• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الاسلام کے قول کی وضاحت درکار ہے

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم

شیخ الاسلام اپنے مجموع الفتاوی میں یوں تحریر کرتے ہیں

إذا تبين هذا فقد حدث العلماء المرضيون وأولياؤه المقبولون : أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسه ربه على العرش معه .

روى ذلك محمد بن فضيل عن ليث عن مجاهد ; في تفسير : { عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا } وذكر ذلك من وجوه أخرى مرفوعة وغير مرفوعة قال ابن جرير : وهذا ليس مناقضا لما استفاضت به الأحاديث من أن المقام المحمود هو الشفاعة باتفاق الأئمة من جميع من ينتحل الإسلام ويدعيه لا يقول إن إجلاسه على العرش منكرا - وإنما أنكره بعض الجهمية ولا ذكره في تفسير الآية منكر

http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?bk_no=22&ID=2&idfrom=1&idto=900&bookid=22&startno=260

جہاں تک مجھے سمجھ آ رہی ہے

یہ شیخ الاسلام کا قول نہیں

بلکہ انہوں نے دیگر علماء کی طرف اشارہ کیا

مگر ساتھ ہی انہوں نے انہیں برا نہیں کہا

کیا کوئی اس عقیدے کی وضاحت کر دے گا

شکریہ
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم

کافی عرصہ پہلے یہ سوال پوچھا تھا، کیا کوئی بھائی وضاحت کر دے گا؟

شکریہ
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اپنے آپ کو خود "شیخ" کہنے والے ایک دیوبندی نے امام ابن تیمیہ کی نفرت میں بھراس نکالتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن تیمیہ کا یہ عقیدہ کفریہ ہے، جبکہ کسی ایک بھی سلف سے یہ ثابت نہیں ہے۔ تو میں نے اس کے لئے ایک جواب انگریزی میں لکھا ہے جو جلد اس کو ارسال کروں گا ان شاء اللہ۔
إذا تبين هذا فقد حدث العلماء المرضيون وأولياؤه المقبولون : أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسه ربه على العرش معه .

روى ذلك محمد بن فضيل عن ليث عن مجاهد ; في تفسير : { عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا } وذكر ذلك من وجوه أخرى مرفوعة وغير مرفوعة قال ابن جرير : وهذا ليس مناقضا لما استفاضت به الأحاديث من أن المقام المحمود هو الشفاعة باتفاق الأئمة من جميع من ينتحل الإسلام ويدعيه لا يقول إن إجلاسه على العرش منكرا - وإنما أنكره بعض الجهمية ولا ذكره في تفسير الآية منكر


اس قول میں ہی صاف ظاہر ہے کہ امام ابن تیمیہ نے یہ قول اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ کئی ایسے کبار علماء نے بھی اس قول کو اپنایا ہے جن کہ نام سن کر شاید انہیں اپنے ہی فتوے پر شرمندگی ہوگی کہ ابن تیمیہ کی آڑ میں میں نے اتنے بڑے بڑے علماء کو کیا کیا کہہ دیا۔ ان علماء میں جلیل القدر تابعی امام مجاہد سرِ فہرست ہیں، ان کے بعد ایک اور تابعی امام سعید بن ایاس الجریری کا بھی یہی قول ہے، ان کے بعد امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، امام یحیی بن معین، امام عباس الدوری، امام ابو بکر المروزی، امام ابو داؤد السجستانی، امام عبد اللہ بن احمد، امام ہارون بن معروف، عبد الوہاب الوراق، امام ابراہیم بن متویہ الاصبھانی، امام ابو قلابہ، امام ابو عبید القاسم بن سلام، امام ابو بکر الآجری ودیگر کئی لوگ شامل ہیں۔

لہٰذا صرف ابن تیمیہ کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا ان کی اول درجے کی جہالت ومنافقت ہے جبکہ امام ابن تیمیہ نے خود بھی اس قول کو اپنی طرف نہیں بلکہ علماء کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ قول ابن تیمیہ نے انسانوں کی فرشتوں پر فضیلت کے باب میں ذکر کیا ہے جس میں آپ نے اس موضوع کو کئی پہلووں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ قول بھی محض انہی پہلووں میں سے ایک پہلو تھا جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔

جبکہ امام ابن تیمیہ کا اس موضوع پر اصل موقف درج ذیل ہے:
" وفيها أشياء عن بعض السلف رواها بعض الناس مرفوعة كحديث قعود الرسول صلى الله عليه و سلم على العرش رواه بعض الناس من طرق كثيرة مرفوعة وهي كلها موضوعة وإنما الثابت أنه عن مجاهد وغيره من السلف وكان السلف والأئمة يروونه ولا ينكرونه ويتلقونه بالقبول وقد يقال : إن مثل هذا لا يقال إلا توقيفا لكن لا بد من الفرق بين ما ثبت من ألفاظ الرسول وما ثبت من كلام غيره سواء كان من المقبول أو المردود "
(در تعارض العقل والنقل: 5:238) ترجمہ کے لئے کسی اور کی مدد لیں۔

اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ نے اپنی دیگر تصانیف میں بھی کئی جگہ مقام المحمود کا ذکر کیا ہے اور ہر موقع پر آپ نے یہی فرمایا ہے کہ اس سے مراد شفاعت ہے مثلا:
" كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُولُونَ : إنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا } هُوَ شَفَاعَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (مجموع الفتاوی: 14:390)
"وَلِهَذَا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ مَا يُكْرِمُ بِهِ اللَّهُ عَبْدَهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الشَّفَاعَةُ الَّتِي يَخْتَصُّ بِهَا . وَهِيَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي يَحْمَدُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ والآخرون" (المجموع: 14:394)

" فهذه هي الشفاعة العظمى، وهي المقام المحمود الذي يغبطه به النبيُّون، والذي وعده الله أن يبعثه إياه بقوله: { عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا} " (شرح عقیدہ الواسطیہ: 1:152)
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اپنے آپ کو خود "شیخ" کہنے والے ایک دیوبندی نے امام ابن تیمیہ کی نفرت میں بھراس نکالتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن تیمیہ کا یہ عقیدہ کفریہ ہے، جبکہ کسی ایک بھی سلف سے یہ ثابت نہیں ہے۔ تو میں نے اس کے لئے ایک جواب انگریزی میں لکھا ہے جو جلد اس کو ارسال کروں گا ان شاء اللہ۔
إذا تبين هذا فقد حدث العلماء المرضيون وأولياؤه المقبولون : أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسه ربه على العرش معه .

روى ذلك محمد بن فضيل عن ليث عن مجاهد ; في تفسير : { عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا } وذكر ذلك من وجوه أخرى مرفوعة وغير مرفوعة قال ابن جرير : وهذا ليس مناقضا لما استفاضت به الأحاديث من أن المقام المحمود هو الشفاعة باتفاق الأئمة من جميع من ينتحل الإسلام ويدعيه لا يقول إن إجلاسه على العرش منكرا - وإنما أنكره بعض الجهمية ولا ذكره في تفسير الآية منكر


اس قول میں ہی صاف ظاہر ہے کہ امام ابن تیمیہ نے یہ قول اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ کئی ایسے کبار علماء نے بھی اس قول کو اپنایا ہے جن کہ نام سن کر شاید انہیں اپنے ہی فتوے پر شرمندگی ہوگی کہ ابن تیمیہ کی آڑ میں میں نے اتنے بڑے بڑے علماء کو کیا کیا کہہ دیا۔ ان علماء میں جلیل القدر تابعی امام مجاہد سرِ فہرست ہیں، ان کے بعد ایک اور تابعی امام سعید بن ایاس الجریری کا بھی یہی قول ہے، ان کے بعد امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، امام یحیی بن معین، امام عباس الدوری، امام ابو بکر المروزی، امام ابو داؤد السجستانی، امام عبد اللہ بن احمد، امام ہارون بن معروف، عبد الوہاب الوراق، امام ابراہیم بن متویہ الاصبھانی، امام ابو قلابہ، امام ابو عبید القاسم بن سلام، امام ابو بکر الآجری ودیگر کئی لوگ شامل ہیں۔

لہٰذا صرف ابن تیمیہ کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا ان کی اول درجے کی جہالت ومنافقت ہے جبکہ امام ابن تیمیہ نے خود بھی اس قول کو اپنی طرف نہیں بلکہ علماء کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ قول ابن تیمیہ نے انسانوں کی فرشتوں پر فضیلت کے باب میں ذکر کیا ہے جس میں آپ نے اس موضوع کو کئی پہلووں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ قول بھی محض انہی پہلووں میں سے ایک پہلو تھا جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔

جبکہ امام ابن تیمیہ کا اس موضوع پر اصل موقف درج ذیل ہے:
" وفيها أشياء عن بعض السلف رواها بعض الناس مرفوعة كحديث قعود الرسول صلى الله عليه و سلم على العرش رواه بعض الناس من طرق كثيرة مرفوعة وهي كلها موضوعة وإنما الثابت أنه عن مجاهد وغيره من السلف وكان السلف والأئمة يروونه ولا ينكرونه ويتلقونه بالقبول وقد يقال : إن مثل هذا لا يقال إلا توقيفا لكن لا بد من الفرق بين ما ثبت من ألفاظ الرسول وما ثبت من كلام غيره سواء كان من المقبول أو المردود "
(در تعارض العقل والنقل: 5:238) ترجمہ کے لئے کسی اور کی مدد لیں۔

اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ نے اپنی دیگر تصانیف میں بھی کئی جگہ مقام المحمود کا ذکر کیا ہے اور ہر موقع پر آپ نے یہی فرمایا ہے کہ اس سے مراد شفاعت ہے مثلا:
" كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُولُونَ : إنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا } هُوَ شَفَاعَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (مجموع الفتاوی: 14:390)
"وَلِهَذَا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ مَا يُكْرِمُ بِهِ اللَّهُ عَبْدَهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الشَّفَاعَةُ الَّتِي يَخْتَصُّ بِهَا . وَهِيَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي يَحْمَدُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ والآخرون" (المجموع: 14:394)

