• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام ذہبی رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وقال المدائني عن إبراهيم بن محمد ، عن عمرو بن دينار : حدثني محمد بن علي بن الحسين ، عن أبيه قال: لما قتل الحسين دخلنا الكوفة، فلقينا رجل، فدخلنا منزله فألحفنا، فنمت، فلم أستيقظ إلا بحس الخيل في الأزقة، فحملنا إلى يزيد، فدمعت عينه حين رآنا، وأعطانا ما شئنا، وقال لي: إنه سيكون في قومك أمور، فلا تدخل معهم في شيء، فلما كان من أهل المدينة ما كان، كتب مع مسلم بن عقبة كتابا فيه أماني، فلما فرغ مسلم من الحرة بعث إلي، فجئته وقد كتبت وصيتي، فرمى إلي بالكتاب، فإذا فيه: استوص بعلي بن الحسين خيرا، وإن دخل معهم في أمرهم فأمنه واعف عنه، وإن لم يكن معهم فقد أصاب وأحسن.
علی ابن الحسین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حسین رضی اللہ عنہ قتل کردئے گئے توہم کوفہ پہنچے ہم سے ایک آدمی نے ملاقات کی ہم اس کے گھرداخل ہوئے اس نے ہمارے سونے کا بندوبست کیا اورمیں سوگیا۔پھر گلیوں میں گھوڑوں کی آواز سے میری نیندکھلی پھر ہم یزیدبن معاویہ کے پاس پہنچائے گئے تو جب یزید معاویہ نے ہمیں دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں یعنی وہ روپڑے پھرانہوں نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جو ہم نے چاہا اور مجھ سے کہا: آپ کے یہاں کچھ معاملات پیش آئیں گے آپ ان لوگوں کے کسی معاملہ میں شرکت مت کیجئے گا۔پھرجب اہل مدینہ کی طرف سے یزید کی مخالفت ہوئی تو مسلم بن عقبہ کو یزید بن معاویہ نے خط لکھا جس میں انہوں نے مجھے امان دی۔ اورجب مسلم حرہ کے واقعہ سے فارغ ہوئے تو مجھے بلوایا تو میں ان کے پاس حاضر ہوا اور میری وصیت لکھی جاچکی تھی تو انہوں نے مجھے وہ خط دیا اس میں لکھا ہوا تھا : علی ابن الحسین کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا اگر وہ اہل مدینہ کے معاملہ میں شریک ہوجائیں توبھی انہیں امان دینا اورانہیں معاف کردینا اور اگر وہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو یہ انہوں نے بہت اچھا اور بہتر کیا [تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 583 واسنادہ صحیح]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سند کا تعارف

على بن الحسين بن على بن أبى طالب ، زين العابدين
اس روایت کو بیان کرنے والے علی ابن الحسین رحمہ اللہ ہیں یہ حادثہ کربلا میں موجود تھے اور تمام واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔
آپ حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ ہیں ،کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت عابد فقيه فاضل مشهور
آپ ثقہ ، ثبت ،عبادت گذار اور مشہور صاحب فضل شخصیت ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4715]۔


محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ ہیں۔کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة فاضل
آپ ثقہ اور صاحب فضل شخصیت ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6151]


عمرو بن دينار المكى، أبو محمد الأثرم
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربالاتفاق ثقہ اوربہت بڑے امام ہیں ۔کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت
آپ ثقہ اورثبت ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم5024]۔


إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب
آپ ابن ماجہ کے رجال میں سے ہیں آپ پربھی کسی محدث نے کوئی جرح نہیں کی اور ابن حبان رحمہ اللہ نے آپ کو ثقہ کہا ہے چنانچہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 4]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق
آپ سچے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم239]۔

فائدہ:
اس سند میں ''ابراہیم بن محمد'' سے مراد ''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہی ہیں اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس سند میں یہ امام مدائنی کے استاذ ہیں اور امام مدائنی کے اساتذہ میں آنے والے ''ابراہیم بن محمد'' وہی ہیں جو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں چنانچہ:

امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)نے کہا:
المدائني عن إبراهيم بن محمد عن أبيه قال: اتخذ عبد الله بن أبي ربيعة أفراسا بالمدينة، فمنعه عمر بن الخطاب، فكلموه في أن يأذن له فقال: لا آذن له إلا أن يجيء بعلفها من غير المدينة، فكان يحمل علفها من أرض له باليمن.[أنساب الأشراف للبلاذري: 10/ 373]۔

اور''ابراہیم بن محمد'' کے نام سے جو راوی اپنے والد کے شاگرد ہیں وہ ''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہی ہیں ۔چنانچہ:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر، الهاشمي، القرشي.
عن أبيه، سمع عائشة؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: أول الناس فناء قومك؛ قريش.
[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 318]۔

مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا علي بن محمد. عن إبراهيم بن محمد. عن زيد بن أسلم. قال: دخل رجل على الحسن بالمدينة وفي يده صحيفة فقال: ما هذه؟ قال: من معاوية يعد فيها ويتوعد. قال: قد كنت على النصف منه.[الطبقات الكبرى ، متمم الصحابة ، الطبقة الخامسة 1/ 332]۔

یہ روایت بھی امام علي بن محمد المدائنی عن ابراہیم بن محمد کے طریق سے ہے اور اس روایت کی سند کو طبقات ابن سعد کے محقق نے إسناده حسن کہا ہے اور اس کے رجال کا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
علي بن محمد هو المدائنی ۔ إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب. صدوق [الطبقات الكبرى،متمم الصحابة، الطبقة الخامسة 1/ 332]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس سند میں ''ابراہیم بن محمد'' یہ ''إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب'' ہے اور یہ ثقہ ہیں جیساکہ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے۔کمامضی۔


علي بن محمد، القرشي،المدائني
آپ زبردست ثقہ اورامام ہیں کئی کتب کے مصنف ہیں کسی بھی محدث نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة ثقة ثقة
آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں آپ ثقہ ہیں[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي 13/ 517 واسنادہ حسن]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وَكَانَ من الثقات، أهل الخير
آپ ثقات اور اہل خیر لوگوں میں سے تھے [المنتظم لابن الجوزي: 11/ 95]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
صدوق فيما ينقله
آپ اپنی نقل کردہ روایات میں سچے ہیں[تاريخ الإسلام: 5/ 638]۔


واضح رہے کہ امام مدائنی رحمہ اللہ صاحب تصنیفات ہیں خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی تصنیفات کے بارے میں کہا:
وهو صاحب المصنّفات المشهورة
یعنی امام مدائنی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں[تاريخ الإسلام ت بشار 5/ 638]۔
اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی کئی تصانیف کی ذکر بھی کیا ہے۔
اور صاحب تصنیف محدث کے حوالہ سے مع سند کوئی بات نقل کی جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ناقل نے اسے صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کیا ہے اور کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر ہوتی ہے ۔عصر حاضر کے محققین بھی اس کی طرح کے نقول کو حجت سمجھتے ہیں مثلا دکتور شیبانی نے اپنی کتاب مواقف المعارضہ میں اس طرح کی کئی روایات کو امام ذہبی وغیرہ سےنقل کرکے اس کی سندوں پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے اور دیگر اہل اعلم نے اس پر اعتبار کیا ہے اور اس کا حوالہ دیا ہے۔
محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ایسی روایت کی تصحیح کی ہے جو اصل مصنف کی کتاب میں‌موجود نہیں بلکہ دیگرناقلین نے اسے اپنی کتاب میں سند کے ساتھ نقل کردیا ہے ، مثلا ارواء میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے قنوت سے متعلق ایک روایت کو اس لئے حسن کہا کیونکہ اس کی ایک حسن سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کررکھا ہے ، اوراصل کتاب مفقود ہے۔
اسی طرح امام منذری کی ترغیب کی تحقیق میں بھی ایک روایت کی سند کو محض امام منذری کے نقل پر اعتماد کرتے ہوئے حسن کا ہے۔
معاصرین میں حافظ‌ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی دو رکعت میں تورک والی حدیث‌ کو حسن کہا ہے کیونکہ ابن سیدالناس نے اس کی سند کو نقل کررکھا ہے۔
اسی طرح موصوف نے ابن بطال کی شرح بخاری سے بزار کی ایک روایت کو نقل کرکے حسن کہا ہے اور ابن بطال نے یہاں پر محض بزار کے حوالے سے ایک سند ذکر کی ہے اور بزار کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔
حافظ ابن حجر اورابن سیدالناس تو ثقہ محدثین ہیں ، آج حال تو یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ مدرک رکوع سے متعلق ایک روایت کو مع سند مسائل احمد واسحاق سے نقل کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
لیکن یہ روایت مسائل احمد واسحاق کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے اسی طرح مسائل احمد کے جتنے بھی مخطوطات عام ہیں ان میں‌ بھی یہ روایت نہیں ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف ایک مخطوطہ سے اسے مع سند نقل کیا لیکن محققین ان کی نقل کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔
موجودہ دور میں بریلوی حضرات تاریخ میلاد سے متعلق ابن ابی شیبہ سے ایک روایت پیش کرتے ہیں لیکن ابن ابی شیبہ کی کتاب میں یہ روایت موجود ہی نہیں‌ ہے بلکہ امام ابن کثیر نے اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سےنقل کیا ہے چنانچہ:

