سند کا تعارف
على بن الحسين بن على بن أبى طالب ، زين العابدين
اس روایت کو بیان کرنے والے علی ابن الحسین رحمہ اللہ ہیں یہ حادثہ کربلا میں موجود تھے اور تمام واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔
آپ حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ ہیں ،کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت عابد فقيه فاضل مشهور
آپ ثقہ ، ثبت ،عبادت گذار اور مشہور صاحب فضل شخصیت ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4715]۔
محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ ہیں۔کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة فاضل
آپ ثقہ اور صاحب فضل شخصیت ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6151]
عمرو بن دينار المكى، أبو محمد الأثرم
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ اوربہت بڑے امام ہیں ۔کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت
آپ ثقہ اورثبت ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم5024]۔
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب
آپ ابن ماجہ کے رجال میں سے ہیں آپ پربھی کسی محدث نے کوئی جرح نہیں کی اور ابن حبان رحمہ اللہ نے آپ کو ثقہ کہا ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 4]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق
آپ سچے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم239]۔
فائدہ:
اس سند میں
''ابراہیم بن محمد'' سے مراد
''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہی ہیں اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس سند میں یہ امام مدائنی کے استاذ ہیں اور امام مدائنی کے اساتذہ میں آنے والے ''ابراہیم بن محمد'' وہی ہیں جو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں چنانچہ:
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)نے کہا:
المدائني عن إبراهيم بن محمد عن أبيه قال: اتخذ عبد الله بن أبي ربيعة أفراسا بالمدينة، فمنعه عمر بن الخطاب، فكلموه في أن يأذن له فقال: لا آذن له إلا أن يجيء بعلفها من غير المدينة، فكان يحمل علفها من أرض له باليمن.[أنساب الأشراف للبلاذري: 10/ 373]۔
اور''ابراہیم بن محمد'' کے نام سے جو راوی اپنے والد کے شاگرد ہیں وہ ''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہی ہیں ۔چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر، الهاشمي، القرشي.
عن أبيه، سمع عائشة؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: أول الناس فناء قومك؛ قريش.[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 318]۔
مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا علي بن محمد. عن إبراهيم بن محمد. عن زيد بن أسلم. قال: دخل رجل على الحسن بالمدينة وفي يده صحيفة فقال: ما هذه؟ قال: من معاوية يعد فيها ويتوعد. قال: قد كنت على النصف منه.[الطبقات الكبرى ، متمم الصحابة ، الطبقة الخامسة 1/ 332]۔
یہ روایت بھی امام علي بن محمد المدائنی عن ابراہیم بن محمد کے طریق سے ہے اور اس روایت کی سند کو طبقات ابن سعد کے محقق نے إسناده حسن کہا ہے اور اس کے رجال کا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
علي بن محمد هو المدائنی ۔ إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب. صدوق [الطبقات الكبرى،متمم الصحابة، الطبقة الخامسة 1/ 332]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس سند میں
''ابراہیم بن محمد'' یہ
''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہے اور یہ ثقہ ہیں جیساکہ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے۔کمامضی۔
علي بن محمد، القرشي،المدائني
آپ زبردست ثقہ اورامام ہیں کئی کتب کے مصنف ہیں کسی بھی محدث نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة ثقة ثقة
آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي 13/ 517 واسنادہ حسن]۔
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وَكَانَ من الثقات، أهل الخير
آپ ثقات اور اہل خیر لوگوں میں سے تھے [المنتظم لابن الجوزي: 11/ 95]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
صدوق فيما ينقله
آپ اپنی نقل کردہ روایات میں سچے ہیں[تاريخ الإسلام: 5/ 638]۔
واضح رہے کہ امام مدائنی رحمہ اللہ صاحب تصنیفات ہیں خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی تصنیفات کے بارے میں کہا:
وهو صاحب المصنّفات المشهورة
یعنی امام مدائنی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں[تاريخ الإسلام ت بشار 5/ 638]۔
اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی کئی تصانیف کی ذکر بھی کیا ہے۔
اور صاحب تصنیف محدث کے حوالہ سے مع سند کوئی بات نقل کی جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ناقل نے اسے صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کیا ہے اور کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر ہوتی ہے ۔عصر حاضر کے محققین بھی اس کی طرح کے نقول کو حجت سمجھتے ہیں مثلا دکتور شیبانی نے اپنی کتاب مواقف المعارضہ میں اس طرح کی کئی روایات کو امام ذہبی وغیرہ سےنقل کرکے اس کی سندوں پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے اور دیگر اہل اعلم نے اس پر اعتبار کیا ہے اور اس کا حوالہ دیا ہے۔
محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ایسی روایت کی تصحیح کی ہے جو اصل مصنف کی کتاب میںموجود نہیں بلکہ دیگرناقلین نے اسے اپنی کتاب میں سند کے ساتھ نقل کردیا ہے ، مثلا ارواء میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے قنوت سے متعلق ایک روایت کو اس لئے حسن کہا کیونکہ اس کی ایک حسن سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کررکھا ہے ، اوراصل کتاب مفقود ہے۔
اسی طرح امام منذری کی ترغیب کی تحقیق میں بھی ایک روایت کی سند کو محض امام منذری کے نقل پر اعتماد کرتے ہوئے حسن کا ہے۔
معاصرین میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی دو رکعت میں تورک والی حدیث کو حسن کہا ہے کیونکہ ابن سیدالناس نے اس کی سند کو نقل کررکھا ہے۔
اسی طرح موصوف نے ابن بطال کی شرح بخاری سے بزار کی ایک روایت کو نقل کرکے حسن کہا ہے اور ابن بطال نے یہاں پر محض بزار کے حوالے سے ایک سند ذکر کی ہے اور بزار کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔
حافظ ابن حجر اورابن سیدالناس تو ثقہ محدثین ہیں ، آج حال تو یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ مدرک رکوع سے متعلق ایک روایت کو مع سند مسائل احمد واسحاق سے نقل کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
لیکن یہ روایت مسائل احمد واسحاق کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے اسی طرح مسائل احمد کے جتنے بھی مخطوطات عام ہیں ان میں بھی یہ روایت نہیں ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف ایک مخطوطہ سے اسے مع سند نقل کیا لیکن محققین ان کی نقل کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔
موجودہ دور میں بریلوی حضرات تاریخ میلاد سے متعلق ابن ابی شیبہ سے ایک روایت پیش کرتے ہیں لیکن ابن ابی شیبہ کی کتاب میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے بلکہ امام ابن کثیر نے اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سےنقل کیا ہے چنانچہ:
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔ [البداية والنهاية لابن کثیر: 3/ 109]
یہ روایت بریلوی حضرات ربیع الاول میں بڑے زور وشورسے پیش کرتے ہیں ، لیکن کوئی بھی بریلوی اس روایت کو ابن ابی شیبہ کی کتاب میں دکھا سکتا ہے؟؟؟؟
یاد رہے کہ میلاد سے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ کی مع سند نقل کردہ روایت کو ہم ضعیف کہتے ہیں ، لیکن اس لئے نہیں کہ یہ روایت اصل کتاب میںموجود نہیں بلکہ اس لئے کہ نقل کردہ یہ سند ہی ضعیف ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیں میرا مضمون ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ''