• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب و سنت کے داعی اور علمبردار

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب و سنت کے داعی اور علمبردار

تحریر: ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمه الله
ترجمہ: محمد شاهد يار محمد سنابلى


(نوٹ: زیر نظر مضمون سعودی عرب سے شائع ہونے والے ایک معروف و مؤقر مجلہ "مجلۃ البحوث الاسلامیہ" عدد نمبر 24 میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے اردو قالب میں ڈھال کر ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ قارئین اس سے مستفید ہوں گے۔)

ہر وہ مسلمان جو دین اسلام کے مصادر و مآخذ کا علم رکھتا ہے اس کے نزدیک اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دین اسلام دو بنیادوں پر قائم ہے، ان کے علاوہ کوئی تیسری بنیاد نہیں۔ اور وہ دونوں بنیادیں قرآن و سنت ہیں۔ قرآن کریم پہلی بنیاد ہے۔ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر معاملے میں اس کی طرف رجوع کرے۔ ہر مسئلہ میں اسے اپنا حَکَم اور فیصل تسلیم کرے۔ اس کے احکام وفرامین پر عمل کرے اور اس کے اصول و عقائد پر ایمان رکھے۔ سنت نبوی دین اسلام کی دوسری بنیاد ہے جس کی طرف مسلمان ہر مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں اور اپنے تمام عقدی وشرعی مسائل اور دینی و دنیاوی معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

اس حقیقت کی وضاحت کے لئے بہت ساری آیات و احادیث وارد ہیں۔ تاہم اس عجلت میں ان تمام آیات و احادیث کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس لئے درج ذیل سطور میں صرف چند آیات و احادیث پیش کی جارہی ہیں:

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا) (الأحزاب 36)

ترجمہ: اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا۔

فرمان باری تعالی ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) (النساء 65)

ترجمہ: سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

فرمان باری تعالی ہے:{ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.} (النور 63)

ترجمہ: سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: (لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي بِمَا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ : لَا أَدْرِي ، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ) (رواه الإمام أحمد في المسند ٥٨/٦ ، وأبو داؤد، السنة ، باب لزوم السلة ، رقم ٤٦٠٥. والترمذي : العلم ، باب ما نهي عنه أن يُقال عند حديث النبي ﷺ . وابن ماجه: المقدمة ، رقم/ ۱۳ والحاكم ۱۰۸/۱ ، ۱۰۹ ، والدارمي : المقدمة؛ ۱۱۷/۱)

ترجمہ: میں تم میں کسی کو نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر بیٹھا ہوا ہو۔ اس کے سامنے میری کوئی حدیث پیش کی جائے جس میں میں نے کسی بات کا حکم دیا ہے یا کسی چیز سے روکا اور منع کیا ہے۔ مگر وہ حديث سن کر یہ کہے: مجھے یہ سب نہیں معلوم، ہمیں جو حکم قرآن میں ملے گا ہم صرف اسی کی پیروی کریں گے۔

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: (ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ ، ألا يُوشِكُ رجُلٌ شبعانٌ على أريكتِهِ يقولُ عليكُم بِهذَا القُرآنِ فما وجدتُم فيهِ مِن حَلالٍ فأحلُّوه وما وَجدتُم فيهِ مِن حرامٍ فحرِّمُوه...) (رواه أحمد في المسند (١٣٠/٤ - ١٣٣ والدارمي : ١٤٤/١ وأبو داود : السنة ، رقم /٤٦٠٤ والترمذي : العلم ، رقم ( ٢٦٦٠ و ابن ماجه المقدمة ، رقم / ١٢ والحاكم : ١/١٠٩)

ترجمہ: سنو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔ آگاہ رہو! عنقریب کوئی شکم سیر اپنی مسند پر بیٹھ کر کہے گا: تم صرف اسی قرآن کو لازم پکڑو۔ اس میں جو چیز تمہیں حلال ملے اسے حلال سمجھو اور اس میں جو حرام ملے اسے حرام سمجھو۔

صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ سلف اسی قرآن و سنت کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ گامزن رہے۔ چنانچہ جب انہیں کسی مسئلہ کا حل قرآن میں مل جاتا تو کسی اور طرف نظر التفات نہیں کرتے۔ اور اگر قرآن میں نہیں ملتا تو سنت رسول کا سہارا لیتے۔ اور قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ہرگز نہیں قبول کرتے۔ اپنی عقلی قیاس آرائیوں، نفسانی خواہشات اور مذہبی تعصبات کے ذریعے قرآن و سنت کے نصوص کی مخالفت نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین کے بہت سے اقوال و آثار ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث رسول کے سامنے کسی بھی صورت میں کسی رائے اور قول کو نہیں ترجیح دیتے تھے۔

چنانچہ ایک روایت کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمايا:

" اتقوا الرأي في دينكم ". وكان يقول: " إن أصحاب الرأي أعداء السنن، أعيتهم أن يحفظوها وتفلتت منهم أن يعوها واستحيوا حين يسألوا أن يقولوا لا نعلم، فعارضوا السنن برأيهم فإياكم وإياهم "

اپنے دین میں رائے زنی اور قیاس آرائی سے اجتناب کرو۔ نیز فرماتے تھے: اہل الرائے سنت نبوی کے دشمن ہیں۔ جب وہ سنت کو یاد کرنے سے عاجز آگئے، سنت نبوی ان کے حفظ و یادداشت میں سمانے سے رہی اور جب ان سے کوئی سوال ہوتا تو وہ لا ادری کہنے سے شرماتے تھے۔ تو ایسی صورت میں انہوں نے اپنی رائے کے ذریعے سنت کی مخالفت شروع کر دی۔ اس لیے ان سے دور رہو۔ (إيقاظ الهمم ص / ١٢)

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

" إنما هو كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم. فمن قال بعد ذلك برأيه فما أدري أفي حسناته أم في سيئاته "

کتاب اللہ اور سنت رسول ہی اصل اور بنیاد ہیں۔ لہذا اس کے علاوہ جو شخص اپنی رائے سے کوئی بات کہے تو مجھے نہیں معلوم کہ یہ اس کی نیکیوں میں شمار ہوگا یا اس کے گناہوں میں۔
(إيقاظ الهمم، ص / ١٣)

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ لوگ قرآن و سنت سے براہ راست اپنے عقائد اور شرعی احکام اخذ کرتے رہے اور قرآن و سنت ہی کو اپنے لئے کافی و شافی سمجھتے تھے۔ اس کے بعد فتوحات کا دور شروع ہوا۔ اسلامی فتوحات کا رقبہ اور دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے اور ہر جگہ وہ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس اختلاط کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے باآسانی ان کے مذاہب اور افکار و نظریات سے روشناس ہونے کا موقع فراہم ہوا۔ چنانچہ وہ مسلمان ان کے افکارو نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ کچھ لوگ انہی افکار کے ذریعے اسلام اور عقیدہ اسلام کی تعبیر و تشریح پیش کرنے لگے۔

اس کے بعد کچھ نئے فتنے اور بڑے بڑے سیاسی واقعات رونما ہوئے جس سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ ان کی وحدت و اجتماعیت پارہ پارہ ہو گئی۔ ایسے مذہبی و سیاسی اختلافات ابھر کر سامنے آئے جو مرور زمانہ کے ساتھ مذہب کے رنگ روپ میں ڈھل گئے۔ یہیں سے اسلام کے اندر نت نئے فرقوں کا ظہور و آغاز ہوا جیسے خوارج، شیعہ اور مرجئہ وغیرہ۔ یہ فرقے بعض دینی مسائل کو لے کر باہم دست و گریباں رہنے لگے۔

دوسری طرف متعدد فقہی مذاہب بھی وجود میں آگئے اور ہر مکتب فکر کو مسلمانوں کے عام و خاص دونوں طبقوں سے اپنے اندھے عقیدت مند مل گئے جو باہم برسرپیکار رہتے۔ ایک دوسرے سے بغض و عداوت رکھتے اور اپنے مذہب کی آندھی اور بیجا طرفداری کرتے یہاں تک کہ ان کا معاملہ کتاب وسنت کے انکار اور اسے پس پشت ڈالنے تک جا پہنچا۔

تاہم ان تمام تعصبات اور دین کے اصلی سرچشموں سے دوری کے باوجود ہر جگہ اور ہر دور میں ایسے ائمہ کرام، محدثین عظام اور دین حنیف کے مجددین موجود رہے جنہوں نے امت اسلامیہ کو کتاب و سنت کی طرف لوٹنے اور اسے مضبوطی سے تھامنے کی دعوت دی اور انہیں بتایا کہ ان کی تمام بیماریوں سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ صحيح دین کی طرف واپس لوٹ جائیں اور غیر قوموں کے افکار و نظریات اور تباہ کن مذاہب وفلسفے سے دوری اختیار کریں جن کا صحیح دین سے کوئی تعلق نہیں۔

ساتویں صدی ہجری میں حالات مزید سنگین ہو گئے۔ گھٹا ٹوپ تاریکی چھا گئی۔ امت اسلامیہ مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئی۔ اور مسلمان ایسے عقائد کو لے کر باہم دست و گریباں ہوئے جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہر مسلک کے لوگ اپنے مسلک سے اس درجہ تعصب برتنے لگے کہ کتاب و سنت کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

امت اسلامیہ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں سسک اور کراہ رہی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں مجددین کے روح رواں، اسلامی نشاۃ ثانیہ کے رہبر و رہنما اور کتاب و سنت کے کے داعی و علمبردار شیخ الاسلام تقی الدین احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پیدا فرمایا جنہوں نے ہر حال، ہر دور اور ہر جگہ کتاب و سنت کی طرف رجوع اور اس کی دعوت کا عَلَم اٹھائے رکھا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایمان کے مضبوط و طاقتور، اپنی دعوت میں مخلص و بے لوث اور حق گوئی میں جری و بے باک تھے۔ راہ حق کی دعوت میں ملنے والی اذیت و تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑی جرات و بے باکی سے مذہب سلف کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ اپنے زمانے کے تمام منحرف مذاہب اور فرقوں کو اپنی تنقید و تردید کا نشانہ بنایا۔ لوگوں کو سلف اول یعنی صحابہ وتابعین کے منہج و طریقہ کی طرف دعوت دی۔ دین کے اندر ایجاد کردہ تمام بدعات و خرافات کی بیخ کنی کی اور دین اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو لاحق ہونے والے گردوغبار اور خرابیوں سے اسے پاک و صاف کیا۔

درج ذیل سطور کے اندر میں کوشش کروں گا کہ شیخ الاسلام کے دعوتی اور علمی گوشوں میں سے ایک اہم گوشہ کو اجاگر کروں۔ یہ گوشہ اہم ہی نہیں بلکہ آپ کی زندگی کا سب سے اہم گوشہ اور آپ کی دعوت کی اساس اور بنیاد ہے، اور وہ ہے کتاب و سنت کی طرف دعوت کا عَلَم بلند کرنا اور دین اسلام کو اس کے صحیح اور اصل سرچشموں کی طرف واپس لوٹانا اور ناقابل تردید دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنا کہ اسلام صرف اور صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ اور جو چیز ان دونوں میں سے کسی ایک ماخذ سے ثابت نہ ہو وہ باطل اور ناقابل قبول ہے۔ مچھر کے پر کے برابر اس کی حیثیت نہیں اور نہ مٹی کے ایک ذرہ کے برابر اس کی کوئی وقعت ہے۔

بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین اسلام کو مختلف قسم کی آمیزشوں سے پاک و صاف کرنے میں کامیاب ہوئے اور امت اسلامیہ کے سامنے ضلالت و کج روی سے دور دین اسلام کو اس کی صحیح اور اصلی شکل میں پیش کیا۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
آپ کی مختصر سوانح پیش خدمت ہے:

نام و نسب: تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن ابی القاسم بن الخضر بن محمد بن تیمیہ الحرانی الدمشقي۔

پیدائش و نشوونما: عراق کے ایک شہر حَرَّان میں انھوں نے آنکھیں کھولیں۔ یہ شہر آجکل ترکی کے حدود میں واقع ہے۔ یہ شہر اس وقت علم و علماء کا گہوارہ تھا۔ ان کی پیدائش بروز سوموار 10 ربیع الاول سن 661 ہجری میں ہوئی۔ شہر حران پر تاتاریوں کے حملے کے بعد وہ اپنے والد ماجد و دیگر اہل خانہ کے ساتھ دمشق کی طرف ہجرت کر گئے۔ راستے میں ان سب کو سخت قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دشمن کے خوف سے وہ صرف رات کو چلتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنا قیمتی سرمایہ یعنی کتابیں ایک ہاتھ گاڑی پر لادے ہوئے چلتے تھے کیونکہ اس وقت سواری کے جانور دستیاب نہیں تھے اور اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو قریب تھا کہ دشمن انھیں پا لیتا۔

ان کے والد کا شمار اصحاب علم و فضل میں ہوتا تھا۔ دمشق کی سب سے بڑی جامع مسجد میں درس و تدریس، دعوت و تبلیغ، وعظ و ارشاد کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ وہاں وہ دارالحدیث السکریہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے۔ سن 682 ہجری میں دمشق میں ان کے والد کی وفات ہوئی۔ رحمة الله عليہ (تذكرة الحفاظ ص 1496، البداية والنهاية 303/13)

مورخین نے تقریبا بالاتفاق یہ بات لکھی ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نشونما اور تربیت عفت و پاکدامنی اور تقوی و دینداری کے زیر سایہ ہوئی۔ کھانے پینے اور پہننے میں میانہ روی ان کی عادت تھی۔ وہ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار، عابد و زاہد، پرہیزگار، بکثرت روزہ رکھنے والے، بڑے تہجد گزار، حدود الٰہی کے سخت پابند، امربالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل اور علم کے بڑے شیدائی اور شوقین تھے۔ مطالعہ اور بحث و تحقیق سے کبھی اکتاہٹ کے شکار نہیں ہوتے تھے۔

علم و فن کے جس بھی دروازے پر انہوں نے دستک دی اللہ نے اسے ان کے لئے چوپٹ کھول دیا۔ اور اس فن کے اساطین وماہرین پر سبقت لے گئے۔ بچپن سے ہی وہ علمی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ مسائل پر گفتگو کرتے، مناظرہ کرتے، بڑے بڑے اہل علم کو دلائل سے لاجواب کردیتے۔ اور ایسے علمی نکات و باریکیاں پیش فرماتے جس سے اس فن کے ماہرین انگشت بدنداں رہ جاتے۔

زبان میں فصاحت تھی۔ پڑھنے میں تیز تھے۔ ذہن اخاذ کے مالک تھے بلکہ حفظ و یادداشت میں یگانہ روزگار تھے۔ علم و علماء کی خدمت، کتاب و سنت کی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ علمی و دینی مشاغل و مصروفیات میں اس قدر منہمک رہے کہ شادی کی نہ باندی رکھا۔ اور نہ مال و جائیداد اکٹھا کیا۔ دنیاوی جھمیلوں میں کبھی دل نہ لگایا۔ ان کے بڑے بھائی شرف الدین ان کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ بیشتر اوقات ایسا ہوتا کہ وہ ان سے دوپہر اور رات کا کھانا نہیں مانگتے۔

سن 691 ہجری میں جب ان کی عمر 30 سال کی تھی تو انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ جب حج سے واپس ہوئے تو وہ علم و عمل میں منصب امامت پر فائز ہو گئے اور وہ اپنے محبین و مخالفین سب کے اعتراف اور گواہی کے بعد شیخ الاسلام والمسلمین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ رحمة الله عليه

ان کے بڑے بڑے اساتذہ و مشائخ: آپ نے بہت سارے مشائخ سے کسب فیض کیا جن کی تعداد 200 سے متجاوز ہے۔ نیز انہوں نے عالی اور صحیح روایات کے حامل بہت سے مشائخ سے متعدد کتابیں سماعت فرمائیں۔ مثال کے طور پر شیخ شمس الدین، شیخ زین الدین احمد بن عبد الدائم، شیخ ابو الیسر، الکمال بن عبد اللہ، المجد ابن عساکر، الجمال یحیی ابن الصیرفی، احمد بن ابو الخیر، قاسم، الاربلی، شیخ فخرالدین ابن البخاری، الکمال عبدالرحیم، ابو القاسم بن علال، احمد بن شیبان، اور زینب بنت مکی۔

وہ تفسیر قرآن کی طرف مائل ہوئے۔ حدیث نبوی کو اپنا مشغلہ بنایا۔ فلسفہ، کلام اور اس وقت کے دیگر مروجہ علوم و فنون کو بھی اپنے زیر مطالعہ رکھا۔ ہر فن میں اپنا ایک نمایاں مقام بنایا اور ابھی آپ نے اپنی عمر کی بیس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں کہ تدریس و افتاء کے منصب پر فائز ہوئے۔ (العقود الدرية ص/3، تذكرة الحفاظ ص/1396)

تفسیر قرآن میں مہارت: آپ جب تفسیر قرآن کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنی اخاذ طبیعت اور ذہن رسا کے ذریعے قرآن کی باریکیوں میں غوطہ زن ہوئے اور ایسے معانی و مسائل کا استنباط کیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ما رأيت أحدا أسرع انتزاعا للآيات الدالة على المسألة التي يوردها منه
میں نے ایسا کسی شخص کو نہیں پایا جو زیر بحث مسئلہ میں قرآنی آیات سے دلائل کشید کرنے میں ان سے زیادہ تیز ہو۔


مزید فرماتے ہیں: كان آية من آيات الله في التفسير والتوسع فيه، لعله يبقى في تفسير الآية المجلس والمجلسين
آپ تفسیر قرآن اور اس کا وسیع علم رکھنے میں اللہ کی ایک نشانی تھے۔ بسا اوقات ایک آیت کی تفسیر میں ایک ایک دو دو مجلسیں لگ جاتیں۔


مزید فرماتے ہیں: حكى لي من سمعته يقول: إني وقفت على مائة وعشرين تفسيرا أستحضر من الجميع الصحيح الذي فيها
مجھے ایک شخص نے بتایا جس نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے 120 تفسیر کی کتابوں کو دیکھا اور پڑھا اور ان کتابوں میں جو درست تفسیریں ہیں وہ ساری مجھے زبانی ازبر ہیں۔
(الوافي بالوفيات ٧/ ١٥، ١٦)

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جلس الشيخ تقي الدين المذكور أيضا يوم الجمعة عاشر صفر بالجامع الأموي بعد صلاة الجمعة على منبر قد هيئ له لتفسير القرآن العزيز، فابتدأ من أوله في تفسيره، وكان يجتمع عنده الخلق الكثير والجم الغفير من كثرة ما يورد من العلوم المتنوعة المحررة

شیخ تقی الدین 10 صفر بروز جمعہ اموی جامع مسجد کے منبر پر نماز جمعہ کے بعد تفسیر قرآن کے لیے مسند افروز ہوئے۔شروع سے تفسیر قرآن کا آغاز کیا۔ چونکہ آپ مختلف علوم و فنون کی تحقیقی معلومات بکثرت بیان فرماتے تھے اس لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے درس میں شریک ہوتی تھی۔
(البداية والنهاية ١٣/ ٣٠٣)

آپ نے "قل ھو اللہ احد" کی تفسیر میں ایک ضخیم جلد، اور "الرحمن علی العرش استوی" کی تفسیر میں 35 چھوٹے چھوٹے دفتر املا کروائیں۔ (الأعلام العلية ص 24)

علوم سنت میں کمال و مہارت: آپ نے حدیث نبوی کو اپنا مشغلہ بنایا۔ کتب ستہ اور مسند احمد کو متعدد بار اور "معجم الطبرانی الكبير" کے ساتھ بے شمار کتابوں کی سماعت کا شرف حاصل کیا۔ کئی حدیثی اجزاء کو اپنے ہاتھوں سے لکھا۔ بہت سے مشائخ سے کسب فیض کیا۔

بحث و تحقیق میں مصروف ہوئے۔ علم رجال و طبقات، علل حدیث اور فقہ حديث میں مہارت حاصل کی اور ان علوم میں وہ تبحر، کمال اور گہرائی حاصل کی جو اور کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ ائمہ نقد و جرح میں ان کا شمار ہونے لگا۔ شاید و باید ہی کوئی ہو گا جسے ان کی طرح احادیث ان کے اصل مصادر اور صحابہ کرام کی نسبت کے ساتھ یاد ہو۔

بوقت ضرورت سنت نبوی سے برجستہ دلیل پیش کرنے کا انھیں بے پناہ ملکہ حاصل تھا۔ فقہ، اختلاف مذاہب اور صحابہ و تابعین کے فتاوی کے بارے میں وہ سب سے زیادہ علم و معرفت رکھنے والے تھے۔ اسی لیے جب ان سے کوئی فتوی دریافت کیا جاتا تو وہ کسی خاص مذہب کے مطابق نہیں بلکہ کتاب و سنت سے دلیل کی بنیاد پر فتوی دیتے۔ اس طرح انہوں نے نہایت واضح دلائل و براہین کے ذریعے سنت نبوی کی خدمت اور اس کا دفاع کیا۔

اللہ کی ذات کی خاطر انھیں مخالفین کی طرف سے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سنت نبوی کے دفاع کی پاداش میں انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ بالآخر اللہ تعالی نے ان کا اقبال بلند فرمایا اور نیک لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور دعا کا جذبہ ڈال دیا۔

ابن تیمیہ کے متعلق دمیاطی کے سوالات کے جواب میں حافظ ابن سید الناس لکھتے ہیں:
ألفيته ممن أدرك من العلوم حظا، وكان يستوعب السنن والآثار حفظا
میں نے انہیں ایسے لوگوں میں سے پایا جنہیں مختلف علوم و فنون میں ایک وافر حصہ عطا ہوا تھا اور انہیں احادیث و آثار پر زبانی عبور حاصل تھا۔
(الشهادة الزكية، ص / ٢٦)

امام ذہبی اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں ان کی سوانح پر طویل گفتگو کے بعد کہتے ہیں کہ وہ اس قول کے مصداق ہیں:
كل حديث لا يعرفه ابن تيمية فليس بحديث
ہر وہ حدیث جسے ابن تیمیہ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں ہے۔ (الكواكب الدرية، ص / ١٤٥)

ابن الزملکانی نے بھی ان کی ایک طویل سوانح لکھی ہے اور ان کی خوب تعریف کی ہے وہ کہتے ہیں کہ

ما رأينا في عصرنا هذا من تستجلى النبوة المحمدية وسننها من أقواله وأفعاله إلا هذا الرجل، يشهد القلب الصحيح أن هذا هو الاتباع حقيقة

ہم نے اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے اقوال و افعال سے نبوت محمدیہ اور سنن نبویہ کی جلوہ نمائی ہوتی ہو۔ انھیں دیکھ کر ایک پاکیزہ دل یہی گواہی دے گا کہ حقیقی اتباع رسول اسے کہتے ہیں۔
(مقدمة علم الحديث لابن تيمية، ص / ٤٥)

حافظ المزی فرماتے ہیں:
ما رأيت أحدا أعلم بكتاب الله وسنة رسوله ولا أتبع لهما منه
میں نے ابن تیمیہ سے بڑا کسی اور کو کتاب وسنت کا عالم باعمل نہیں پایا۔
(الرد الوافر، ص / ١٢٩)

ابو حفص البزار فرماتے ہیں:

أما معرفته وبصره بسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأقواله وأفعاله وقضاياه ووقائعه وغزواته وسراياه وبعوثه وما خصه الله تعالى من كراماته ومعجزاته ومعرفته بصحيح المنقول عنه وسقيمه، والمنقول عن الصحابة - رضي الله عنهم - في أقوالهم وأفعالهم وقضاياهم وفتاويهم، وأحوالهم وأحوال مجاهداتهم في دين الله، وما خصوا به من بين الأمة، فإنه كان - رضي الله عنه - من أضبط الناس لذلك وأعرفهم فيه، وأسرعهم استحضارا لما يريده منه، فإنه قل أن ذكر حديثا في مصنف وفتوى أو استشهد به أو استدل به إلا عزاه في أي دواوين الإسلام هو، ومن أي قسم من الصحيح أو الحسن أو غيرها، وذكر اسم راوية من الصحابة، وقل أن يسأل عن أثر إلا وبينه في الحال، حاله، وحال أمره، وذكره.

رہی بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، ان کے اقوال و افعال، ان کے حالات و واقعات، ان کے لشکر و غزوات، ان کے وفود اور اللہ کی عطا کردہ امتیازات و معجزات کے متعلق ان کی معرفت و بصیرت، نیز احادیث رسول میں صحیح و ضعیف کی تمیز و معرفت اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال، ان کے فیصلے و فتاوے، ان کے حالات و واقعات اور دین کے تئیں ان کی قربانیاں اور خدمات اور ان کے امتیازات و خصوصیات تو یہ سب چیزیں انہیں خوب اچھی طرح معلوم اور ازبر تھیں۔ ان میں سے جس چیز کی انہیں ضرورت ہوتی بہت جلد اس کا استحضار کرلیتے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ آپ نے کسی کتاب یا کسی فتوی میں کسی حدیث سے استدلال کیا ہو اور دین کے اصل مصادر کا حوالہ نہ دیا ہو۔ مزید یہ بھی وضاحت کی کہ وہ حدیث صحیح ہے یا حسن یا ضعیف۔ اس حدیث کے راوی صحابی کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح جب بھی کسی اثر کے متعلق سوال ہوتا تو بروقت اس اثر کی اسنادی حیثیت اس کا پس منظر وغیرہ کی پوری وضاحت فرماتے۔

ومن أعجب الأشياء في ذلك أنه في محنته الأولى بمصر أخذ وسجن، وحيل بينه وبين كتبه، صنف عدة كتب صغارا وكبارا، وذكر فيها ما احتاج إلى ذكره من الأحاديث والآثار وأقوال الصحابة وأسماء المحدثين والمؤلفين ومؤلفاتهم، وعزا كل شيء من ذلك إلى ناقليه وقائليه بأسمائهم، وذكر أسماء الكتب التي ذكر فيها، وفي أي موضع فيها، كل ذلك بديهة من حفظه؛ لأنه لم يكن عنده حينئذ كتاب يطالعه. ونقيت واعتبرت فلم يوجد فيها بحمد الله خلل ولا تغيير، ومن جملتها كتاب " الصارم المسلول على شاتم الرسول "، وهذا من الفضل الذي خصه الله تعالى به

اسی سلسلے کا ایک عجیب ترین واقعہ آپ کی مصر میں پہلی آزمائش سے متعلق ہے جب آپ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا اور آپ کو آپ کی کتابوں سے دور کردیا گیا، تو ان دنوں انہوں نے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ نے ان کتابوں میں حسب ضرورت جن احادیث و آثار، صحابہ کے اقوال، محدثین و مؤلفین اور ان کی مولفات کے ناموں کا ذکر کیا ہے ان تمام چیزوں کو ان کے ناقلین و قائلین کے ناموں کے حوالے کے ساتھ ذکر کیا۔ کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان میں کس جگہ وہ قول مذکور ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ تمام چیزیں انھوں نے فی البدیہہ اپنے حفظ و یادداشت سے تحریر فرمائیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت مطالعے کے لیے ان کے پاس کوئی کتاب دستیاب نہیں تھی۔ میں نے خود ان کتابوں کی تحقیق کی تو مجھے الحمدللہ کوئی نقص اور خلل نہیں نظر آیا۔ جیل کی تصنیف کردہ کتابوں میں سے یہ کتاب "الصارم المسلول على شاتم الرسول" بھی ہے۔ یہ سب ان پر اللہ کا خاص فضل و انعام تھا جس سے اللہ نے انھیں نوازا اور سرفراز فرمایا تھا۔
(الأعلام العلية، ص / ٢٤، ٢٥)