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔ [البداية والنهاية لابن کثیر: 3/ 109]

یہ روایت بریلوی حضرات ربیع الاول میں بڑے زور وشورسے پیش کرتے ہیں ، لیکن کوئی بھی بریلوی اس روایت کو ابن ابی شیبہ کی کتاب میں دکھا سکتا ہے؟؟؟؟
یاد رہے کہ میلاد سے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ کی مع سند نقل کردہ روایت کو ہم ضعیف کہتے ہیں ، لیکن اس لئے نہیں کہ یہ روایت اصل کتاب میں‌موجود نہیں بلکہ اس لئے کہ نقل کردہ یہ سند ہی ضعیف ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیں میرا مضمون ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ''
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اس صحیح روایت سے درج درج ذیل حقائق منکشف ہوئے:
  • 1: یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے بہت دکھ پہنچا اسی لئے پسماندگان کو دیکھتے ہی ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔
  • 2: یزید معاویہ رحمہ اللہ کا قتل حسین میں کوئی ہاتھ نہیں تھا ورنہ پسماندگان کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں اشکبار نہ ہوتی ، نیز حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے زین العابدین یزید بن معاویہ کے عطیات کو قبول نہ کرتے اور نہ ہی ان سے کوئی مانگ کرتے جبکہ یہ روایت صاف بتلاتی ہے کہ زین العابدین نے یزیدبن معاویہ سے جو کچھ مانگا وہ سب یزید بن معاویہ نے انہیں دیا۔
  • 3: زین العابدین کی ہرمانگ کو یزید بن معاویہ نے پوری کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زین العابدین نے قاتلین حسین سے قصاص کی مانگ نہیں کی تھی ، ورنہ زین العابدین یہ استثناء ضرور بیان کرتے کہ قصاص کے علاوہ ہماری ہرمانگ پوری کی لیکن زین العابدین رحمہ اللہ نے کوئی استثناء ذکر نہیں کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے قصاص کی مانگ کی ہی نہیں تھی ۔ اوراس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ ابن زیاد نے قصاص لے لیا تھا جیساکہ بعض روایات میں ہے یا حالات ایسے تھے کہ قصاص لیا جانا خلاف مصلحت تھا جیساکہ علی رضی اللہ عنہ نے مصلحتا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص نہیں لیا۔دوسری صورت میں یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے گویا علی رضی اللہ عنہ کی سنت کی پیروی کی ہے اور یہ فضیلت کی بات ہے کیونکہ صحیح حدیث میں خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کا حکم ہے۔
  • 4: اہل مدینہ کے ساتھ یزید کی شفقت و نرمی کا پتہ چلتاہے کیونکہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ مدینہ میں ان کے خلاف ہوا چل رہی ہے لیکن چونکہ بظاہر اب تک کوئی مخالفت نہیں ہوئی تھی اس لئے یزید بن معاویہ نے محض ان باتوں کی وجہ سے اہل مدینہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
  • 5: اہل مدینہ میں پرحملہ کے وقت صرف ان لوگوں کے خلاف کاروائی کا حکم تھا جو بغاوت کے اصل ذمہ دار تھے کیونکہ یزید بن معاویہ نے زین العابدین کو مخالفت سے روکا تھا اور حرہ کے وقت اپنے لشکرکو بھی ان کے خلاف کاروائی سے منع کردیا تھا ۔
  • 6: اہل مدینہ میں جو لوگ یزید کے مخالف تھے اور وہ صاحب فضل تھے ان پر قابو پانے کے بعد انہیں معاف کرنے کاحکم تھا جیساکہ زین العابدین کے ساتھ خصوصی وصیت سے پتہ چلتاہے۔
  • 7: واقعہ حرہ میں اہل بیت کے افراد یزید کی مخالفت میں شامل نہ تھے جیساکہ زین العابدین کی عدم شمولیت سے اشارہ ملتاہے۔اسی لئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا: وقد كان عبد الله بن عمر بن الخطاب وجماعات أهل بيت النبوة ممن لم ينقض العهد ولا بايع أحدا بعد بيعته ليزيد ، اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی جماعتوں نے یزید کے بیعت نہیں توڑی اور یزید کی بیعت کرنے کے بعد کسی اور کی بیعت بالکل نہیں کی [البداية والنهاية لابن کثیر : 8/ 232]
