• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت حسین کی خبریں جرح و تعدیل کے میزان میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
70
اس پورے مضمون میں ایک بات انتہائی ناگوار لگ رہی ہے کہ ہر جگہ حسین حسین حسین حسین (رضی اللہ عنہ) کی رٹ ہے. کہیں بھول کر بھی رضی اللہ عنہ نہیں لکھا گیا. صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس طرح لینا کہ جیسے کوئی ہمجولی ہو بہت برا لگتا ہے. سچ کہوں تو خون کھولتا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائ جان میں نے ایک اسکین اپلوڈ کیا ہے اسکا جواب دے دیں
جزاک اللہ خیر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی ؛
یہ روایت جو آپ نے امام ابو نْعَیم ؒ ( أحمد بن عبد الله الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
کی کتاب ’’ معرفۃ الصحابہ ‘‘ سے نقل کی ہے ،اسے ابو نعیم سے بہت پہلے۔۔امام احمد بن حنبلؒ
نے ’’ مسند ‘‘میں دو جگہ نقل فرمایا ہے۔جو درج ذیل ہے :
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
حدثنا عبد الصمد بن حسان، قال: أخبرنا عمارة يعني ابن زاذان، عن ثابت، عن أنس قال: استأذن ملك المطر أن يأتي النبي صلى الله عليه وسلم، فأذن له، فقال لأم سلمة: " احفظي علينا الباب، لا يدخل أحد "، فجاء الحسين بن علي، فوثب حتى دخل، فجعل يصعد على منكب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له الملك: أتحبه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن أمتك تقتله، وإن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه، قال: فضرب بيده فأراه ترابا أحمر، فأخذت أم سلمة ذلك التراب فصرته في طرف ثوبها، قال: " فكنا نسمع يقتل بكربلاء " (مسند احمد 13794 )
یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ایک دن بارش کے فرشتے نے نبی اکرم سے حاضری اجازت طلب کی۔۔آپ ﷺ نے اسے آنے کی اجازت دی ۔اور آپ ﷺ نے سیدہ ام سلمہ ؓ کو فرمایا کہ آپ دروازے کی نگرانی کریں ،کوئی اندر نہ آئے۔
اتنے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (جو ابھی چھوٹے بچے تھے ) دوڑتے ہوئے آئے اور نبی مکرم ﷺ کے مبارک کندھے
پر چڑھ گئے ۔یہ صورت حال دیکھ کر اس فرشتہ نے کہا کہ کیا آپ اس سے بہت محبت کرتے ہیں ؟
پیغمبر کریم ﷺ نے فرمایا :ہاں (میں اس سے محبت کرتا ہوں )
یہ سن کر اس فرشتے نے کہا : آپ کی امت اس کو قتل کردے گی ۔اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ،جہاں انکو قتل کیا جائے گا ۔تو ملک المطر نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا،اور سرخ رنگ کی مٹی آپ کو دکھائی۔(یعنی وہ سرخ مٹی والا علاقہ ہوگا )
تو سیدہ ام سلمہ ؓ نے وہ مٹی اپنے کپڑے میں محفوظ کرلی ،اور سیدنا انس فرماتے ہیں کہ :ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ سیدنا حسین ؓ کربلاء میں قتل کئے گئے ۔‘‘
مسند احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ :
( إسناده ضعيف، تفرد به عمارة بن زاذان عن ثابت، وقد قال الإمام أحمد: يروي عن ثابت عن أنس أحاديث مناكير.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (2813) ، وأبو نعيم في "دلائل النبوة" (492) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" أيضاً 6/469 من طريق عبد الصمد بن حسان، بهذا الإسناد. وانظر (13539) .

