کتاب و سنت کی طرف واپسی کی دعوت:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دعوت میں وہ منہج اور طریقہ کار اپنایا جس کی بدولت اسلام اپنے خالص عقائد اور اصول و فروغ کے ساتھ عہد صحابہ کی طرف لوٹ آیا۔ جب انہیں یقین ہو جاتا کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں وہی صحابہ کرام کا موقف اور ان کا عمل تھا تو دلیل و برہان کے ذریعے اس قول کا دفاع کرتے اور اس کے لئے اپنے پاس موجود تمام علمی اسباب و وسائل بروئے کار لاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس طریقہ کار سے جہاں بڑے بڑے علمائے کرام متاثر ہوئے، وہیں اہل بدعت ان سے بہت خفا اور نالاں ہوئے۔ تاہم انہوں نے اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس راستے میں ملنے والی اذیت و تکلیف کو برداشت کیا۔
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وليعلم أنه ليس أحد من الأئمة المقبولين عند الأمة قبولا عاما، يعتمد مخالفة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بشيء من سنته، دقيق ولا جليل، فإنهم متفقون اتفاقا يقينيا على وجوب اتباع الرسول - صلى الله عليه وسلم -، وعلى أن كل أحد من الناس يؤخذ من قوله ويترك، إلا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -
واضح رہے اس امت میں شہرت و مقبولیت پانے والے ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چھوٹی بڑی سنت کی جان بوجھ کر مخالفت نہیں کی۔ بلکہ ان تمام کا اس بات پر قطعی اتفاق ہے کہ اتباع رسول واجب ہے اور اللہ کے رسول کے سوا ہر ایک کے قول میں یہ گنجائش ہے کہ اسے اخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ (رفع الملام عن الأئمة الأعلام، ص / ١٠)
اور فرماتے ہیں:
وليس لأحد أن يعارض الحديث الصحيح عن النبي - صلى الله عليه وسلم - بقول أحد من الناس، كما قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لرجل سأله عن مسألة فأجابه فيها بحديث، فقال له: قال أبو بكر وعمر، فقال ابن عباس: يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وتقولون قال أبو بكر وعمر!!
کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی شخص کے قول کے ذریعے صحیح حدیث کی مخالفت کرے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب ایک شخص نے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں حدیث رسول پیش کی۔ اس پر اس شخص نے کہا: ابو بکر و عمر نے تو ایسا فرمایا ہے۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے: کچھ بعید نہیں کہ تم پر آسمان سے پتھر کی بارش ہو۔ میں اللہ کے رسول کی حدیث پیش کر رہا ہوں اور تم اس کے سامنے ابوبکر و عمر کا قول پیش کر رہے ہو۔
فرماتے ہیں:
ثم إننا مع العلم بأن التارك الموصوف معذور بل مأجور، لا يمنعنا أن نتبع الأحاديث الصحيحة التي لا نعلم لها معارضا يدفعها، وأن نعتقد وجوب العمل بها على الأمة، ووجوب تبليغها
ہم جانتے ہیں کہ تارک حدیث جس کے احوال و اوصاف گزر چکے ہیں وہ قابل عذر ہے بلکہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ تاہم ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان صحیح احادیث پر عمل کریں جن کا کسی سے تعارض نہیں۔ نیز یہ عقیدہ رکھیں کہ امت کے لئے ان احادیث پر عمل کرنا اور ان کی تبلیغ کرنا واجب ہے۔ (رفع الملام عن الأئمة الأعلام، ص / ٥٤، ٦٨)
نیز آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد ذم الله في القرآن من عدل عن اتباع الرسل إلى ما نشأ عليه من دين آبائه، وهذا هو التقليد الذي حرمه الله ورسوله، وهو أن يتبع غير الرسول فيما خالف فيه الرسول، وهذا حرام باتفاق المسلمين على كل أحد؛ فإنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، والرسول طاعته فرض على كل أحد من الخاصة والعامة في كل وقت وكل مكان، في سره وعلانيته، وفي جميع أحواله
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس شخص کی مذمت فرمائی ہے جو رسولوں کی اتباع کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کا وہ دین اختیار کرے جس پر اس کی نشوونما ہوئی ہے۔ اور یہی وہ تقلید ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ تقلید کا مطلب یہ ہے کہ انسان رسول کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع کرے جس میں رسول کی خلاف ورزی ہو اور یہ بالاتفاق ہر ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ جہاں خالق کی معصیت ہو وہاں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ اور رسول کی اطاعت ہر خاص و عام پر، ہر زمان و مکان میں، خلوت و جلوت میں اور تمام حالات میں فرض ہے۔
بعد ازاں آپ نے ان آیات کا ذکر کیا جن سے یہ دلیل ملتی ہے کہ اتباع رسول ایمان کا حصہ ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
وقد أوجب الله طاعة الرسول على جميع الناس في قريب من الأربعين موضعا من القرآن، وطاعته طاعة الله
قرآن میں تقریبا چالیس مقامات پر اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت کو تمام لوگوں پر واجب قرار دیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔
آخر میں آپ فرماتے ہیں:
والمقصود هنا أن التقليد المحرم بالنص والإجماع، أن يعارض قول الله ورسوله بما يخالف ذلك، كائنا من كان المخالف لذلك
یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ نص اور اجماع سے جو تقلید حرام ہے وہ یہی ہے کہ انسان کسی مخالف قول کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول کے قول کی مخالفت کرے خواہ اس قول کا قائل کوئی بھی ہو۔
مزید فرماتے ہیں:
إن الله سبحانه لما ذكر حال من يقول على الله بلا علم بل تقليد السلف، ذكر حال من يكتم ما أنزل الله من البينات والهدى من بعد ما بينه للناس في الكتاب
اللہ تعالی نے جب ان لوگوں کی حالت بیان فرمائی جو بغیر علم کے اللہ پر جھوٹی باتیں کہتے ہیں بلکہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے ہیں. اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو اللہ کے نازل کردہ واضح دلائل اور ہدایات کو چھپاتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے اسے اپنی کتاب میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ:
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (سورة البقرة الآية ١٧٤)
یہ رسول کی تعلیمات چھپانے والوں کا حال ہے اور وہ قرآن کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اس کے برخلاف جانے والوں کا حال ہے۔ قرآن کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اس کے برخلاف جانے والوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو پہلے یا بعد کے لوگوں میں سے خواہ وہ صحابی ہو یا تابعی یا کوئی فقیہ وغیرہ کسی کی ایسے مسئلے میں تقلید کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ حدیث کے خلاف ہے۔
جو شخص ایسے اجماع کا دعوی کرے جو حدیث رسول کے صریح خلاف ہو اور اس کے دعوے کی تائید میں کوئی صریح دلیل بھی نہ ہو۔ نیز یہ اعتقاد رکھے کہ اہل اجماع کے لئے اپنی رائے کی بنیاد پر رسول کی مخالفت کرنا جائز ہے اور اجماع نص کے لئے ناسخ ہوتا ہے جیسا کہ اہل رائے اور متکلمین کی ایک جماعت کا موقف ہے تو ایسا شخص بھی ان مذکورہ لوگوں میں شامل ہے۔
فرماتے ہیں:
وكثير من الفقهاء المتأخرين أو أكثرهم يقولون: إنهم عاجزون عن تلقي جميع الأحكام الشرعية من جهة الرسول؛ فيجعلون نصوص أئمتهم بمنزلة نص الرسول ويقلدونهم، ولا ريب أن كثيرا من الناس يحتاج إلى تقليد العلماء في الأمور العارضة التي لا يستقل هو بمعرفتها، ومن سالكي طريق الإرادة والعبادة والفقر والتصوف من يجعل شيخه كذلك، بل قد يجعله كالمعصوم، ولا يتلقى سلوكه إلا عنه، ولا يتلقى عن الرسول سلوكه، مع أن تلقي السلوك عن الرسول أسهل من تلقي الفروع المتنازعة فيها، فإن السلوك هو بالطريق التي أمر الله بها ورسوله من الاعتقادات والعبادات والأخلاق، وهذا كله مبين في الكتاب والسنة، فإن هذا بمنزلة الغذاء الذي لا بد للمؤمن منه. ولهذا جميع الصحابة يعلمون السلوك بدلالة الكتاب والسنة والتبليغ عن الرسول، ولا يحتاجون في ذلك إلى فقهاء الصحابة