" فهذه هي الشفاعة العظمى، وهي المقام المحمود الذي يغبطه به النبيُّون، والذي وعده الله أن يبعثه إياه بقوله: { عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا} " (شرح عقیدہ الواسطیہ: 1:152)
شیخ محترم!
لگے ھاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ کیا شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور اھل حدیث کو جہمیہ کہا ھے؟۔۔۔
المجموع: جلد نمبر: ٦ صفحہ نمبر: ٥٧٣ اور ٥٧٤۔

میری عربی اتنی بہترین نہیں ھے.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
شیخ محترم!
لگے ھاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ کیا شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور اھل حدیث کو جہمیہ کہا ھے؟۔۔۔
المجموع: جلد نمبر: ٦ صفحہ نمبر: ٥٧٣ اور ٥٧٤۔

میری عربی اتنی بہترین نہیں ھے.
اللہ کی پناہ، بھائی مہربانی لفظ شیخ کو دشنام نہ کریں۔
شیوخ تو وہ ہیں جنہوں نے علم سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اپنے بال سفید کر لئے، شیخ تو شیخ البانی، شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد المحسن، شیخ بدیع الدین، شیخ محب اللہ اور ان جیسے لوگ ہیں۔ ان کے بعد ہم سب یہاں مختلف درجات کے طلاب علم ہیں۔ اور ہر کسی پر اپنا درجہ جاننا ضروری ہے۔ یہ میرے لئے نہایت شرمندگی کا مقام ہے کہ آپ مجھے شیخ کہیں جب کہ میں صرف اور صرف آپ کا بھائی ہوں۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَثْنَی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَيْلَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيکَ ثَلَاثًا مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحًا لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا إِنْ کَانَ يَعْلَمُ
ترجمہ: "عبدالرحمن بن ابی بکرہ ابوبکرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے کسی کی تعریف کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تیری تباہی ہو تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، تین بار آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ فرمایا، پھر کہا: تم میں سے جس کسی کو کسی کی تعریف کرنا ہی ہو اور اگر وہ اس کو جانتا ہے تو اسے کہنا چاہئے کہ میں فلاں کو ایسا گمان کرتا ہوں اور اللہ اس کا نگران ہے اور اللہ کے سامنے میں کسی کا تزکیہ نہیں کرتا ہوں۔ " (متفق علیہ)
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
لگے ھاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ کیا شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور اھل حدیث کو جہمیہ کہا ھے؟۔۔۔
شیخ الاسلام نے محض ترمذی کی ایک تاویل کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ جہمیہ کی تاویل جیسی ہے:
تَأْوِيلُهُ بِالْعِلْمِ تَأْوِيلٌ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مَنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّة
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اللہ کی پناہ، بھائی مہربانی لفظ شیخ کو دشنام نہ کریں۔
شیوخ تو وہ ہیں جنہوں نے علم سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اپنے بال سفید کر لئے، شیخ تو شیخ البانی، شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد المحسن، شیخ بدیع الدین، شیخ محب اللہ اور ان جیسے لوگ ہیں۔ ان کے بعد ہم سب یہاں مختلف درجات کے طلاب علم ہیں۔ اور ہر کسی پر اپنا درجہ جاننا ضروری ہے۔ یہ میرے لئے نہایت شرمندگی کا مقام ہے کہ آپ مجھے شیخ کہیں جب کہ میں صرف اور صرف آپ کا بھائی ہوں۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَثْنَی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَيْلَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيکَ ثَلَاثًا مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحًا لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا إِنْ کَانَ يَعْلَمُ
ترجمہ: "عبدالرحمن بن ابی بکرہ ابوبکرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے کسی کی تعریف کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تیری تباہی ہو تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، تین بار آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ فرمایا، پھر کہا: تم میں سے جس کسی کو کسی کی تعریف کرنا ہی ہو اور اگر وہ اس کو جانتا ہے تو اسے کہنا چاہئے کہ میں فلاں کو ایسا گمان کرتا ہوں اور اللہ اس کا نگران ہے اور اللہ کے سامنے میں کسی کا تزکیہ نہیں کرتا ہوں۔ " (متفق علیہ)
معافی چاھتا ھوں جناب.
لیکن میری رھنمائ فرمائیں اس مسئلہ میں. شیخ الاسلام کے اس قول کی کیا حقیقت ھے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شیخ الاسلام نے محض ترمذی کی ایک تاویل کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ جہمیہ کی تاویل جیسی ہے:
تَأْوِيلُهُ بِالْعِلْمِ تَأْوِيلٌ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مَنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّة
تو ھم کیسے جواب دیں؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
جواب یہی ہے کہ کسی تاویل کو جہمیہ کے جیسی تاویل کہنا اور کسی شخص کو جہمی کہنا، ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
 
Top