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ماشاء اللہ ماشاء اللہ شیخ صاحب۔۔۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا۔
یعنی یزید کو یزید پلید اور یزید لعنتی کہنے والے بلادلیل ہی ان کے خلاف بس شیعہ کے فریب میں آکر یہ کام کرتے رہے ہیں۔۔!
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
ماشاء اللہ ماشاء اللہ شیخ صاحب۔۔۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا۔
یعنی یزید کو یزید پلید اور یزید لعنتی کہنے والے بلادلیل ہی ان کے خلاف بس شیعہ کے فریب میں آکر یہ کام کرتے رہے ہیں۔۔!
جن کا مذہب ہی تقیہ ہو اُن سے کسی بھی قسم کی اُمید رکھی جاسکتی ہے ماسوائے حق کو تسلیم کرنے کے مگر وہ بھی اس رافضی نے کرلیا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر امام ذہبی کو اس روایت کا علم تھا تو پھر بھی انہوں نے یزید پر جرح کیوں کی؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر امام ذہبی کو اس روایت کا علم تھا تو پھر بھی انہوں نے یزید پر جرح کیوں کی؟
امام ذہبی رحمہ اللہ کو تو یہ بھی معلوم تھا کہ یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے پہلے لشکر میں تھے ۔
یہ تو اس روایت سے بھی بڑی بات ہے امام ذہبی رحمہ اللہ قسطنطنیہ کا حوالہ دیتے ہوئے نرم پڑ گئے ہیں اور اسے یزید کے حسنات میں گنایا ہے۔
رہی بات یہ کہ پھرانہوں نے جرح کیوں کی تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی جرح میں یزید کو شراب پینے والا کہا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ انہوں نے شراب نوشی والی روایت کی تحقیق نہیں کی ہے۔ ورنہ پوری دنیا مل کر بھی مجھے ایک صحیح روایت دکھا دے جس سے ثابت ہو کہ یزید شرابی تھا ۔
اسی طرح اہل مدینہ پرحملہ سے متعلق جو خرافات منقول ہیں انہیں بھی امام ذہبی نے پیش نظر رکھا ہے اور اس کی بھی بذات خود تحقیق نہیں کی ہے۔
امام ذھبی کی کتاب کامطالعہ کرنے والا معمولی طالب علم بھی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ امام ذہبی بعض لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے اس کی مذمت میں وارد ہونے والی جھوٹی روایات کو بھی درج کردیتے ہیں اور اسی کو بنیاد بناکرفیصلہ بھی کردیتے ہیں ۔
اسی طرح بعض کی تعریف پر آتے ہیں تو اس کی منقبت میں بھی جھوٹی روایات جمع کردیتے ہیں اور اسی پرفیصلہ بھی دے دیتے ہیں جیسے انہوں نے ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام محمد کے بارے میں کیا ہے۔
اور یزید سے متعلق روایات اور یزید کے کردار سے متعلق امام ذہبی نے کوئی تحقیق نہیں کی ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ وہ یزید پرجرح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
ويزيد ممن لا نسبه ولا نحبه، وله نظراء من خلفاء الدولتين، وكذلك في ملوك النواحي، بل فيهم من هو شر منه
یعنی یزید ان لوگوں میں سے ہے جسے نہ ہم برا کہتے ہیں اور جس سے نہ ہم محبت کرتے ہیں اوربعد کے خلفاء وبادشاہوں میں اس طرح کے اور بھی کئی لوگ ہیں بلکہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں تو یزید سے کہیں زیادہ برے ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 36]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کا اس جگہ سکوت والا موقف پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے یزید سے متعلق منقول باتوں کو تحقیق نہیں کی ہے۔


