• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شکوہ

فہیم

مبتدی
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
161
پوائنٹ
16
علامہ اقبال کی نظم شکوہ


کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ميں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

ہے بجا شيوۂ تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قديم
پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھی شميم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
بوئے گل پھيلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسيم

ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی ديوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگر پيکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان ديکھے خدا کو کيونکر

تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئی نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا

بس رہے تھے يہيں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساسانی بھی
اسی معمورے ميں آباد تھے يونانی بھی
اسی دنيا ميں يہودی بھی تھے ، نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے

تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھی لڑتے ، کبھی درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھی يورپ کے کليساؤں ميں
کبھی افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں

شان آنکھوں ميں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کی

ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے ليے
تھی نہ کچھ تيغ زنی اپنی حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کيوں کرتی

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھی ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زير خنجر بھی يہ پيغام سنايا ہم نے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟

کون سی قوم فقط تيری طلب گار ہوئی
اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئی
کس کی شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئی

کس کی ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے

آ گيا عين لڑائی ميں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئی قوم حجاز
ايک ہی صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيری سرکار ميں پہنچے تو سبھی ايک ہوئے

محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے

دشت تو دشت ہيں ، دريا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات ميں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے

پھر بھی ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھی تو دلدار نہيں

امتيں اور بھی ہيں ، ان ميں گنہ گار بھی ہيں
عجز والے بھی ہيں ، مست مۓ پندار بھی ہيں
ان ميں کاہل بھی ہيں، غافل بھی ہيں، ہشيار بھی ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھی ہيں

رحمتيں ہيں تری اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بيچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
اپنی توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں

يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلی سی مدارات نہيں

کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
تيری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينۂ صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سيلی زدۂ موج سراب

طعن اغيار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغيار کی اب چاہنے والی دنيا
رہ گئی اپنے ليے ايک خيالی دنيا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنيا
پھر نہ کہنا ہوئی توحيد سے خالی دنيا

ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے

تيری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کے آہيں بھی گئيں ، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
آ کے بيٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر

درد ليلی بھی وہی ، قيس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی

پھر يہ آزردگی غير سبب کيا معنی
اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پيشہ کيا ، بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبير کی سينوں ميں دبی رکھتے ہيں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہيں

عشق کی خير وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پيمائی تسليم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندی آئين وفا بھی نہ سہی

کبھي ہم سے ، کبھی غيروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہيں ، تو بھی تو ہرجائی ہے

سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
ہم وہی سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟

وادی نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھی ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسی آگ ميں جلنے کے ليے

مشکليں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے
جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں می چکد از حسرت ديرينۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما

بوئے گل لے گئی بيرون چمن راز چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن

ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھی ہوئيں
پےتاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پريشاں بھی ہوئيں
وہ پرانی روشيں باغ کی ويراں بھی ہوئيں
ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھی ہوئيں

قيد موسم سے طبيعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن ميں سمجھتا کوئی فرياد اس کی

لطف مرنے ميں ہے باقی ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہی خون جگر پينے ميں
کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں

اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہی نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہيں

چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
يعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ ديرينہ کے پياسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کيا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کيا ، لے تو حجازی ہے مری​
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
السلام علیکم
انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس نظم کو یہاں سے ڈیلیٹ کر دیا جائے۔شکریہ
ہم آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں بھا ئی انسان کیا کسی کی بھی کیا مجال جو اللہ سبحان و تعالیٰ سے شکوہ کرے اللہ پاک ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کوئی بھی اس نظم کے حق میں دلائل نہ دے اقبال کی شاعری اپنی جگہ پر، لیکن اقبال معصوم عن الخطاء نہیں تھا جو اس کی شاعری میں ایک لفظ بھی غلط نہ ہو،یہ نظم بالکل اللہ کی شان میں گستاخی ہے،اور اقبال نے یہ نظم لکھ کر بہت بڑی غلطی کی تھی جس کا حل دنیا میں توبہ کرنا تھا اگر اقبال نے مرنے سے پہلے توبہ کر لی تھی (کیونکہ توبہ کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں) تو ٹھیک ورنہ وہ اللہ کو اپنا حساب خود دے گا۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس کی غلط شاعری کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیں،لہذا میں اُمید کرتا ہوں کہ انتظامیہ اس نظم کو ڈیلیٹ کر دے گی،کم از کم ہمارے محدث فورم پر ایسی گستاخ نظم نہیں ہونی چاہے،یا اگر نظم رکھنی بھی ہو تو علمائے کرام اس نظم کا بہت ہی علمی تجزیہ پیش کریں تاکہ نظم کو دیکھنے والے اس کا تجزیہ بھی پڑھ لیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کوئی بھی اس نظم کے حق میں دلائل نہ دے اقبال کی شاعری اپنی جگہ پر، لیکن اقبال معصوم عن الخطاء نہیں تھا جو اس کی شاعری میں ایک لفظ بھی غلط نہ ہو،یہ نظم بالکل اللہ کی شان میں گستاخی ہے،اور اقبال نے یہ نظم لکھ کر بہت بڑی غلطی کی تھی جس کا حل دنیا میں توبہ کرنا تھا اگر اقبال نے مرنے سے پہلے توبہ کر لی تھی تو ٹھیک ورنہ اس کا حساب اس کے ذمے ہے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس کی غلط شاعری کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیں،لہذا میں اُمید کرتا ہوں کہ انتظامیہ اس نظم کو ڈیلیٹ کر دے گی،کم از کم ہمارے محدث فورم پر ایسی گستاخ نظم نہیں ہونی چاہے،یا اگر نظم رکھنی بھی ہو تو علمائے کرام اس نظم کا بہت ہی علمی تجزیہ پیش کریں تاکہ نظم کو دیکھنے والے اس کا تجزیہ بھی پڑھ لیں۔
ارسلان بھائی!
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کے حکم کے مطابق میں علامہ کی اس نظم کے حق میں دلائل نہیں دے رہا لیکن میں میں آپ کے موقف کے خلاف تو دلائل دے سکتا ہوں نا (ابتسامہ)

یہ تو منتظمین کے ’’علمی و ادبی شعور‘‘ پر منحصر ہے کہ وہ اس نظم کو یہاں سے ڈیلیٹ کرتے ہین یا نہیں۔ لیکن پہلے آپ یہ بتلائیے کہ آپ اردو شاعری کے بارے مین کیا جانتے ہیں؟ کیا آپ خود کو اس ادبی مقام پر پاتے ہیں کہ علامہ اقبال جیسے بلند پایہ شاعرکی شاعری پر تنقید فرماسکیں، قطع نظر اس بات کے کہ علامہ کی یہ نظم قابل گرفت ہے یا نہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ علامہ کے ’’شکوہ‘‘ پر علمائے کرام کے ایک گروپ نے ناپسندیدگی بلکہ مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ’’جواب شکوہ‘‘ کے بعد ادب و شاعری کی نزاکتوں سے واقف علمائے کرام کی طرف سے مجوعی طور پر علامہ کی مخالفت ختم ہوگئی تھی۔ بلکہ بہت سے علماء و خطیب تو علامہ کی شاعری کو اسلامی تعلیمات کی تفہیم کے لئے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔

اگر آپ مفتی ہوتے تو علامہ کے اس قطعہ پر انہیں ’’کافر ہونے‘‘ کا فتویٰ ضرور صادر فرماتے جس میں انہوں نے ’’خود کو نبی‘‘ اور’’اپنے اوپر قرآن‘‘ اترنے کی ’’شاعرانہ بات‘‘ کی تھی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مشاعرے میں علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی دونوں مدعو تھے۔ ناسازئ طبع کی وجہ سے حالی خود تو مشاعرے میں شریک نہ ہوئے، مگر انہوں نے اپنا کلام علامہ کے ہاتھ بھجوا دیا کہ میری طرف سے پیش کردیجئے گا۔ علامہ اقبال کی ’’رگ ظرافت‘‘ پھڑکی اور انہون نے حالی کا کلام پڑھنے سے قبل فی البدیہہ یہ قطع پڑھا اور پہلے مصرع کوشرارتا" دو تین بار پڑھا، جسے سن کر حاضرین میں موجود ’’ارسلانوں‘‘ نے خوب شور مچایا، مگر مکمل قطع سن کر سب مسکرا کر رہ گئے۔ قطع یہ ہے:

گویا کہ میں نبی ہوں
اشعار کے خدا کا
قرآن بن کے اُترا
مجھ پہ کلام حالی​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیوں بھائی؟
فہیم بھائی آپ یہاں ’’جواب شکوہ‘‘ بھی پوسٹ کردیں۔ پھر معاملہ انتظامیہ پر چھوڑ دیں کہ وہ اس دھاگہ کو ڈیلیٹ کرے یا نہ کرے۔
 

فہیم

مبتدی
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
161
پوائنٹ
16
جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا
آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا

پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئی
بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئی
چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی' پوشيدہ يہيں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا

غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے
عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو

آئی آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا
آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا

شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں

ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھی نئے
حرم کعبہ نيا' بت بھی نئے' تم بھی نئے

وہ بھی دن تھے کہ يہی مايہ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا يہی ہرجائی تھا

کسی يکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کو لو

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟

قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھی نہيں
جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھی نہيں

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے

صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا کس نے؟
ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟
ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تھارے ہی' مگر تم کيا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم ميں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے' موسی ہی نہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی' دين بھی' ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہي باتيں ہيں

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟

قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب
زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا' تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا' تو غريب

امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازی نہ رہے
يعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھی کہيں مسلم موجود
وضع ميں تم ہو نصاری تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود

يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو

دم تقرير تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کيفيت صہبايش بود
خالی از خويش شدن صورت مينايش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو

ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلمانی ہے
حيدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلب سليم

تخت فغفور بھی ان کا تھا، سرير کے بھی
يونہی باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھی؟

خودکشی شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دين سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا
لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا

قيس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے
وہ تو ديوانہ ہے، بستی ميں رہے يا نہ رہے
يہ ضروری ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے

آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا

ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابی ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتيں گلشن ہستی ميں ثمر چيدہ بھی ہيں
اور محروم ثمر بھی ہيں، خزاں ديدہ بھی ہيں
سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھی، باليدہ بھی ہيں
سينکڑوں بطن چمن ميں ابھی پوشيدہ بھی ہيں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا
تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ويراں تيرا
غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا

نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو
عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو

تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاری کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداری کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داری کا

کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقيقت تيری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تيری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تيری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحيد کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھی نہ ہو
يہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحيد بھی دنيا ميں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خيمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے
بحر ميں، موج کی آغوش ميں، طوفان ميں ہے
چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے
اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے

چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے
رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' ديکھے

