السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته
کیا ایک شخص کے فوت ہونے کے بعد اس کی چیزیں اور پہننے کے کپڑے اس کے گھر والے استعمال کر سکتے ہیں یا ان چیزوں کو صدقہ کر دینا چاہیئے.
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سوال کا جواب سعودی عرب کے جید علماء کے قلم سے پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــ
هل يجب التصدق بملابس الميت
عنوان : کیا میت کے زیر استعمال کپڑے (اور دیگر اشیاء ) صدقہ کردینا ضروری ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السؤال
هل صحيح ما يقوله الناس إذا توفي الميت يجب التصدق بجميع ملابسه ومستلزماته قبل اليوم الثالث من موته ؟ وماذا نفعل بملابس الميت وأدواته اليومية ؟
سوال : کیا یہ صحیح ہے کہ میت کے زیر استعمال کپڑے اور اس کے پہننے کی دیگر اشیاء اس کے مرنے کے بعدتین دن پورے ہونے سے پہلےصدقہ کرنا ضروری ہیں ؟
اور میت کے روز مرہ زیر استعمال چیزوں کا صحیح مصرف کیا ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نص الجواب
الحمد لله
هذا القول غير صحيح ، بل ملابس الميت ومستلزماته تدخل في جملة تركته ، ويستحقها ورثته ، ولهم استعمالها أو بيعها ، ولا يجب عليهم التصدق بها ، لكن إن اختاروا أن يتصدقوا بها ابتغاء الأجر ، فهذا لهم ، بشرط أن يكونوا بالغين راشدين ، وأما الصغير فليس لأحد أن يتصدق بنصيبه من هذه الأشياء أو غيرها
اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد واضح ہو کہ :
" میت کے زیر استعمال کپڑے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء اس کے مجموعی ترکہ کا حصہ ہوتی ہیں ، ان اشیاء کے اصل مستحق میت کے شرعی ورثاء ہیں ، یہ متروکہ اشیاء جن ورثاء کے حصہ میں آئیں وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں ،یا بیچ دیں ان کی مرضی پر منحصر ہے ، ان چیزوں کو صدقہ کرنا ضروری نہیں ، ہاں اگر وہ خود اپنی مرضی سے ان اشیاء کو اجر و ثواب کی غرض سے صدقہ میں دے دیں تو یہ ان کا اختیار ہے ، ان پر کوئی قدغن نہیں ،لیکن شرط یہ ہے ترکہ میں آئی اشیاء کو صدقہ کرنے والے بالغ ہوں ، نابالغ بچے ان چیزوں کو صدقہ نہیں کرسکتے ،
وقد سئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : هل يجوز لأهل الميت أن يستخدموا ملابس الميت؟
مشہور مفتی شیخ محمد صالح العثیمینؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا میت کے ورثاء میت کے زیر استعمال کپڑے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء خود استعمال کرسکتے ہیں ؟
فأجاب رحمه الله تعالى: نعم إذا مات الميت فجميع ما يملكه ملك للورثة من ثياب وفرش وكتب وأدوات كتابة وماصة ( منضدة ) وكرسي كل شيء حتى شماغه وغترته التي عليه ، تنتقل إلى الورثة ، وإذا انتقلت إلى الورثة فهم يتصرفون فيها كما يتصرفون بأموالهم ، فلو قالوا - أي الورثة - وهم مرشدون : ثياب الميت لواحد منهم ، ولبسها ، فلا بأس . ولو اتفقوا على أن يتصدقوا بها فلا بأس ، ولو اتفقوا على أن يبيعوها فلا بأس ، هي ملكهم يتصرفون فيها تصرف الملاك في أملاكهم " انتهى من "فتاوى نور على الدرب".
جواب :
تو شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ہاں میت کے ورثا میت کی ملکیت تمام چیزیں جو اس نے ورثاء کیلئے چھوڑی ہیں ،خواہ کپڑے ہوں ،کتب ہوں یا میز کرسی حتی کہ اس کے زیر استعمال کپڑے رومال اور دیگر روز مرہ کی اشیاء ان چتمام چیزوں کی ملکیت ورثاء کو منتقل ہوجاتی ہے ، کیونکہ میت کی چھوڑی ہوئی ساری چیزیں مجموعی ترکہ کا حصہ ہوتی ہیں ، ان اشیاء کے مستحق میت کے شرعی ورثاء جنہیں یہ اشیاء اپنے شرعی حصہ کے طور پر ملی ہوں وہ ان اشیاء میں تصرف کا پورا اختیار رکھتے ہیں، میت کے ترکہ کے یہ شرعی ورثاء ان چیزوں کو صدقہ میں دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں ،اور اگر خود استعمال کرنے کی بجائے انہیں بیچنا چاہیں تو بیچ بھی سکتے ہیں ،کیونکہ وہ اشیاء ان کی ملکیت ہیں وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں ۔
اور مشہور معتبر عالم شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے سوال ہوا کہ :
وسئل الشيخ صالح الفوزان حفظه الله : هل يجوز الاحتفاظ بملابس الميت وإن لم يكن ذلك جائزًا فما هو الأفضل أن يفعل بها ؟
سوال : کیا میت کے زیر استعمال لباس کو محفوظ کرکے رکھ لینا (یادگار کے طور پر ) جائز ہے ؟
اگر ایسا کرنا جائز نہیں تو کون سی صورت افضل ہے ؟
فأجاب : " يجوز الانتفاع بملابس الميت لمن يلبسها من أسرته ، أو أن تعطى لمن يلبسها من المحتاجين ولا تهدر ، وعلى كل حال هي من التركة إذا كانت ذات قيمة فإنها تصبح من التركة تلحق بتركته وتكون للورثة
شیخ حفظہ اللہ نے جواب دیا کہ :
میت کے زیر استعمال لباس کو استعمال کرنا اس کے گھر والوں کیلئے جائز ہے ،اور ان کیلئے یہ بھی جائز ہے کہ یہ کپڑے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دے دیں ،اور میت کی چھوڑی ہوئی کوئی بھی چیز جس کی کوئی قیمت ہو وہ اس میت کے ترکہ کا حصہ ہوتی ہے ،اور میت کے ورثآء کے حصہ میں آتی ہے (وہ اس چیز کا جو استعمال کرنا چاہیں کرسکتے ہیں )
والاحتفاظ بها للذكرى لا يجوز ولا ينبغي ، وقد يحرم إذا كان القصد منها التبرك بهذه الثياب ، وما أشبه ذلك ، ثم أيضًا هذا إهدار للمال ، لأن المال ينتفع به ، ولا يجعل محبوسًا لا ينتفع به " انتهى من "المنتقى" (2/271).
میت کی چھوڑی ہوئی ان اشیاء کو محض یادگار بناکر محفوظ کرلینا جائز نہیں ، اور ان چیزوں کو تبرک کے طور پر (یعنی حصول برکت کیلئے ) سنبھال کر رکھنا یا ایسے کسی اور غیر شرعی قصد سے محفوظ کرنا تو حرام ہے ،میت کی چھوڑی ہوئی کسی قابل استعمال چیز کواستعمال کرنے کی بجائےمحض یادگار بنا کر رکھ چھوڑنا اس کو ضائع ،رائیگاں کرنا ہے جبکہ اس دنیا میں حاصل ہونے والا کسی بھی صورت کا مال انسانی فائدہ کیلئے ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھائے بغیر اسے رکھ چھوڑنا ٹھیک نہیں ۔
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/answers/102403/