وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شادی کے بعد شوہر کا نام اپنے نام کیساتھ لگانا کیسا ہے؟
ہمارے معاشرہ میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد خواتین اپنے نام کے ساتھ شوہر کانام لگا لیتی ہیں۔کچھ اہل علم اسے غلط قرار دیتے ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ یہ مغربی روایت ہے دین اسلام میں اسکا ثبوت نہیں ملتا۔ اور یہ کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ کے سوا کسی طرف نسبت کرنے سے منع کیا ہے۔ جبکہ کچھ اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ ان دو متضاد نظریات میں سے صحیح کونسا ہے؟
الجواب بعون الوہاب
حدیث میں جس کام سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اصل والد کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کرے۔ سیدنا واثلہ بن الاَسْقَع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ
بڑے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور (کا بیٹا ہونے) کا دعوى کرے۔
صحیح بخاری:3509
اسی طرح سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
«مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ»
جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کا دعوى کیا‘ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اسکا باپ نہیں ہے‘ تو اس پر جنت حرام ہے۔
صحیح البخاری:6766
اسی بات سے قرآن مجید میں اللہ تعالى نے بھی بایں طور منع فرمایا ہے:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ
ان (منہ بولے بیٹوں ) کو انکے (اصل) باپوں کے نام سے پکارو ‘ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں انکے آباء کا علم نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست(یا غلام) ہیں۔
[الأحزاب : 5]
البتہ اپنے نام کے ساتھ والد کے سوا کسی کا نام لگانا یا اسکی طرف نسبت کرنا اس انداز سے ہو جس سے ولدیت تبدیل نہ ہو ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے داد کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:
«أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ»
میں نبی ہوں‘ اس میں کوئی جھوٹ نہیں.. . میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں
صحیح البخاری: 2864
اسی طرح سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ الاسود بن عبد یغوث الزہری کے زیر پرورش تھے‘ جس بناء پر وہ مقداد بن الاسود مشہور ہوگئے حالانکہ انکے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ بن مالک البہرانی الکندی تھا۔ چونکہ انکی ولدیت معروف تھی کہ یہ کس کے بیٹے ہیں ‘ سو اسلام نے مقداد بن الاسود کہنے یا کہلانے پر کوئی نکیر نہیں کی۔ یاد رہے کہ یہ بدری صحابی ہیں‘ اور چھٹے مسلمان ہیں۔ انکی وفات مدینہ سے قریب جرف نامی جگہ پر 33 ہجری کو ہوئی۔
اسی طرح اسلام میں خواتین کی نسبت خاوند کی طرف کرنا بھی ممنوع نہیں ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا جب زکاۃ کے بارہ میں مسئلہ پوچھنے کے لیے آئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ زینب مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی ہے اور وہ اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کونسی زینب ہے؟ تو جواب دیا گیا « امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ » ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔
صحیح البخاری: 1462
یہاں بھی زینب رضی اللہ عنہا کی نسبت انکے خاوند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی۔اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ عورت کی نسبت اسکے خاوند کی طرف دور نبوی میں بھی کی جاتی تھی ۔ بالخصوص رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا تذکرہ ہوتا تو انکے نام کے ساتھ والد کا نام ذکر کرنے کی بجائے زوجہ رسول کہہ کر تذکرہ کیا جاتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کانام اپنے نام کے ساتھ لگانا کوئی عیب نہیں‘ اصل عیب اور ممنوع اور حرام کام اپنے والد کے سوا کسی اور کو اپنا باپ قرار دے لینا ہے۔
اور پھر ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے نام عموما باپ کے نام سے خالی ہوتے ہیں مثلا " مریم بی بی‘ ثمینہ کوثر‘ زبیدہ خاتون" وغیرہ اور شادی کے بعد اپنے نام کا دوسرا حصہ ختم کرکے وہ اسکی جگہ خاوند کانام لگا لیتی ہیں جیسے " مریم رشید‘ ثمینہ طالب‘ زبیدہ ارشد" وغیرہ۔ تو اس سے کسی قسم کا اشتباہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ عورت کو جاننے والے سبھی جانتے ہیں کہ اسکے نام کا دوسرا حصہ اسکے خاوند کانام ہے جو کہ اس نے خاوند کی محبت میں اپنے نام کے ساتھ ملا لیا ہے۔
بعض لڑکیوں کے نام ابتداء میں والد کے نام کے لاحقہ پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے "حمنہ اسلم‘ عائشہ اختر‘ آمنہ آصف" ان ناموں میں اسلم ‘ اختر‘ آصف انکے والد کانام ہوتا ہے اور شادی کے بعد وہ اس کی جگہ اپنے خاوند کا نام لگا لیتی ہیں جیسے "حمنہ اشرف‘ عائشہ افضل‘ آمنہ اکرم" وغیرہ۔ تو یہ بھی انکے جاننے والوں سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکے خاوندوں کے نام ہیں۔
اور اس طرح کرنا ولدیت تبدیل کرنا نہیں بلکہ نام تبدیل کرنا کہلاتا ہے۔ اور نام عمر کے کسی بھی حصہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس بارہ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مناسب موقعوں پر مختلف لوگوں کے نام تبدیل فرمائے ہیں۔
اور اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانے کو مغربی معاشرہ کی روایت قرار دینا سراسر نا انصافی ہے. کیونکہ اہل مغرب کی روایت میاں بیوی والی نہیں بلکہ انکی روایت تو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ والی ہے۔ جنکی دوستیاں صرف شہوت رانی کے لیے ہوتی ہیں یا کسی اور مطلب کی حدتک۔ فتدبر!
شیخ
@رفیق طاھر حفظہ اللہ