بہت سارے متاخرین فقہاء بلکہ اکثر فقہاء یہ کہتے ہیں کہ تمام شرعی احکام کو رسول کے واسطے سے اخذ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے وہ اپنے اماموں کے آراء و اقوال کو احادیث رسول کے قائم مقام مانتے ہیں اور پھر اپنے اماموں کی تقلید کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے لوگوں کو ان پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جنہیں وہ خود سے سمجھ نہیں سکتے۔ اسی طرح ارادہ و عبادت اور فقر و تصوف کے سلسلے سے منسلک بعض لوگ اپنے شیخ اور مرشد کو یہی مقام دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے معصوم سمجھتے ہیں۔ اور سلوک کے اصول و مسائل رسول سے اخذ کرنے کے بجائے صرف اپنے شیخ سے اخذ کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول سے سلوک کے اصول و مسائل اخذ کرنا دیگر اختلافی فروعی مسائل اخذ کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ سلوک سے مراد عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات کا وہ طریقہ اور راستہ ہے جس پر چلنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں قرآن و حدیث میں واضح انداز میں بیان کر دی گئیں ہیں۔ اس لئے کہ اس کی مثال روحانی غذا جیسی ہے جو ایک مومن بندہ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام سلوک کے اصول و طرق کی معرفت براہ راست کتاب و سنت اور دعوت نبوی سے حاصل کرتے تھے اور انہیں فقہائے صحابہ کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی۔
آگے مزید فرماتے ہیں:
ولكن كثيرا من أهل العبادة والزهادة أعرض عن طلب العلم النبوي الذي يعرف به طريق الله ورسوله، فاحتاج لذلك إلى تقليد شيخ، وفي السلوك مسائل تنازع فيها الشيوخ، لكن يوجد في الكتاب والسنة من النصوص الدالة على الصواب في ذلك ما يفهمه غالب السالكين، فمسائل السلوك من جنس مسائل العقائد، كلها منصوصة في الكتاب والسنة، وإنما اختلف أهل الكلام لما أعرضوا عن الكتاب والسنة، فلما دخلوا في البدع وقع الاختلاف، وهكذا طريق العبادة عامة ما يقع فيه من الاختلاف، إنما هو بسبب الإعراض عن الطريق المشروع، فيقعون في البدع؛ فيقع فيهم الخلاف، وهكذا الفقه، إنما وقع فيه الاختلاف لما خفي عليهم بيان صاحب الشرع
تاہم جس علم نبوی سے اللہ اور اس کے رسول کے طریق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اسے سیکھنے سے بہت سارے اہل زہد و عبادت نے گریز اور اعراض کیا۔ اسی لیے انہیں کسی شیخ اور مرشد کی تقلید کی ضرورت پیش آئی۔ سلوک کے باب میں ایسے بہت سے مسائل ہیں جو خود ان علماء سلوک کے مابین مختلف فیہ ہیں۔ لیکن کتاب و سنت کے نصوص میں ان اختلافی مسائل کا حل موجود ہے جسے بیشتر سالکین بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سلوک کے مسائل عقائد کے مسائل جیسے ہیں۔ اور یہ تمام مسائل قرآن وسنت میں واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ان مسائل میں اختلاف اس وقت رونما ہوا جب اہل کلام نے کتاب وسنت کی روشن شاہراہ کو چھوڑ کر بدعات و خرافات کا تاریک راستہ اپنایا۔ یہی حال ان عام عبادات کا ہے جن میں اختلاف کی اصل وجہ صحیح راستے سے دوری اور کنارہ کشی ہے۔ لوگ جب شاہراہ سنت کو چھوڑ کر بدعات میں پڑتے ہیں تو اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح فقہی مسائل ميں اختلاف واقع ہوا جب انھیں احادیث رسول تک رسائی نہیں ہو سکی۔ (دیکھیں: مجموعة الرسائل الكمالية، " فصل في التقليد " لشيخ الإسلام ابن تيمية.)
