• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوہر کی خواہش۔۔۔خدمت گزار بیوی

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
‫​
شادی کے بعد مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی خدمت گزاربن جائے ۔ اس کے کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے کا شیڈول اس کی بیوی کے پاس ہو۔ باوقت اسے لباس ملے، وقت پرکھانا اس کے سامنے حاضر ہو، اسے خود جو تے پالش کرنے، اور لباس استری کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ ظاہر ہے جو بیوی خدمت گزار ی کا جذبہ لے کر ا س کے گھر آئی ہو وہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے گی، اس کے بغیر خاوند کا ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا اور یہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ اس کا خاوند اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنے سے عاجز ہو جائے اور یہ درجہ خدمت گزاری کے بغیر نہیں مل سکتا۔ صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں، اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا درج ذیل بیان قابل غور ہے، وہ فرماتی ہیں کہ "زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کو ئی مال، کو ئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، اسے پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں، میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی ، اس زمین سے میں کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لایا کر تی تھی جبکہ یہ زمین گھر سے دومیل دور تھی۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ) نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کا م کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر )مجھ کو آزاد کر دیا۔" (صحیح بخاری : کتاب النکاح :باب الغیرة۔۔۔(حدیث۵۲۲۴)صحیح مسلم : کتاب السلام (حدیث ۲۱۸۲)احمد (ج۴ص۵۲۲)‬​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
‫​
شادی کے بعد مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی خدمت گزاربن جائے ۔ اس کے کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے کا شیڈول اس کی بیوی کے پاس ہو۔ باوقت اسے لباس ملے، وقت پرکھانا اس کے سامنے حاضر ہو، اسے خود جو تے پالش کرنے، اور لباس استری کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ ظاہر ہے جو بیوی خدمت گزار ی کا جذبہ لے کر ا س کے گھر آئی ہو وہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے گی، اس کے بغیر خاوند کا ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا اور یہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ اس کا خاوند اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنے سے عاجز ہو جائے اور یہ درجہ خدمت گزاری کے بغیر نہیں مل سکتا۔ صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں، اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا درج ذیل بیان قابل غور ہے، وہ فرماتی ہیں کہ "زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کو ئی مال، کو ئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، اسے پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں، میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی ، اس زمین سے میں کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لایا کر تی تھی جبکہ یہ زمین گھر سے دومیل دور تھی۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ) نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کا م کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر )مجھ کو آزاد کر دیا۔" (صحیح بخاری : کتاب النکاح :باب الغیرة۔۔۔(حدیث۵۲۲۴)صحیح مسلم : کتاب السلام (حدیث ۲۱۸۲)احمد (ج۴ص۵۲۲)‬​
جزاک اللہ خیرا
بہت اچھی پوسٹ ہے، اس سے ایک اور اہم بات بھی کہ صحابیات تنگی و خوشحالی دونوں حالتوں میں شوہر کا ساتھ دیتی تھیں، آج کل کی خواتین کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو سکھ میں تو شوہر کا ساتھ دیتی ہیں لیکن دکھ (بیماری، پریشانی، مال کی تنگی) وغیرہ میں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ارسلان بھائی اس زمانہ میں بھی بیویاں اپنے شوہر کی تنگی حالت میں بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں، مسئلہ ابتدائی دور کا ھے جس میں شوہر اور ان کے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ھے۔

والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم

ارسلان بھائی اس زمانہ میں بھی بیویاں اپنے شوہر کی تنگی حالت میں بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں، مسئلہ ابتدائی دور کا ھے جس میں شوہر اور ان کے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ھے۔

والسلام
وعلیکم السلام
کنعان بھائی! ایسا وہی عورت کر سکتی ہے، جو دینی شعور رکھتی ہو، جسے پتہ ہو کہ اب نبھانا ہے، ورنہ اکثریت ایسی نہیں ہے۔اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا
بہت اچھی پوسٹ ہے، اس سے ایک اور اہم بات بھی کہ صحابیات تنگی و خوشحالی دونوں حالتوں میں شوہر کا ساتھ دیتی تھیں، آج کل کی خواتین کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو سکھ میں تو شوہر کا ساتھ دیتی ہیں لیکن دکھ (بیماری، پریشانی، مال کی تنگی) وغیرہ میں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین
اللہ آپ کی مدد فرمائے۔آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ارسلان بھائی سبھی نبھانے کے لئے ہی شادی کے بندھن میں بندھتی ہیں مگر کہیں نہ کہیں شوہر اور ان کے گھر والوں سے کوتاہی ہو جاتی ھے جس وجہ سے سارا شیرازہ بکھر جاتا ھے۔ اگر سمجھنے کو موڈ میں ہیں تو ایک کوشش کرتا ہوں۔