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:

وأما ما وهبه الله تعالى ومنحه من استنباط المعاني في الألفاظ النبوية والأخبار المروية وإبراز الدلائل على المسائل، وتبيين مفهوم اللفظ ومنطوقه، وإيضاح المخصص للعام، والمقيد للمطلق، والناسخ للمنسوخ، وتبيين ضوابطها ولوازمها وملزوماتها، وما يترتب عليها، وما يحتاج فيه إليها، حتى إذا ذكر آية أو حديثا، وتبين معانيه وما أريد به، يعجب العالم الفطن من حسن استنباطه، ويدهشه ما سمعه أو وقف عليه فيه

اللہ تعالی نے انہیں استنباط کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ احادیث و آثار کے الفاظ سے معانی کا استنباط کرتے تھے اور مسائل کے مطابق دلائل کشید کرتے تھے۔ لفظ کے ظاہری و باطنی مفہوم کو بیان کرتے۔ عام و خاص، مطلق و مقید اور ناسخ و منسوخ کی وضاحت کرتے۔ ان کے اصول و ضوابط، لازم و ملزوم اور وسائل و نتائج کو بیان کرتے۔ یہاں تک کہ جب کوئی آیت یا حدیث کا ذکر کر کے اس کے معانی و مطالب کی تشریح فرماتے تو ان کے حسن استنباط کو سن کر اور دیکھ کر ایک ذہین و فطین عالم بھی حیران و ششدر رہ جاتا۔
(الأعلام العلية، ص / ٣١، ٣٢)

یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام کے متعلق ایک طویل گفتگو اور ان کی بڑی تعریف کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ :

وهو أكبر من أن ينبه على سيرته مثلي، والله، لو حلفت بين الركن والمقام أني ما رأيت بعيني مثله، وأنه ما رأى مثل نفسه لما حنثت

آپ کی شخصیت اتنی عظیم الشان ہے کہ مجھ جیسا شخص ان کی سیرت و سوانح پر کیا خامہ فرسائی کرے گا۔ اللہ کی قسم اگر میں رکن ومقام کے درمیان کھڑے ہو کر اللہ کی قسم کھا کر کہوں کہ میری نگاہوں نے ان جیسا نہیں دیکھا اور نہ انہوں نے اپنا جیسا کسی کو پایا تو میں حانث نہیں ہوں گا۔
(ذيل طبقات الحنابلة، ٤/ ٣٩٠)

حافظ عماد الدین الواسطی فرماتے ہیں:

والله، ثم والله، لم ير تحت أديم السماء مثل شيخكم ابن تيمية علما وعملا وحالا وخلقا واتباعا وكرما وحلما وقياما في حق الله تعالى عند انتهاك حرماته

اللہ کی قسم یقین مانیں کہ علم و عمل، اخلاق و عادات، اتباع، بزرگی اور حلم و بردباری اور احکام الہیہ کی پامالی کے وقت دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے میں آپ سب کے شیخ ابن تیمیہ جیسا کسی کو اس زیر آسماں نہیں دیکھا گیا۔
(العقود الدرية، ص / ٣١١)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کتاب و سنت کی طرف واپسی کی دعوت:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دعوت میں وہ منہج اور طریقہ کار اپنایا جس کی بدولت اسلام اپنے خالص عقائد اور اصول و فروغ کے ساتھ عہد صحابہ کی طرف لوٹ آیا۔ جب انہیں یقین ہو جاتا کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں وہی صحابہ کرام کا موقف اور ان کا عمل تھا تو دلیل و برہان کے ذریعے اس قول کا دفاع کرتے اور اس کے لئے اپنے پاس موجود تمام علمی اسباب و وسائل بروئے کار لاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس طریقہ کار سے جہاں بڑے بڑے علمائے کرام متاثر ہوئے، وہیں اہل بدعت ان سے بہت خفا اور نالاں ہوئے۔ تاہم انہوں نے اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس راستے میں ملنے والی اذیت و تکلیف کو برداشت کیا۔

آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وليعلم أنه ليس أحد من الأئمة المقبولين عند الأمة قبولا عاما، يعتمد مخالفة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بشيء من سنته، دقيق ولا جليل، فإنهم متفقون اتفاقا يقينيا على وجوب اتباع الرسول - صلى الله عليه وسلم -، وعلى أن كل أحد من الناس يؤخذ من قوله ويترك، إلا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -

واضح رہے اس امت میں شہرت و مقبولیت پانے والے ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چھوٹی بڑی سنت کی جان بوجھ کر مخالفت نہیں کی۔ بلکہ ان تمام کا اس بات پر قطعی اتفاق ہے کہ اتباع رسول واجب ہے اور اللہ کے رسول کے سوا ہر ایک کے قول میں یہ گنجائش ہے کہ اسے اخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔
(رفع الملام عن الأئمة الأعلام، ص / ١٠)

اور فرماتے ہیں:

وليس لأحد أن يعارض الحديث الصحيح عن النبي - صلى الله عليه وسلم - بقول أحد من الناس، كما قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لرجل سأله عن مسألة فأجابه فيها بحديث، فقال له: قال أبو بكر وعمر، فقال ابن عباس: يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وتقولون قال أبو بكر وعمر!!

کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی شخص کے قول کے ذریعے صحیح حدیث کی مخالفت کرے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب ایک شخص نے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں حدیث رسول پیش کی۔ اس پر اس شخص نے کہا: ابو بکر و عمر نے تو ایسا فرمایا ہے۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے: کچھ بعید نہیں کہ تم پر آسمان سے پتھر کی بارش ہو۔ میں اللہ کے رسول کی حدیث پیش کر رہا ہوں اور تم اس کے سامنے ابوبکر و عمر کا قول پیش کر رہے ہو۔


فرماتے ہیں:

ثم إننا مع العلم بأن التارك الموصوف معذور بل مأجور، لا يمنعنا أن نتبع الأحاديث الصحيحة التي لا نعلم لها معارضا يدفعها، وأن نعتقد وجوب العمل بها على الأمة، ووجوب تبليغها

ہم جانتے ہیں کہ تارک حدیث جس کے احوال و اوصاف گزر چکے ہیں وہ قابل عذر ہے بلکہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ تاہم ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان صحیح احادیث پر عمل کریں جن کا کسی سے تعارض نہیں۔ نیز یہ عقیدہ رکھیں کہ امت کے لئے ان احادیث پر عمل کرنا اور ان کی تبلیغ کرنا واجب ہے۔
(رفع الملام عن الأئمة الأعلام، ص / ٥٤، ٦٨)

نیز آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قد ذم الله في القرآن من عدل عن اتباع الرسل إلى ما نشأ عليه من دين آبائه، وهذا هو التقليد الذي حرمه الله ورسوله، وهو أن يتبع غير الرسول فيما خالف فيه الرسول، وهذا حرام باتفاق المسلمين على كل أحد؛ فإنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، والرسول طاعته فرض على كل أحد من الخاصة والعامة في كل وقت وكل مكان، في سره وعلانيته، وفي جميع أحواله

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس شخص کی مذمت فرمائی ہے جو رسولوں کی اتباع کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کا وہ دین اختیار کرے جس پر اس کی نشوونما ہوئی ہے۔ اور یہی وہ تقلید ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ تقلید کا مطلب یہ ہے کہ انسان رسول کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع کرے جس میں رسول کی خلاف ورزی ہو اور یہ بالاتفاق ہر ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ جہاں خالق کی معصیت ہو وہاں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ اور رسول کی اطاعت ہر خاص و عام پر، ہر زمان و مکان میں، خلوت و جلوت میں اور تمام حالات میں فرض ہے۔


بعد ازاں آپ نے ان آیات کا ذکر کیا جن سے یہ دلیل ملتی ہے کہ اتباع رسول ایمان کا حصہ ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:

وقد أوجب الله طاعة الرسول على جميع الناس في قريب من الأربعين موضعا من القرآن، وطاعته طاعة الله

قرآن میں تقریبا چالیس مقامات پر اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت کو تمام لوگوں پر واجب قرار دیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔


آخر میں آپ فرماتے ہیں:

والمقصود هنا أن التقليد المحرم بالنص والإجماع، أن يعارض قول الله ورسوله بما يخالف ذلك، كائنا من كان المخالف لذلك

یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ نص اور اجماع سے جو تقلید حرام ہے وہ یہی ہے کہ انسان کسی مخالف قول کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول کے قول کی مخالفت کرے خواہ اس قول کا قائل کوئی بھی ہو۔


مزید فرماتے ہیں:

إن الله سبحانه لما ذكر حال من يقول على الله بلا علم بل تقليد السلف، ذكر حال من يكتم ما أنزل الله من البينات والهدى من بعد ما بينه للناس في الكتاب

اللہ تعالی نے جب ان لوگوں کی حالت بیان فرمائی جو بغیر علم کے اللہ پر جھوٹی باتیں کہتے ہیں بلکہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے ہیں. اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو اللہ کے نازل کردہ واضح دلائل اور ہدایات کو چھپاتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے اسے اپنی کتاب میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔


ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (سورة البقرة الآية ١٧٤)

یہ رسول کی تعلیمات چھپانے والوں کا حال ہے اور وہ قرآن کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اس کے برخلاف جانے والوں کا حال ہے۔ قرآن کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اس کے برخلاف جانے والوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو پہلے یا بعد کے لوگوں میں سے خواہ وہ صحابی ہو یا تابعی یا کوئی فقیہ وغیرہ کسی کی ایسے مسئلے میں تقلید کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ حدیث کے خلاف ہے۔

جو شخص ایسے اجماع کا دعوی کرے جو حدیث رسول کے صریح خلاف ہو اور اس کے دعوے کی تائید میں کوئی صریح دلیل بھی نہ ہو۔ نیز یہ اعتقاد رکھے کہ اہل اجماع کے لئے اپنی رائے کی بنیاد پر رسول کی مخالفت کرنا جائز ہے اور اجماع نص کے لئے ناسخ ہوتا ہے جیسا کہ اہل رائے اور متکلمین کی ایک جماعت کا موقف ہے تو ایسا شخص بھی ان مذکورہ لوگوں میں شامل ہے۔

فرماتے ہیں:

وكثير من الفقهاء المتأخرين أو أكثرهم يقولون: إنهم عاجزون عن تلقي جميع الأحكام الشرعية من جهة الرسول؛ فيجعلون نصوص أئمتهم بمنزلة نص الرسول ويقلدونهم، ولا ريب أن كثيرا من الناس يحتاج إلى تقليد العلماء في الأمور العارضة التي لا يستقل هو بمعرفتها، ومن سالكي طريق الإرادة والعبادة والفقر والتصوف من يجعل شيخه كذلك، بل قد يجعله كالمعصوم، ولا يتلقى سلوكه إلا عنه، ولا يتلقى عن الرسول سلوكه، مع أن تلقي السلوك عن الرسول أسهل من تلقي الفروع المتنازعة فيها، فإن السلوك هو بالطريق التي أمر الله بها ورسوله من الاعتقادات والعبادات والأخلاق، وهذا كله مبين في الكتاب والسنة، فإن هذا بمنزلة الغذاء الذي لا بد للمؤمن منه. ولهذا جميع الصحابة يعلمون السلوك بدلالة الكتاب والسنة والتبليغ عن الرسول، ولا يحتاجون في ذلك إلى فقهاء الصحابة

بہت سارے متاخرین فقہاء بلکہ اکثر فقہاء یہ کہتے ہیں کہ تمام شرعی احکام کو رسول کے واسطے سے اخذ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے وہ اپنے اماموں کے آراء و اقوال کو احادیث رسول کے قائم مقام مانتے ہیں اور پھر اپنے اماموں کی تقلید کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے لوگوں کو ان پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جنہیں وہ خود سے سمجھ نہیں سکتے۔ اسی طرح ارادہ و عبادت اور فقر و تصوف کے سلسلے سے منسلک بعض لوگ اپنے شیخ اور مرشد کو یہی مقام دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے معصوم سمجھتے ہیں۔ اور سلوک کے اصول و مسائل رسول سے اخذ کرنے کے بجائے صرف اپنے شیخ سے اخذ کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول سے سلوک کے اصول و مسائل اخذ کرنا دیگر اختلافی فروعی مسائل اخذ کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ سلوک سے مراد عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات کا وہ طریقہ اور راستہ ہے جس پر چلنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں قرآن و حدیث میں واضح انداز میں بیان کر دی گئیں ہیں۔ اس لئے کہ اس کی مثال روحانی غذا جیسی ہے جو ایک مومن بندہ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام سلوک کے اصول و طرق کی معرفت براہ راست کتاب و سنت اور دعوت نبوی سے حاصل کرتے تھے اور انہیں فقہائے صحابہ کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی۔


آگے مزید فرماتے ہیں:

ولكن كثيرا من أهل العبادة والزهادة أعرض عن طلب العلم النبوي الذي يعرف به طريق الله ورسوله، فاحتاج لذلك إلى تقليد شيخ، وفي السلوك مسائل تنازع فيها الشيوخ، لكن يوجد في الكتاب والسنة من النصوص الدالة على الصواب في ذلك ما يفهمه غالب السالكين، فمسائل السلوك من جنس مسائل العقائد، كلها منصوصة في الكتاب والسنة، وإنما اختلف أهل الكلام لما أعرضوا عن الكتاب والسنة، فلما دخلوا في البدع وقع الاختلاف، وهكذا طريق العبادة عامة ما يقع فيه من الاختلاف، إنما هو بسبب الإعراض عن الطريق المشروع، فيقعون في البدع؛ فيقع فيهم الخلاف، وهكذا الفقه، إنما وقع فيه الاختلاف لما خفي عليهم بيان صاحب الشرع

تاہم جس علم نبوی سے اللہ اور اس کے رسول کے طریق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اسے سیکھنے سے بہت سارے اہل زہد و عبادت نے گریز اور اعراض کیا۔ اسی لیے انہیں کسی شیخ اور مرشد کی تقلید کی ضرورت پیش آئی۔ سلوک کے باب میں ایسے بہت سے مسائل ہیں جو خود ان علماء سلوک کے مابین مختلف فیہ ہیں۔ لیکن کتاب و سنت کے نصوص میں ان اختلافی مسائل کا حل موجود ہے جسے بیشتر سالکین بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سلوک کے مسائل عقائد کے مسائل جیسے ہیں۔ اور یہ تمام مسائل قرآن وسنت میں واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ان مسائل میں اختلاف اس وقت رونما ہوا جب اہل کلام نے کتاب وسنت کی روشن شاہراہ کو چھوڑ کر بدعات و خرافات کا تاریک راستہ اپنایا۔ یہی حال ان عام عبادات کا ہے جن میں اختلاف کی اصل وجہ صحیح راستے سے دوری اور کنارہ کشی ہے۔ لوگ جب شاہراہ سنت کو چھوڑ کر بدعات میں پڑتے ہیں تو اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح فقہی مسائل ميں اختلاف واقع ہوا جب انھیں احادیث رسول تک رسائی نہیں ہو سکی۔
(دیکھیں: مجموعة الرسائل الكمالية، " فصل في التقليد " لشيخ الإسلام ابن تيمية.)