ابن رجب اپنی کتاب طبقات میں رقمطراز ہیں:
وبلغني من طريق صحيح عن ابن الزملكاني أنه سئل عن الشيخ - يعني ابن تيمية - فقال: لم ير من خمسمائة سنة - أو قال أربعمائة سنة، والشك من الناقل، وغالب ظنه أنه قال: من خمسمائة - أحفظ منه
مجھے مستند حوالے سے یہ بات پہنچی ہیں کہ جب ابن الزملكاني سے ابن تیمیہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چار سو یا پانچ سو سال سے اس روئے زمین پر ان سے بڑا حافظ کوئی پیدا نہیں ہوا. "چار سو یا پانچ سو سال" کا شک راوی کی طرف سے ہے اور غالب گمان ہے کہ انہوں نے پانچ سو سال کہا ہے۔ (الرد الوافر، ص / ٥٦)
ابن فضل الله العمری فرماتے ہیں:
أخمل من القرناء كل عظيم، وأخمد من أهل البدع كل حديث وقديم، ولم يكن منهم إلا من يجفل عنه إجفال الظليم، ويتضاءل لديه تضاؤل الغريم
امام ابن تیمیہ نے اپنے ہم عصروں میں سے بڑی بڑی قد آور ہستیوں کو گمنامی کے پردے میں ڈھکیل دیا۔ قدیم و جدید تمام اہل بدعت کا چراغ گل کر دیا۔ اہل بدعت ان سے خوف کھاتے تھے اور ایک مقروض کی طرح ان کے سامنے حقیر و ذلیل بنے رہتے تھے۔ (الرد الوافر، ص / ٩٦)
حسن بن حبیب فرماتے ہیں:
ابن تيمية بحر زاخر في النقليات، وحبر ماهر في حفظ عقائل العقليات، وإمام في معرفة الكتاب والسنة
ابن تیمیہ نقلیات کے بحر زخار، علوم عقلیات کے بلند پایہ حافظ اور کتاب و سنت کے علم و معرفت کے امام تھے۔ (الرد الوافر، ص / ٩٦)
معالم دین کی تجدید:
علماء اسلام بیان کرتے ہیں کہ ایمان اور علم و عمل کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے اہل ایمان کی تین قسمیں کی جا سکتی ہیں: پہلی قسم السابقون الاولون یعنی سبقت کرنے والے لوگ۔ دوسری قسم المقتصدون یعنی میانہ روی اختیار کرنے والے لوگ۔اور تیسری قسم ضعفاء الطريق یعنی راستے کے کمزور لوگ۔ اور اسی تقسیم کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں اشارہ فرمایا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:
(
مَا مِنْ نَبِىٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِى أُمَّةٍ قَبْلِى إِلاَّ كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لاَ يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لاَ يُؤْمَرُونَ فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ) (رواه مسلم، الإيمان، حديث رقم / ٨٠ والترمذي: الزهد، باب / ٣٩ والنسائي: البيعة، باب / ٣٣)
ترجمہ:
اللہ تعالی نے مجھ سے پہلے جس قوم میں بھی کسی نبی کو بھیجا تو اس نبی کے ساتھ اس قوم کے کچھ خاص رفقاء اور معاونین ہوتے تھے جو ان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد کچھ ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوتے جو ایسی باتیں کہتے جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ اور ایسا کام کرتے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا ہوتا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے خلاف جو اپنے دست و بازو سے جہاد کرے وہ مومن ہے۔ جو اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے۔ اور جو اپنے دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے۔ مگر اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں۔
