بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم جناب رفیق طاہر صاحب
السلام علیکم !
ما شاء اللہ! اہل فورم آپ کی تحقیقات سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ کو ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا موقف اپنی جگہ بجا لیکن اس کے بیان میں سختی اور شدت پائی جاتی ہے۔ ادارہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتا ہے کہ اہل الحدیث کے باہمی اختلافات میں اس قدر سختی اور شدت سے رد کیا جائے یا علمائے اہل حدیث کی بارے عجیب وغریب قسم کے تبصرے جاری کیے جائیں۔ادارے کے نزدیک آپ کی تحقیق قابل احترام ہے لیکن آپ سے زیادہ ہمارے نزدیک علمائے اہل الحدیث محترم ہیں لہٰذاآپ کا یہ کہنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے:
'' انگلی کو حرکت دینا صحیح اور ثابت ہے جبکہ حرکت نہ دیناضعیف اور شاذ ہے،اور انگلی کو حرکت دینے والی روایت کو شاذقرار دینے والوں کا قول ہی شاذ ہے۔
اس عبارت میں آپ نے ایک ایسے موقف کو شاذ قرار دیا ہے جو ائمہ ثلاثہ کا موقف ہے۔ ہمیں اس وقت آپ سے دوسرا موقف منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلوب بیان کی سختی میں نرمی اور تواضع پیدا کروانا مطلوب ہے۔ ائمہ ثلاثہ کے قول کو شاذ کہنا اس اعتبار سے محل نظر ہے کہ یہ 'شاذ' کی تعریف میں داخل نہیں ہے ۔کیا ائمہ ثلاثہ کے اختیار کرنے کے بعد کوئی قول شاذ رائے کہلانے کا مستحق ہے ؟
بقیہ اس کو 'ضعیف'کہنا اس لیے محل نظر ہے کہ اس موقف کے حق میں
'أشار بصبعہ' یا
'یشیر بأصبعہ' یا
'أشار بالسبابة' جیسے الفاظ احادیث سے استدلا ل کیا جاتا ہے اور یہ روایات ان علماء کے نزدیک مستند اور صحیح ہیں۔ ان میں بعض روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ اور شیخ شعیب ارنؤوط نے صحیح قرار دیا ہے۔
جہاں تک آپ کا '
یحرکھا' کو دلیل بنانا ہے تو ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ فعل مضارع ہے اور مجرد فعل مضارع سے استمرار اور تسلسل ثابت نہیں ہوتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں وہ اسے 'مہملہ' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ
'یؤتون الزکوة' کا معنی بار بار زکوة دینا نہیں ہے بلکہ ایک دفعہ کی ادائیگی زکوة سے اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے۔اس موضوع پر حضرت العلام عبد اللہ محدث روپڑی صاحب نے اپنے ایک فتوی میں عمدہ بحث کی ہے۔ اس کا مطالعہ فرمائیں۔
اسی طرح آپ نے شیخ بن باز رحمہ اللہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
'' فاضل بزرگ نے عمومات سے استدلال کیا ہے جبکہ خاص سجدہ تلاوت کی ایک مخصوص دعاء بھی منقول ہے۔''
یہاں 'فاضل' کے لفظ سے محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب یونیورسٹی کے 'عربی فاضل' کی بات ہو رہی ہو اور 'بزرگ' کے لفظ سے تبلیغی جماعت کے کسی بزرگ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ کبار علماء کے بارے اس قسم کے اسلوب خطاب سے بعض اوقات 'تکبر علمی'کی بو آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین!
آپ کی تحقیق اپنی جگہ بجا لیکن ہمارے خیال میں اصل اختلاف منہج استدلال کا ہے۔ آپ کے منہج استدلال میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کا منہج نمایاں نظر آتا ہے جیسا کہ عام طور پر بعض معاصر اہل الحدیث علماء کا بھی یہی منہج نظر آتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا منہج امام ابن حزم رحمہ اللہ سے یکسر مختلف تھا، اگرچہ دونوں تقلید کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں شیخ الاسلام کے منہج پر چلنے والے بزرگوں میں شیخ الکل فی الکل مولانا نذیر حسین دہلوی، حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی اور حضرت العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی چند بڑے نام ہیں۔ آپ ان حضرات کے فتاوی اور تحریروں کا اگر مطالعہ کریں تو بعض معاصر علمائے اہل حدیث سے تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے منہج استدلال اور اسلوب بیان میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔
جہاں تک علمی مبحث کا تعلق ہے تو بعض صورتوں میں ایک مسئلہ میں عام اور خاص دونوں پر عمل ہو سکتا ہے اور یہ مسئلہ بھی اسی کے ذیل میں داخل ہے۔
اگر آپ کے نزدیک یہ اصول درست نہیں ہے تو یہ منہج استدلال کا فر ق ہے، اسے برداشت کریں اور تحمل سے کام لیں۔اپنا موقف ضرور بیان کریں ، ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور اسے اگرآپ راجح سمجھتے ہیں تو ہر کوئی اپنے موقف کو راجح سمجھتا ہے۔ اصل توجہ طلب بات دوسروں پر اسلوب تنقید کو بہتر بنانے کی ہے۔ باقی اس مختصر تحریر میں نہ تو ہم اپنا منہج استدلال تفصیل سے واضح کر سکتے ہیں اور نہ ہی مفصل بیان کرسکتے ہیں۔یہ منہج مذکورہ بالا اہل الحدیث علماء کے اقوال کی روشنی میں وقت کے ساتھ ساتھ بیان ہوتا رہے گا۔
آخر میں معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ جس شاخ پر پھل ہوں تو وہ جھک جاتی ہے ، اسی لیے جہاں علم وفضل ہو تو ہاں تواضع وانکساری بڑھ جاتی ہے اور جہاں پھل نہ ہو تو وہ شاخ جھکی ہوئی نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ جہاں علم کم تو وہاں اپنے بارے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اور کبار علماء کو اپنے برابر کھڑا کر کے ان پر نقد کی جاتی ہے۔ یہ اسلوب کسی حقیقی علم رکھنے والے کے شایان شان نہیں ہے۔اللہ ہم سب کو ا س سے محفوظ فرمائے۔آمین!
اللہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے۔ آمین!
واللہ اعلم بالصواب