السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
عبدالحنان سامرودی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملے کی وجوہات چونکہ غالب گمان اور اندازے پر مشتمل تھیں اس لئے درست ثابت نہیں ہوئیں قابل بھروسہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ حملہ سنی تحریک کے بجائے اہل تشیع کی جانب سے ہوا تھا۔حدیبیہ اخبار کے حوالے سے درست تفصیلات پیش خدمت ہے۔
فرقہ پرستوں کا قاتلانہ حملہ تین گولیاں جسم سے آرپار
مولانا عبدالحنان سامرودی کی کراماتی صحتیابی
محض آٹھ دن میں بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے
٧ فروری کو گورنمنٹ اسکول میں معمول کے مطابق پڑھا رہے تھے موبائل فون سنتے ہوئے کلاس سے باہر نکلے تو ملزمان نے فائرنگ کا نشانہ بنادیا
دو گولیاں پیٹ اور ایک ران سے آرپار ہوئیں اسکول طلباء اور اسٹاف نے فوری عباسی ہسپتال پہنچایا جہاں جماعتی رہنما علماء اور عوام بھی پہنچ گئے
خون کی بارہ بوتلیں چڑھائی گئیں آپریشن کر کے ایک گردہ نکالنا پڑا، واقعہ کی رات بہتر علاج کے لئے آغا خان منتقل کردیا تھا
شدید زخموں کے باوجود آٹھویں دن بستر سے اٹھنا، نویں دن گھر منتقل ہونا اور گیارہویں دن اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرنا کرامت معلوم ہوتی ہے
کراچی (حدیبیہ نیوز)جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین مفتی، مدرس اور رہنما مولانا عبدالحنان سامرودی قاتلانہ حملے میں ٣ گولیاں جسم سے آرپار ہونے کے باوجود بحمداللہ محفوظ رہے تفصیلات کے مطابق مولانا سامرودی جو کہ کراچی کیمبرج گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر بھی ہیں مورخہ ٧ فروری کو معمول کے مطابق اپنے اسکول میں پڑھا رہے تھے۔ پیریڈ کے اختتام پر موبائل فون سنتے ہوئے کلاس روم سے باہر آئے تو گھات میں بیٹھے ہوئے دو نوجوانوں نے ان پر فائرنگ کی دو گولیاں ان کے پیٹ میں جسم سے آرپار ہوگئیں اور ایک ران سے آرپار ہوئی ملزمان کے دیگر تین فائر خطا ہوئے اور وہ گھبراہٹ کے عالم میں بھاگ گئے اسکول کے طلباء اور اسٹاف انہیں فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر قریبی عباسی ہسپتال لے گئے جہاں جماعت کے متعدد رہنماء علمائے کرام اور عوام الناس کی بڑی تعداد بھی اطلاع ملنے پر جمع ہوگئی۔ فوری طور پر انہیں آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا ان کی حالت تشویش ناک تھی خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا اس موقع پر اہل توحید کے فرزندوں نے ایک درجن سے زائد خون کی بوتلیں اسی وقت مہیا کیں۔ بحمداللہ سامرودی صاحب کا آپریشن کامیاب رہا البتہ ایک گردہ مکمل طور پر ناکارہ ہونے کے باعث نکال دیا گیا۔کامیاب آپریشن کے بعد اہل جماعت کے باہمی مشورے سے انہیں بہتر نگرانی کے لئے آغا خان ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انکی دیکھ بھال اور سیکورٹی کی ذمہ داری جماعت السنہ کے کارکنان نے ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا عبدالحنان سامرودی کی جو ابتدائی تشویشناک حالت تھی اسے دیکھتے ہوئے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سامرودی صاحب محض آٹھویں دن بستر سے اٹھ جائیں گے اور نویں دن ہسپتال کو خیر باد کہہ کر گھر منتقل ہوجائیں گے اور گیارہویں دین اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرنا شروع کردیں گے۔ اولیاء اللہ کی کرامتوں کا تو کسی کو انکار نہیں اتنی جلدی صحت یابی کسی کرامت سے کم نہیں۔