اس حدیث میں ایمان کے تین درجات و مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ تینوں مراتب کے حوالے سے ان لوگوں کے لئے بڑی واضح حدیث ہے جو بدعت کی بیخ کنی کرتے اور ان کے خلاف جہاد کرتے ہیں جو دین و شریعت کی کھلی مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم یہ ایمانی مراتب صرف اہل بدعت پر رد کرنے میں محصور نہیں بلکہ علم و عمل کے تمام میادین میں اس کا انطباق ہوگا۔ البتہ اس کا سب سے بڑا اور وسیع دائرہ کتاب و سنت کی طرف دعوت، انسانوں تک اللہ کے دین کی تبلیغ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اللہ کے دشمنوں اور اہل بدعت سے جہاد اور ان کا مقابلہ ہے۔
ان تینوں میں سب سے افضل طبقہ اور ایمان کا سب سے اعلی درجہ ان لوگوں کا ہے جنہیں اللہ نے انسانیت کی اصلاح اور قوموں کو روشن حق کی طرف دعوت دینے کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نورِ نبوت سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ انبیاء کرام کے منہج پر چلتے ہیں اور حق و ہدایت کے راستے پر گامزن ہیں۔ اور حقیقی معنوں میں یہی انبیاء کے وارث ہیں۔
لیکن یہ عظیم شخصیات ہر زمانے میں پیدا نہیں ہوتیں۔ ان کی تعداد ہمیشہ بہت کم رہی ہے۔ یہ دنیا میں اسی لئے وجود میں آتے ہیں تاکہ لوگوں نے اپنے زمانے میں جو بگاڑ پیدا کر رکھا ہے اور جس بگاڑ کی اس زمانے کے بڑے بڑے علماء اور دعاة و مصلحین اصلاح نہ کر سکے اس کی اصلاح کریں۔
یہ مجددین راستے کی رکاوٹوں اور دشواریوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ کی خاطر کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ ان آزمائشوں اور مصائب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے جو انھیں آگے بڑھنے سے روکنا چاہتی ہیں۔ وہ سختیوں کے خوف سے اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر اپنے گھروں کے دروازے نہیں بند کرتے، یہ سوچ کر کہ فتنوں کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، ہر چہار جانب برائیوں کا دور دورہ ہے اس لئے شر وفتن سے اپنے آپ کو بچانے ہی میں عافیت ہے۔
وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوتے جو فتنوں اور بدعات و خرافات سے بھرپور ہوتا ہے۔ یعنی ایسا پرفتن دور جس میں حق اور حق کی دعوت دینے سے بڑے بڑے علماء خوف کھاتے ہیں کہ کہیں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آجائے اور کہیں لوگوں کے ساتھ اسی رو میں بہہ نہ جائیں۔ مگر یہ مجدد آتا ہے اور اصلاح و تجدید کی راہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔
وہ نور نبوت سے روشنی لے کر آگے بڑھتا ہے اور دین کے ان معالم اور آثار و نقوش کی اصلاح و تجدید کرتا ہے جسے بدعتیوں، ملحدوں، منطقیوں، فلسفیوں، باطل پرستوں اور گمراہ فرقوں نے بگاڑ رکھا تھا۔ مرور وقت کے ساتھ وہ بلندیوں کی طرف گامزن رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پہونچنا اس دور کے بڑے بڑے علماء کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔
ساتویں صدی ہجری کا آخری اور آٹھویں صدی ہجری کا ابتدائی دور ایسا دور ہے جو سیاسی و دینی اور فکری لحاظ سے غیر معمولی واقعات و حوادث سے بھرا ہوا تھا۔ ان غیر معمولی واقعات نے امت اسلامیہ کے وجود اور ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسے اسلام کے صاف و شفاف چشموں سے دور کردیا۔ اسے ایسے افکار و عقائد میں مشغول کر دیا جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
