• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت کی انگلی تشہد میں کھڑی کرنے کے بارے میں سوال

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تشہد میں شہادت کی انگلی کیسے کھڑی کی جائے مطلب
شروع تشہد میں ہی کھڑی کی جائے
یا درود پڑھنے سے پہلے کھڑی کی جائے۔
یا کھری کر کے پھر ہاتھ سیدھا کر کے بیٹھا جائے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تشہد کے آغاز سے ہی انگی کو حرکت دینا شروع فرما دیتے تھے :
ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا
سنن نسائی کتاب الافتتاح باب موضع الیمین من الشمال فی الصلاۃ ح ۸۸۹
پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور بائیں پاؤں کو پھیلایااور بائیں ہتھیلی اپنی ران اور گھٹنے پر رکھی اور دائیں کہنی کے کنارے کو دائیں ران پر رکھا پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں اور (انگوٹھے اور درمیانی انگی سے ) حلقہ بنایا پھر اپنی (شہادت والی ) انگلی کو اٹھایا تو میں نے دیکھا وہ اسے حرکت دے رہے تھے اس سے دعاء کررہے تھے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تشہد کے آغاز سے ہی انگی کو حرکت دینا شروع فرما دیتے تھے :
ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا
جزاكم الله خيرا محترم بھائی!
ایک وضاحت کر دیجئے کہ بعض حضرات مثلاً شیخ مقبل بن ہادی الوادعی﷾ وغیرہ « يحركها » کے الفاظ (یعنی انگلی کی حرکت) كو شاذ قرار دیتے ہیں، اس کے متعلّق آپ کی کیا رائے ہے؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جزاكم الله خيرا محترم بھائی!
ایک وضاحت کر دیجئے کہ بعض حضرات مثلاً شیخ مقبل بن ہادی الوادعی﷾ وغیرہ « يحركها » کے الفاظ (یعنی انگلی کی حرکت) كو شاذ قرار دیتے ہیں، اس کے متعلّق آپ کی کیا رائے ہے؟
یحرکہا کے الفاظ زائدہ بن قدامہ نے ذکر کیے ہیں اور انکے علاوہ دیگر رواۃ نے اسے ذکر نہیں کیا اس بناء پر کچھ لوگ اسے شاذ قرار دے دیتے ہیں ۔
حالانکہ اسے شاذ کہنا ہی شاذ ہے ۔
کیونکہ محدثین کے ہاں شاذ روایت کی تعریف ہے :
ما رواه الثقة منافيا لما رواه الثقات او الاوثق
جسے کوئی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کے منافی روایت کرے۔
منافات اور تناقض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک جگہ جس چیز کی نفی کی جائے دوسری جگہ اسی چیزکا اثبات ہو۔
اور یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور کہ ایک ثقہ نے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں باقی ثقات نے ذکر نہیں کیے ۔
تو یہ زیادۃ الثقۃ کی قبیل سے ہے نہ کہ شذوذ کی قبیل سے ۔
اور ثقہ کی زیادت کے بارہ میں محدثین کی رائے کچھ یوں ہے :
زيادة الثقة مقبولة مالم تكن منافيا لما رواه الثقات أو الأوثق
ثقہ کی زیادت اسوقت تک مقبول ہوگی جبتک وہ ثقات یا اوثق کے منافی نہ ہو ۔
یہ روایت شاذ تب بنتی جب زائدہ بن قدامہ سے اوثق یا دیگر ثقات نے یہ الفاظ نقل کیے ہوتے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے انگلی کو حرکت نہیں دی ۔
جبکہ معرض استدلال میں ایسی با ت موجود ہی نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ ایک راوی محمد بن عجلان جو کہ صدوق درجہ کا ہے اس نے یہ الفاظ لا یحرکہا یعنی آپ صلى اللہ علیہ وسلم انگی کو حرکت نہیں دیتے تھے ذکر کیے ہیں لیکن اسکی یہ روایت شاذ ہے کیونکہ یہ روایت اپنے سے اوثق زائدہ بن قدامہ کی مخالفت میں کیونکہ زائدہ بن قدامہ ثقہ ثبت راوی ہے جبکہ محمد بن عجلان صدوق ہے اور پھر اس پر کچھ احادیث مختلط ہوگئیں تھیں بالخصوص سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات ۔
اس مختصر سی بحث سے ثابت ہوا کہ
انگلی کو حرکت دینا صحیح اور ثابت ہے جبکہ حرکت نہ دینا ضعیف اور شاذ ہے , اور انگی کو حرکت دینے والی روایت کو شاذ قرار دینے والوں کا قول ہی شاذ ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم جناب رفیق طاہر صاحب
السلام علیکم !
ما شاء اللہ! اہل فورم آپ کی تحقیقات سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ کو ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا موقف اپنی جگہ بجا لیکن اس کے بیان میں سختی اور شدت پائی جاتی ہے۔ ادارہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتا ہے کہ اہل الحدیث کے باہمی اختلافات میں اس قدر سختی اور شدت سے رد کیا جائے یا علمائے اہل حدیث کی بارے عجیب وغریب قسم کے تبصرے جاری کیے جائیں۔ادارے کے نزدیک آپ کی تحقیق قابل احترام ہے لیکن آپ سے زیادہ ہمارے نزدیک علمائے اہل الحدیث محترم ہیں لہٰذاآپ کا یہ کہنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے:
'' انگلی کو حرکت دینا صحیح اور ثابت ہے جبکہ حرکت نہ دیناضعیف اور شاذ ہے،اور انگلی کو حرکت دینے والی روایت کو شاذقرار دینے والوں کا قول ہی شاذ ہے۔
اس عبارت میں آپ نے ایک ایسے موقف کو شاذ قرار دیا ہے جو ائمہ ثلاثہ کا موقف ہے۔ ہمیں اس وقت آپ سے دوسرا موقف منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلوب بیان کی سختی میں نرمی اور تواضع پیدا کروانا مطلوب ہے۔ ائمہ ثلاثہ کے قول کو شاذ کہنا اس اعتبار سے محل نظر ہے کہ یہ 'شاذ' کی تعریف میں داخل نہیں ہے ۔کیا ائمہ ثلاثہ کے اختیار کرنے کے بعد کوئی قول شاذ رائے کہلانے کا مستحق ہے ؟
بقیہ اس کو 'ضعیف'کہنا اس لیے محل نظر ہے کہ اس موقف کے حق میں 'أشار بصبعہ' یا 'یشیر بأصبعہ' یا 'أشار بالسبابة' جیسے الفاظ احادیث سے استدلا ل کیا جاتا ہے اور یہ روایات ان علماء کے نزدیک مستند اور صحیح ہیں۔ ان میں بعض روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ اور شیخ شعیب ارنؤوط نے صحیح قرار دیا ہے۔
جہاں تک آپ کا 'یحرکھا' کو دلیل بنانا ہے تو ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ فعل مضارع ہے اور مجرد فعل مضارع سے استمرار اور تسلسل ثابت نہیں ہوتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں وہ اسے 'مہملہ' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ 'یؤتون الزکوة' کا معنی بار بار زکوة دینا نہیں ہے بلکہ ایک دفعہ کی ادائیگی زکوة سے اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے۔اس موضوع پر حضرت العلام عبد اللہ محدث روپڑی صاحب نے اپنے ایک فتوی میں عمدہ بحث کی ہے۔ اس کا مطالعہ فرمائیں۔
اسی طرح آپ نے شیخ بن باز رحمہ اللہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
'' فاضل بزرگ نے عمومات سے استدلال کیا ہے جبکہ خاص سجدہ تلاوت کی ایک مخصوص دعاء بھی منقول ہے۔''
یہاں 'فاضل' کے لفظ سے محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب یونیورسٹی کے 'عربی فاضل' کی بات ہو رہی ہو اور 'بزرگ' کے لفظ سے تبلیغی جماعت کے کسی بزرگ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ کبار علماء کے بارے اس قسم کے اسلوب خطاب سے بعض اوقات 'تکبر علمی'کی بو آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین!
