"
- "حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردِ میانہ قد تھے۔ (قدرے درازی مائل جیسا کہ پہلے گزر چکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان قدرے اوروں سے زیادہ فاصلہ تھا۔ (جس سے سینہ مبارک چوڑا ہونا بھی معلوم ہو گیا) گنجان بالوں والے ، جو کان کی لو تک ہوتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سرخ دھاری کا جوڑا یعنی لنگی اور چادر تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔"
- "ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لانبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے۔ بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لانبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلاً کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہو جاتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لا پرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہو جاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے )۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بھی فرمایا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ فرماتے تو تمام چہرہ مبارک سے فرماتے ، کن اکھیوں سے نہیں ملاحظہ فرماتے تھے۔ مگر یہ مطلب اچھا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ختم کرنے والے تھے نبیوں کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی دل والے تھے۔ اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے۔ اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ (غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہو جاتا تھا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول وہلہ میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آ جاتا تھا) اول تو جمال و خوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے شوق افزوں مانع عرض تمنا آداب حسن بارہا دل نے اٹھائے ایسی لذت کے مزے اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا۔ اس کے علاوہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالی کی طرف سے عطا کیا گیا۔ اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ و اوصاف جمیلہ کا گھائل ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بنا لیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا با جمال و با کمال نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)"