ابن رجب اپنی کتاب طبقات میں رقمطراز ہیں:

وبلغني من طريق صحيح عن ابن الزملكاني أنه سئل عن الشيخ - يعني ابن تيمية - فقال: لم ير من خمسمائة سنة - أو قال أربعمائة سنة، والشك من الناقل، وغالب ظنه أنه قال: من خمسمائة - أحفظ منه

مجھے مستند حوالے سے یہ بات پہنچی ہیں کہ جب ابن الزملكاني سے ابن تیمیہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چار سو یا پانچ سو سال سے اس روئے زمین پر ان سے بڑا حافظ کوئی پیدا نہیں ہوا. "چار سو یا پانچ سو سال" کا شک راوی کی طرف سے ہے اور غالب گمان ہے کہ انہوں نے پانچ سو سال کہا ہے۔
(الرد الوافر، ص / ٥٦)

ابن فضل الله العمری فرماتے ہیں:

أخمل من القرناء كل عظيم، وأخمد من أهل البدع كل حديث وقديم، ولم يكن منهم إلا من يجفل عنه إجفال الظليم، ويتضاءل لديه تضاؤل الغريم

امام ابن تیمیہ نے اپنے ہم عصروں میں سے بڑی بڑی قد آور ہستیوں کو گمنامی کے پردے میں ڈھکیل دیا۔ قدیم و جدید تمام اہل بدعت کا چراغ گل کر دیا۔ اہل بدعت ان سے خوف کھاتے تھے اور ایک مقروض کی طرح ان کے سامنے حقیر و ذلیل بنے رہتے تھے۔
(الرد الوافر، ص / ٩٦)

حسن بن حبیب فرماتے ہیں:

ابن تيمية بحر زاخر في النقليات، وحبر ماهر في حفظ عقائل العقليات، وإمام في معرفة الكتاب والسنة

ابن تیمیہ نقلیات کے بحر زخار، علوم عقلیات کے بلند پایہ حافظ اور کتاب و سنت کے علم و معرفت کے امام تھے۔
(الرد الوافر، ص / ٩٦)

معالم دین کی تجدید:

علماء اسلام بیان کرتے ہیں کہ ایمان اور علم و عمل کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے اہل ایمان کی تین قسمیں کی جا سکتی ہیں: پہلی قسم السابقون الاولون یعنی سبقت کرنے والے لوگ۔ دوسری قسم المقتصدون یعنی میانہ روی اختیار کرنے والے لوگ۔اور تیسری قسم ضعفاء الطريق یعنی راستے کے کمزور لوگ۔ اور اسی تقسیم کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں اشارہ فرمایا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:

( مَا مِنْ نَبِىٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِى أُمَّةٍ قَبْلِى إِلاَّ كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لاَ يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لاَ يُؤْمَرُونَ فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ) (رواه مسلم، الإيمان، حديث رقم / ٨٠ والترمذي: الزهد، باب / ٣٩ والنسائي: البيعة، باب / ٣٣)

ترجمہ: اللہ تعالی نے مجھ سے پہلے جس قوم میں بھی کسی نبی کو بھیجا تو اس نبی کے ساتھ اس قوم کے کچھ خاص رفقاء اور معاونین ہوتے تھے جو ان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد کچھ ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوتے جو ایسی باتیں کہتے جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ اور ایسا کام کرتے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا ہوتا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے خلاف جو اپنے دست و بازو سے جہاد کرے وہ مومن ہے۔ جو اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے۔ اور جو اپنے دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے۔ مگر اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں۔

اس حدیث میں ایمان کے تین درجات و مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ تینوں مراتب کے حوالے سے ان لوگوں کے لئے بڑی واضح حدیث ہے جو بدعت کی بیخ کنی کرتے اور ان کے خلاف جہاد کرتے ہیں جو دین و شریعت کی کھلی مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم یہ ایمانی مراتب صرف اہل بدعت پر رد کرنے میں محصور نہیں بلکہ علم و عمل کے تمام میادین میں اس کا انطباق ہوگا۔ البتہ اس کا سب سے بڑا اور وسیع دائرہ کتاب و سنت کی طرف دعوت، انسانوں تک اللہ کے دین کی تبلیغ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اللہ کے دشمنوں اور اہل بدعت سے جہاد اور ان کا مقابلہ ہے۔

ان تینوں میں سب سے افضل طبقہ اور ایمان کا سب سے اعلی درجہ ان لوگوں کا ہے جنہیں اللہ نے انسانیت کی اصلاح اور قوموں کو روشن حق کی طرف دعوت دینے کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نورِ نبوت سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ انبیاء کرام کے منہج پر چلتے ہیں اور حق و ہدایت کے راستے پر گامزن ہیں۔ اور حقیقی معنوں میں یہی انبیاء کے وارث ہیں۔

لیکن یہ عظیم شخصیات ہر زمانے میں پیدا نہیں ہوتیں۔ ان کی تعداد ہمیشہ بہت کم رہی ہے۔ یہ دنیا میں اسی لئے وجود میں آتے ہیں تاکہ لوگوں نے اپنے زمانے میں جو بگاڑ پیدا کر رکھا ہے اور جس بگاڑ کی اس زمانے کے بڑے بڑے علماء اور دعاة و مصلحین اصلاح نہ کر سکے اس کی اصلاح کریں۔

یہ مجددین راستے کی رکاوٹوں اور دشواریوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ کی خاطر کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ ان آزمائشوں اور مصائب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے جو انھیں آگے بڑھنے سے روکنا چاہتی ہیں۔ وہ سختیوں کے خوف سے اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر اپنے گھروں کے دروازے نہیں بند کرتے، یہ سوچ کر کہ فتنوں کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، ہر چہار جانب برائیوں کا دور دورہ ہے اس لئے شر وفتن سے اپنے آپ کو بچانے ہی میں عافیت ہے۔

وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوتے جو فتنوں اور بدعات و خرافات سے بھرپور ہوتا ہے۔ یعنی ایسا پرفتن دور جس میں حق اور حق کی دعوت دینے سے بڑے بڑے علماء خوف کھاتے ہیں کہ کہیں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آجائے اور کہیں لوگوں کے ساتھ اسی رو میں بہہ نہ جائیں۔ مگر یہ مجدد آتا ہے اور اصلاح و تجدید کی راہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔

وہ نور نبوت سے روشنی لے کر آگے بڑھتا ہے اور دین کے ان معالم اور آثار و نقوش کی اصلاح و تجدید کرتا ہے جسے بدعتیوں، ملحدوں، منطقیوں، فلسفیوں، باطل پرستوں اور گمراہ فرقوں نے بگاڑ رکھا تھا۔ مرور وقت کے ساتھ وہ بلندیوں کی طرف گامزن رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پہونچنا اس دور کے بڑے بڑے علماء کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔

ساتویں صدی ہجری کا آخری اور آٹھویں صدی ہجری کا ابتدائی دور ایسا دور ہے جو سیاسی و دینی اور فکری لحاظ سے غیر معمولی واقعات و حوادث سے بھرا ہوا تھا۔ ان غیر معمولی واقعات نے امت اسلامیہ کے وجود اور ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسے اسلام کے صاف و شفاف چشموں سے دور کردیا۔ اسے ایسے افکار و عقائد میں مشغول کر دیا جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

چنانچہ اس امت کی زندگی میں منطق و فلسفہ داخل ہوگئے۔ یونانی افکار و نظریات اسلامی عقائد کی جگہ لینے لگے۔ معاملہ بالکل برعکس ہو گیا بایں طور کہ مسلمان کتاب و سنت سے دور ہوگئے۔ فلسفہ اور منطق سے اپنے عقائد اخذ کرنے لگے۔ کتاب و سنت کو چھوڑ کر فقہ کی باریکیوں اور موشگافیوں میں گھسنے لگے۔ ہر فقہی مذہب کے پیروکار اپنے مسلکی آراء و قیاس پر مگن ہو کر دوسروں پر طعن و تشنیع کرنے لگے۔

مسلکی سوچ و فکر لوگوں کے اذہان پر مسلط ہو گئی۔ یہاں تک کہ کتاب و سنت کے بارے میں گفتگو کرنا ایک اجنبی چیز سمجھی جانے لگی۔ کتاب و سنت کی دعوت ایک شاذ دعوت شمار کی جانے لگی۔ ایسے داعی و مصلح کو سزا دی جاتی اور زبان کاٹ لی جاتی۔ اس طرح نتیجہ یہ ہوا کہ معالم دین ردوبدل کے شکار ہوگئے۔ اور اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو قریب تھا کہ کتاب وسنت کا چراغ گل ہو جائے۔

مگر اس پرآشوب دور میں امام ربانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ظہور ہوا۔ حالانکہ اس وقت اسلامی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں چوٹی کے علماء اور دعاة و مصلحین موجود تھے۔ تاہم اس مقام عزیمت کو جس بلند ہمت شخصیت کی تلاش تھی وہ شیخ الاسلام کے علاوہ کوئی اور شخصیت اس پر کھری اترتی نظر نہیں آ رہی تھی۔

چنانچہ قاضی ابو البرکات مخزومی فرماتے ہیں: صرف بلاد شام میں ستر مجتہد علماء موجود تھے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ائمہ اور حفاظ و نقاد اس زمانے میں موجود تھے، ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کسی اور زمانے میں نہیں پائے گئے۔ اس زمانے کے کچھ ائمہ کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ابو الفتح بن سيد الناس الأشبيلي، شمس الدين المقدسي، ابو العلى الأنصاري السبكي، القاضي الزملكاني، ابو العباس بن عمر الواسطي، ابو الفداء عماد الدين، حافظ ابن قدامة المقدسي، امام برهان الدين الفزاري، حافظ صلاح الدين البعلبكي، شيخ صفي الدين البغدادي، حافظ البرزالي الأشبيلي، تقي الدين السبكي، حافظ جمال الدين المزي، امام تقي الدين ابن دقيق العيد، حافظ ابو عبد الله الذهبي۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اہل علم ہیں جن کی سوانح حیات کو امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ اور اس میں قابل ذکر ائمہ کرام یہ ہیں: حافظ مزی، حافظ برزالی، ابن دقیق العید اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ۔ ان میں سے ہر شخص حدیث اور علوم حدیث کا امام تھا۔ بالخصوص امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس امت پر بڑے عظیم احسانات ہیں۔ ان احسانات میں حافظ ابن حجر کے علاوہ کوئی اور ان کا شریک و ثانی نہیں۔

ان دونوں اماموں نے اس امت اسلامیہ کے لیے احادیث رسول کو محفوظ کیا۔ ان کی ضبط و تدوین فرمائی۔ راویوں کے اخبار و حالات کو جمع کرکے ان کی چھان بین کی۔ صحیح وضعیف کو واضح کیا۔ مقبول ومردود کے درمیان فرق کو بیان کیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے لیے سنت رسول پر عمل کرنا سہل اور آسان ہوگیا۔

جسے سنت کی تاریخ سے واقفیت ہوگی اسے ضرور معلوم ہو گا کہ سنت کے دو ادوار ہیں۔ پہلا دور تدوین کا دور۔ اور دوسرا دور تنقیح و تمییز کا دور۔ امام ذہبی اور حافظ ابن حجر اس پہلے دور کے شہسوار بلکہ سرخیل تھے جن کی کوششوں کے نتیجے میں سنت اور علوم سنت کی تدوین و تنقیح کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور کتاب و سنت کے ہر عامل کے لئے سنت پر عمل کرنا آسان ہوگیا۔

لیکن کیا آپ دیکھتے ہیں کہ ان اساطین علم و فن میں سے کوئی ایک بھی شیخ الاسلام کے مقام و مرتبے کا ایک ذرہ بھی پا سکا؟ تو اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ شیخ الاسلام تمام علوم و فنون میں اپنے تمام ساتھیوں اور ہم عصروں پر فائق و برتر تھے۔ آپ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ اور وہ مقام تھا دعوت الی اللہ میں عزیمت کا مقام۔

معالم دین کی تجدید اور کتاب و سنت کی طرف امت کو واپس لوٹانے کا مقام اور اعزاز۔ یہاں تک کہ ان کے ہم عصروں کو بیک زبان کہنا پڑا کہ ان کی نگاہوں نے ان جیسا کسی کو نہ دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنا ہمسر کسی کو پایا۔ ائمہ کرام کے اس طرح کے اعترافات گزشتہ سطور میں گزر چکے ہیں۔ (دیکھیں: رسالہ علامہ محمد داود غزنوی ص/ 216-223 )