یعنی اسکی سند ضعیف ہے ،اس کو روایت کرنے میں ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ منفرد ہیں ،اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
کہ ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ ثابت کے واسطہ سے جناب انس سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کی قلت اور اپنی بیماری کے سبب مختصراً لکھا ہے ، وگرنہ اس روایت کی تخریج پر تفصیلی مواد موجود ہے
میرے لئے صحت و شفاء کی دعاء ضرور کردیں ،
والسلام علیکم
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی ؛
یہ روایت جو آپ نے امام ابو نْعَیم ؒ ( أحمد بن عبد الله الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
کی کتاب ’’ معرفۃ الصحابہ ‘‘ سے نقل کی ہے ،اسے ابو نعیم سے بہت پہلے۔۔امام احمد بن حنبلؒ
نے ’’ مسند ‘‘میں دو جگہ نقل فرمایا ہے۔جو درج ذیل ہے :
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
حدثنا عبد الصمد بن حسان، قال: أخبرنا عمارة يعني ابن زاذان، عن ثابت، عن أنس قال: استأذن ملك المطر أن يأتي النبي صلى الله عليه وسلم، فأذن له، فقال لأم سلمة: " احفظي علينا الباب، لا يدخل أحد "، فجاء الحسين بن علي، فوثب حتى دخل، فجعل يصعد على منكب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له الملك: أتحبه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن أمتك تقتله، وإن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه، قال: فضرب بيده فأراه ترابا أحمر، فأخذت أم سلمة ذلك التراب فصرته في طرف ثوبها، قال: " فكنا نسمع يقتل بكربلاء " (مسند احمد 13794 )
یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ایک دن بارش کے فرشتے نے نبی اکرم سے حاضری اجازت طلب کی۔۔آپ ﷺ نے اسے آنے کی اجازت دی ۔اور آپ ﷺ نے سیدہ ام سلمہ ؓ کو فرمایا کہ آپ دروازے کی نگرانی کریں ،کوئی اندر نہ آئے۔
اتنے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (جو ابھی چھوٹے بچے تھے ) دوڑتے ہوئے آئے اور نبی مکرم ﷺ کے مبارک کندھے
پر چڑھ گئے ۔یہ صورت حال دیکھ کر اس فرشتہ نے کہا کہ کیا آپ اس سے بہت محبت کرتے ہیں ؟
پیغمبر کریم ﷺ نے فرمایا :ہاں (میں اس سے محبت کرتا ہوں )
یہ سن کر اس فرشتے نے کہا : آپ کی امت اس کو قتل کردے گی ۔اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ،جہاں انکو قتل کیا جائے گا ۔تو ملک المطر نے اپنا پاؤں زمین پر مارا،اور سرخ رنگ کی مٹی آپ کو دکھائی۔(یعنی وہ سرخ مٹی والا علاقہ ہوگا )
تو سیدہ ام سلمہ ؓ نے وہ مٹی اپنے کپڑے میں محفوظ کرلی ،اور سیدنا انس فرماتے ہیں کہ :ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ سیدنا حسین ؓ کربلاء میں قتل کئے گئے ۔‘‘
مسند احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ :
( إسناده ضعيف، تفرد به عمارة بن زاذان عن ثابت، وقد قال الإمام أحمد: يروي عن ثابت عن أنس أحاديث مناكير.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (2813) ، وأبو نعيم في "دلائل النبوة" (492) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" أيضاً 6/469 من طريق عبد الصمد بن حسان، بهذا الإسناد. وانظر (13539) .

یعنی اسکی سند ضعیف ہے ،اس کو روایت کرنے میں ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ منفرد ہیں ،اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں :
کہ ’’ عمارة بن زاذان ‘‘ ثابت کے واسطہ سے جناب انس سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کی قلت اور اپنی بیماری کے سبب مختصراً لکھا ہے ، وگرنہ اس روایت کی تخریج پر تفصیلی مواد موجود ہے
میرے لئے صحت و شفاء کی دعاء ضرور کردیں ،
والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحتہ اللہ وبرکاتہ

اللہ آ پ کی تکلیفوں کو دور کرے اور آ پ کو جلد سے جلد ٹھیک کر دے آ مین
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سند میں عَبْدِ الله بْنِ نُجَيٍّ ہے جس کے امام بخاری فیہ نظر کہتے ہیں

اسی الفاظ سے ابن عدی کہتے ہیں من الحديث وأخباره فيها نظر اپنی حدیث اور خبر میں

فیہ نظر ہے

فیہ نظر محدثین جرح کے لئے بولتے ہیں

عبد الله بن نجي بنون وجيم مصغر بن سلمة الحضرمي الكوفي أبو لقمان صدوق من الثالثة
یہ راوی متکّلم فی ہے اور اس قسم کے راویوں کی روایت کم از کم حسن ہوتی ہے اور متعدد محدثین نے اس روایت کو یا اس روایت کے تمام طرق کو جمع کر کے حسن کہا ہے
(١) ناصر الدین البانی سسلسلہ الصیحیحہ
(٢) شیخ شعیب
(٣) اسد سلیم
تو صرف ایک جرح سے کوئی روایت ضعیف نہیں ہو جاتی ہے .
دوسری بات ایک مجاہد جانتا ہے کہ جنگ کے محاذ پر اس کی شہادت بھی ہو سکتی ہے مگر پھر بھی وہ جاتا ہے کیونکہ اس کے شامل حال الله کی راہ میں قربان ہونا ہوتا ہے تو حسین رضی اللہ عنہ کا جانا اسی قبیل سے تھا ورنہ قرآن میں الله نے فرمایا کہ ہم تم کو جانوں کے نقصان سے آزمائین گے تو کیا مومن الله کی راہ میں جان دیتا ہے کیا یہ خودکشی ہو گی (نعوذ باللہ )الله سب کو ہدایت دے .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس طرح کے ملتے جلتے موضوعات پر فورم پر دونوں طرف سے اتنا لکھا جا چکا ہے ، اور اس تکرار کے ساتھ لکھا جا چکا ہے کہ شاید کچھ نئی بات سامنے نہ آئے ، لہذا کم از کم اس فورم کی حد تک اس موضوع پر بات بالکل نہ کریں ، اور جتنے بھی احباب اس قسم کی بحثوں میں شریک رہے ، میری ان سے گزارش ہے کہ دیگر اہم اور مفید موضوعات میں بھی اپنا حصہ ڈالیں ، لوگوں اور بھی بہت سارے مسائل کی حاجت ہے ، چاروں طرف اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل کو بکھیرنے کی بجائے ، عوام کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی طرف توجہ کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top