• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہریت کے تین اصول

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۝۰ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۵۷
وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْيَۃَ فَكُلُوْا مِنْہَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ۝۰ۭ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ۝۵۸

اورہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور من وسلویٰ تم پر اتارا۔ ستھری چیزیں جو ہم نے تم کو دیں (خوب) کھاؤ اور ہمارا کچھ نقصان نہ کیا۔ پر اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔۱؎ (۵۷) اور جب ہم نے کہا کہ تم اس شہر میں داخل ہو جاؤ اور جہاں چاہو بافراغت (محفوظ) ہوکر کھاتے پھرو اور سجدے کرتے اور حِطَّۃٌ بولتے ہوئے دروازہ میں داخل ہو تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور نیکوں کو ہم زیادہ بھی دیں گے۔ (۵۸)
۱۔ سب سے بڑافضل جو بنی اسرائیل پر ہوا ، وہ فکر معاش سے بے نیازی تھی، تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ دینی کاموں میں مشغول ہوسکیں۔ ان پر من وسلویٰ کی نعمتیں نازل کی گئیں۔ انھیں عام تکالیف سے بھی بچایاگیا۔ جنگل کی دھوپ سے بچنے کے لیے ابرکا سایہ مہیا کیا گیا، تاکہ انھیں کوئی شکایت باقی نہ رہے اور وہ پورے وقت قوت اور استعداد کے ساتھ اللہ کے مشن کو پورا کریں لیکن وہ انعاماتِ الٰہیہ سے صحیح صحیح استفادہ نہ کرسکے۔
بنی اسرائیل کو جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلے کی اجازت مل گئی جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا۔ تو ان پر چند قیود عاید کردی گئیں جوتمدن صحیح کی جان ہیں اور شہری زندگی کے لوازم میں ہے ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کو تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں۔ وہ تین چیزیں قرآن کے الفاظ میں یہ ہیں:

(الف) اللہ سے بہرحال تعلق قائم رہے۔اس کا آستانۂ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معموررہے۔

(ب) ہم اپنے گناہوں کاجائزہ لیتے رہیں۔ تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہروقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جویاں رہیں۔

(ج) احسان اور جذبۂ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے۔

ان سہ گانہ اصولوں کو قرآن حمید نے اپنی معجزانہ زبان میں اس طرح ادا فرمایا ہے ۔ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا کہ شہر میں عجز ونیاز مندی لیے ہوئے رہنا۔ وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ اور ہرآن بخشش مانگتے رہنا اور جان رکھوکہ وہ لوگ جو محسن ہیں، ان کے درجے ہم اور بڑھائیں گے۔ ظاہر ہے یہ باتیں نہایت قیمتی نصائح کی حیثیت رکھتی تھیں مگر بنی اسرائیل نے تغافل سے کام لیا۔ شہری فسق وفجور میں مبتلا ہوگیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الٰہی نے آگھیرا۔بعض آثار میں آتا ہے کہ عذاب طاعون کی شکل میں آیا۔ مسلم میں حدیث ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ طاعون بقیہ قوموں کا عذاب ہے جب کسی جگہ آجائے تو تم بھاگو نہیں اور نہ مطعونہ شہر میں جاؤ۔
حل لغات

{المن} ترنجبین(جمہور مفسرین) ایک قسم کا میٹھا گوند(قاموس) شہد۔کوئی میٹھی چیز ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے بالکل صاف ہے ۔ وہ کہتے ہیں۔ من مصدر ہے ۔تمام ان چیزوں کو شامل ہے جو بلا تعب وکسب حاصل ہوجائیں۔ بخاری ومسلم میں حدیث ہے ۔اِنَّ الْکَمَأۃَ مِنَ الْمَنِّ جس سے اس عموم کی توضیح ہوجاتی ہے ۔ {سلویٰ} بٹیریں۔ (جمہور مفسرین) شہد( علامہ جوہری ) بٹیر ایک ایسا پرندہ(ابن عطیہ) ایک طرح کا پرندہ(ابن عباس رضی اللہ عنہ ) صحیح چیز یہ ہے کہ یہ بھی من کی طرح عام المعنی ہے ۔ ہروہ شے موزوں جس کے کھانے سے تسکین وتسلی حاصل ہو (راغب) ۔ {القریۃ} شہر۔
 
Top