یہاں شیخ عماد الدین واسطی کا ایک واقعہ اختصار کے ساتھ ذکر کرنا مناسب ہوگا جسے حافظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: شیخ واسطی ابتداء میں فقہاء و متکلمین میں سے تھے۔ ان پر جدل و کلام اور رائے کا اثر غالب تھا۔ جب وہ مصر سے بغداد منتقل ہوئے اور وہاں کے عوام اور علماء سے ملاقات کی تو ان کے ذہن و دماغ میں وسعت پیدا ہوئی اور جب انہوں نے اپنا محاسبہ کرنا شروع کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا دل سکون و اطمینان کی لذت سے یکسر ویران اور ناآشنا ہے۔

چنانچہ وہ فقہاء و متکلمین کی راہ چھوڑ کر تصوف کی طرف مائل ہوگئے۔ صوفیوں سے قریب رہنے لگے۔ مگر جب ان کے یہاں بھی عجائب و غرائب کا مشاہدہ بچشم خود کیا تو ان کی طبیعت مکدر ہوگئی اور انہوں نے دمشق کی طرف رخت سفر باندھنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں شیخ الاسلام کے درس میں حاضر ہوئے تو پہلا درس یہی متکلمین وفلاسفہ کے متعلق تھا کہ کس طرح وہ قلبی سکون واطمینان سے محروم ہیں۔ ان کے مشاہیر علماء نے خود اس کا اعتراف کیا ہے اور علم فلسفہ و کلام کے سبب اپنے نفسیاتی اضطراب و بےچینی کی خود گواہی دی ہے۔ کہتے ہیں:

لَقَد طُفتُ في تِلكَ المَعاهِدِ كُلِّها
وَسيَّرْتُ طَرفي بَينَ تِلكَ المَعالِمِ
فَلَم أَرَ إِلّا واضِعاً كَفَّ حَيرَةٍ
عَلى ذَقَنٍ أَو قارِعاً سِنَّ نادِمِ

ترجمہ: میں نے علم کے تمام مراکز کا چکر لگایا اور اپنی نگاہوں کو ان تمام مقامات پر دوڑایا۔ مگر میں نے صرف یہی دیکھا کہ کوئی اپنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی پر رکھے ہوئے حیران و پریشان ہے تو کوئی اپنے دانتوں تلے انگلی دبائے نادم و شرمندہ ہے۔

بعض نے اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا:

نهاية أرباب العقول عقال
وأكثر سعي العالمين ضلال
ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا
سوى أن جمعنا فيه قيل وقالوا

ترجمہ: عقل پرستوں کا انجام سراب کے سوا کچھ نہیں اور فلاسفہ و متکلمین کی سعی و جستجو کا حاصل ضلالت و گمراہی ہے۔ زندگی بھر کی بحث و جستجو سے ہم صرف قیل و قال کے سوا اور کچھ نہ حاصل کر سکے۔

شیخ عماد الدین فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے درس دیتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی کہ دل کی بیماریوں کا بہترین علاج اور قلبی سکون حاصل کرنے کا واحد نسخہ کتاب و سنت کی تعلیمات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے میں ہے۔ چنانچہ اس نسخے پر عمل کرنے کے نتیجے میں میرے قلب و ذہن کی تاریکی چھٹ گئی ہے۔ حیرت و شک کے پردے زائل ہو گئے اور میں نے حقیقت کی وہ روشنی پالی جس کی تلاش میں حیراں و سرگرداں رہا کرتا تھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام جب میرے حالات سے واقف ہوئے تو انہوں نے مجھے سیرت نبوی کے مطالعہ کی وصیت فرمائی کہ یہ تمام امراض قلب کا کافی و شافی علاج ہے۔ (دیکھیں: رسالہ علامہ محمد داود غزنوی ص/ 233-235 )

میں کہتا ہوں کہ سیرت نبوی کا مطلب سنت رسول کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور سنت رسول بھی آخر قرآن کی تفسیر ہی ہے۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام نے شیخ عماد الدین واسطی اور دیگر لوگوں کو یہی نصیحت فرمائی کہ امت اسلامیہ کی تمام بیماریوں کا علاج کتاب اللہ اور سنت رسول کی اتباع میں مضمر ہے۔ دین کی تجدید اور کتاب و سنت کی طرف دعوت کی یہی حقیقت ہے۔ ( العقود الدرية، ص / 311،312)

شیخ ولی اللہ دہلوی نے شیخ الاسلام کے ان تمام اوصاف و کمالات کا اعتراف کیا ہے جن کی بدولت وہ معالم دین کے مجدد اور دعوت کتاب وسنت کے علمبردار کہلائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

وعلى هذا الأصل اعتقدنا في شيخ الإسلام ابن تيمية - رحمه الله تعالى - فإنا قد تحققنا من حاله أنه عالم بكتاب الله ومعانيه اللغوية والشرعية، وحافظ لسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وآثار السلف، عارف لمعانيهما اللغوية والشرعية، أستاذ في النحو واللغة، محرر لمذهب الحنابلة وفروعه وأصوله، فائق في الذكاء، ذو لسان وبلاغة في الذب عن عقيدة أهل السنة، لم يؤثر عنه فسق ولا بدعة، اللهم إلا هذه الأمور التي ضيق عليه لأجلها، وليس شيء منها إلا ومعه دليله من الكتاب والسنة، فمثل هذا الشيخ عزيز الوجود في العلم، أو من يطيق أن يلحق شأوه في تحريره وحديثه، والذين ضيقوا عليه ما بلغوا معشار ما آتاه الله تعالى، وإن كان تضييقه ذلك ناشئا عن اجتهاد، ومشاجرة العلماء في مثل ذلك ما هي إلا كمشاجرة الصحابة - رضي الله عنهم - فيما بينهم، والواجب في ذلك كف اللسان إلا بخير

شیخ الاسلام کے بارے میں ہمارے عقیدہ اور موقف کی یہی بنیاد ہے۔ چنانچہ جب ہم نے ان کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ کتاب اللہ اور اس کے لغوی و شرعی معانی و مفاہیم کے عالم، سنت رسول اور آثار سلف کے حافظ اور اس کے لغوی و شرعی معانی کے جانکار ہیں۔ مذہب حنبلی اور اس کے اصول و فروع کے محقق ہیں۔ غیر معمولی ذہانت و فطانت کے حامل اور عقیدہ اہل سنت کے دفاع میں فصیح و بلیغ زبان کے مالک ہیں۔ ان کے متعلق کسی فسق یا بدعت کے ارتکاب کا ذکر نہیں ملتا۔ ہاں کچھ چیزیں ہیں جن کو لے کر ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ تاہم اس میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں جس کی ان کے پاس کتاب و سنت سے دلیل نہ موجود ہو۔ علم کے میدان میں ایسی شخصیت کمیاب ہوتی ہے اور کم ہی کوئی بحث و تحقیق اور زبان و بیان میں ان کے مقام کو پہنچ سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا وہ خود ان کے مقام و مرتبے کے عشر عشیر بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اگرچہ ان سے عداوت و مخالفت کی بنیاد اجتہاد اور اختلاف رائے تھی۔ اس سلسلے میں علماء کے باہمی اختلافات کی مثال صحابہ کے باہمی اختلاف جیسی ہے جس کے تئیں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ان کا ذکر خیر کریں یا پھر اپنی زبان بند رکھیں۔ (
جلاء العينين في محاكمة الأحمدين، ص ٤٦)
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کتاب وسنت کے مخالف افکار و عقائد کی بیخ کنی:

کتاب وسنت کی معرفت رکھنے والے کسی بھی فرد سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن و سنت میں عقائد و عبادات کے ساتھ وہ تمام امور بیان کردیئے گئے ہیں جن کی ایک انسان کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن اسلام میں کچھ ایسے بڑے بڑے فتنے اور غیر معمولی سیاسی واقعات رونما ہوئے اور ایسے افکار و مذاہب کا ظہور ہوا جنہوں نے دین کی شکل اختیار کر لی۔

نیز خوارج، شیعہ اور مرجئہ جیسے نت نئے فرقے وجود میں آئے جنہوں نے دین کے معالم و نقوش کو تبدیل کر دیا۔ شیخ الاسلام کے زمانے میں ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی اور گمراہ فرقے مزید سرگرم ہوگئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ فتنے اور فرقے اسلام کے حقائق، اس کی صداقت و حقانیت اور چمک دمک کو ماند کر دیں گے۔

ایسے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ظہور ہوا جنہوں نے اسلام کی چمک دمک اور اس کی تابانی کو دوبارہ بحال کیا۔ باطل کو سبوتاز کیا۔ ان باطل فرقوں کی کج روی کو بے نقاب کیا جنہوں نے اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی آسان شریعت کو داغدار کرنے کی سعی کی اور آپ نے اپنے زمانے کے تمام منحرف مذاہب اور فرقوں پر تنقید کی۔

البتہ زیادہ تر اشعریت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیز الہیات کے باب میں فلاسفہ اور متکلمین کے اصول و قواعد کا تنقیدی جائزہ لیا اور واضح کیا کہ یہ اصول و قواعد حقیقت و درستگی سے کوسوں دور ہیں اور وہ خود الہیات کے علم و معرفت سے سب سے زیادہ دور اور نا آشنا ہیں۔ ان کی اکثر باتیں بے ربط اور خلط مبحث کی آئینہ دار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نورِ نبوت سے ہدایت اور رہنمائی حاصل نہیں کی۔

چنانچہ انہوں نے دین سے اخذ کردہ حقائق کو اس باطل میں ملا دیا جسے انہوں نے اپنے فاسد فلسفیانہ اصولوں کی بنیاد پر قائم کیا تھا۔ اور دین کے نام پر فلسفہ اور دین کو ایک باور کرانے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے نصوص کی تکلفانہ اور دور کی تاویلات کی تاکہ نصوص ان کے فلسفیانہ اصول و قواعد کے مطابق بن جائیں۔ اسی طرح متاخرین اشاعرہ نے دیگر فلاسفہ اور معتزلہ کی طرح صفات خبریہ کے باب میں تاویل کا سہارا لیا۔

فلاسفہ، معتزلہ اور اشاعرہ کے بارے میں ابن تیمیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ عقیدہ کے باب میں ان کے اصول و قواعد درست نہیں ہیں کیونکہ ان تمام کے نزدیک یہ مسلمہ اصول ہے کہ جب عقل اور نص کے درمیان تعارض ہو جائے تو عقل کو مقدم کرنا واجب ہے۔ اسی لیے انہوں نے عقیدے کے مسائل میں اپنی عقل کو فیصل مانا اور نصوص شریعت کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ جب نصوص ثابت اور ناقابل تردید ہوتے ہیں تو وہ انھیں متشابہ قرار دیتے ہیں اور اگر ثابت نہ ہوں تو فورا ان کا انکار کر دیتے ہیں۔ (دیکھیں منهاج السنة ١/ ١٢٣)

لیکن ان کی نظر میں اشاعرہ کا موقف معتزلہ اور دیگر فرقوں سے بہتر ہے کیونکہ بہت سے مسائل میں ان کا موقف سلف کے موافق ہے۔ نیز اشاعرہ نے معتزلہ، جہمیہ اور روافض کے بدعات کی تردید کی اور ان کے بہت سے تناقضات کو طشت ازبام کیا۔ مزید برآں ان کے یہاں حدیث و سنت اور جماعت کے مسلک کی تعظیم پائی جاتی ہے۔ (دیکھیں منهاج السنة ١/ ١٢٣)

عقیدہ، اسماء و صفات اور تمسک بالکتاب والسنہ کے باب میں کتاب وسنت پر مبنی اپنے عقیدے اور موقف کو بڑے واضح انداز میں اور پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب "الحموية" میں بیان کردیا ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

من المحال أيضا أن يكون النبي - صلى الله عليه وسلم - قد علم أمته كل شيء حتى الخراءة، وقال: «تركتكم على المحجة البيضاء، ليلها كنهارها، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر چیز سکھائی یہاں تک کہ قضائے حاجت کے آداب سکھلائے۔ اور فرمایا: (تركتكم على المحجة البيضاء، ليلها كنهارها، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك) میں نے تمہیں سیدھے روشن راستے پر چھوڑ دیا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ اس راستے سے وہی شخص انحراف کرے گا تباہی جس کا مقدر ہو گی۔
(سنن ابن ماجه المقدمة ٤٤)

اور فرمایا: (ما بعث الله من نبي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم، وينهاهم عن شر ما يعلمه لهم) اللہ نے جو بھی نبی بھیجے اس نبی کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی امت کے حق میں جو بھی خیر و بھلائی جانتے ہوں اس کی طرف ان کی رہنمائی کریں اور جو چیز ان کے حق میں بری جانتے ہوں اس سے آگاہ کریں اور ڈرائیں۔ (صحيح مسلم الإمارة (١٨٤٤)، سنن النسائي البيعة (٤١٩١)، سنن ابن ماجه الفتن (٣٩٥٦)، مسند أحمد بن حنبل (٢/ ١٩١)

ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (لقد توفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وما طائر يقلب جناحيه في السماء إلا ذكر لنا منه علما) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی مگر آپ آسمان میں اڑنے والے پرندے کے بارے میں بھی ہمیں علم سکھا کر گئے۔ (مسند أحمد بن حنبل (٥/ ١٥٣)

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (قام فينا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقاما، فذكر بدء الخلق، حتى دخل أهل الجنة منازلهم وأهل النار منازلهم، حفظ ذلك من حفظه، ونسيه من نسيه) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان وعظ و نصیحت کے لئے کھڑے ہوئے۔ ابتدائے تخلیق کا ذکر فرمایا۔ یہاں تک کہ جب جنتی لوگ جنت میں اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور جہنمی لوگ جہنم میں اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے۔ جسے یاد کرنا تھا اس نے یاد رکھا اور جس نے بھلانا تھا اس نے بھلا دیا۔ (صحيح البخاري بدء الخلق (٣١٩٢)، سنن الترمذي المناقب (٣٩٥١)، مسند أحمد بن حنبل (٤/ ٤٢٦)

محال مع هذا ومع تعليمهم كل شيء لهم فيه منفعة في الدين وإن دق، أن يترك تعليمهم ما يقولونه بألسنتهم، ويعتقدون بقلوبهم في ربهم ومعبودهم