چنانچہ اس امت کی زندگی میں منطق و فلسفہ داخل ہوگئے۔ یونانی افکار و نظریات اسلامی عقائد کی جگہ لینے لگے۔ معاملہ بالکل برعکس ہو گیا بایں طور کہ مسلمان کتاب و سنت سے دور ہوگئے۔ فلسفہ اور منطق سے اپنے عقائد اخذ کرنے لگے۔ کتاب و سنت کو چھوڑ کر فقہ کی باریکیوں اور موشگافیوں میں گھسنے لگے۔ ہر فقہی مذہب کے پیروکار اپنے مسلکی آراء و قیاس پر مگن ہو کر دوسروں پر طعن و تشنیع کرنے لگے۔
مسلکی سوچ و فکر لوگوں کے اذہان پر مسلط ہو گئی۔ یہاں تک کہ کتاب و سنت کے بارے میں گفتگو کرنا ایک اجنبی چیز سمجھی جانے لگی۔ کتاب و سنت کی دعوت ایک شاذ دعوت شمار کی جانے لگی۔ ایسے داعی و مصلح کو سزا دی جاتی اور زبان کاٹ لی جاتی۔ اس طرح نتیجہ یہ ہوا کہ معالم دین ردوبدل کے شکار ہوگئے۔ اور اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو قریب تھا کہ کتاب وسنت کا چراغ گل ہو جائے۔
مگر اس پرآشوب دور میں امام ربانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ظہور ہوا۔ حالانکہ اس وقت اسلامی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں چوٹی کے علماء اور دعاة و مصلحین موجود تھے۔ تاہم اس مقام عزیمت کو جس بلند ہمت شخصیت کی تلاش تھی وہ شیخ الاسلام کے علاوہ کوئی اور شخصیت اس پر کھری اترتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
چنانچہ قاضی ابو البرکات مخزومی فرماتے ہیں: صرف بلاد شام میں ستر مجتہد علماء موجود تھے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ائمہ اور حفاظ و نقاد اس زمانے میں موجود تھے، ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کسی اور زمانے میں نہیں پائے گئے۔ اس زمانے کے کچھ ائمہ کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ابو الفتح بن سيد الناس الأشبيلي، شمس الدين المقدسي، ابو العلى الأنصاري السبكي، القاضي الزملكاني، ابو العباس بن عمر الواسطي، ابو الفداء عماد الدين، حافظ ابن قدامة المقدسي، امام برهان الدين الفزاري، حافظ صلاح الدين البعلبكي، شيخ صفي الدين البغدادي، حافظ البرزالي الأشبيلي، تقي الدين السبكي، حافظ جمال الدين المزي، امام تقي الدين ابن دقيق العيد، حافظ ابو عبد الله الذهبي۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اہل علم ہیں جن کی سوانح حیات کو امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ اور اس میں قابل ذکر ائمہ کرام یہ ہیں: حافظ مزی، حافظ برزالی، ابن دقیق العید اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ۔ ان میں سے ہر شخص حدیث اور علوم حدیث کا امام تھا۔ بالخصوص امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس امت پر بڑے عظیم احسانات ہیں۔ ان احسانات میں حافظ ابن حجر کے علاوہ کوئی اور ان کا شریک و ثانی نہیں۔
ان دونوں اماموں نے اس امت اسلامیہ کے لیے احادیث رسول کو محفوظ کیا۔ ان کی ضبط و تدوین فرمائی۔ راویوں کے اخبار و حالات کو جمع کرکے ان کی چھان بین کی۔ صحیح وضعیف کو واضح کیا۔ مقبول ومردود کے درمیان فرق کو بیان کیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے لیے سنت رسول پر عمل کرنا سہل اور آسان ہوگیا۔
جسے سنت کی تاریخ سے واقفیت ہوگی اسے ضرور معلوم ہو گا کہ سنت کے دو ادوار ہیں۔ پہلا دور تدوین کا دور۔ اور دوسرا دور تنقیح و تمییز کا دور۔ امام ذہبی اور حافظ ابن حجر اس پہلے دور کے شہسوار بلکہ سرخیل تھے جن کی کوششوں کے نتیجے میں سنت اور علوم سنت کی تدوین و تنقیح کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور کتاب و سنت کے ہر عامل کے لئے سنت پر عمل کرنا آسان ہوگیا۔