اور ایک اصولی بات یہ بھی ہے کہ ہم محدثین کی مرویات دیکھیں نہ کہ ان کی آراء۔
ورنہ تقریبا ہرمحدث کے یہاں ایسی صحیح روایات مل جائیں گی جو ان کے فتوی کے خلاف ہوں تو کیا ہرجگہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر یہ روایت اس بات کی دلیل ہے تو خود اسے نقل کرنے والے نے اس کے خلاف فتوی کیوں دیا ؟؟؟
میرے خیال سے احناف آئے دن اس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اورقابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ یزید کی فضیلت میں امام عبدالمغیت رحمہ اللہ نے کتاب لکھی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
وعبد المغيث بن زهير أبو العز الحربي محدث بغداد وصالحها وأحد من عني بالأثر والسنة سمع ابن الحصين وطبقته وتوفي في المحرم عن ثلاث وثمانين سنة وكان ثقة سنيا مفتيا صاحب طريقة حميدة تبارد وصنف جزءا في فضايل يزيد أتى فيه بالموضوعات [العبر في خبر من غبر 4/ 249]۔
عرض ہے کہ بالکل یہی کام امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کیا چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اوران کے شاگرد امام محمد کی فضیلت میں کتاب لکھی اور اس میں ہرطرح کی من گھڑت اور جھوٹی روایات کو درج کردیا ، حتی کہ اس کتاب کے محقق زاہد کوثری نے بھی حواشی میں بعض روایات کو موضوع من گھڑت قرار دیا۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
امام ذہبی رحمہ اللہ کو تو یہ بھی معلوم تھا کہ یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے پہلے لشکر میں تھے ۔
یہ تو اس روایت سے بھی بڑی بات ہے امام ذہبی رحمہ اللہ قسطنطنیہ کا حوالہ دیتے ہوئے نرم پڑ گئے ہیں اور اسے یزید کے حسنات میں گنایا ہے۔
رہی بات یہ کہ پھرانہوں نے جرح کیوں کی تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی جرح میں یزید کو شراب پینے والا کہا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ انہوں نے شراب نوشی والی روایت کی تحقیق نہیں کی ہے۔ ورنہ پوری دنیا مل کر بھی مجھے ایک صحیح روایت دکھا دے جس سے ثابت ہو کہ یزید شرابی تھا ۔
اسی طرح اہل مدینہ پرحملہ سے متعلق جو خرافات منقول ہیں انہیں بھی امام ذہبی نے پیش نظر رکھا ہے اور اس کی بھی بذات خود تحقیق نہیں کی ہے۔
امام ذھبی کی کتاب کامطالعہ کرنے والا معمولی طالب علم بھی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ امام ذہبی بعض لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے اس کی مذمت میں وارد ہونے والی جھوٹی روایات کو بھی درج کردیتے ہیں اور اسی کو بنیاد بناکرفیصلہ بھی کردیتے ہیں ۔
اسی طرح بعض کی تعریف پر آتے ہیں تو اس کی منقبت میں بھی جھوٹی روایات جمع کردیتے ہیں اور اسی پرفیصلہ بھی دے دیتے ہیں جیسے انہوں نے ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام محمد کے بارے میں کیا ہے۔
اور یزید سے متعلق روایات اور یزید کے کردار سے متعلق امام ذہبی نے کوئی تحقیق نہیں کی ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ وہ یزید پرجرح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
ويزيد ممن لا نسبه ولا نحبه، وله نظراء من خلفاء الدولتين، وكذلك في ملوك النواحي، بل فيهم من هو شر منه
یعنی یزید ان لوگوں میں سے ہے جسے نہ ہم برا کہتے ہیں اور جس سے نہ ہم محبت کرتے ہیں اوربعد کے خلفاء وبادشاہوں میں اس طرح کے اور بھی کئی لوگ ہیں بلکہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں تو یزید سے کہیں زیادہ برے ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 36]
جناب آپ کی ساری تحقیق کا خلاصہ یزید سے شروع ہوتا ہے اور یزید پر ختم ۔یہاں آپ نے امام ذہبی کو بھی رگڑا لگا دیا لیکن جو بات آپ کے کام کی تھی اس کو صحیح مان لیا ۔جو الزام آپ نے امام ذہبی پر لگائے ہیں تو امام صاحب کی اپنی ثقاہت ہی خطرے میں پڑ گئی ہے کہ وہ کسی کی تعریف پہ آتے تو جھوٹی روایات کو دلیل بنا لیتے ( یعنی حقائق کے خلاف من گھڑت باتیں لکھتے اور ان سے استدلال کرتے ) لیکن جناب نے بات شروع کی تو حوالہ امام ذہبی کا دیا آپ کے انصاف کے لئے ایک شعر عرض ہے
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top