آپ نے صحابہ کرام کو ہر چیز کے بارے میں بتایا جس میں ان کے لئے کوئی دینی فائدہ تھا خواہ وہ کتنا ہی دقیق علم کیوں نہ ہو۔ یہ سب بتانے کے بعد یہ ناممکن سی بات ہیں کہ آپ انہیں یہ نہ بتائیں کہ اللہ رب العالمین کے بارے میں کیا زبان سے بولیں اور کیا دل میں عقیدہ رکھیں
......۔)

آخر میں فرماتے ہیں:

إن هؤلاء المبتدعة الذين يفضلون طريقة الخلف من المتفلسفة، ومن حذا حذوهم على طريق السلف، إنما أتوا من حيث ظنوا أن طريقة السلف هي مجرد الإيمان بألفاظ القرآن والحديث من غير فقه لذلك، بمنزلة الأميين الذين قال الله فيهم: {وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ}

یہ اہل بدعت جو بعد کے فلاسفہ اور ان کے ہم نواؤں کے طریقہ کو سلف صالحین کے طریقے پر ترجیح دیتے ہیں دراصل ان کے انحراف کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ سلف صالحین کا طریقہ قرآن و حدیث کے الفاظ کو سمجھے بغیر صرف اس پر ایمان لانا ہے جیسے ان پڑھ لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا: (وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ) (سورة البقرة ۷۸) ترجمہ: (ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں کہ جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں۔)


باطل فرقوں کی تردید میں شیخ الاسلام کی طاقت و قوت کے حوالے سے میں نے ایک شاندار اقتباس پڑھا ہے جسے ان کے شاگرد ابو حفص البزار نے تحریر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

وأما ما خصه الله تعالى به من معارضة أهل البدع في بدعتهم، وأهل الأهواء في أهوائهم، وما ألفه في ذلك من دحض أقوالهم، وتزييف أمثالهم وأشكالهم، وإظهار عوارهم وانتحالهم وتبديد شملهم، وقطع أوصالهم، وأجوبته عن شبههم الشيطانية، ومعارضتهم النفسانية للشريعة الحنيفية المحمدية، بما منحه الله تعالى من البصائر الرحمانية والدلائل النقلية، والتوضيحات العقلية، حتى انكشف قناع الحق، وبان فيما جمعه في ذلك وألفه الكذب من الصدق، حتى لو أن أصحابها أحياء ووفقوا لغير الشقاء، لأذعنوا له بالتصديق ودخلوا في الدين العتيق

اللہ تعالی نے جو انہیں ربانی فہم و بصیرت اور عقلی و نقلی دلائل و براہین سے نوازا تھا اس کی روشنی میں انہوں نے اہل بدعت اور سنت کے مخالفین سے ان کی بدعات کے خلاف جہاد کیا۔ اپنی تالیفات کے ذریعے ان کے اقوال کی تردید کی۔ ان کی مثالوں کے بطلان کو واضح کیا۔ ان کے مختلف چہروں کو بے نقاب کیا۔ ان کے نقص و عیب اور دعووں کی قلعی کھول دی۔ ان کی جماعت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ان کی جڑوں کو کاٹ ڈالا اور ان کے شیطانی شکوک و شبہات اور شریعت محمدی سے ان کی ذاتی مخالفت و عناد کے جوابات دئے یہاں تک کہ حق روز روشن کی طرح واضح ہو گیا۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کے ذریعے جھوٹ اور سچ بالکل بے نقاب ہوگیا۔ یہاں تک کہ اگر یہ اہل بدعت زندہ ہوتے اور انہیں ہدایت کی توفیق ملتی تو وہ شیخ الاسلام کے دلائل و براہین کو ماننے پر مجبور ہو جاتے اور دين حنیف میں داخل ہوجاتے۔


بعد ازاں فرماتے ہیں:

حدثني غير واحد من العلماء الفضلاء النبلاء الممعنين بالخوض في أقاويل المتكلمين لإصابة الصواب وتمييز القشر من اللباب، أن كلا منهم لم يزل حائرا في تجاذب أقوال الأصوليين ومعقولاتهم، وأنه لم يستقر في قلبه منه قول، ولم يبين له من مضمونها حق، بل رآها كلها موقعة في الحيرة والتضليل، وجلها مذعن بتكافؤ الأدلة والتعليل، وأنه كان خائفا على نفسه، حتى من الله تعالى عليه بمطالعته مؤلفات هذا الإمام أحمد بن تيمية شيخ الإسلام مما أورده من النقليات والعقليات في هذا النظام، فما هو إلا أن وقف عليها وفحصها فرآها موافقة للعقل السليم وعلمها، حتى انجلى ما كان قد غشيه من أحوال المتكلمين من الظلام، وزال عنه ما خاف أن يقع فيه من الشك وظفر بالمرام

متکلمین کی آراء و اقوال میں حق اور حقیقت کی تلاش کرنے والے متعدد معزز علماء و فضلاء نے مجھ سے بیان کیا کہ ان میں سے ہر ایک شخص اصولیوں کے اقوال اور ان کے عقلی دلائل کی کھینچا تانی میں مسلسل حیراں و سرگرداں ہے۔ ان کی کوئی بھی بات دل میں بیٹھتی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ ان کی ساری باتیں شکوک و شبہات میں ڈالنے والی ہیں اور بیشتر مسائل میں دلائل اور تعلیل کی یکسانیت معلوم ہوتی ہے۔ انہیں اپنے بارے میں خوف و اندیشہ لاحق تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے امام ابن تیمیہ کی کتابوں کے مطالعے کا موقع فراہم کیا جن میں انہوں نے اس نظام کے عقلیات و نقلیات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جوں ہی وہ ان کتابوں سے واقف ہوئے اور ان کا تحقیقی مطالعہ کیا تو اسے اپنے علم اور عقل سلیم کے مطابق پایا یہاں تک کہ متکلمین کی وجہ سے ان پر چھائی ہوئی تاریکی کافور ہوئی اور جس شک و شبہ میں واقع ہونے کا اندیشہ تھا وہ بھی زائل ہوگیا اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔
(الأعلام العلية، ص / ٣٢ – ٣٣)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
باطل تصوف کے خلاف جنگ:

صحیح عقیدے کے حامل ایک مسلمان کے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاملہ یا کوئی بھی سلوک ہو اگر وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے تو وہ محض گمراہی ہے اور ایسا شخص گمراہ اور صحیح راستے سے بھٹکا ہوا ہے۔ ایسے میں شیخ الاسلام سے اس کے علاوہ اور کیا امید کی جاسکتی تھی کہ وہ ان گمراہ صوفیوں کی ضلالت و کج روی کو بے نقاب کریں جنہوں نے امت کو صحیح راستے سے بھٹکایا اور گمراہ کردیا۔ اور ایسے عقائد و اعمال اور افکار و خیالات ایجاد کئے جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

ایک عقلمند سے یہ بات مخفی نہیں کہ میری اس گفتگو سے مقصود وہ سلوک نہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہے بلکہ مقصود وہ ضلالت وگمراہی اور کفر و فساد ہے جسے ان گمراہ صوفیوں نے ایجاد کیا۔ انہوں نے کبھی کھلے عام اور کبھی چھپ چھپ کر قرآن وسنت کی مخالفت کی۔ انہوں نے دین اسلام کی کایا ہی پلٹ دی بایں طور کہ صحیح اسلام کو پس پشت ڈال كر اس میں ہر وہ باطل عقائد و اعمال داخل کر دئے جنہیں اللہ کے رسول مٹانے آئے تھے جیسے ہندوانہ رہبانیت، عقیدہ حلول و اتحاد، عقیدہ وحدت الوجود، دین کی ظاہری و باطنی تقسیم، فتنہ اسرار و رموز ، علم دفین اور پہنچے ہوئے اللہ کے ولیوں سے شرعی احکامات کا سقوط۔ اس طرح کے افکار و عقائد تصوف کے راستے دین اسلام میں داخل ہوگئے۔

ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں تصوف کا فتنہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ اس عظیم مجدد نے آکر دین دشمن گروہ کے وجود کا خاتمہ کیا۔ اس کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔ یہاں تک کہ اس کے حقائق تمام لوگوں کے سامنے آشکارا ہوگئے۔ ان صوفیوں کا عقیدہ تھا کہ انسانوں کے وجود میں اللہ کا حلول ممکن ہے۔ اس عقیدے کے قائلین میں سب سے نمایاں نام حلاج کا ہے۔ اس کے بعد ابن عربی آیا جس نے وحدت الوجود کا عقیدہ پیش کیا کہ دنیا میں صرف اللہ کا وجود ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اسي کی مختلف شکلیں ہیں۔ محبت اور شوق کے لحاظ سے خالق و مخلوق دونوں ایک ہیں۔ بندہ اللہ کی عبادت کرکے ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک كہ اس کا فانی وجود اللہ کے دائمی وجود میں فنا اور مدغم ہو جاتا ہے۔ یہ عقیدہ عمربن الفارض کے شعر میں موجود ہے جس کی شیخ الاسلام نے بھر پور تنقید کی ہے۔

شیخ الاسلام نے ذکر کیا ہے کہ ابن عربی کا عقیدہ تھا کہ جس طرح جنتی جنت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اسی طرح جہنمی بھی جہنم میں عذاب سے لطف اندوز ہوں گے۔ اور اس کو "عذاب" کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذائقے میں "عذوبت" یعنی مٹھاس ہوگی۔ حالانکہ دینی تعلیمات کی روشنی میں یہ بالکل غلط اور بے بنیاد تصور ہے۔ (الصفدية، ص ٢٤٤ – ٢٤٧)

صوفیوں کی ایک جماعت كا توحید کی حقیقت کے متعلق خیال یہ ہے کہ توحید ربوبیت ہی اصل مقصود ہے۔ اس میں فنا ہو جانا یہی اس کی انتہا ہے۔ اور اگر کوئی شخص توحید ربوبیت کی گواہی دیدے تو اچھے کو اچھا سمجھنے اور برے کو برا سمجھنے کی ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امر و نہی اور وعد و عید سب ان کے نزدیک معطل ہو کر رہ گئے۔

اسی لئے شیخ الاسلام نے ان کے متعلق حکم لگاتے ہوئے فرمایا: یہی تو کفر صریح ہے۔ وحدت الوجود، حلول اور اتحاد کا عقیدہ رکھنے والوں پر رد کرتے ہوئے فرمایا: صوفی عارف کا عقیدہ ہے کہ سالک ابتدا میں اطاعت و معصیت کے درمیان فرق کرتا ہے یعنی حکم کے لحاظ سے۔ پھر وہ تقدیر کے لحاظ سے اطاعت بلا معصیت کا تصور قائم کرتا ہے ۔ پھر آخر میں وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں نہ اطاعت ہوتی ہے نہ معصیت، کیونکہ وجود ایک ہی ہے۔

پھر ان پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ کی صفات کا تقاضا ہے کہ خالق اور اس کی مخلوقات کے درمیان فرق ہو۔ اور اللہ کی ذات کا کوئی بھی حصہ مخلوقات میں نہیں اور نہ مخلوقات کا کوئی بھی حصہ اس کی ذات میں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) سورة الإخلاص

ابن عربی کا عقیدہ ہے کہ تمام روحانی مراتب کی بنیاد ولایت پر ہے اور نبوت و رسالت دونوں کو تسلسل اور دوام نہیں کیونکہ دونوں زمان و مکان کے ساتھ خاص ہوتے ہیں جبکہ ولایت کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اللہ کی کامل معرفت کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ وہ کسی زمان و مکان کے ساتھ مقید نہیں ہوتا۔ علم شرعی فرشتے کی زبانی رسول پر وحی ہوتا ہے جبکہ ولی کا باطنی علم ایک میراث ہے جو پورے روحانی فیض کے چشمے سے حاصل ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام نے اس عقیدہ پر بھی رد فرمایا کیونکہ یہ اسلام کے وجود کے لیے خطرہ ہے اور عقل و شریعت سے متصادم ہے۔ نیز یہ کفر صریح اور ضلالت و گمراہی ہے۔ کیونکہ یہ عقیدہ تمام رسولوں کے دین و شریعت اور عقیدہ سے بالکل مختلف، اللہ کے خلاف بغاوت اور زمین میں فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ (الصفدية، ص ٢٤٤ - ٢٤٨ والفتاوى ٢/ ٢١٩ – ٢٢٨)

ياد رہے یہاں صوفیوں کے تمام باطل عقائد اور شیخ الاسلام کی طرف سے ان کے جوابات کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان کے بعض افکار اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اس کی خطرناکی کی چند مثالیں پیش کرنا مقصود ہے تاکہ ہمارے لئے واضح ہوجائے کہ آخر شیخ الاسلام کی طرف سے ان باطل عقائد کا تتبع کر کے ان پر خصوصی رد کرنے کے پیچھے کیا حقیقی اسباب و عوامل کار فرما تھے۔ چنانچہ آپ نے ان صوفیوں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔ ان کی نیندیں حرام کردی۔ ان کے اقوال کا عالمانہ اور محققانہ جائزہ لیا۔

اس سلسلے کی ان کی ایک عظیم الشان تالیف "الفرقان بین اولیاء الرحمان واولياء الشيطان" ہے جس میں انہوں نے رحمانی ولایت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ کتاب وسنت اور اقوال سلف کی روشنی میں رحمانی ولایت کے خصائص و اوصاف بیان کئے ہیں۔ رحمانی ولایت اور شیطانی ولایت کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ جو شیطانی ولایت محض شعبدے بازی، دجل و فریب، جھوٹ، لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانے، گانے بجانے، رقص و سرور، بدعات و خرافات اور تقوی و دینداری کی جھوٹی نمائش پر منحصر ہے۔