لیکن کیا آپ دیکھتے ہیں کہ ان اساطین علم و فن میں سے کوئی ایک بھی شیخ الاسلام کے مقام و مرتبے کا ایک ذرہ بھی پا سکا؟ تو اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ شیخ الاسلام تمام علوم و فنون میں اپنے تمام ساتھیوں اور ہم عصروں پر فائق و برتر تھے۔ آپ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ اور وہ مقام تھا دعوت الی اللہ میں عزیمت کا مقام۔
معالم دین کی تجدید اور کتاب و سنت کی طرف امت کو واپس لوٹانے کا مقام اور اعزاز۔ یہاں تک کہ ان کے ہم عصروں کو بیک زبان کہنا پڑا کہ ان کی نگاہوں نے ان جیسا کسی کو نہ دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنا ہمسر کسی کو پایا۔ ائمہ کرام کے اس طرح کے اعترافات گزشتہ سطور میں گزر چکے ہیں۔ (دیکھیں: رسالہ علامہ محمد داود غزنوی ص/ 216-223 )
یہاں شیخ عماد الدین واسطی کا ایک واقعہ اختصار کے ساتھ ذکر کرنا مناسب ہوگا جسے حافظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: شیخ واسطی ابتداء میں فقہاء و متکلمین میں سے تھے۔ ان پر جدل و کلام اور رائے کا اثر غالب تھا۔ جب وہ مصر سے بغداد منتقل ہوئے اور وہاں کے عوام اور علماء سے ملاقات کی تو ان کے ذہن و دماغ میں وسعت پیدا ہوئی اور جب انہوں نے اپنا محاسبہ کرنا شروع کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا دل سکون و اطمینان کی لذت سے یکسر ویران اور ناآشنا ہے۔
چنانچہ وہ فقہاء و متکلمین کی راہ چھوڑ کر تصوف کی طرف مائل ہوگئے۔ صوفیوں سے قریب رہنے لگے۔ مگر جب ان کے یہاں بھی عجائب و غرائب کا مشاہدہ بچشم خود کیا تو ان کی طبیعت مکدر ہوگئی اور انہوں نے دمشق کی طرف رخت سفر باندھنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں شیخ الاسلام کے درس میں حاضر ہوئے تو پہلا درس یہی متکلمین وفلاسفہ کے متعلق تھا کہ کس طرح وہ قلبی سکون واطمینان سے محروم ہیں۔ ان کے مشاہیر علماء نے خود اس کا اعتراف کیا ہے اور علم فلسفہ و کلام کے سبب اپنے نفسیاتی اضطراب و بےچینی کی خود گواہی دی ہے۔ کہتے ہیں:
لَقَد طُفتُ في تِلكَ المَعاهِدِ كُلِّها
وَسيَّرْتُ طَرفي بَينَ تِلكَ المَعالِمِ
فَلَم أَرَ إِلّا واضِعاً كَفَّ حَيرَةٍ
عَلى ذَقَنٍ أَو قارِعاً سِنَّ نادِمِ
ترجمہ:
میں نے علم کے تمام مراکز کا چکر لگایا اور اپنی نگاہوں کو ان تمام مقامات پر دوڑایا۔ مگر میں نے صرف یہی دیکھا کہ کوئی اپنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی پر رکھے ہوئے حیران و پریشان ہے تو کوئی اپنے دانتوں تلے انگلی دبائے نادم و شرمندہ ہے۔
بعض نے اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا:
نهاية أرباب العقول عقال
وأكثر سعي العالمين ضلال
ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا
سوى أن جمعنا فيه قيل وقالوا
ترجمہ:
عقل پرستوں کا انجام سراب کے سوا کچھ نہیں اور فلاسفہ و متکلمین کی سعی و جستجو کا حاصل ضلالت و گمراہی ہے۔ زندگی بھر کی بحث و جستجو سے ہم صرف قیل و قال کے سوا اور کچھ نہ حاصل کر سکے۔
شیخ عماد الدین فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے درس دیتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی کہ دل کی بیماریوں کا بہترین علاج اور قلبی سکون حاصل کرنے کا واحد نسخہ کتاب و سنت کی تعلیمات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے میں ہے۔ چنانچہ اس نسخے پر عمل کرنے کے نتیجے میں میرے قلب و ذہن کی تاریکی چھٹ گئی ہے۔ حیرت و شک کے پردے زائل ہو گئے اور میں نے حقیقت کی وہ روشنی پالی جس کی تلاش میں حیراں و سرگرداں رہا کرتا تھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام جب میرے حالات سے واقف ہوئے تو انہوں نے مجھے سیرت نبوی کے مطالعہ کی وصیت فرمائی کہ یہ تمام امراض قلب کا کافی و شافی علاج ہے۔ (دیکھیں: رسالہ علامہ محمد داود غزنوی ص/ 233-235 )