آپ کی تحقیق اپنی جگہ بجا لیکن ہمارے خیال میں اصل اختلاف منہج استدلال کا ہے۔ آپ کے منہج استدلال میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کا منہج نمایاں نظر آتا ہے جیسا کہ عام طور پر بعض معاصر اہل الحدیث علماء کا بھی یہی منہج نظر آتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا منہج امام ابن حزم رحمہ اللہ سے یکسر مختلف تھا، اگرچہ دونوں تقلید کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں شیخ الاسلام کے منہج پر چلنے والے بزرگوں میں شیخ الکل فی الکل مولانا نذیر حسین دہلوی، حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی اور حضرت العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی چند بڑے نام ہیں۔ آپ ان حضرات کے فتاوی اور تحریروں کا اگر مطالعہ کریں تو بعض معاصر علمائے اہل حدیث سے تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے منہج استدلال اور اسلوب بیان میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔
جہاں تک علمی مبحث کا تعلق ہے تو بعض صورتوں میں ایک مسئلہ میں عام اور خاص دونوں پر عمل ہو سکتا ہے اور یہ مسئلہ بھی اسی کے ذیل میں داخل ہے۔
اگر آپ کے نزدیک یہ اصول درست نہیں ہے تو یہ منہج استدلال کا فر ق ہے، اسے برداشت کریں اور تحمل سے کام لیں۔اپنا موقف ضرور بیان کریں ، ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور اسے اگرآپ راجح سمجھتے ہیں تو ہر کوئی اپنے موقف کو راجح سمجھتا ہے۔ اصل توجہ طلب بات دوسروں پر اسلوب تنقید کو بہتر بنانے کی ہے۔ باقی اس مختصر تحریر میں نہ تو ہم اپنا منہج استدلال تفصیل سے واضح کر سکتے ہیں اور نہ ہی مفصل بیان کرسکتے ہیں۔یہ منہج مذکورہ بالا اہل الحدیث علماء کے اقوال کی روشنی میں وقت کے ساتھ ساتھ بیان ہوتا رہے گا۔
آخر میں معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ جس شاخ پر پھل ہوں تو وہ جھک جاتی ہے ، اسی لیے جہاں علم وفضل ہو تو ہاں تواضع وانکساری بڑھ جاتی ہے اور جہاں پھل نہ ہو تو وہ شاخ جھکی ہوئی نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ جہاں علم کم تو وہاں اپنے بارے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اور کبار علماء کو اپنے برابر کھڑا کر کے ان پر نقد کی جاتی ہے۔ یہ اسلوب کسی حقیقی علم رکھنے والے کے شایان شان نہیں ہے۔اللہ ہم سب کو ا س سے محفوظ فرمائے۔آمین!
اللہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے۔ آمین!
واللہ اعلم بالصواب
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔ اشارہ حرکت کو مانع نہیں ہے لہذا یشیر اور یحرک میں کوئی منافات نہیں !!!
۲۔ یحرکہا کے ساتھ جب لفظ یدعو بہا شامل کر لیا جائے تو وہ سلام سے پہلے تک اسکے استمرار پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رأیت سے قبل لفظ ف ہے جو کہ تعقیب مع الوصل کے لیے آتا ہے جس بناء پر وہ اسکے نقطہء آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
۳۔ ہم نہ تو " تبلیغی " ہیں اور نہ ہی ہمارے کلمات میں انکی مخصوص اصطلاحات ہیں ، محدث فورم میں محدثین والا ذہن لے کر بیٹھا جائے تو ایسا شائبہ قطعا پیدا نہ ہو ۔ اہل الحدیث کے نزدیک قابل صد احترام شخصیتوں کے لیے بر صغیر پاک وہند میں بزرگ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اور لفظ فاضل انکے فضل وشرف کے اعتراف پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو یہ الفاظ پسند نہیں ہیں تو شاید اسکی کوئی خاص وجہ ہوگی لیکن ہم تو سر تسلیم خم کرتے ہیں جناب آپکا حکم سر آنکھوں پر کہ
کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کی بری لگی ×××× تو بیاں سے پہلے بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یادہو​

۴۔ منہج استدلال کا فرق اگر آپ ابن تیمہ اور ابن حزم رحمہما اللہ پر تقسیم کرنے کی بجائے صحابہ وتابعین تک رہنے دیں تو زیادہ مناسب ہے ۔ اور میرا ناقص علم یہ کہتا ہے کہ اہل الحدیث کا منہج استدلال تو ایک ہی ہے مگر طرز بیان و تفہیم قدرے متفاوت ہے ۔ ابن حزم رحمہ اللہ اور ان جیسے اہل الحدیث اپنا مستدل صرف کتاب وسنت سے بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان جیسے اہل الحدیث کتاب وسنت کے دلائل سے ہی استدلال کرتے ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ وہ متقدمین کے اقوال کا ایک انبار بھی لگا دیتے ہیں پھر ان میں سے موافق اقوال کی تایید اور مخالف کا رد کرتے ہیں ۔ یعنی طرز استدلال و استنباط ایک ہی ہے مگر طرز بیاں مختلف ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔ اشارہ بلاشبہ حرکت کو مانع نہیں ہے لیکن ’تحریک‘سے اس کی منافات ہے کیونکہ ’تحریک‘ باب تفعیل سے بار بار حرکت دینے کے معنی میں ہے اور ’اشار‘ کا معنی ایک بات اشارہ کرنا یا ایک بار حرکت دینا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فاشارت الیہ۔(مریم : 29)