ایک اندازہ سے ایک گھرانہ جس کے 6 فیملی ممبر ہیں، بننے والا شوہر اس کے دو والدین اور 3 بہن بھائی اور ان کی ایسٹیمیٹڈ عمریں 12 سے 50 سال۔

کسی کی بیٹی جسے دلہن بنا کے گھر لایا جا رہا ھے اس کی ایسٹیمیٹڈ عمر 18 سے 22 سال، جو اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتی ھے بالکل ایسے جیسے یہ گھرانہ ھے اور اسے اس کے گھر والے رخصتی سے پہلے یہی اچھی باتیں سمجھا کر رخصت کرتے ہیں۔

ذہنوں میں پہلے ہی ایک کاپی میمری سٹک فکس ہوئی ہوئی ھے کہ ہمارے بیٹے یا بھائی کو نہ لے اڑے، اور مزید غلط ذہن سازی بہت قریبی رشتہ دار ساتھ ساتھ کرتے رہتے ہیں۔

وہ بیٹی جس کی عمر 18 سے 22 سال ھے، اس نے اپنے والدین کے گھر لاڈ پیار سے گزاری ہوتی ھے، نئے والدین کے ساتھ اس نے پریکٹیکل لائف میں ابھی قدم رکھا ھے اور جسے یہاں پر اس پورے گھرانہ کی مدد کی ضرورت ھے وہاں اس کی ہر بچپنی حرکت کو غلط نظریہ سے کوٹ کیا جاتا ھے اور پھر یہ کہا جاتا ھے کہ وہ سب کو سمجھے اور یہاں اگر شوہر بھی اس کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اس کی باتیں گھر والوں کو بتا کر اسے کٹہرے میں کھڑا کرے اور اس کا گھیڑا اتنا تنگ کر دیا جائے تو وہ بیٹی کیا کرے گی، پھر وہ بیٹی جب اپنے والدین کے گھر جائے گی یا وہ اسے ملنے آئیں گے تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر فوراً پہچان لیں گے کہ اس کے ساتھ یہاں زیادتی ہو رہی ھے۔

والدین کو چاہئے کہ اپنے ذہن سے کاپی ممری سٹک کو ڈیلیٹ کریں اور رشتہ داروں کی باتوں کو ایوائیڈ کریں اور اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے اسے بیٹی بنائیں اور اسے اپنے گھر کے ماحول کے مطابق نئے سرے سے وہ سب سکھائیں جو اپنی بیٹیوں کو سکھاتے کرتے ہیں۔

شوہر کو چاہئے کہ والدین کی عزت کے ساتھ اپنی بیوی کی اپنے گھر میں عزت کروائے نہ کہ وہ بھی دوسرں کے ساتھ مل کر پاگل پن پر اترے۔

ورنہ کچھ زیادتیوں کا شکار ہی رہتی ھے تب تک جب تک ان کی اولاد بڑی ہو کر ان کا ساتھ نہیں دیتی۔

والسلام
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
جزاک اللہ خیر دعا بہن اچھی پوسٹ شیئر کی آپ نے۔۔۔

ماشاء اللہ کنعان بھائی آپ نے اچھے انداز سے سمجھایا اصل میں غلطی دونوں طرف سے ہوتی ہے جس سے مسائل خراب ہوتے ہیں۔۔

اگر دیکھا جائے تو اپنے والدین کے گھر مین بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہین لیکن اسکے باوجود سب پھر اکھٹے ہو جاتے ہیں تو یہی بات ہے کہ شادی کے بعد برداشت کا مادہ دونوں خاندانوں کو بھڑا لینا چاہیئے۔
اللہ تعالٰی سب کیلئے آسانی فرمائے آمین
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم

ارسلان بھائی سبھی نبھانے کے لئے ہی شادی کے بندھن میں بندھتی ہیں مگر کہیں نہ کہیں شوہر اور ان کے گھر والوں سے کوتاہی ہو جاتی ھے جس وجہ سے سارا شیرازہ بکھر جاتا ھے۔ اگر سمجھنے کو موڈ میں ہیں تو ایک کوشش کرتا ہوں۔

ایک اندازہ سے ایک گھرانہ جس کے 6 فیملی ممبر ہیں، بننے والا شوہر اس کے دو والدین اور 3 بہن بھائی اور ان کی ایسٹیمیٹڈ عمریں 12 سے 50 سال۔

کسی کی بیٹی جسے دلہن بنا کے گھر لایا جا رہا ھے اس کی ایسٹیمیٹڈ عمر 18 سے 22 سال، جو اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتی ھے بالکل ایسے جیسے یہ گھرانہ ھے اور اسے اس کے گھر والے رخصتی سے پہلے یہی اچھی باتیں سمجھا کر رخصت کرتے ہیں۔

ذہنوں میں پہلے ہی ایک کاپی میمری سٹک فکس ہوئی ہوئی ھے کہ ہمارے بیٹے یا بھائی کو نہ لے اڑے، اور مزید غلط ذہن سازی بہت قریبی رشتہ دار ساتھ ساتھ کرتے رہتے ہیں۔

وہ بیٹی جس کی عمر 18 سے 22 سال ھے، اس نے اپنے والدین کے گھر لاڈ پیار سے گزاری ہوتی ھے، نئے والدین کے ساتھ اس نے پریکٹیکل لائف میں ابھی قدم رکھا ھے اور جسے یہاں پر اس پورے گھرانہ کی مدد کی ضرورت ھے وہاں اس کی ہر بچپنی حرکت کو غلط نظریہ سے کوٹ کیا جاتا ھے اور پھر یہ کہا جاتا ھے کہ وہ سب کو سمجھے اور یہاں اگر شوہر بھی اس کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اس کی باتیں گھر والوں کو بتا کر اسے کٹہرے میں کھڑا کرے اور اس کا گھیڑا اتنا تنگ کر دیا جائے تو وہ بیٹی کیا کرے گی، پھر وہ بیٹی جب اپنے والدین کے گھر جائے گی یا وہ اسے ملنے آئیں گے تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر فوراً پہچان لیں گے کہ اس کے ساتھ یہاں زیادتی ہو رہی ھے۔

والدین کو چاہئے کہ اپنے ذہن سے کاپی ممری سٹک کو ڈیلیٹ کریں اور رشتہ داروں کی باتوں کو ایوائیڈ کریں اور اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے اسے بیٹی بنائیں اور اسے اپنے گھر کے ماحول کے مطابق نئے سرے سے وہ سب سکھائیں جو اپنی بیٹیوں کو سکھاتے کرتے ہیں۔

شوہر کو چاہئے کہ والدین کی عزت کے ساتھ اپنی بیوی کی اپنے گھر میں عزت کروائے نہ کہ وہ بھی دوسرں کے ساتھ مل کر پاگل پن پر اترے۔

ورنہ کچھ زیادتیوں کا شکار ہی رہتی ھے تب تک جب تک ان کی اولاد بڑی ہو کر ان کا ساتھ نہیں دیتی۔

والسلام
شکریہ نعان بھائی
بہت اچھا لگا کہ آپ نے اتنی اچھی طرح سے مسئلے ی وضاحت کی۔۔۔۔اور شکر ہے کہ فورم پر کوئی تو ایسا ہے جو بیوی بیٹی عورت کے مسائل پر بات کرے۔
جزا ک اللہ خیرا
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اے اللہ!
ہمارے مردوں اور ہماری خواتین کو بھی اسوہ حسنہ پر عمل کرنے والا بنا دے۔ آمین

صدیقہ کائنات اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا اور انصار کی چند عورتیں غزوہ بدر میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، انہیں پانی پلاتیں۔ رضی اللہ عنہن۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو جس کسی صورت حال کا بھی سامنا ہو، اہل ایمان خواتین ، اللہ تعالی کی متعین کردہ حدود میں ان کی مدد کریں تاکہ اُمت مسلمہ اپنی کامیابی کے زینے چڑھے۔
 
Top