محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
حكمت على الشيخ الألباني أنه ظالم!!
حدّث الشيخ عدنان عرور أنه حصل بين الشيخ الألباني وزوجته أم الفضل خلاف بسبب كثرة ما يأتي الشيخ من الضيوف وتضطر تطبخ الكثير ومطالبته إياها بتنظيف ومسح المكتبة يوميًّا، وهي عجوز كبيرة في السن وليس عندها خادمة أو مَن يعينها، فتخاصما وتطور الأمر بشكل كبير،
فقال لها الشيخ: ترضين بالشيخ عدنان حكماً؟ قالت: أرضى.
وكنت عندهم فحكّموني، فقلت لها : تكلمي، فأفاضت ما عندها.
فقبل أن أسمع كلام الألباني قلتُ:
(( أحكم أن الشيخ الألباني ظالم!! وأن الشيخ كلّفك فوق طاقتك!))
فغضب الشيخ الألباني وفرحت زوجته،
فأكملت: (( وبداءةً أحكم أن على الشيخ الألباني أن يأتي بزوجة ثانية لتعاون أختها أم الفضل! وتبقى الثانية بجانبك تخدمك بالمكتبة!))
فانقلبت الأمور،
وقالت أم الفضل: (( لا، أنا أكفيه!))
ولم تحصل بعد ذلك مشكلة.
قال أبو معاوية البيروتي: وهذا علاج حكيم يُنصَح به! وكلام الشيخ العرعور فرّغته باختصار من مقطع مرئي عندي
ایک بار شیخ البانی -رحمہ اللہ- اور ان کی اہلیہ میں اختلاف پیدا ہو گیا ، وجہ یہ تھی کہ شیخ البانی کے ہاں مہمان بہت زیادہ آتے تھے، جس کی وجہ سے ام الفضل (شیخ البانی کی زوجہ محترمہ) کو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کھانے اور ضیافت کے غیر معمولی اہتمام سمیت یومیہ لائبریری کی صفائی بھی خود کرنی پڑتی تھی؛ کیونکہ گھر میں کوئی ملازمہ نہیں تھی، آخر کار معاملہ یہاں تک بگڑ گیا کہ بات ثالثی مقرر کرنے تک جا پہنچی۔
شیخ البانی -رحمہ اللہ- کا اپنی اہلیہ سے اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ عدنان عرعور حفظہ اللہ کو ثالثی بنا لیتے ہیں، اور میں اتفاق سے اس وقت ان کے پاس ہی تھا، تو میں نے ام الفضل سے مکمل مسئلہ تفصیل کے ساتھ سنا اور شیخ البانی رحمہ اللہ کی بات سننے سے پہلے فیصلہ سنا دیا کہ: شیخ البانی آپ بہت ظالم ہیں!! آپ نے اپنی اہلیہ پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہوا ہے۔
یہ سن کر شیخ البانی -رحمہ اللہ- طیش میں آ گئے، لیکن ان کی اہلیہ خوش ہوگئیں۔
میں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ: ابتدائی طور پر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ شیخ البانی دوسری شادی کر کے ام الفضل کا ہاتھ بٹانے والی لیکر آئیں، اور دوسری بیوی کو لائبریری کی مکمل ذمہ داری سونپ دیں، وہ آپ کے ساتھ لائبریری میں وقت دیا کرے گی۔
یہ سنتے ہی پورے کا پورا معاملہ درہم برہم ہو گیا، اور فوری طور پر ام الفضل کہنے لگیں: دوسری شادی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں خود سنبھال لوں گی۔
بس پھر کیا تھا کہ اس دن کے بعد کبھی حالات خراب نہیں ہوئے۔
بیان کردہ: ابو معاویہ بیروتی،
حدّث الشيخ عدنان عرور أنه حصل بين الشيخ الألباني وزوجته أم الفضل خلاف بسبب كثرة ما يأتي الشيخ من الضيوف وتضطر تطبخ الكثير ومطالبته إياها بتنظيف ومسح المكتبة يوميًّا، وهي عجوز كبيرة في السن وليس عندها خادمة أو مَن يعينها، فتخاصما وتطور الأمر بشكل كبير،
فقال لها الشيخ: ترضين بالشيخ عدنان حكماً؟ قالت: أرضى.
وكنت عندهم فحكّموني، فقلت لها : تكلمي، فأفاضت ما عندها.
فقبل أن أسمع كلام الألباني قلتُ:
(( أحكم أن الشيخ الألباني ظالم!! وأن الشيخ كلّفك فوق طاقتك!))
فغضب الشيخ الألباني وفرحت زوجته،
فأكملت: (( وبداءةً أحكم أن على الشيخ الألباني أن يأتي بزوجة ثانية لتعاون أختها أم الفضل! وتبقى الثانية بجانبك تخدمك بالمكتبة!))
فانقلبت الأمور،
وقالت أم الفضل: (( لا، أنا أكفيه!))
ولم تحصل بعد ذلك مشكلة.
قال أبو معاوية البيروتي: وهذا علاج حكيم يُنصَح به! وكلام الشيخ العرعور فرّغته باختصار من مقطع مرئي عندي
__________________
((تابعوا فوائد متجددة على قناة التليغرام)) :
((تابعوا فوائد متجددة على قناة التليغرام)) :
شیخ البانی رحمہ اللہ آپ بہت ظالم ہیں.
دنیائے علم کے چمکتے ستارے فضیلۃ الشیخ عدنان عرعور حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ :
ایک بار شیخ البانی -رحمہ اللہ- اور ان کی اہلیہ میں اختلاف پیدا ہو گیا ، وجہ یہ تھی کہ شیخ البانی کے ہاں مہمان بہت زیادہ آتے تھے، جس کی وجہ سے ام الفضل (شیخ البانی کی زوجہ محترمہ) کو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کھانے اور ضیافت کے غیر معمولی اہتمام سمیت یومیہ لائبریری کی صفائی بھی خود کرنی پڑتی تھی؛ کیونکہ گھر میں کوئی ملازمہ نہیں تھی، آخر کار معاملہ یہاں تک بگڑ گیا کہ بات ثالثی مقرر کرنے تک جا پہنچی۔
شیخ البانی -رحمہ اللہ- کا اپنی اہلیہ سے اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ عدنان عرعور حفظہ اللہ کو ثالثی بنا لیتے ہیں، اور میں اتفاق سے اس وقت ان کے پاس ہی تھا، تو میں نے ام الفضل سے مکمل مسئلہ تفصیل کے ساتھ سنا اور شیخ البانی رحمہ اللہ کی بات سننے سے پہلے فیصلہ سنا دیا کہ: شیخ البانی آپ بہت ظالم ہیں!! آپ نے اپنی اہلیہ پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہوا ہے۔
یہ سن کر شیخ البانی -رحمہ اللہ- طیش میں آ گئے، لیکن ان کی اہلیہ خوش ہوگئیں۔
یہ سنتے ہی پورے کا پورا معاملہ درہم برہم ہو گیا، اور فوری طور پر ام الفضل کہنے لگیں: دوسری شادی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں خود سنبھال لوں گی۔
بس پھر کیا تھا کہ اس دن کے بعد کبھی حالات خراب نہیں ہوئے۔
بیان کردہ: ابو معاویہ بیروتی،