حضرت مریم علیہ السلام نے ایک بار اشارہ کیا تھا لہٰذا اس آیت میں ’اشار‘ کو حرک‘ کے معنی میں لینا درست نہیں ہے۔ پس ’تحریک‘ اور ’اشارہ‘ میں منافات ہے۔اشارہ ایک بار حرکت کا متقاضی ہے جبکہ تحریک باربار حرکت کی متقاضی ہے۔
2۔فاء ہمیشہ تعقیب مع الوصل کے لیے نہیں آتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس میں وصل تو کجا تعقیب کا معنی بھی نہیں ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وکم من قریۃ اھلکناھا فجاء ھا باسنا۔(الاعراف : 4)
اس آیت مبارکہ میں پہلے ہلاکت کا تذکرہ ہے اور بعد میں عذاب کا ہے حالانکہ عذاب پہلے ہوتا ہے اور ہلاکت بعد میں ہوتی ہے۔
عربی ادب سے اس کی مثال یوں بیان کی جا سکتی ہے۔جاہلی شاعر امرؤ القیس کے معروف معلقہ کا پہلا شعر کچھ یوں ہے:
قفا نبک من ذکری حبیب ومنزل
بسقط اللواء بین الدخول فحومل
اس شعر میں ’فاء‘ مطلق جمع کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔
بعض اوقات فاء تراخی کا معنی بھی دیتا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قال لھم موسی ویلکم لا تفتروا علی اللہ کذبا فیسحتکم بعذاب۔(طہ : 61)
’سحت‘سے مراد عذاب استیصال ہے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وان کنتم علی سفر ولم تجدوا کاتبا فرھان مقبوضۃ۔(البقرۃ: 283)
اس آیت میں قرض کے لین دین کی صورت میں کیا فورا رہن رکھوانا لازم ہے یا رہن میں کچھ تاخیر بھی ہو سکتی ہے؟
علاوہ ازیں اس وقت احصاء مقصود نہیں ہے۔ اس قسم کی مثالیں اہل علم نے اصول کی کتب میں بہت بیان کی ہیں۔
3۔ آپ کے اس بیان سے خوشی ہوئی۔ جزاک اللہ خیرا
4۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ قیاس کے منکر ہیں جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ قیاس کے موید ہیں تو منہج استدلال میں فرق کیوں نہیں پڑا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ ظاہرنصوص کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حکمت ومقاصد شریعت کو ترجیح دیتے ہیں، دونوں مناہج میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہ تو اصولی فرق کی دو مثالیں تھیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حکمت کا نظریہ بہت ہی گہرا اور مفصل ہے اور اس نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے قیاس کے ایک نئے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کے مجموع الفتاوی میں موجود ہے۔
اگر آپ کی بات مان لی جائے اور ان دونوں اصحاب علم وفضل میں منہج استدلال کا فرق نہ ہوتا تو ’المحلیٰ‘ اور’مجموع الفتاوی‘ میں کوئی فرق نہ ہوتا جبکہ دونوں کا مطالعہ رکھنے والے ان دونوں حضرات کے فتاوی میں زمین وآسمان کا فرق دیکھتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱-اشارہ اور حرکت دونوں یکجا ہو سکتے ہیں ۔ جبکہ منافاۃ کی صورت میں دو چیزوں کا اکٹھا ہونا محال ہوتا ہے ۔
آپکی بیان کردہ مثال میں بھی اشارہ حرکت کو مانع نہیں ہے !!! کیونکہ یہ اشارہ بھی بدون حرکت ممکن نہیں !!!
اسی طرح تحریک اور اشارہ بھی آپس میں کوئی منافاۃ نہیں رکھتے ۔
مثلا کسی کو بلانے کے لیے جب اشارہ کیا جاتا ہے تو تحریک یعنی بار بار حرکت دی جاتی ہے ہاتھ کو ۔
ایسے ہی تشہد کا یہ اشارہ ضرب کا اشارہ ہے جس میں تحریک کی ضرورت ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے لهي أشد على الشيطان من الحديد
۲۔ لیکن جب لفظ یحرکہا کو کے ساتھ آئے تو یہ اس معنى میں زیادہ واضح ہو جاتا ہے اور ابھی ابھی آپ تسلیم فرما چکے ہیں کہ تحریک میں بار بار حرکت پائی جاتی ہے !!!!
۳۔ میں تو ابن حزم کو صرف قیاس مع الفارق یا غلط قیاس کے مخالف سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ ابن حزم نص کی عدم موجودگی میں قیاس صحیح کو طریقہ استدلال و استنباط مانتے ہیں اچھا ہوا کہ آپ نے یہ انکشاف فرما دیا ہے ۔
 
Top