شیخ الاسلام نے رحمانی کرامت (جو کہ ایک ولی اللہ کا حق ہے) کی کیا خوب وضاحت فرمائی ہے۔ نیز شیطانی کرامت کى خوب قلعی کھولی ہے جو بسا اوقات ان صوفیوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ جیسے آگ میں داخل ہونے کا دکھاوا اور یہ دعوی کہ آگ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، سانپ اور اژدہے پکڑ لینا، تیر و تلوار سے خود کو مارنا۔ اس طرح کى بہت سى خرافات ہیں جنہیں وہ اپنی کرامت تصور کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے ایسے صوفیوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ آگ میں داخل ہوں گے۔ آگ ان صوفیوں کو جلائے گی مگر ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ مگر شرط یہ ہوگی کہ وہ پہلے خود سرکہ سے غسل کریں تاکہ ان کے جسموں سے مینڈک کا روغن زائل ہو جائے جسے وہ اپنے جسم پر اس لیے لگاتے ہیں تاکہ آگ اس پر اثرانداز نہ ہو۔ جب سلطان کی موجودگی میں ان کی جعلسازی کو بے نقاب کیا اور انہیں چیلنج کیا تو وہ ان خرافات سے باز آگئے اور ان کا مکر و فریب اور ان کی خرافاتی کرامتیں بے نقاب ہوگئیں۔ (العقود الدرية، ص١٩٤، ١٩٥، والفتاوى الكبرى، ص / ٤٤٥ – ٤٧٦)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کتاب وسنت سے فقہ کے استنباط میں ان کی مجتہدانہ بصیرت:

یہاں میں شیخ الاسلام کی زندگی کے ایک اہم پہلو کی وضاحت کرتا چلوں اور وہ ہے کتاب و سنت سے براہ راست استفادہ کرنے کے باب میں ان کی آزاد فکر اور بھرپور مجتہدانہ بصیرت و صلاحیت۔ ان کے زمانے میں ایسے اہل علم موجود تھے جو ذہانت و فطانت، قوت یاداشت اور تبحر علمی میں معروف و مشہور تھے۔

لیکن یہ سب پہلے کے ائمہ اور ان کے فقہی مذاہب کی اتباع کرنے والے تھے۔ ان میں سے کسی کے اندر یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ آزاد ہوکر اپنی کوئی رائے اور موقف اختیار کر سکیں۔ اور اپنی ذاتی آراء و خیالات کا برملا اظہار کر سکیں اگر وہ کتاب وسنت کے مطابق ہیں۔

مگر شیخ الاسلام نے قرآن وسنت اور آثار سلف کو پوری گہرائی اور جامعیت کے ساتھ پڑھا اور مطالعہ کیا پھر وہ موقف اپنایا جو کتاب و سنت کی بنیاد پر راجح ٹھہرا۔ اور اپنے اس موقف کا برملا اظہار کیا۔ ائمہ سابقین کے مخالف قول اور رائے کی کوئی پرواہ نہیں کی کیونکہ وہ دلیل کے تابع تھے اور اسی کے ارد گرد گھومنے والے تھے۔

اس اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے شاگرد ابو حفص البزار رقمطراز ہیں:

كان لا يذكر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا ويصلي ويسلم، ولا والله ما رأيت أحدا أشد تعظيما لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولا أحرص على اتباعه ونصر ما جاء به منه، حتى إذا كان أورد شيئا من حديثه في مسألة، ويرى أنه لم ينسخه شيء غيره من حديثه يعمل به ويقضي بمقتضاه، ولا يلتفت إلى قول غيره من المخلوقين كائنا من كان، وقال - رضي الله عنه كل قائل إنما يحتج لقوله لا به، إلا الله ورسوله

شیخ الاسلام کی زبان سے جب بھی ذکر رسول ہوتا تو وہ ضرور ان پر صلاۃ و سلام پڑھتے۔ اللہ کی قسم میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے بڑھ کر رسول اللہ کی تعظیم کرنے والا، ان سے بڑا اتباع رسول کا شیدائی اور تعلیمات نبوی کا حریص ہو۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی مسئلہ میں کوئی حدیث پیش کرتے اور وہ حدیث منسوخ نہیں ہوتی تو اس پر عمل کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ صادر فرماتے۔ کسی کے قول کی طرف نظر التفات نہیں کرتے خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو۔ اللہ ان سے راضی ہو فرماتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کا قول بذات خود حجت اور دلیل نہیں بن سکتا بلکہ اسے خود دلیل کی ضرورت ہے۔
(الأعلام العلية، ص / ٢٩)

ابن الوردی فرماتے ہیں:

له باع طويل في معرفة مذاهب الصحابة والتابعين، قل أن يتكلم في مسألة إلا ويذكر فيها مذاهب الأربعة، وقد خالف الأربعة في مسائل معروفة، وصنف فيها واحتج لها بالكتاب والسنة

صحابہ و تابعین کى آراء و اجتہادات کی معرفت میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ کسی مسئلے میں کلام کرتے اور اس میں ائمہ اربعہ کے مذاہب کا ذکرنه فرماتے۔ بلکہ بہت سارے معروف مسائل میں انھوں نے ائمہ اربعہ کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں اور کتاب و سنت سے دلیلىں پیش کی ہیں۔


آگے مزید فرماتے ہیں:

وبقي سنين، لا يفتي بمذهب معين، بل بما قام الدليل عليه عنده، ولقد نصر السنة المحضة، واحتج لها ببراهين ومقدمات وأمور لم يسبق إليها، وأطلق عبارات أحجم عنها الأولون والآخرون، وهابوا وجسر هو عليها، حتى قام عليه خلق من علماء مصر والشام قياما لا مزيد عليه، وبدعوه وناظروه وكابروه، وهو ثابت لا يداهن ولا يحابي، بل يقول الحق المر الذي أدى إليه اجتهاده وحدة ذهنه، وسعة دائرته في السنن والأقوال

سالوں ہوئے وہ کسی خاص مذہب کے مطابق فتوی نہیں دیتے بلکہ دلیل کے مطابق فتوی دیتے۔ یقینا انہوں نے سنت محضہ کا دفاع کیا اور اس کے لیے ايسے دلائل و براہین اور اصول قائم کیے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایسی ایسی تعبیرات و اصطلاحات کا استعمال جرات و ہمت کے ساتھ کیا جسے پہلے اور بعد کے لوگ استعمال كرنے سے كتراتے اورخوف کھاتے تھے۔ اسی لئے مصر اور شام کے علماء کی ایک جماعت نے ان کے خلاف ایک زبردست محاذ کھول دیا۔ انہیں بدعتی گردانا۔ ان سے بحث ومناظرہ کیا۔ مگر شیخ الاسلام اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ نہ کسی سے ڈرے، نہ مداہنت کا رویہ اپنایا۔ بلکہ وہ اپنے اجتہاد، ذہنی صلاحیت اور سنن و اقوال میں اپنے وسیع علم و معرفت کی روشنی میں جسے حق جانتے وہی کہتے اگرچہ تلخ سہی۔
( تاريخ ابن الوردي ٢/ ٤٠٦، ٤١٣)

حافظ ابن کثیر شیخ الاسلام کے بارے میں رقمطراز ہیں:

ثم إن الشيخ بعد وصوله إلى دمشق واستقراره بها لم يزل ملازما لاشتغال الناس في سائر العلوم ونشر العلم، وتصنيف الكتب وإفتاء الناس بالكلام، والكتابة المطولة والاجتهاد في الأحكام الشرعية، ففي بعض الأحكام يفتي بما أدى إليه اجتهاده من موافقة أئمة المذاهب الأربعة، وفي بعضها يفتي بخلافهم وبخلاف المشهور في مذاهبهم، وله اختيارات كثيرة في مجلدات عديدة أفتى بما أدى إليه اجتهاده، واستدل على ذلك من الكتاب والسنة وأقوال الصحابة والسلف

آپ دمشق پہنچنے اور وہاں سکونت پذیر ہونے کے بعد مسلسل لوگوں کے ساتھ مختلف علوم کی تعلیم و تدریس، علم کی نشر و اشاعت، تصنیف و تالیف، زبانی اور طویل تحریری شکل میں فتوی دینے اور شرعی احکام میں اجتہاد کرنے میں مصروف رہے۔ بعض مسائل میں اپنے اجتہاد کی بنیاد پر ائمہ اربعہ کے مذہب کے مطابق فتوی دیتے جبکہ بعض دوسرے مسائل میں ان کے برعکس اور ان کے مشہور مذہب کے خلاف فتویٰ دیتے تھے۔ ان کی ذاتی آراء و اجتہادات کو متعدد جلدوں میں جمع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر فتویٰ دیا ہے اور کتاب و سنت، صحابہ اور سلف کے اقوال سے دلائل پیش کیے ہیں۔
(البداية والنهاية، ١٤/ ٦٧)

اس حوالے سے ان کے معاصر علماء کے بہت سارے اقوال ہیں جس میں انہوں نے شیخ الاسلام کی امامت، ان کی آزادانہ فکر و رجحان، قرآن و سنت کے علوم میں اپنے معاصرین پر کئی گنا تفوق و برتری اور ان کے اندر اجتہادی شرائط موجود ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

اسی لیے انہوں نے ائمہ اربعہ کے بلند مقام ومرتبہ، ان کے شاندار اجتہاد اور بہت سے ائمہ پر ان کی علمی برتری کے واضح اعتراف کے باوجود یہ برملا اعلان کیا کہ رسول اللہ کے سوا ہر شخص کے قول کو لیا اور ترک کیا جاسکتا ہے۔ نیز انہوں نے کتاب و سنت کے نصوص کی اتباع کرتے ہوئے بہت سارے مسائل میں ان فقہی مذاہب کی مخالفت کی اور یہ نہیں دیکھا کہ وہ کس امام کی مخالفت کر رہے ہیں جب تک کتاب و سنت کے دلائل سے ان کے موقف کی تائید ہوتی رہی۔

ان کا شمار اجتہاد مطلق کی اہلیت رکھنے والے ائمہ میں ہوتا ہے۔ وہ کسی خاص مذہب کے ساتھ منسوب نہیں تھے۔ واضح رہے یہ بات اس سے متعارض نہیں جسے بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنے اکثر ادوار اور اپنی اکثر آراء واجتہادات میں حنبلی مذہب پر کاربند تھے اور وہ حنبلی مذہب کو سب سے بہتر مذہب ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب و سنت کے علوم پر کامل عبور و دسترس رکھنے کی وجہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مذہب حنبلی سب سے بہترین مذہب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مذاہب میں یہ مذہب سنت سے زیادہ قریب ہے۔

ان کے مجتہد مطلق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بيشتر مسائل میں ائمہ اربعہ کے خلاف موقف اپنائیں۔ کیونکہ اس سے دو باتوں میں سے ایک بات لازم آتی ہے۔ پہلی یہ کہ یا تو یہ مذاہب کتاب و سنت کی بنیاد پر قائم نہیں ہیں اور شیخ الاسلام جہاں کہیں بھی قرآن و سنت سے دلیل ملے اسی کے پابند ہیں دوسری بات یہ کہ یا تو شیخ الاسلام کے اندر اجتہاد کے تمام شرائط مکمل نہیں تھے انہی میں سے ایک شرط یہ ہے کہ کتاب و سنت پر کامل عبور۔ جس کی وجہ سے انہوں نے بغیر دلیل کے ائمہ اربعہ کی مخالفت کی۔

جبکہ اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں۔ لہذا دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کو راجح قرار دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ کسی سابق امام کے مقلد ہیں یا حنبلی مذہب کے مجتہد علماء میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے دلیل کی بنیاد پر بعض فقہی مسائل میں اپنا الگ موقف اختیار کیا۔ اب ان میں سے بعض مسائل میں ان کی رائے ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی رائے کے مطابق ٹھہری۔

اس نوعیت کے بعض مسائل یہ ہیں: جیسے طلاق کی قسم، بیوی کو ایک هى لفظ سے تین بار طلاق دینا، وفات کے بعد رسول اللہ کا وسیلہ لینا یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل میں آپ کی آراء و اجتہادات کتاب و سنت کے واضح اور صریح دلائل پر مبنی تھے۔ یہاں ان تمام اجتہادات کو دلائل کے ساتھ تفصیل سے ذکر کرنے کی گنجائش نہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ رحمہ اللہ کتاب و سنت کی دلیل کے متبع اور پابند تھے۔


اور گزشتہ سطور میں ہم نے جانا کہ شیخ الاسلام کون ہیں؟ کتاب وسنت کی معرفت میں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ اس باب میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ وہ اپنے اجتہادات میں منفرد اور شاذ نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے صحابہ اور ائمہ کرام کا بھی وہی موقف تھا۔ جو شخص ان دلائل کو تفصیل سے جاننا چاہتا ہو وہ ان کی تصنیفات اور حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرے۔ (جلاء العينين، ص٢٢٢، ٢٢٤، ٢٣٢، ٥١١)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ابتلا و آزمائش:

شیخ الاسلام مختلف اعتقادی و فکری مسائل کو لے کر اپنے معاصرین کے ساتھ سخت نبرد آزما رہے جس کی وجہ سے مختلف جماعتوں میں ان کے بہت سے دشمن پیدا ہوگئے۔ چنانچہ صوفیوں میں ان کے مخالفین تھے جن کی توکل پرستی، زہد میں غلو آمیزی اور کتاب و سنت سے انحراف پر آپ نے بھرپور تنقید کی۔

متکلمین میں ان کے مخالفین پیدا ہوئے جن کے غیر اسلامی مصادر سے متاثر ہونے اور ان کی گمراہی کو اسلام میں داخل کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح فقہاء میں ان کے مخالفین تھے جن کی فکر میں جمود تھا، جو تقلید جامد کی طرف مائل تھے اور کتاب وسنت کا دروازہ اپنے لیے بند کئے ہوئے تھے۔

ان دشمنوں اور مخالفوں نے شیخ الاسلام کے خلاف مختلف سازشیں کیں۔ ان پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگائے۔ تاہم اللہ پر ان کا مضبوط ایمان تھا جس کی بدولت وہ آزمائشوں پر صبر کرتے رہے۔ تدریس و افتاء کی پابندی اور جیل کی صعوبتوں کو برداشت کرتے رہے۔ جیل سے ابھی نکلے نہیں ہوتے کہ دوبارہ جیل واپس بھیج دئے جاتے تھے۔