میں کہتا ہوں کہ سیرت نبوی کا مطلب سنت رسول کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور سنت رسول بھی آخر قرآن کی تفسیر ہی ہے۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام نے شیخ عماد الدین واسطی اور دیگر لوگوں کو یہی نصیحت فرمائی کہ امت اسلامیہ کی تمام بیماریوں کا علاج کتاب اللہ اور سنت رسول کی اتباع میں مضمر ہے۔ دین کی تجدید اور کتاب و سنت کی طرف دعوت کی یہی حقیقت ہے۔ ( العقود الدرية، ص / 311،312)
شیخ ولی اللہ دہلوی نے شیخ الاسلام کے ان تمام اوصاف و کمالات کا اعتراف کیا ہے جن کی بدولت وہ معالم دین کے مجدد اور دعوت کتاب وسنت کے علمبردار کہلائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
وعلى هذا الأصل اعتقدنا في شيخ الإسلام ابن تيمية - رحمه الله تعالى - فإنا قد تحققنا من حاله أنه عالم بكتاب الله ومعانيه اللغوية والشرعية، وحافظ لسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وآثار السلف، عارف لمعانيهما اللغوية والشرعية، أستاذ في النحو واللغة، محرر لمذهب الحنابلة وفروعه وأصوله، فائق في الذكاء، ذو لسان وبلاغة في الذب عن عقيدة أهل السنة، لم يؤثر عنه فسق ولا بدعة، اللهم إلا هذه الأمور التي ضيق عليه لأجلها، وليس شيء منها إلا ومعه دليله من الكتاب والسنة، فمثل هذا الشيخ عزيز الوجود في العلم، أو من يطيق أن يلحق شأوه في تحريره وحديثه، والذين ضيقوا عليه ما بلغوا معشار ما آتاه الله تعالى، وإن كان تضييقه ذلك ناشئا عن اجتهاد، ومشاجرة العلماء في مثل ذلك ما هي إلا كمشاجرة الصحابة - رضي الله عنهم - فيما بينهم، والواجب في ذلك كف اللسان إلا بخير
شیخ الاسلام کے بارے میں ہمارے عقیدہ اور موقف کی یہی بنیاد ہے۔ چنانچہ جب ہم نے ان کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ کتاب اللہ اور اس کے لغوی و شرعی معانی و مفاہیم کے عالم، سنت رسول اور آثار سلف کے حافظ اور اس کے لغوی و شرعی معانی کے جانکار ہیں۔ مذہب حنبلی اور اس کے اصول و فروع کے محقق ہیں۔ غیر معمولی ذہانت و فطانت کے حامل اور عقیدہ اہل سنت کے دفاع میں فصیح و بلیغ زبان کے مالک ہیں۔ ان کے متعلق کسی فسق یا بدعت کے ارتکاب کا ذکر نہیں ملتا۔ ہاں کچھ چیزیں ہیں جن کو لے کر ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ تاہم اس میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں جس کی ان کے پاس کتاب و سنت سے دلیل نہ موجود ہو۔ علم کے میدان میں ایسی شخصیت کمیاب ہوتی ہے اور کم ہی کوئی بحث و تحقیق اور زبان و بیان میں ان کے مقام کو پہنچ سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا وہ خود ان کے مقام و مرتبے کے عشر عشیر بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اگرچہ ان سے عداوت و مخالفت کی بنیاد اجتہاد اور اختلاف رائے تھی۔ اس سلسلے میں علماء کے باہمی اختلافات کی مثال صحابہ کے باہمی اختلاف جیسی ہے جس کے تئیں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ان کا ذکر خیر کریں یا پھر اپنی زبان بند رکھیں۔ (جلاء العينين في محاكمة الأحمدين، ص ٤٦)