مردم چشم زميں يعني وہ کالی دنيا
وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنيا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنيا
عشق والے جسے کہتے ہيں بلالی دنيا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تيری سپر، عشق ہے شمشير تری
مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تری
ماسوی اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تری
تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یوسف ثانی بھائی!
آپ کے حکم کے مطابق میں علامہ کی اس نظم کے حق میں دلائل نہیں دے رہا لیکن میں میں آپ کے موقف کے خلاف تو دلائل دے سکتا ہوں نا (ابتسامہ)
جی ضرور دے سکتے ہیں،آپ کو یہاں اپنا موقف بیان کرنے کی بالکل اجازت ہے۔آپ میرے موقف کے خلاف ضرور دلائل دیں لیکن تنقید برائے اصلاح کی نیت سے ناکہ تنقید برائے تنقید کی نیت سے۔
یہ تو منتظمین کے ’’علمی و ادبی شعور‘‘ پر منحصر ہے کہ وہ اس نظم کو یہاں سے ڈیلیٹ کرتے ہین یا نہیں۔
"علمی وادبی شعور" اپنی جگہ ،لیکن کوئی بھی ایسی نظم جو ہمارے پیدا کرنے والے اللہ رب العالمین سے شکوہ پر مبنی ہو تو وہ اس قابل نہیں کہ اس توحید و سنت پھیلانے کی غرض سے بنائے جانے والے فورم پر رہے۔
لیکن پہلے آپ یہ بتلائیے کہ آپ اردو شاعری کے بارے مین کیا جانتے ہیں؟
میں شاعری سے دلچسپی نہیں رکھتا،اچھے اچھے اشعار اور ایسے اشعار جن میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہی گئی ہوتومختلف موقعوں کی مناسبت سے کہہ لیتا ہوں،ورنہ صرف شاعری شاعری ہی کرتے رہنا میری عادت نہیں۔
کیا آپ خود کو اس ادبی مقام پر پاتے ہیں کہ علامہ اقبال جیسے بلند پایہ شاعرکی شاعری پر تنقید فرماسکیں،
میں کوئی شاعر نہیں ہوں لیکن اچھی بری بات میں فرق کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے،اور اقبال صاحب بھی معصوم عن الخطاء نہیں تھے جو ان کی شاعری میں کہی گئی ہر صحیح ہو۔
قطع نظر اس بات کے کہ علامہ کی یہ نظم قابل گرفت ہے یا نہیں۔
"ہے یا نہیں " کا کیا مطلب؟ یہ نظم غلط ہی ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ علامہ کے ’’شکوہ‘‘ پر علمائے کرام کے ایک گروپ نے ناپسندیدگی بلکہ مخالفت کا اظہار کیا تھا۔
ماشاءاللہ،یہ تو اچھی بات ہے،ایک سچا مسلمان کبھی بھی اللہ کے بارے میں اس قسم کی گستاخی کی حمایت نہیں کر سکتا۔
لیکن ’’جواب شکوہ‘‘ کے بعد ادب و شاعری کی نزاکتوں سے واقف علمائے کرام کی طرف سے مجوعی طور پر علامہ کی مخالفت ختم ہوگئی تھی۔
"جواب شکوہ" میں اگرچہ چند اشعار ٹھیک ہیں،لیکن مکمل یہ نظم بھی ٹھیک نہیں ،ابتدائی اشعار دیکھ لیں۔
بلکہ بہت سے علماء و خطیب تو علامہ کی شاعری کو اسلامی تعلیمات کی تفہیم کے لئے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
وہ تو اب بھی ہو رہی ہے،اور واقعی اقبال صاحب نے اچھی شاعری بھی کی ہے،لیکن اس صحیح شاعری کی آڑ میں ان کی غلط باتوں کو بھی صحیح ثابت کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
اگر آپ مفتی ہوتے تو علامہ کے اس قطعہ پر انہیں ’’کافر ہونے‘‘ کا فتویٰ ضرور صادر فرماتے جس میں انہوں نے ’’خود کو نبی‘‘ اور’’اپنے اوپر قرآن‘‘ اترنے کی ’’شاعرانہ بات‘‘ کی تھی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مشاعرے میں علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی دونوں مدعو تھے۔ ناسازئ طبع کی وجہ سے حالی خود تو مشاعرے میں شریک نہ ہوئے، مگر انہوں نے اپنا کلام علامہ کے ہاتھ بھجوا دیا کہ میری طرف سے پیش کردیجئے گا۔ علامہ اقبال کی ’’رگ ظرافت‘‘ پھڑکی اور انہون نے حالی کا کلام پڑھنے سے قبل فی البدیہہ یہ قطع پڑھا اور پہلے مصرع کوشرارتا" دو تین بار پڑھا، جسے سن کر حاضرین میں موجود ’’ارسلانوں‘‘ نے خوب شور مچایا، مگر مکمل قطع سن کر سب مسکرا کر رہ گئے۔ قطع یہ ہے:
گویا کہ میں نبی ہوں
اشعار کے خدا کا
قرآن بن کے اُترا
مجھ پہ کلام حالی
لاحول ولاقوۃ الا باللہ
محترم،فتوی ظاہر پر لگتا ہے،اسی لیے ظاہری الفاظ دیکھ کر ہی رائے قائم کی جاتی ہے،دل کے حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس واقعے کی جو وضاحت کی ہے اس واقعے سمیت بھی اگر اس شعر کو دیکھا جائے تب بھی یہ غلط ہے۔
مجھے ایمانداری سے بتائیے اس قسم کے الفاظ سے شاعری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟کیا دین اسلام کو مذاق سمجھ رکھا ہے؟
 
Top