چنانچہ ایک لمبے عرصے تک دمشق، قاہرہ اور اسکندریہ کی جیلوں میں قید کی سزائیں جھیلتے رہے۔ بڑھاپے میں بھی دشمنوں نے ان پر ترس نہیں کھایا۔ بالآخر قلعہ دمشق کی جیل میں انھوں نے آخری سانس لی۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
زہد و قناعت اور مکارم اخلاق:

آپ دین الہی کے مخالفین کے لئے شمشیر بے نیام تھے جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور سے جانا۔ اہل بدعت کے حلق میں کانٹا بن کر چھبتے تھے۔ حق بیانی اور دفاع دین کے امام تھے۔ شہروں میں ان کے تذکرہ کی گونج سنائی دیتی تھی۔ زمانے میں ایسی شخصیت نایاب ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابن شاکر نے کہا ہے:

لذا نعته أعداء السنة والمبتدعة بالخشونة ومساوئ الأخلاق، وأنه كان فظا غليظ القلب، لم تطرق الرحمة أبواب قلبه

دشمنان سنت اور اہل بدعت نے انہیں سخت و کرخت اور برے اخلاق سے متصف کیا ہے اور کہا کہ وہ بدزبان اور سخت دل تھے۔ نرمی اور رحم دلی ان کے دل کو چھو کر نہیں گزری تھی۔


اس سے بدترین بہتان تراشی اور بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے حقیقت کو ہی بدل ڈالا۔ ایک شخص جو سراپا اخلاق کریمانہ کا حامل تھا اسے سخت دل اور بداخلاق بنا ڈالا۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے زمانے کے معتبر علماء نے ان کے بارے میں کیا لکھا ہے۔

ابن شاکر فرماتے ہیں کہ

حج سنة إحدى وتسعين وله ثلاثون سنة، ورجع وقد انتهت إليه الإمامة في العلم والعمل، والزهد والورع، والشجاعة والكرم، والتواضع والحلم، والأناة والعفة، والصيانة وحسن القصد، والإخلاص والابتهال إلى الله، وشدة الخوف منه ودوام المراقبة له، والتمسك بالأثر والدعاء إلى الله تعالى، وحسن الأخلاق ونفع الخلق والإحسان إليهم

سن 691 ہجری میں انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی۔ جب حج سے واپس ہوئے تو علم و عمل، زہد و ورع، شجاعت و کرم، تواضع و انکساری، حلم وسنجیدگی، جلالت و ہیبت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نیز صدق و امانت، عفت و پاکیزگی، خلوص و للہیت، تضرع الی اللہ، خشیت الہی، دائمی مراقبہ، تمسک بالاثر، دعا، حسن اخلاق، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور نفع رسانی میں امامت کے درجے پر فائز ہو گئے۔
(الوافي بالوفيات، نقلا من كتاب المنجد، ص٥٨)

امام ذہبی فرماتے ہیں:

ما رأيت في هذا العالم أكرم منه، ولا أفرغ منه عن الدنيا والدرهم، لا يذكره، ولا أظنه يدور في ذهنه، وفيه مروءة، وقيام مع أصحابه، وسعي في مصالحهم، وهو فقير لا مال له

میں نے اس دنیا میں ان سے زیادہ سخی و فیاض اور درہم و دنیا سے بے نیاز کسی کو نہیں پایا۔ درہم و دینار کا نہ کبھی تذکرہ کرتے اور میں سمجھتا ہوں کبھی ان کے ذہن میں اس کا خیال بھی نہ آتا ہوگا۔ ان کے اندر انسانیت تھی۔ اپنے ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ ان کی ضرورتیں پوری فرماتے۔ وہ تنگدست تھے۔ ان کے پاس دولت نہیں تھی۔
(الذيل على طبقات الحنابلة، ٤/ ٣٩٥)

صفدی "الوافی بالوفیات" میں امام ذہبی کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

هذا مع ما كان عليه من الكرم الذي لم أشاهد مثله قط، والشجاعة المفرطة، والفراغ عن ملاذ النفس: من اللباس الجميل والمأكل الطيب والراحة الدنيوية

ان کے اندر ایسی سخاوت و فیاضی تھی جس کی میں نے کوئی نظیر نہیں دیکھی۔ مزید برآں آپ کے اندر بے پناہ شجاعت و بہادری تھی۔ وه خوبصورت لباس، لذیذ کھانے اور دنیاوی آرام و آشائس جیسی خواہشات نفس سے بے نیاز تھے۔
(شيخ الإسلام ابن تيمية، للمنجد، ص / ٢٧.)

امام ذہبی "ذیل العبر" فرماتے ہیں:

وكان رأسا في الكرم والشجاعة، قانعا باليسير

آپ سخاوت و شجاعت میں اعلی مقام پر فائز تھے اور تھوڑے پر قانع اور رضامند تھے۔
(ذيول العبر للذهبي، / ٨٤.)

ابن الوردی فرماتے ہیں:

وكان معظما لحرمات الله، دائم الابتهال، كثير الاستعانة، قوي التوكل، ثابت الجأش، له أوراد وأذكار يديمها، وله من الطرف الآخر محبون من العلماء والصلحاء والجند والأمراء والتجار والكبراء وسائر العامة

آپ اللہ کے شعائر ومقدسات کی تعظیم کرنے والے، ہمیشہ اللہ سے گریہ وزاری کرنے والے، بکثرت اللہ سے مدد طلب کرنے والے، باہمت اور مضبوط توکل رکھنے والے تھے۔ آپ کے کچھ خاص اذکار و وظائف تھے جن کی ہمیشہ پابندی کرتے تھے۔ دوسری طرف علماء، صلحاء، عظماء، فوج و حکمران، تاجران اور عوام میں آپ کے بہت سے عقیدت مند تھے۔
( تاريخ ابن الوردي ٢/ ٤٠٦.)

ابو حفص البزار فرماتے ہیں:

ما رأيناه يذكر شيئا من ملاذ الدنيا ونعيمها، ولا كان يخوض في شيء من حديثها، ولا يسأل عن شيء من معيشتها، بل جعل همه وحديثه في طلب الآخرة، وبالقرب إلى الله

ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ دنیاوی ناز و نعمت اور اس کی عیش و عشرت کا تذکرہ کرتے ہوں اور نہ کبھی ایسی گفتگو میں پڑتے۔ اور نہ کبھی دنیاوی معیشت کے بارے میں کچھ دریافت کرتے بلکہ ہمیشہ ان کی فکر و گفتگو فکر آخرت اور قرب الہی سے عبارت ہوتی۔

ان کے سامنے قاضی القضاة (چیف جسٹس) اور رئیس العلماء کا عہدہ پیش کیا گیا مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکارکردیا۔ (ترجمة شيخ الإسلام، محمد كرد علي، ص١١)

وہ بڑے دل کے انسان تھے۔ ان کا دل رحمت و شفقت اور نرمی سے لبریز تھا۔ یہاں تک کہ اپنے مخالفین کے لئے بھی جنہوں نے ان کے خلاف ریشہ دوانیاں کی۔ ان کا برا چاہا اور انہیں ایذاء پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر جب آپ ان پر غالب آئے اور وہ آپ کے شفقت بھرے ہاتھوں کے اسیر اور قیدی بن گئے تو آپ نے ان سے فرمایا: جاؤ تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ مجھے اور تمہیں معاف فرمائے۔

اس سلسلے کا ایک خوبصورت واقعہ شیخ الاسلام اور سلطان ناصر کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ سلطان ناصر نے شیخ الاسلام کو مکمل اختیار دیا تھا کہ وہ اپنے ان دشمنوں کو جو مرضی سزا دیں جنہوں نے انہیں تکلیفیں پہنچائیں اور جن کی وجہ سے انہیں قید و بند کی سزائیں جھیلنی پڑیں۔ مگر آپ نے ان تمام کو معاف فرما دیا۔ سلطان ناصر نے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ اپنے دشمنوں سے انتقام لیں مگر وہ معاف کرنے پر مصر رہے۔

اس واقعہ کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن عبدالہادی نے ذکر کیا ہے۔ جسے آپ کی وسعت ظرفی جاننے کی خواہش ہو وہ تفصیل سے یہ واقعہ ان مذکورہ دونوں مورخین کے یہاں پڑھ سکتا ہے۔ (البداية والنهاية ١٤/ ٥٣ - ٥٥، والعقود الدرية، ص٢٧٨)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
آپ کی وفات:

مورخین بیان کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام کو جب "الدیلم" کی "القضاة" جیل میں قید کیا گیا تو علم و دین سے مشغلہ اور لگاؤ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے یہ قید خانہ بہت سے مدارس اور خانقاہوں سے بہتر ثابت ہوا۔ بہت سارے قیدی جیل سے رہائی پانے کے بعد آپ کے پاس ٹھہرنے کو ترجیح دیتے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں آنے لگے یہاں تک كه قید خانہ بھر جاتا۔ (حياة شيخ الإسلام للبيطار، ص / ٢٦)

ابن الوردی وغیرہ نے لکھا ہے کہ سلطان کی طرف سے انھیں قلعہ دمشق میں قید کرنے کا فرمان صادر ہوا۔ چنانچہ آپ وہاں جیل میں رہے اور آپ کے ساتھ آپ کے بھائی خدمت کیلئے موجود تھے۔ ان ایام اسیری میں آپ عبادت و تلاوت، تالیف و تصنیف اور مخالفین پر رد کے لیے یکسو ہوگئے۔ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک بڑا حصہ اسي جیل میں تحریر فرمایا۔

جیل کی لکھی ہوئی بعض کتابیں جب منظر عام پر آ کر مشہور ہو گئیں تو لکھنے اور مطالعہ کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ ساری کتابیں چھین کر لے گئے۔ نہ قلم چھوڑا نہ کاغذ اور دوات۔ یہ سب چھن جانے کے بعد وہ کوئلے سے لکھتے تھے اور کہتے تھے کتابوں کا چھن جانا بھی میرے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ کئی مہینے اسی حالت میں رہے اور یکسو ہو کر عبادت و تلاوت اور تہجد میں مصروف رہے۔

جیل میں رہتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا:

ما يصنع أعدائي بي، أنا جنتي وبستاني في صدري أين رحت فهي معي لا تفارقني، أنا حبسي خلوة، وقتلي شهادة، وإخراجي من بلدي سياحة

میرے دشمن میرا کیا بگاڑیں گے۔ میرا باغ و چمن میرے سینے میں ہے۔ میں جہاں کہیں بھی جاؤں وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ قید خانہ میرے لئے خلوت ہے۔ میرا قتل میرے لیے شہادت ہے اور ملک سے جلاوطنی میرے لئے سیروسیاحت ہے۔


نیز فرمایا: المحبوس من حبس قلبه عن ربه، والمأسور من أسره هواه قیدی وہ ہے جس کا دل اپنے رب سے دور ہو۔ (ذيل طبقات الحنابلة ٤/ ٤٠٢)

ابن قیم رحمہ اللہ ان کے ایام اسیری کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وعلم الله ما رأيت أحدا أطيب عيشا منه قط، مع ما كان فيه من ضيق العيش وخلاف الرفاهية والنعم بل ضدها، ومع ما كان فيه من الحبس والتهديد والإرجاف، وهو مع ذلك أطيب الناس عيشا، وأشرحهم صدرا، وأقواهم قلبا، وأسرهم نفسا، تلوح نضرة النعيم على وجهه

اللہ جانتا ہے میں نے کبھی کسی اور کو ان سے زیادہ خوشحال نہیں دیکھا۔ حالانکہ قید خانے کی زندگی پریشان کن تھی۔ عیش و آرام اور نعمت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا بلکہ سب کچھ اس کے برعکس تھا۔ نیز اس میں قید و بند کی صعوبتیں، دھمکیاں اور سنسنی خیز خبریں تھیں۔ اس کے باوجود ان کی زندگی سب سے زیادہ پرسکون، ان کا سینہ سب سے زیادہ پر اطمینان، ان کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور وہ سب سے زیادہ خوش باش تھے۔ ناز و نعم کی تروتازگی چہرے سے عیاں اور ظاہر ہورہی تھی۔
(ذيل طبقات الحنابلة ٤/ ٤٠٢)

آپ کچھ ہی دن بیمار رہے۔ بعد ازاں 22 ذوالقعدہ کو اس دار فانی سے رخصت فرما گئے۔ غسل اور کفن کے بعد جنازہ باہر لایا گیا۔ پہلی نماز جنازہ قلعہ دمشق میں پڑھی گئی۔ دوسری نماز جنازہ بعد نماز ظہر جامع دمشق میں ادا کی گئی۔ لوگوں کے بیان کے مطابق ان کے جنازے میں صرف وہی لوگ شریک نہیں ہوئے جو ان سے سخت عداوت و دشمنی رکھنے میں مشہور تھے۔ وہ اپنے نفس کے تحفظ کی خاطر اس منظر سے غائب تھے۔ ان کے جنازے میں جو ہیبت و عظمت، شان و وقار اور لوگوں کی جس تعظیم و توقیر کا مشاہدہ کیا گیا وہ اب تک کسی اور کے جنازے میں نہیں دیکھا گیا۔

اسی روز آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ بہت سارے اہل علم و فضل نے اشعار کی زبانی اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔ گاؤں دیہات اور مختلف مقامات اور ملکوں سے آکر لوگوں نے باری باری آپ کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔ اس کے علاوہ مصر، شام، عراق، تبریز اور بصرہ اور اس کے مضافات وغیرہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ (تذكرة الحفاظ، ص / ١٤٩٦، ١٤٩٧ والعقود الدرية، ص / ٣٦١، ٣٦٢، ٣٧٠، ٣٧١.)

اللہ تعالی اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ہم سب مسلمانوں کو کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم تسليما كثيرا
 
Top